ایران احتجاج کیوں رکنے میں نہیں آ رہا

مھسا امینی کے قتل سے شروع ہونیوالا احتجاج اب انقلابی نظام کیخلاف بڑی جدوجہد میں بدل گیا

مھسا امینی کے قتل سے شروع ہونیوالا احتجاج اب انقلابی نظام کیخلاف بڑی جدوجہد میں بدل گیا

پہلے مظاہرین'' قتل'' کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف غم و غصہ ظاہر کر رہے تھے، پھر وہ زبردستی حجاب اوڑھانے کی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے لیکن اب وہ ' زن، زندگی، آزادی' کے نعرے لگارہے ہیں۔

غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق گزشتہ دو ماہ پر محیط احتجاج میں سینکڑوں احتجاجی مظاہرین ایرانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیںجبکہ 16ہزار سے زائد افرادکو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق پندرہ ہزار مظاہرین کو ایرانی عدلیہ نے '' خدا سے جنگ '' اور '' فساد فی الارض '' بپا کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنادی ہے ۔ اہم ترین بات ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود احتجاج کی لہر کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔

احتجاج کب شروع ہوا ؟

مھسا امینی اپنے بھائی سے ملنے دارالحکومت تہران آ رہی تھی کہ اسے ایک چیک پوسٹ پر گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر الزام عائد کیا گیاتھا کہ اس نے ایرانی قوانین کے مطابق حجاب کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے فوراً بعد ، پولیس وین ہی میں مھسا امینی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، اسی دوران اس کے سر پر کسی آلے سے ضرب لگائی گئی، نتیجتا وہ بے ہوش ہوگئی۔

اسی حالت میں اسے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ کومہ میں چلی گئی ، پھر سولہ ستمبر کو انتقال کر گئی۔ دوسری طرف ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مھسا امینی کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا۔ مھسا کے رشتہ داروں کا موقف ہے کہ وہ ایک صحت مند نوجوان خاتون تھی ۔ اسے کوئی بیماری نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے انھیں اچانک دل کی تکلیف ہو جاتی۔

اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ احتجاج کا آغاز مھسا امینی کی ہلاکت کے اگلے ہی روز کردستان کے صدر مقام سنندج سے ہوا ، جو محض دو روز میں دارالحکومت تہران تک پہنچ گیا۔

دارالحکومت تہران سمیت ملک کے متعدد شہروں میں خواتین سڑکوں پر نکلتی ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔ایک غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے قریباً ڈیڑھ سو شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جن میں کرد نوجوانوں ( مرد و خواتین ) کی اکثریت ہوتی ہے۔

دوماہ سے جاری اس احتجاجی تحریک کا خاص پہلو ، بڑی تعداد میں خواتین کی شرکت ہے۔ وہ گولیوں سے چھلنی بھی ہو رہی ہیں۔

ان کی ہلاکتیں جاری احتجاجی تحریک کو مزید شدید کر رہی ہیں ۔ ملک بھر کی140 یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج ہورہا ہے، اس احتجاج کو کچلنے کے لئے وہاں سیکورٹی دستے بھیجے گئے لیکن وہ بھی احتجاج پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہے ہیں ۔

انسانی حقوق کے ادارے ایرانی ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ایران میں مظاہروں کے دوران میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 19نومبر تک 378 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں47 بچے اور 27 خواتین بھی شامل ہیں۔

یہ ہلاکتیں ایران کے 25 صوبوں میں ہوئیں۔جبکہ ایک دوسرے ادارے ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نیوز ایجنسی ( ہرانا ) کے مطابق ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کم ازکم 400 ہے جن میں 58 کم عمر بچے تھے۔ سب سے زیادہ (123) ہلاکتیں سیستان اور بلوچستان میں ہوئیں۔ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کا تعلق کردستان، تہران، مغربی آذربائیجان، مازندران ، گیلان ، البرز ، کرمانشاہ، خوزستان ، خراسان رضوی ، اصفحان ، زنجان ، مشرقی آذربائیجان ، لورستان ، مرکزئی ، قزوین ، کھگیلویہ و بویر احمد ، اردبیل ، ایلام ، یمدان ، بوشھر ، فارس ، سمنان ، کرمان اور ھرمزگان سے ہے۔

