محمد نفیس ذکریا۔۔۔ ایک قابل فخر پاکستانی
اپنی منفرد حکمت عملی اور قابل ذکر سفارتی کاوشوں کے ذریعے پاکستان کی خدمت کرنے والے سفارت کار کی کہانی
زندگی میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی عملی زندگی میں اپنے نام اور کام کے اعتبار سے یکساں شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، جن سے مل کر احساس ہوتا ہے کہ نام کا شخصیت پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے ۔
ایسے ہی ایک پاکستانی سنیئر بیوروکریٹ اور سابق سفیر محمد نفیس ذکریا سے ملاقات کرکے اور ان سے انٹرویو کرکے یہ احساس مزید پختہ ہوگیا کہ انسان کی تعلیم وتربیت اور اخلاق اُس کا اصل اثاثہ ہوتا ہے۔
جناب نفیس ذکریا سے تعارف گذشتہ ماہ ڈاکٹر جیمس شیرا پر آرٹیکل لکھنے کے دوران ہوا۔ تب سے ہی فون پر کئی مرتبہ گفتگو کے دوران یہ احساس ہوا کہ وہ اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اس قدر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ احساس اُن سے کراچی میں ملاقات کے بعد یقین میں بدلا گیا۔
ڈاکٹر محمد نفیس ذکریا کی کہانی بہت سے نشیب وفراز سے گزری ہے لیکن اس کہانی میں ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور اُمید کا سبق بہت نمایاں ہے۔
ڈھاکا (مشرقی پاکستان) میں13جون 1960 کو ایک امیرکاروباری شخصیت محمد ذکریا ابراہیم کے ہاں پیدا ہونے والے نفیس ذکریا سونا کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ اُن کے والد معروف بزنس مین تھے۔ اُن کا خاندان1971 سے قبل ہجرت کرکے کراچی مستقل طور پر مقیم ہوگئے۔
اُن کے والد ڈھاکا میں اپنے کاروبار کی خاطر قیام پذیر رہے۔ وہ اُن لاکھوں عام قیدیوں میں شامل تھے جنہیں جنگ کے دوران قید کیا گیا تھا۔ زندگی نے کروٹ بدلی تو حالات نے زندگی کے مختلف اور مشکل رنگ دکھائے لیکن نفیس ذکریا کے خاندان نے اُمید اور محنت کا ساتھ نہ چھوڑا اور قدرت نے بھی اُن کا ہاتھ نہ چھوڑا۔ ان کا کیریر انتہائی شان دار کارناموں سے بھرپور ہے لیکن اُن کی زندگی کی کہانی اور شخصیت اس کہیں زیادہ دل چسپ ہے۔
محمد نفیس ذکریا سابق سفیر/ہائی کمشنر (ریٹائرڈ) اور دفترخارجہ کے ترجمان رہے۔ اُنہوں نے پاکستان فارن سروس میں 1988 کو شمولیت اختیار کی۔ فارن سروس میں شامل ہونے سے پہلے وہ پاکستان ایئر فورس میں بطور ایروناٹیکل انجینئر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔
ایئرفورس میں اُن کے سینئر افسر نے اُنہیں سول سروس جوائن کرنے کی ترغیب دی۔ جب اُنہوں نے فارن سروس جوائن کی تو اُن کے بڑے بھائی اور مینٹور محمد حنیف ذکریا نے اُنہیں بتایا کہ والدصاحب کی خواہش تھی کہ اُن کا کوئی ایک بچہ فارن سروس جوائن کرے۔ نفیس ذکریا نے کہا کہ اُنہیں اس بات کو جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے والد کی خواہش کو پورا کیا ہے۔
وہ اسلام آباد میں ہیڈکوارٹر اور بیرون ملک پاکستانی سفارتی مشنز میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ہیڈکوارٹر، وزارت خارجہ، (HQs اسلام آباد) میں اہم عہدے پر تعینات رہے جن میں ڈائریکٹر جنرل، یورپ 2008 سے 2009 تک رہے۔
ڈائریکٹرجنرل، جنوبی ایشیا اور سارک 2014 سے 2015 تک رہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ/ترجمان 2016 سے 2017 تک رہے۔ سفارتی اسائنمنٹس میں بیرون ملک پاکستانی مشن میں یہ نمایاں عہدے اُن کے پاس رہے۔
پاکستان سفارت خانہ، ابوظہبی یو اے ای میں 1992 سے96 تک، پاکستانی سفارت خانہ جکارتہ، انڈونیشیا میں1999 سے 2001 رہے۔
