سیاسی محاذ آرائی اورمعاشی استحکام

جو لوگ معاشی ترقی کا حل سیاسی مسائل کو نظر انداز کر کے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درست تجزیہ نہیں

جو لوگ معاشی ترقی کا حل سیاسی مسائل کو نظر انداز کر کے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درست تجزیہ نہیں۔ فوٹو: گوگل

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے اصلاحات کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمایندہ ایسٹر پریز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان میں مستحقین کو زیادہ متاثر طریقے سے امداد دینا چاہتا ہے، اسی لیے متاثرین کی ضروریات کو ٹارگٹ کرکے امداد پہنچانی ہوگی، انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکام سے پالیسیوں میں ترجیحات پر بات چیت ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ریکوری پلان کی بروقت تیاری بھی ضروری ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان عملی طور پر عرصہ دراز سے معیشت کے حوالے سے مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے۔

اس مرتبہ شدید ترین سیلاب نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی میدان میں مشکلات کم نہیں ہوپارہی ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف توکئی مرتبہ میثاق معیشت کی بات بھی کر چکے ہیں، مگر کشیدہ سیاسی حالات میں میثاق معیشت کیسے ممکن ہو سکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، ایک روایتی اور وقتی پالیسی کسی بھی صورت میں ہمیں معاشی بحران سے نہیں نکال سکے گی۔

یہ جو لوگ معاشی ترقی کا حل سیاسی مسائل کو نظر انداز کر کے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درست تجزیہ نہیں۔ معاشی مسائل کا ایک بڑا حل ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور چند اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پر حکومت و حزب اختلاف کا اتفاق رائے کے بغیر مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہو سکے گا۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ گزشتہ روز نئے آرمی چیف کا تقرر عمل میں آچکا ہے ، ملک میں نئے آرمی چیف کا تقرر معمول کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن اس بار بعض عناصر نے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر ملک کو سیاسی عدم استحکام، معاشی زوال اور ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار کر دیاتھا، کاروبار ٹھپ کر دیے تھے اور کرنسی بحران کی باتیں ہو رہی تھیں، جس سے کاروباری برادری میں تشویش پائی جا رہی تھی۔

ایک اہم عہدے پر سیاست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ افسوسناک فعل تھا۔ حکومت نے بری افواج کے نئے سربراہ کا فوری اور بروقت انتخاب اور تقررکرکے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کردیا ہے، جس سے ملک میں موجود جاری سیاسی ہیجان اور افواہوں کے سلسلے میں واضح کمی آئے گی، معیشت میں استحکام آئے گا، دوست ممالک سے مالی امداد، قرضوں کے حصول میں سہولت پیدا ہوگی اور ڈیفالٹ کا راگ الاپنے والوں کے منہ بند ہونگے۔

اس وقت ملک سنگین اقتصادی اور موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور معیشت خود پیدا کردہ مسائل کے گرداب میں ڈوب رہی ہے مگرعوامی حمایت کے دعویدار، سیاسی اور معاشی استحکام کو ضروری نہیں سمجھ رہے اور اپنی اپنی بانسری بجا رہے ہیں۔

آرمی چیف کا تقرر ایک معمول کی کارروائی ہوتاہے جس کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے مگر ماضی میں کبھی اس تقرری کو اس قدر متنازعہ نہیں بنایا گیا جیسا کہ اس بار کیا گیا اور اسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا گیا،گزشتہ روز ہونیوالے اس مناسب فیصلہ کے نتیجے میں غیر ذمے دار عناصر کے پراپیگنڈے کااثر زائل ہوجائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ دنوں میں بیان دیا تھا کہ ''جلد روس سے تیل کی خریداری ممکن ہو جائے گی'' اور یہ کہ'' امریکا سے کہہ دیا کہ وہ ہمیں روس سے تیل خریدنے سے نہیں روک سکتا۔

دبئی میں مسلم لیگ (ن) کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا تھاکہ رواں سال پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، امید ہے یہ رقم جمع کر لی جائے گی۔ ماضی میں ڈالر کو آزاد چھوڑ کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا گیا۔

عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی فیول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس انتہائی مشکل وقت میں جس میں پاکستان کو اپنے پہلے سے ہی قلیل مالی وسائل کی وجہ سے ایک بہت بڑا بوجھ اٹھانا پڑا ہے، سستی پٹرولیم مصنوعات کی خریداری ہمارے مالی مسائل میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔


حکومت کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ روس سے تیل خریدنے میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔ کیش فلو کا معاملہ جو اتنا بڑا نہیں ہے۔ پاکستان نے اپریل اور مئی میں تیل کی سپاٹ بائنگ کی اور نقد ادائیگی پر ہر ماہ میں تیل کی تقریباً پانچ چھ کھیپیں خریدیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کی رضامندی کے بعد ماسکو فروخت کی شرائط پر لچک دکھائے۔

جہاں تک روسی خام تیل اور پاکستان کی ریفائنری کی صلاحیتوں میں مماثلت کا تعلق ہے تو پاکستان روسی تیل خرید سکتا ہے اور مارکیٹ میں تبادلہ کر سکتا ہے، چونکہ پاکستان کو موجودہ مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اس کی کلیدی وجہ پٹرولیم کی قیمتیں ہیں۔ جہاں تیل اور توانائی کی مصنوعات کل درآمدی بل کا تقریباً 25فیصد بنتی ہیں۔

