طالبان نے مختلف جرائم پر 3 خواتین سمیت 14 افراد کو کوڑے مارے
امیرِ طالبان نے چند روز قبل ججوں کو شرعی سزاؤں پر عمل درآمد کے عمل کو تیز کرنے کا حکم دیا تھا
طالبان نے مختلف جرائم پر عدالت میں فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 3 خواتین اور 11 مردوں کو کوڑے مارے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 13 نومبر کو طالبان کے امیر ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے ججوں سے ملاقات میں شرعی سزاؤں پر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فی الفور شرعی قوانین کو لاگو کیا جائے۔
امیرِ طالبان کے اس حکم کے بعد ادارالحکومت میں شرعی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 3 خواتین سمیت 11 مردوں کو کوڑے مارے جنھیں چوری اور اخلاقی جرائم کا مرتکب پانے پر عدالت نے یہ سزا سنائی تھی۔
تاہم صوبہ لوگر میں طالبان حکومت کے اطلاعات وثقافت کے سربراہ قاضی رفیع اللہ صمیم نے کہا کہ 14 مجرمان کو کوڑوں کی سزا سرِعام نہیں دی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایک فرد کو 39 کوڑے مارے گئے۔
یہ خبر پڑھیں : اسلامی قوانین کے تحت سزاؤں کے مکمل نفاذ کو یقینی بنایا جائے، امیرِ طالبان
ادھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد دور دراز کے دیہی علاقوں میں چند افراد کو کوڑے مارے گئے تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر گزشتہ ہفتے سے مختلف ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں طالبان اہلکاروں کو خواتین سمیت مختلف افراد کو کوڑے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین نے ان سزاؤں پر طالبان پر تنقید بھی کی تاہم کئی نے جرائم کے سدباب کے لیے ایسی سزاؤں کی حمایت کی۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امیرِ طالبان کے حکم کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا کہ چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کے کیسز میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری ہونے پر شرعی سزائیں دی جائیں گی۔
قبل ازیں طالبان نے متعدد بار اغوا کاروں کی لاشوں کو منظرعام پر پیش کیا جو طالبان مغویوں کی رہائی کے لیے کی گئی کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ 2001 سے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں طالبان نے عوامی سطح پر سزائے موت اور کوڑے مارنے سزائیں دی تھیں تاہم اس بار عالمی قوتوں کو اپنے رویے میں تبدیلی کی یقین دہانی کرائی تھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 13 نومبر کو طالبان کے امیر ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے ججوں سے ملاقات میں شرعی سزاؤں پر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فی الفور شرعی قوانین کو لاگو کیا جائے۔
امیرِ طالبان کے اس حکم کے بعد ادارالحکومت میں شرعی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 3 خواتین سمیت 11 مردوں کو کوڑے مارے جنھیں چوری اور اخلاقی جرائم کا مرتکب پانے پر عدالت نے یہ سزا سنائی تھی۔
تاہم صوبہ لوگر میں طالبان حکومت کے اطلاعات وثقافت کے سربراہ قاضی رفیع اللہ صمیم نے کہا کہ 14 مجرمان کو کوڑوں کی سزا سرِعام نہیں دی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایک فرد کو 39 کوڑے مارے گئے۔
یہ خبر پڑھیں : اسلامی قوانین کے تحت سزاؤں کے مکمل نفاذ کو یقینی بنایا جائے، امیرِ طالبان
ادھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نماز جمعہ کے بعد دور دراز کے دیہی علاقوں میں چند افراد کو کوڑے مارے گئے تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر گزشتہ ہفتے سے مختلف ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں طالبان اہلکاروں کو خواتین سمیت مختلف افراد کو کوڑے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین نے ان سزاؤں پر طالبان پر تنقید بھی کی تاہم کئی نے جرائم کے سدباب کے لیے ایسی سزاؤں کی حمایت کی۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امیرِ طالبان کے حکم کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا کہ چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کے کیسز میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری ہونے پر شرعی سزائیں دی جائیں گی۔
قبل ازیں طالبان نے متعدد بار اغوا کاروں کی لاشوں کو منظرعام پر پیش کیا جو طالبان مغویوں کی رہائی کے لیے کی گئی کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ 2001 سے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں طالبان نے عوامی سطح پر سزائے موت اور کوڑے مارنے سزائیں دی تھیں تاہم اس بار عالمی قوتوں کو اپنے رویے میں تبدیلی کی یقین دہانی کرائی تھی۔