کونسلر/Dy چیف آف دی مشن، ایمبیسی آف پاکستان، بنکاک اور پاکستان کے متبادل مستقل نمائندے برائے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل (UNESCAP)، بنکاک، تھائی لینڈ 2001 سے2006 تک خدمات سرانجام دیں۔
وزیر (سیاسی)، قونصل جنرل اور ڈپٹی ہائی کمشنر، ہائی کمیشن برائے پاکستان، لندن 2009 سے 2012 رہے جہاں اُنہوں نے نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔
قونصل جنرل آف پاکستان، ٹورنٹو، کینیڈا میں2012 سے 2014 تک رہے۔ مزید سفیرانہ خدمات میں ملائیشیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر 2017 سے 2019 تک رہے۔
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر 2019 سے 2020 تک رہے، جس میں اُن کے پاس کئی اہم عہدے بھی رہے۔ تعلیمی میدان میں وہ کوالیفائیڈ ایروناٹیکل انجینئر، کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ، کورنگی کریک، کراچی، پاکستان سے رہے۔ پھر نیشنل سکول آف پبلک پالیسی (NSPP) میں پہلا سینئر مینجمنٹ کورس کیا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU)، اسلام آباد میں قومی سلامتی اور جنگی کورس کیے۔
اُن کی تعلیمی اور سفارتی خدمات کی بدولت اُنہیں فارمن کرسچن کالج، چارٹرڈ یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔
اُنہوں نے اپنے سفارتی سفر میں ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میںاپنی پہلی پوسٹنگ کے دوران بابری مسجد کی بے حرمتی کے بعد 583 پاکستانی تاجروں کی رہائی کے لیے متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ کام یابی سے مذاکرات کیے جو عمان میں مقیم تھے اور اُنہیں اپنی ملازمتوں پر بحال کروایا۔ برطانیہ میں شیکسپیئر سینٹر اور اقبال اکیڈمی کے اشتراک سے اپریل 2010 میں شیکسپیئر اور اقبال پر اب تک کی سب سے بڑی ثقافتی تقریب کا انعقاد کروایا، جس میں شیکسپیئر کی یوم پیدائش کے موقع پر 20,000 سے زائد زائرین نے شرکت کی۔
شیکسپیئر سینٹر اسٹریٹفورڈ اپون ایون اب ایک تختی کی میزبانی کرتا ہے جس پر اقبال کی نظم کندہ ہے۔ کنزرویٹو فرینڈز آف پاکستان فورم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا جو ایک انتہائی کام یاب اور تاریخی اقدام ہے، جس نے 2012 سے حکم راں جماعت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بیرونس سعیدہ وارثی اور پاکستانی کمیونٹی کی ایک اہم شخصیت سید قمر رضا نے یہ فورم قائم کیا جب کہ لارڈ ضمیر چوہدری اور سر انور پرویز نے فورم کو ابتدائی مراحل سے لے کر موجودہ مضبوط اور ترقی پسند حالت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
2019 میں برطانوی پاکستانی اور سلیکون ویلی USA کے امریکی پاکستانیوں کی شراکت کے ساتھ ٹیک فورم کا قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
1936 کے بعد تھائی سینیٹ کی تاریخ میں وہ پہلے سفارت کار تھے، جو200 ارکانِ سینیٹ کو پاکستان اور پاکستان کی افغان پالیسی پر بریفنگ دینے کے لیے منتخب ہوئے۔
اپنے دور میں، اُنہوں نے 5 سربراہان مملکت وحکومت کے دو طرفہ دوروں کا اہتمام کیا۔ اس سے پہلے، 19 سالوں سے 80 کی دہائی کے اوائل تک کسی بھی طرف سے سربراہ مملکت/حکومت کا کوئی دورہ نہیں ہوا تھا۔ پانی صاف کرنے اور نینو مواد کی تحقیق میں باہمی تحقیق کے لیے یونیورسٹیوں کا ایک کنسورشیم شروع کیا۔