اس طرح توانائی کی شرح میں اتار چڑھاؤ معیشت کی حالت اور تجارتی توازن پر بڑا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے مزید اثرات افراط زر، کرنسی اور زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ پر پڑتے ہیں۔ پاکستان کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ یوکرین کی جنگ کے بعد کے عرصے میں بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں شدید کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ڈالر کی اڑان جاری ہے اور پاکستان کا تیل کا درآمدی بل بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ کئی دِہائیوں سے جاری معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی، تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں چند بڑے شہروں میں مرتکز ہو رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک کثیر سیلاب ہر سال بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔ بڑے شہروں کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی ناکافی ہے۔ مسلسل انتقالِ آبادی نے شہروں کے انفرااسٹرکچر کو مزید ناکافی بنا دیا ہے۔

شہروں میں محروم طبقات کی بستیاں پھیل رہی ہیں۔ بڑھتی آبادی نے پراپرٹی کے کاروبار کو پَر لگا دیے ہیں۔ حسنِ اتفاق کہ یہ شعبہ ٹیکس کی جھک جھک سے بے نیاز ہے۔ حکومتی ڈویلپمنٹ ادارے سرخ فیتے اور کرپشن کی زد میں ہیں۔

سو، شہروں کے آس پاس پرائیویٹ رہائشی آبادیوں کے بے ترتیب جنگل اگ رہے ہیں۔ پراپرٹی سر مایہ کاروں کا سرمایہ دو تین سالوں میں ڈبل ہو رہا ہے جب کہ متوسط اور غریب طبقات کے لیے ہاؤسنگ ہر گزرتے سال دسترس سے باہر ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں علاقائی تفاوت دور کرنے پر توجہ مفقود رہی۔

سب سے پہلے ہمیں اپنی معیشت کی اورہالنگ کرکے پاکستان کو امپورٹ اکانومی سے ایکسپورٹ اکانومی بنانا ہوگا جو گاڑیوں،موبائل فونز، الیکٹرانک اشیاء جیسی لگژری آئیٹمز پر بھاری ٹیکسز عائد کرکے امپورٹ کی حوصلہ شکنی کیے بغیر ممکن نہیں۔دوسرے نمبر پر جب یورپی یونین، بھارت اور دیگر ممالک روس سے سستی گیس اور تیل امپورٹ کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟

چین کی معاشی ترقی کے پیچھے اصل راز زرعی معیشت سے انڈسٹریل معیشت کی طرف شفٹ کا فیصلہ تھا ہمیں بھی اپنی معیشت کو پیداواری معیشت بنا کر اپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔

بدقسمتی سے 75 سال سے ہماری ایکسپورٹ ٹیکسٹائل اور چاول سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ہم اپنی معیشت کو پیداواری معیشت بنا کر افریقہ کے چھوٹے ممالک میں موٹرسائیکل،موبائل فونز،ٹیکسٹائل،الیکٹرانک اشیائ،حلال فوڈ اور زرعی مصنوعات کی ایکسپورٹ سے سالانہ 100 ارب ڈالر تک زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔

بھارت اس وقت صرف آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے سالانہ 200 ارب ڈالر تک کما رہا ہے جب کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے صرف 2 ارب ڈالر سالانہ سے بھی کم کما رہا ہے، یہ بھی گزشتہ 2سال میں 50 فیصد گروتھ سے پاکستان نے 2 ارب ڈالر کا ٹارگٹ حاصل کیا۔صرف ایک فیصلے اور ٹھوس آئی ٹی پالیسی کی بدولت پاکستان چند سالوں میں با آسانی صرف آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے سالانہ 50 ارب ڈالر تک کما سکتا ہے۔

تارکین وطن کی بدولت سالانہ 30 ارب ڈالر ترسیلات زر کو اس وقت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہنا غلط نہ ہوگا لیکن اس شعبے میں بھی ہم خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے ہیں۔جنوبی ایشیا میں صرف بنگلہ دیش تارکین وطن کی ترسیلات زر سے سالانہ 40 ارب ڈالر کا کثیر زرمبادلہ حاصل کرتا ہے جو پاکستان سے 10 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ٹیکنیکل تعلیم کے فروغ اور ہنرمند افرادی قوت کی بیرون ممالک کھپت سے سالانہ 50 ارب ڈالر کی ترسیلات کا ٹارگٹ حاصل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

پاکستان بائیس مرتبہ آئی ایم ایف پیکیج لینے کے باوجود آج تک اپنے پاؤں پر کیوں نہیں کھڑا ہوسکا؟ 22 کروڑ آبادی اور زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم کیوں آج تک مالی امداد کے لیے دردر پھرنے پر مجبور ہیں؟کیوں ہم آج تک معیشت بارے ایک نکتے پر متفق نہیں ہوسکے؟

ان تلخ لیکن حقیقت پر مبنی سوالات کے جوابات ریاست اور حکومت جتنی جلدی ڈھونڈ لے ملکی مفاد میں وہ اتنا اچھا ہے۔۔قومی سطح پر پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ قومی یکجہتی اور عزم صمیم کے بغیر ہم اقتصادی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔
Load Next Story