ایرانی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں معمول بن چکی ہیں ۔ انسانی حقوق کے ادارے 39سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی خبر بھی دے رہے ہیں۔ سیکورٹی اہلکار صرف مظاہروں کے ساتھ جھڑپوں ہی میں نہیں مارے جارہے بلکہ اب معمول کے حالات میں بھی اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں پر حملے ہورہے ہیں ۔

مثلاً اٹھارہ نومبر کو ' سپاہ پاسداران انقلاب ' کے ایک اعلیٰ افسر کرنل نادر بیرمی کو صوبہ کرمنشاہ کے ایک شہر ' صحنہ ' میں اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ ایک تقریب میں شریک تھا۔ کرنل نادر پاسداران کا انٹیلی جنس افسر تھا۔

نیوز ایجنسی' ہرانا ' کے مطابق 19نومبر تک پورے ملک میں16813افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے ، جن میں 524طلبہ و طالبات شامل ہیں۔ جبکہ گرفتار افراد میں صحافیوں ، فن کاروں ، فلم سازوں اور دیگر مشہور شخصیات کی بھی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان اعدادوشمار سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایران میں احتجاج کا دائرہ کس قدر وسعت اختیار کرچکا ہے۔

مظاہرین اور سیکورٹی اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ظاہر کررہی ہیں کہ داخلی سلامتی کی صورت حال غیرمعمولی طور پر سنگین صورت اختیار کرچکی ہے۔ ایرانی حکام ان ہلاکتوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں اور حالات کو سنگین ظاہر کرنے کا الزام عائد غیرملکی عناصر پر دھر رہے ہیں ۔ ایران کے اندر عام لوگوں کے ایک بڑے طبقہ کا بھی یہی خیال ہے۔


احتجاج کرنے والے اس قدر غم و غصہ میں ہیں کہ گزشتہ دنوں ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کی آبائی رہائش گاہ کو مظاہرین نے نذر آتش کردیا ۔سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز اور تصاویر میں ( جن میں سے کچھ کی تصدیق فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور رائٹرز نے بھی کی ہے ) ایران کے قصبے' خمین ' میں واقع اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کا آبائی گھر جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہاں مظاہرین کا ہجوم جمع تھا ۔

رائٹرزنے بتایا کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے آبائی گھر میں آتشزدگی کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے ہیں، جن میں کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کو مظاہرین نے نذر آتش کیا ہے۔

رائٹرز نے مخصوص محرابوں اور عمارتوں کی بنیاد پر دو ویڈیو کلپس کے محل وقوع کی تصدیق کی جو اس مقامکی پرانی تصاویر جیسی ہیں۔ سوشل میڈیا ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ عمارت میں آگ لگنے کے بعد درجنوں افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

تاہم ایرانی حکام نے اس واقعہ کی تردید کی ہے۔ نیم سرکاری خبر رساں ادارے ' تسنیم ' نے بھی گھر کو نذرآتش کیے جانے کی خبروں کو غلط قرار دیا ہے ، البتہ تسلیم کیا ہے کہ گھر کے باہر کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 1989ء میں امام خمینی کے انتقال کے بعد ان کے گھر کو عجائب گھر کا درجہ دیدیا گیا تھا۔

سن دو ہزار انیس میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد کی برسی بھی گزشتہ ہفتے منائی گئی۔ اس موقع پر احتجاج میں ایک نئی شدت دیکھنے کو ملی۔

16نومبر کو صوبہ خوزستان کے شہر' ایزہ ' میں احتجاج میں شریک سات افرادہلاک ہوگئے جن میں دو بچے ( عمر 13 اور نو برس ) بھی شامل تھے۔ مظاہرین نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری سیکورٹی اہلکاروں پر عائد کی جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ موٹرسائیکل سوار '' دہشت گردوں '' نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پندرہ نومبر کو بھی تین احتجاجی مظاہرین گولیوں سے چھلنی کردئیے گئے۔مظاہرین کا موقف ہے کہ وہ'' دہشت گرد '' نہیں ، سیکورٹی اہلکار ہی تھے۔

احتجاجی تحریک صرف اندرون ایران تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بیرون ملک جہاں ، جہاں ایرانی مقیم ہیں ، وہ بھی مظاہرے کر رہے ہیں اور نعرہ وہی ہے : '' زن ، زندگی ،آزادی ''۔ ان مظاہروں میں پیش پیش خواتین کا مطالبہ ہے کہ ایران میں حجاب کے لازمی ہونے کا قانون ختم کیا جائے۔

ایران کے اندر اور باہر ہونے والے احتجاج سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کی حکمران مذہبی قیادت کے لئے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ نومبر کے آغاز میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ نے الزام عائد کیا تھاکہ سعودی عرب احتجاجی تحریک کی پشت پر ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مغربی حکومتیں ایران میں جاری احتجاجی تحریک کی حمایت کر رہی ہیں۔ وہ ایران میں ہونے والے احتجاج کے لئے سہولتیں فراہم کرہی ہیں ۔ مثلا جب احتجاج تیز ہوا تو ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو محدود کردیا۔

انٹرنیٹ سروس پر ایرانی حکومت کی پابندیوں کو ناکام بنانے کے لئے امریکی حکومت نے ایران میں سیٹلائٹ سروس فراہم کرنے کے لائسنسز جاری کئے ، اس کے بعد ایلون مسک( ٹوئٹر کے مالک ) نے اعلان کیا کہ ان کی کمپنی سٹار لنک ایران میں مفت انٹرنیٹ سیٹلائٹ سروس فراہم کرے گی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایرانی نظام کو گرائیں گے۔

ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ ایران میں جاری احتجاج جلد ختم نہیں ہونے والا۔ یہ ایک انقلاب کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

بالخصوص مظاہروں میں خواتین کی بھرپور شرکت ، ثابت قدمی ظاہر کر رہی ہے کہ وہ اب رکنے والی نہیں ہیں۔ اگرچہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مسلسل پابندیاں لگائی جارہی ہیں لیکن احتجاج کے ٹرینڈز مسلسل بلند ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس ساری تحریک کے پیچھے کیا ہے جو احتجاج رکنے ہی میں نہیں آ رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ایک، ایران میں مقیم کرد خواتین اور ایران سے باہر رہنے والی ایرانی خواتین کو ایک اہم موقع ملا ہے کہ وہ باہم متحد ہوکر اپنے مسائل کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں۔

دوسری سب سے بڑی وجہ ہے کہ نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک مثلا امریکا ، برطانیہ ، جرمنی اور دیگر یوروپی ممالک کی طرف سے ایرانی حکومت کے خلاف ان مظاہروں کی حمایت کی جارہی ہے۔ صرف اخلاقی حمایت ہی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ بہت بڑی سطح پر سپورٹ بھی دی جا رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ خواتین کی موجودہ تحریک اپنی نوعیت کی واحد تحریک ہے جو کسی نسلی ، مذہبی طبقہ سے منسلک نہیں ہے ، یہ صرف اور صرف عورت کی خودمختاری کی بات کرتی ہے۔

ایران میں احتجاج پہلے بھی ہو رہے تھے لیکن نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہاں کی حکومت پہلے بھی بڑے بڑے احتجاجی تحریکوں پر قابو پا چکی ہے۔ حالیہ احتجاجی تحریک مھسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی لیکن وہ اب حجاب اوڑھنے کے سخت قوانین کے خلاف ہی نہیں رہی بلکہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ایرانی حکومت سے ملک میں جس فرد یا طبقے کو جو بھی غصہ تھا ، وہ اب اس احتجاجی تحریک میں شامل ہوچکا ہے۔

بڑے اور چھوٹے تمام گروہ اس میں اپنے ، اپنے غصہ کے ساتھ شامل ہیں۔سب سے بڑا کردار اس نوجوان نسل کا ہے جس کی عمر تیس ، چالیس برس ہے۔ وہ بچپن ہی سے معاشی مشکلات اور حکومتی پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ وہ ملک کے حالات میں بڑی تبدیلی چاہتی ہے۔
Load Next Story