2019 میں ڈیوک اینڈ ڈچز آف کیمبرج، ٹی آر ایچ پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کے پاکستان کے شاہی دورے کا اہتمام کیا۔ 2002 میں پاکستان اور برطانیہ بزنس کونسل (PBBC) کے ایڈوائزری بورڈ کے چیف مقرر کیے گئے، جو دونوں ممالک کے سربراہان حکومت کے ذریعے قائم کردہ تجارتی فروغ کا ادارہ ہے۔
ٹورنٹو، کینیڈا میں رائل اونٹاریو میوزیم میں پہلی تاریخی پاکستان کی قیادت میں جنوبی ایشیائی ثقافتی نمائش کا انعقاد کیا گیا، جس میں اُنہوں نے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کیا۔ انڈس فلو آئی ٹی فرم نے پاکستان میں اپنا بیک آفس قائم کیا اور 22 آئی ٹی کوالیفائیڈ پاکستانیوں کو ملازمت دی گئی۔ اپنے دور میں بہ طور سفیر کینیڈا پاکستان بزنس کونسل کو فعال کیا۔
اسلامک سوسائٹی آف یارک ریجن، انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپریری اسلامک تھاٹ، ٹورنٹو کولیشن ٹو اسٹاپ دی وار، اور کریسنٹ انٹرنیشنل کے ساتھ کام یابی سے کام کیا اور مسئلہ کشمیر پر رائے عامہ کو نمایاں طور پر متحرک کیا۔
حکومت پاکستان، پاکستانی کینیڈینز اور پاکستانی تاجروں کی اسپانسرشپ سے اونٹاریو کا پہلا کرکٹ گراؤنڈ قائم کرنے میں مدد کی۔ کینیڈا کے علاوہ گراؤنڈ پر آویزاں واحد ملک کا نشان پاکستان کا ہے۔
ان کے دورِسفارت میں کوالالمپور ملائیشیا کی سب سے بڑی امبریلا آرگنائزیشن کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے جس کا نام ملائیشین کنسلٹیٹو کونسل آف اسلامک آرگنائزیشنز (MAPIM) ہے جس کی طرف سے 200 NGOs کے ساتھ 2 درجن ممالک میں کشمیر کاز کی حمایت کی جا رہی ہے۔
2003 کے بعد وزیراعظم عمران خان کے 2018 میں پہلے دوطرفہ دورے کا اہتمام کیا۔ مختلف شعبوں سے 9 سرمایہ کاروں کو پاکستان میں ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے لیے متحرک کیا۔ یوم پاکستان پریڈ 2019 کے مہمان خصوصی کے طور پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر کے دورے کے لیے میدان تیار کیا۔ علاوہ ازیں کشمیر یوتھ فورم (MKYF) ایڈوائزری بورڈ ممبر ملائیشیا کے طور پر مقرر کیا گیا ۔
کشمیر کے مقصد کے تناظر میں چند اہم سنگ میلوں کے تذکرے کے علاوہ، بطور ترجمان، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال اور بھارتی زیادتیوں پر ادارہ جاتی بریفنگ دی۔ پاکستان، کینیڈا، ملائیشیا اور برطانیہ میں کشمیر پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے لیے سرکاری اور سول سوسائٹی کے گروپوں کو کام یابی سے متحرک کیا۔
پاکستانی، تھائی، کینیڈین اور برطانوی الیکٹرانک میڈیا چینلز پر کشمیر اور پاکستان سے متعلقہ علاقائی مسائل پر متعدد عوامی مباحثوں اور انٹرویوز میں حصہ لیا۔ متعدد لیکچررز، گفتگو اور سیمینارز/ویبنارز کا انعقاد کیا۔ خطوط اور سوشل میڈیا کے ذریعے ٹارگٹڈ سامعین بشمول پارلیمنٹرینز، سول سوسائٹی کے ارکان، میڈیا کمیونٹی لیڈرز اور ممبران کو وسیع پیمانے پر آگاہی دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جون 2020 میں گریڈ 22 میں پاکستان کی سول سروس سے ریٹائر ہوئے تو نومبر 2020 میں صدر پاکستان نے اُنہیں ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن مقرر کیا۔ اس قدر اہم اور بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اُن کی زندگی میں پروفیشنلزم اور عاجزی بڑی نمایاں ہے، جو اُن کے بقول اُن کے والدین کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
رگبئی کے سابق مئیر ڈاکٹر جیمس شیرا کا کہنا تھا کہ نفیس ذکریا اپنے نام کی طرح ہر شعبۂ زندگی میں نفیس انسان ہیں۔ وہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی خدمات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
