کوچۂ سخن

ڈھارس ہمیشہ دل سے ہی باندھی امید کی؛<br /> غم کی دوا بھی عشق نے غم سے کشید کی


Arif Aziz November 27, 2022
فوٹو: فائل

غزل
ڈھارس ہمیشہ دل سے ہی باندھی امید کی
غم کی دوا بھی عشق نے غم سے کشید کی
رکھتے ہیں انتہا کا چلن،انتہا کی دھن
چاہت بھی کی کسی سے تو چاہت شدید کی
اتنے غموں کو دامن ِ ہستی میں بھر لیا
وقعت نہیں ہے جتنی جہاں میں خرید کی
خوشبو کی طرح روح میں ظالم بسا ہے تو
تفریق کر نہ پاؤں میں قرب و بعید کی
اُس اُس کا حسن اجاڑ کے دنیا نے رکھ دیا
جس کو ہوا بھی لگ گئی دورِ جدید کی
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
کچھ مسائل کے سبب ٹھیک نہیں رہنے دیا
پھول پھولوں کے بھی نزدیک نہیں رہنے دیا
ایسا نکلا ہوں کہانی سے حوالہ بن کر
خود کو بھی باعثِ تشکیک نہیں رہنے دیا
آیا سننے میں کہ آنا ہے یہاں پر تم نے
دشتِ وحشت کو بھی تاریک نہیں رہنے دیا
اتنا آساں نہیں زخموں کو چھپانا کیونکہ
ہم نے دھاگہ کبھی باریک نہیں رہنے دیا
اپنی محفل میں یہ قانون کیا ہے لاگو
جو بنا باعثِ تضحیک نہیں رہنے دیا
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
میں اپنے جرم کا جب اعتراف کرتا ہوں
تب اپنے آپ سے بھی انحراف کرتا ہوں
میں پہلے دیتا ہوں ترتیب حلقۂ احباب
پھر اپنے لوگوں کو اپنے خلاف کرتا ہوں
میں کیسے مان لوں ہر بات، آسماں والے
زمیں کا باسی ہوں، سو اختلاف کرتا ہوں
عجیب طرح کی دیکھی ہے روشنی خود میں
میں ایک عمر سے اپنا طواف کرتا ہوں
میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بھی ہوتی رہتی ہیں
سو دوستوں کی خطائیں معاف کرتا ہوں
(محمد علی ایاز۔کبیر والا)


۔۔۔
غزل
جو بھی کوئے بتاں سے نکلے گا
وہ تو کون و مکاں سے نکلے گا
پھر کہاں پر اماں ملے اُس کو
جو تیرے آستاں سے نکلے گا
جب سنوارے گا زلف یار اپنی
چاند کب آسماں سے نکلے گا
جام کی تلخیاں اگر نہ سہی
درد سوزِ نہاں سے نکلے گا
زندگی تیرے حادثوں سے بھلا
کوئی بچ کر کہاں سے نکلے گا
درد حصہ ہے زیست کا ارسہؔ
کب میری داستاں سے نکلے گا
(ارسہ مبین ۔ پیر محل)


۔۔۔
غزل
سسکتا رہتا ہے شب بھر ملال کمرے میں
وہ ایسا چھوڑ گیا ہے سوال کمرے میں
یہ جسم و جاں پہ اذیت گزر رہی ہے کیا
کہاں سے، کون سا اترا وبال کمرے میں
کسی کی یاد دریچے کو چھو کے گزری ہے
جو اڑ رہا ہے مہکتا گلال کمرے میں
وہ جس کے ہجر کی وحشت گلی میں چیختی ہے
اداس بیٹھا ہے اس کا خیال کمرے میں
نہ ہم نوا سہی غالب کا، ہم پیالہ ہوں
چھپائے بیٹھا ہوں جام سفال کمرے میں
(نعمان راؤ۔ ساہیوال)