نفیس ذکریا بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے بطور ہائی کمشنر لندن، اُن مشنریوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں تعلیم، صحت، آگاہی اور سماجی فلاح وبہبود کے لیے وقف کیا تھا۔
اس تقریب میں انگلینڈ کے کئی شہروں سے مشنریوں نے شرکت اور پاکستان میں گزرے اپنے وقت اور اس حوالے سے احساسات کو بڑے پرجوش انداز میں بیان کیا۔ وہ پاکستانی ہائی کمشنر کے اس قدم سے بہت خوش دکھائی دیے جس کا اظہار اُنہوں نے اپنی تقریروں سے بھی کیا۔
یہ پاکستانی لندن ہائی کمیشن کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جو اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام منعقد کیا گیا۔
میرے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ قائداعظم کے پاکستان کے فلسفے کے حامی رہے ہیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی جہاں بھی رہے اُس میں اتحاد اور اتفاق قائم رہنا چاہیے۔
اس کے لیے اُنہوں نے انگلینڈ، کینیڈا، یو اے ای، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ملائشیا میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنی والی مختلف مذہبی اقلیتوں کو متحدہ رکھنے کے لیے خصوصی تقریب کا بھی اہتمام کیا اور بالخصوص کرسچین کیمیونٹی کے ساتھ کرسمس ڈے، مینارٹی ڈے اور دیگر تقریب کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے مسیحی نوجوانوں میں تعلیم کو فروغ دینے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے۔
ایک مسیحی طالب علم کو جسے کمپیوٹر اور ریاضی میں اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا، اُسے لندن ہائی کمیشن میں مدعو کیا گیا اور اُس کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ پاکستانی کمیونٹی بالخصوص مذہبی اقلیتوں کو بیرون ملک اور پاکستان میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے رجوع کر کے اُن کے مسائل کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
نفیس ذکریا کی زندگی اور خدمات پاکستانیوں کے لیے بالخصوص نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ اگر وہ محنت، مستقل مزاجی اور اُمید کا دامن نہیں چھوڑتے تو وہ کسی بھی میدان میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو رول ماڈل دیں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور مثبت سوچ کی طرف مائل کریں۔
نااُمیدی اور منفی سوچ ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکارٹ ہے۔ نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ نوجوان ہمارے ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں جو پاکستان کی اصل طاقت ہیں۔ ہمیں اس طاقت کو درست سمت اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نوجوان پاکستان کا چہرہ ہے، اس لیے پاکستان کا مستقبل بہت روشن اور سنہرا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کا کام یاب ہونا صرف اس کی اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے خاندان کا اس میں بھرپور تعاون شامل ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں وہ اپنی بیوی، بچوں، بہنوں اور بھائیوں کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہر لمحے انہیں سپورٹ کیا۔ وہ کہتے ہیں یقینی طور پر میرے والدین اس ضمن میں سرفہرست ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر نفیس زکریا کو کامسیٹس کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات کیا ہے۔ ان کو چار سال کے لیے ای ڈی تعینات کیا گیا ہے۔ وہ عزم، ہمت اور مستقل مزاجی کی عملی مثال ہیں۔
ایسے ہی ایک پاکستانی سنیئر بیوروکریٹ اور سابق سفیر محمد نفیس ذکریا سے ملاقات کرکے اور ان سے انٹرویو کرکے یہ احساس مزید پختہ ہوگیا کہ انسان کی تعلیم وتربیت اور اخلاق اُس کا اصل اثاثہ ہوتا ہے۔
جناب نفیس ذکریا سے تعارف گذشتہ ماہ ڈاکٹر جیمس شیرا پر آرٹیکل لکھنے کے دوران ہوا۔ تب سے ہی فون پر کئی مرتبہ گفتگو کے دوران یہ احساس ہوا کہ وہ اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اس قدر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ احساس اُن سے کراچی میں ملاقات کے بعد یقین میں بدلا گیا۔
ڈاکٹر محمد نفیس ذکریا کی کہانی بہت سے نشیب وفراز سے گزری ہے لیکن اس کہانی میں ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور اُمید کا سبق بہت نمایاں ہے۔
ڈھاکا (مشرقی پاکستان) میں13جون 1960 کو ایک امیرکاروباری شخصیت محمد ذکریا ابراہیم کے ہاں پیدا ہونے والے نفیس ذکریا سونا کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ اُن کے والد معروف بزنس مین تھے۔ اُن کا خاندان1971 سے قبل ہجرت کرکے کراچی مستقل طور پر مقیم ہوگئے۔
اُن کے والد ڈھاکا میں اپنے کاروبار کی خاطر قیام پذیر رہے۔ وہ اُن لاکھوں عام قیدیوں میں شامل تھے جنہیں جنگ کے دوران قید کیا گیا تھا۔ زندگی نے کروٹ بدلی تو حالات نے زندگی کے مختلف اور مشکل رنگ دکھائے لیکن نفیس ذکریا کے خاندان نے اُمید اور محنت کا ساتھ نہ چھوڑا اور قدرت نے بھی اُن کا ہاتھ نہ چھوڑا۔ ان کا کیریر انتہائی شان دار کارناموں سے بھرپور ہے لیکن اُن کی زندگی کی کہانی اور شخصیت اس کہیں زیادہ دل چسپ ہے۔
محمد نفیس ذکریا سابق سفیر/ہائی کمشنر (ریٹائرڈ) اور دفترخارجہ کے ترجمان رہے۔ اُنہوں نے پاکستان فارن سروس میں 1988 کو شمولیت اختیار کی۔ فارن سروس میں شامل ہونے سے پہلے وہ پاکستان ایئر فورس میں بطور ایروناٹیکل انجینئر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔
ایئرفورس میں اُن کے سینئر افسر نے اُنہیں سول سروس جوائن کرنے کی ترغیب دی۔ جب اُنہوں نے فارن سروس جوائن کی تو اُن کے بڑے بھائی اور مینٹور محمد حنیف ذکریا نے اُنہیں بتایا کہ والدصاحب کی خواہش تھی کہ اُن کا کوئی ایک بچہ فارن سروس جوائن کرے۔ نفیس ذکریا نے کہا کہ اُنہیں اس بات کو جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے والد کی خواہش کو پورا کیا ہے۔
وہ اسلام آباد میں ہیڈکوارٹر اور بیرون ملک پاکستانی سفارتی مشنز میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ہیڈکوارٹر، وزارت خارجہ، (HQs اسلام آباد) میں اہم عہدے پر تعینات رہے جن میں ڈائریکٹر جنرل، یورپ 2008 سے 2009 تک رہے۔
ڈائریکٹرجنرل، جنوبی ایشیا اور سارک 2014 سے 2015 تک رہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ/ترجمان 2016 سے 2017 تک رہے۔ سفارتی اسائنمنٹس میں بیرون ملک پاکستانی مشن میں یہ نمایاں عہدے اُن کے پاس رہے۔
پاکستان سفارت خانہ، ابوظہبی یو اے ای میں 1992 سے96 تک، پاکستانی سفارت خانہ جکارتہ، انڈونیشیا میں1999 سے 2001 رہے۔
کونسلر/Dy چیف آف دی مشن، ایمبیسی آف پاکستان، بنکاک اور پاکستان کے متبادل مستقل نمائندے برائے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل (UNESCAP)، بنکاک، تھائی لینڈ 2001 سے2006 تک خدمات سرانجام دیں۔
وزیر (سیاسی)، قونصل جنرل اور ڈپٹی ہائی کمشنر، ہائی کمیشن برائے پاکستان، لندن 2009 سے 2012 رہے جہاں اُنہوں نے نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔
قونصل جنرل آف پاکستان، ٹورنٹو، کینیڈا میں2012 سے 2014 تک رہے۔ مزید سفیرانہ خدمات میں ملائیشیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر 2017 سے 2019 تک رہے۔
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر 2019 سے 2020 تک رہے، جس میں اُن کے پاس کئی اہم عہدے بھی رہے۔ تعلیمی میدان میں وہ کوالیفائیڈ ایروناٹیکل انجینئر، کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ، کورنگی کریک، کراچی، پاکستان سے رہے۔ پھر نیشنل سکول آف پبلک پالیسی (NSPP) میں پہلا سینئر مینجمنٹ کورس کیا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU)، اسلام آباد میں قومی سلامتی اور جنگی کورس کیے۔
اُن کی تعلیمی اور سفارتی خدمات کی بدولت اُنہیں فارمن کرسچن کالج، چارٹرڈ یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔
اُنہوں نے اپنے سفارتی سفر میں ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میںاپنی پہلی پوسٹنگ کے دوران بابری مسجد کی بے حرمتی کے بعد 583 پاکستانی تاجروں کی رہائی کے لیے متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ کام یابی سے مذاکرات کیے جو عمان میں مقیم تھے اور اُنہیں اپنی ملازمتوں پر بحال کروایا۔ برطانیہ میں شیکسپیئر سینٹر اور اقبال اکیڈمی کے اشتراک سے اپریل 2010 میں شیکسپیئر اور اقبال پر اب تک کی سب سے بڑی ثقافتی تقریب کا انعقاد کروایا، جس میں شیکسپیئر کی یوم پیدائش کے موقع پر 20,000 سے زائد زائرین نے شرکت کی۔
شیکسپیئر سینٹر اسٹریٹفورڈ اپون ایون اب ایک تختی کی میزبانی کرتا ہے جس پر اقبال کی نظم کندہ ہے۔ کنزرویٹو فرینڈز آف پاکستان فورم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا جو ایک انتہائی کام یاب اور تاریخی اقدام ہے، جس نے 2012 سے حکم راں جماعت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بیرونس سعیدہ وارثی اور پاکستانی کمیونٹی کی ایک اہم شخصیت سید قمر رضا نے یہ فورم قائم کیا جب کہ لارڈ ضمیر چوہدری اور سر انور پرویز نے فورم کو ابتدائی مراحل سے لے کر موجودہ مضبوط اور ترقی پسند حالت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
2019 میں برطانوی پاکستانی اور سلیکون ویلی USA کے امریکی پاکستانیوں کی شراکت کے ساتھ ٹیک فورم کا قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
1936 کے بعد تھائی سینیٹ کی تاریخ میں وہ پہلے سفارت کار تھے، جو200 ارکانِ سینیٹ کو پاکستان اور پاکستان کی افغان پالیسی پر بریفنگ دینے کے لیے منتخب ہوئے۔
اپنے دور میں، اُنہوں نے 5 سربراہان مملکت وحکومت کے دو طرفہ دوروں کا اہتمام کیا۔ اس سے پہلے، 19 سالوں سے 80 کی دہائی کے اوائل تک کسی بھی طرف سے سربراہ مملکت/حکومت کا کوئی دورہ نہیں ہوا تھا۔ پانی صاف کرنے اور نینو مواد کی تحقیق میں باہمی تحقیق کے لیے یونیورسٹیوں کا ایک کنسورشیم شروع کیا۔
2019 میں ڈیوک اینڈ ڈچز آف کیمبرج، ٹی آر ایچ پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کے پاکستان کے شاہی دورے کا اہتمام کیا۔ 2002 میں پاکستان اور برطانیہ بزنس کونسل (PBBC) کے ایڈوائزری بورڈ کے چیف مقرر کیے گئے، جو دونوں ممالک کے سربراہان حکومت کے ذریعے قائم کردہ تجارتی فروغ کا ادارہ ہے۔