۔۔۔
غزل
تری آواز کا دلدل نہیں ہے
پلٹ جاتا کہ اب کس بل نہیں ہے
ہماری کار ہم میں گھومتی ہے
کہیں بھی دور تک سگنل نہیں ہے
ادھوری شب ادھورے خواب اور ہم
تھکن سے جسم بھی جل تھل نہیں ہے
چبھونے لگ گئی ہے خار دل میں
تمہاری یاد اب مخمل نہیں ہے
ہے رنگیں دھوپ تیری، جسم میرا
نہیں بس! زلف کا بادل نہیں ہے
خلا میں گھورتا ہوں سوچتا ہوں
خلا میں پیاس ہے چھاگل نہیں ہے
(ابو لویزا علی۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
دیتے ہیں اپنے حال کی سب کو خبر، چلیں
گر جاتے ہیں دھڑام سے تھوڑا بھی گر چلیں
دل کو کچھ ایسے کھینچ کے ماروں زمین پر
ہر سو تمہاری یاد کے ٹکڑے بکھر چلیں
ہر اک کے پاس کوئی نہ کوئی ہے راستہ
لیکن تمہارے ہجر کے مارے کدھر چلیں؟
جس طرح مجھ کو آپ نے برباد کر دیا
یوں خاندانی کرتے نہیں ہیں، مگر چلیں
میں نے سکوں کے پاؤں پکڑ کر کہا حضور!
فرصت میں ایک روز ہمارے بھی گھر چلیں
(لاریب کاظمی۔ مانسہرہ)


۔۔۔
غزل
نیندوں کی سمت لایا ہوں تاثیر کھینچ کر
آنکھوں میں ایک خواب کی تعبیر کھینچ کر
کچھ اور ہی ہدف تھا مگر ڈر گئے عدو
کمسن گلو پہ لے گیا جب تیر کھینچ کر
ممکن ہے کام آئے گی رونے کے واسطے
ہنستے ہوؤں کی رکھ لو نا تصویر کھینچ کر
ہم دونوں پہنچے وقت سے منزل پہ آخرش
تم مجھکو اور میں میری زنجیر کھینچ کر
ناشر زباں سے اُس نے کیا کام وہ جہاں
حل مسئلے نے ہونا تھا شمشیر کھینچ کر
(ذیشان ناشر۔ سعودی عرب)


۔۔۔
غزل
کہہ رہی ہیں یہ لکیریں دست کی
سختی جانے کی نہیں ہے بخت کی
گھر کی ساری برکتیں ہی لے اڑی
تو تو، میں میں، ہرگھڑی، ہر وقت کی
ہم ہیں راضی بہ رضا ہرحال میں
دل میں حسرت کب ہے تاج و تخت کی
وقت کے وہ ساتھ چلتا ہے میاں
جانتا ہے جو طبیعت وقت کی
اس کی آنکھیں اس قدر ویران تھیں
جیسے کوئی سرزمیں ہو دشت کی
اس کا ملنا ہی مقدر میں نہ تھا
دیر سے ہم بات سمجھے بخت کی
جان سے پیارے تھے اس کو ہم کبھی
بات ہے لیکن یہ بیتے وقت کی
آج تک نظروں میں ٹھہری ہے مری
اک گھڑی وہ اس کے وقتِ رخت کی
یاد ہیں راحلؔ نہیں بھولی ہمیں
اس کی وہ باتیں بچھڑتے وقت کی
(علی راحل۔ پاکستان بورے والا)


۔۔۔
غزل
چھین لی سانس تلک مجھ سے، دیا کچھ بھی نہیں
کیا صنم میری وفاؤں کا صلہ کچھ بھی نہیں
کاش ہو جاتی خبر ملنے سے پہلے تجھ سے
عشق میں درد کے، آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں
تو محبت کے فقط دعوے ہی کر سکتا ہے
تیرے نزدیک مگر عشق وفا کچھ بھی نہیں
ہم نے اک سانحہ کہہ کر اسے بس ٹال دیا
سوچا اک دل ہی تو ٹوٹا ہے، ہوا کچھ بھی نہیں
دھڑکنیں آخری سانسوں میں مگن تھیں اپنی
جب خبر ہم کو ہوئی یہ کہ بچا کچھ بھی
دستِ محبوب کی اس دل کو ضرورت ہے حمیدؔ
اب سنبھلنے کے لیے دل کو، دعا کچھ بھی نہیں
(حمید اللہ خان حمید۔ ضلع سرگودھا، تحصیل کوٹ مومن)