ٹورنٹو، کینیڈا میں رائل اونٹاریو میوزیم میں پہلی تاریخی پاکستان کی قیادت میں جنوبی ایشیائی ثقافتی نمائش کا انعقاد کیا گیا، جس میں اُنہوں نے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کیا۔ انڈس فلو آئی ٹی فرم نے پاکستان میں اپنا بیک آفس قائم کیا اور 22 آئی ٹی کوالیفائیڈ پاکستانیوں کو ملازمت دی گئی۔ اپنے دور میں بہ طور سفیر کینیڈا پاکستان بزنس کونسل کو فعال کیا۔
اسلامک سوسائٹی آف یارک ریجن، انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپریری اسلامک تھاٹ، ٹورنٹو کولیشن ٹو اسٹاپ دی وار، اور کریسنٹ انٹرنیشنل کے ساتھ کام یابی سے کام کیا اور مسئلہ کشمیر پر رائے عامہ کو نمایاں طور پر متحرک کیا۔
حکومت پاکستان، پاکستانی کینیڈینز اور پاکستانی تاجروں کی اسپانسرشپ سے اونٹاریو کا پہلا کرکٹ گراؤنڈ قائم کرنے میں مدد کی۔ کینیڈا کے علاوہ گراؤنڈ پر آویزاں واحد ملک کا نشان پاکستان کا ہے۔
ان کے دورِسفارت میں کوالالمپور ملائیشیا کی سب سے بڑی امبریلا آرگنائزیشن کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے جس کا نام ملائیشین کنسلٹیٹو کونسل آف اسلامک آرگنائزیشنز (MAPIM) ہے جس کی طرف سے 200 NGOs کے ساتھ 2 درجن ممالک میں کشمیر کاز کی حمایت کی جا رہی ہے۔
2003 کے بعد وزیراعظم عمران خان کے 2018 میں پہلے دوطرفہ دورے کا اہتمام کیا۔ مختلف شعبوں سے 9 سرمایہ کاروں کو پاکستان میں ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے لیے متحرک کیا۔ یوم پاکستان پریڈ 2019 کے مہمان خصوصی کے طور پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر کے دورے کے لیے میدان تیار کیا۔ علاوہ ازیں کشمیر یوتھ فورم (MKYF) ایڈوائزری بورڈ ممبر ملائیشیا کے طور پر مقرر کیا گیا ۔
کشمیر کے مقصد کے تناظر میں چند اہم سنگ میلوں کے تذکرے کے علاوہ، بطور ترجمان، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال اور بھارتی زیادتیوں پر ادارہ جاتی بریفنگ دی۔ پاکستان، کینیڈا، ملائیشیا اور برطانیہ میں کشمیر پر بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے لیے سرکاری اور سول سوسائٹی کے گروپوں کو کام یابی سے متحرک کیا۔
پاکستانی، تھائی، کینیڈین اور برطانوی الیکٹرانک میڈیا چینلز پر کشمیر اور پاکستان سے متعلقہ علاقائی مسائل پر متعدد عوامی مباحثوں اور انٹرویوز میں حصہ لیا۔ متعدد لیکچررز، گفتگو اور سیمینارز/ویبنارز کا انعقاد کیا۔ خطوط اور سوشل میڈیا کے ذریعے ٹارگٹڈ سامعین بشمول پارلیمنٹرینز، سول سوسائٹی کے ارکان، میڈیا کمیونٹی لیڈرز اور ممبران کو وسیع پیمانے پر آگاہی دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جون 2020 میں گریڈ 22 میں پاکستان کی سول سروس سے ریٹائر ہوئے تو نومبر 2020 میں صدر پاکستان نے اُنہیں ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن مقرر کیا۔ اس قدر اہم اور بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اُن کی زندگی میں پروفیشنلزم اور عاجزی بڑی نمایاں ہے، جو اُن کے بقول اُن کے والدین کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
رگبئی کے سابق مئیر ڈاکٹر جیمس شیرا کا کہنا تھا کہ نفیس ذکریا اپنے نام کی طرح ہر شعبۂ زندگی میں نفیس انسان ہیں۔ وہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی خدمات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
نفیس ذکریا بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے بطور ہائی کمشنر لندن، اُن مشنریوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں تعلیم، صحت، آگاہی اور سماجی فلاح وبہبود کے لیے وقف کیا تھا۔
اس تقریب میں انگلینڈ کے کئی شہروں سے مشنریوں نے شرکت اور پاکستان میں گزرے اپنے وقت اور اس حوالے سے احساسات کو بڑے پرجوش انداز میں بیان کیا۔ وہ پاکستانی ہائی کمشنر کے اس قدم سے بہت خوش دکھائی دیے جس کا اظہار اُنہوں نے اپنی تقریروں سے بھی کیا۔
یہ پاکستانی لندن ہائی کمیشن کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جو اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام منعقد کیا گیا۔
میرے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ قائداعظم کے پاکستان کے فلسفے کے حامی رہے ہیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی جہاں بھی رہے اُس میں اتحاد اور اتفاق قائم رہنا چاہیے۔
اس کے لیے اُنہوں نے انگلینڈ، کینیڈا، یو اے ای، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ملائشیا میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنی والی مختلف مذہبی اقلیتوں کو متحدہ رکھنے کے لیے خصوصی تقریب کا بھی اہتمام کیا اور بالخصوص کرسچین کیمیونٹی کے ساتھ کرسمس ڈے، مینارٹی ڈے اور دیگر تقریب کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے مسیحی نوجوانوں میں تعلیم کو فروغ دینے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے۔
ایک مسیحی طالب علم کو جسے کمپیوٹر اور ریاضی میں اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا، اُسے لندن ہائی کمیشن میں مدعو کیا گیا اور اُس کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ پاکستانی کمیونٹی بالخصوص مذہبی اقلیتوں کو بیرون ملک اور پاکستان میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے رجوع کر کے اُن کے مسائل کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
نفیس ذکریا کی زندگی اور خدمات پاکستانیوں کے لیے بالخصوص نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ اگر وہ محنت، مستقل مزاجی اور اُمید کا دامن نہیں چھوڑتے تو وہ کسی بھی میدان میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو رول ماڈل دیں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور مثبت سوچ کی طرف مائل کریں۔
نااُمیدی اور منفی سوچ ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکارٹ ہے۔ نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ نوجوان ہمارے ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں جو پاکستان کی اصل طاقت ہیں۔ ہمیں اس طاقت کو درست سمت اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نوجوان پاکستان کا چہرہ ہے، اس لیے پاکستان کا مستقبل بہت روشن اور سنہرا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کا کام یاب ہونا صرف اس کی اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے خاندان کا اس میں بھرپور تعاون شامل ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں وہ اپنی بیوی، بچوں، بہنوں اور بھائیوں کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہر لمحے انہیں سپورٹ کیا۔ وہ کہتے ہیں یقینی طور پر میرے والدین اس ضمن میں سرفہرست ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر نفیس زکریا کو کامسیٹس کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات کیا ہے۔ ان کو چار سال کے لیے ای ڈی تعینات کیا گیا ہے۔ وہ عزم، ہمت اور مستقل مزاجی کی عملی مثال ہیں۔