۔۔۔
غزل
یہ لوگ جو تجھے بادِ صبا نہیں کہتے
تْو ہم سے پوچھ تجھے دل میں کیا نہیں کہتے
دلوں کی آگ تو کندن بنایا کرتی ہے
ہم ایسی آگ کو آتش کدہ نہیں کہتے
جو اپنے یار سے مخلص نہ ہو وہ مر جائے
ہم ایسے لوگ اسے بددعا نہیں کہتے
یہاں پہ ایک عقیدہ ہے اور وہ ڈر ہے
یہاں کے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے
کہا تو تھا کہ تمھاری بہت ضرورت ہے
ہم ایک بات کبھی بارہا نہیں کہتے
تو کیا وہ آنکھیں تمھیں ہر جگہ نہیں دکھتیں
بھٹکتی چیز کو تم آتما نہیں کہتے؟
یہ بے حسی بھی تو تیری عطا ہے لوگوں کو
جو تیرے زخم کو تیری سزا نہیں کہتے
تمہارے بعد کشش ہی نہیں کسی شے میں
کسی مدار کو ہم دائرہ نہیں کہتے
غزل کے ساتھ زمانے کے زخم بھرتا ہوں
اب اس ہنر کو بھی تم معجزہ نہیں کہتے؟
(حسیب الحسن، خوشاب)


۔۔۔
غزل
نہ دن سے ہے مجھ کو نہ اب شام سے ہے
غرض مجھ کو تیرے ہی بس نام سے ہے
ترے جیسا ملتا کہاں کوئی مجھ کو
یہ ممکن مگر خواب اور خام سے ہے
مسافت و دوری سمٹنے لگے پھر
یہ منزل رسائی ترے گام سے ہے
ملا تھا ترا عکس پہلو سے مجھ کو
خماری وہی ہے نہ کہ جام سے ہے
مرے واسطے واہبی سے نہیں کم
یہ اٹھتی مہک جو ترے بام سے ہے
(ناز رحمان۔فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
نے حرفِ دلاسہ نہ کوئی جھوٹی تسلی
اتنی بھی مِری جاں! بھلا کیا راست پسندی
کچھ روز سے بے قابو ہے جذبات کا انبوہ
دل بستی میں جو میلہ لگا، اس نے ہَوا دی
ہونے لگے بوسیدہ وفاؤں کے معانی
تو خوگرِ تجدید نے عینک ہی بدل لی
اس عاشقِ زیرک نے فقط داؤ لگایا
اور تم نے صفائی میں سہی، بات اگل دی
کچھ جذبے فقط میرے لیے رکھے تھے اس نے
پھر باقی کے جذبوں کی وضاحت ہی نہ مانگی
(نوشین فاطمہ۔ ملتان)


۔۔۔
غزل
پہلے جانے پہ یہ کہتے تھے کہاں جاتا ہے؟
اب یہ کہتے ہیں کہ جانے دو جہاں جاتا ہے
واپسی عشق سے ہوتی ہے بڑھاپا لے کر
پہلے پہلے کوئی کڑیل سا جواں جاتا ہے
میں تری سمت یوں آتا ہوں نمازی جیسے
کسی مسجد کی طرف بعدِ اذاں جاتا ہے
پچھلے جنموں میں کسی دشت کی ناگن ہوگی
اس محبت کا تو صحرا کو نشاں جاتا ہے
آگہی ریل کی پٹری ہے یہاں پر ثاقبؔ
مرنے کو صاحبِ تعلیم جہاں جاتا ہے
(عبید ثاقب۔اسکردو)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں