چینی کی برآمدات و قیمت

حکومت ہر سال نومبر میں جب چینی کی کرشنگ سیزن کا آغاز ہوتا ہے اس سے پہلے ہی گنا فی ٹن قیمت طے کردیتی ہے

انگریزوں نے برصغیر میں نہری نظام قائم کیا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانیوں کو ہوا ، کیونکہ اصل پاکستانی گنے سے بننے والی چینی کے بہت بڑے قدر دان نکلے اور اس کا مالی فائدہ ان شوگر مل مالکان کو ہوا جن کی شوگر ملیں چلنے لگیں۔

قیام پاکستان کے وقت دو ہی کارخانے تھے اور گنے کی پیداوار بھی کم تھی اور چینی کی پیداواری صلاحیت 10 ہزار ٹن تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں نہری نظام آبپاشی کے باعث نہری علاقوں کی اہم ترین نقد آور فصلوں میں گنے کا شمار بھی کیا جاتا ہے۔

اس کے زیر کاشت رقبے میں بھی بتدریج اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گنے کی فی من قیمت میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا رہا ہے ، گنے کی پیداوار بڑھتی رہی اور ساتھ ہی چینی کی پیداوار بھی بڑھتی رہی اور ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان چینی کے برآمدی ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔

بہت ساری سہولیات کے باوجود اگرچہ زراعت بے انتہا مسائل کا بھی شکار رہی ہے ، لیکن باوجود کوشش کے ملک میں فی ہیکٹر گنے کی پیداوار دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت نہایت ہی کم رہی ہے۔

پاکستان میں گنے کی فی ہیکٹر پیداوار 40 تا 50 کلو گرام رہی ہے ، جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن دنیا میں کئی ملکوں نے اسی دوران 80کلو گرام 90 یا 100 کلو گرام پیداوار فی ہیکٹر بھی حاصل کر رہے ہیں اور مزید بڑھ کر پیداوار بھی مل رہی ہے۔

حکومت ہر سال نومبر میں جب چینی کی کرشنگ سیزن کا آغاز ہوتا ہے اس سے پہلے ہی گنا فی ٹن قیمت طے کردیتی ہے۔ جس کے بارے میں حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے بالکل مناسب قیمت طے کی ہے اور کاشتکار نوحہ کناں ہو جاتے ہیں کہیں احتجاج بھی ہوتا ہے کہ قیمت بہت کم مل رہی ہے اور اس کے برعکس ارب پتی مل اونرز شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت نے اتنی زیادہ قیمت کردی ہے کہ ان کی جیب خالی ہو رہی ہے۔

اس سال توقع تھی کہ وقت پر کرشنگ کا آغاز ہو جائے گا لیکن مل اونرز کا مطالبہ ہے کہ پہلے سے اسٹاک شدہ چینی کے اخراج کے لیے برآمدات کی اجازت دی جائے۔

حکومت نے فی الحال 5 لاکھ ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی ہے اس پر ماہرین کئی خدشات پیدا ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں۔

اول چینی کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا ، دوسرے ملکی ذخائر کی مقدار کم ہونے سے مستقبل میں چینی درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔ پاکستان جوکہ چینی کا برآمدی ملک تھا کئی سالوں سے چینی درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ 2018-19 ایسا سال تھا جب ہم نے 6 لاکھ 91 ہزار 994 میٹرک ٹن چینی برآمد کرکے 22 کروڑ 28 لاکھ 57 ہزار ڈالر کا زرمبادلہ کمایا تھا۔

پھر اگلے برس چینی کی برآمد کی مقدار بہت ہی گر چکی تھی اور 2019-20 میں چینی کی برآمدی مقدار ایک لاکھ 81 ہزار 447 میٹرک ٹن کی برآمد سے محض 7 کروڑ6 لاکھ 57 ہزار ڈالر ہی وطن لا سکے۔ اس کے بعد ہم اس سے بھی گئے۔


ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک وقت چینی کی فی کلو قیمت 160 روپے تک جا پہنچی تھی۔ سابقہ حکومت نے مداخلت کی۔

اعلیٰ سطح سے اپیل کی گئی کہ چینی فی کلو 70 روپے تک رکھی جائے لیکن مصنوعی قلت پیدا کرکے چند ہفتوں میں ہی مافیاز نے پاکستانیوں کی جیبوں سے اربوں روپے اڑا لیے۔ مل مالکان کا حال ہی میں چینی برآمد کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ چینی کی نہ قلت پیدا ہوگی نہ ہی قیمت بڑھے گی لیکن آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہوگی کہ چینی کی حالیہ قیمت سے مل اونرز خوش نہیں ہیں کہ قیمت کم ہے اور عوام بھی ناخوش ہیں کہ قیمت زیادہ ہے۔

البتہ مافیاز خوش ہیں کہ وہ اپنا ذخیرہ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں ،کیونکہ قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیداوار میں کمی کا بھی امکان ہے کیونکہ سندھ کے بیشتر علاقوں میں گنے کی فصل تباہ ہو چکی ہے اور جہاں کہیں گنے کی فصل تیار بھی ہے تو وقت تحریر تک گنے کی امدادی قیمت کا اعلان نہ ہو سکا لہٰذا سندھ کے آبادگار پریشان ہیں اور وہ گزشتہ برس والی قیمت پر گنا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

حالانکہ گزشتہ برس کے مقابلے میں صرف ٹرانسپورٹرز کے کرایوں کو مدنظر رکھا جائے تو ہر کوئی اس بات کی خبر رکھتا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت کرایوں میں 30 تا 40 فی صد اضافہ ہو چکا ہے اس وقت سندھ میں گنے کی فصل میں سے جو تھوڑی بہت بچی ہے وہ حکومت سندھ کے گزشتہ برس والی قیمت 250 روپے فی من کی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انتظار میں تاخیر اور تاخیر سے گنے کا سوکھنا اور گنا سوکھتے ہی بتدریج وزن میں کمی آنا شروع ہو کر بالآخرکم معاوضے کا ملنا کسان کو شدید نقصان سے دوچار کردے گا۔ واضح رہے کہ سندھ میں گنے کی فصل پنجاب کی نسبت جلد کاٹ لی جاتی ہے اور ملکوں میں بھی کرشنگ کا آغاز جلد ہو جاتا ہے۔

گزشتہ برس 8 ملین ٹن چینی کی پیداوار ہوئی تھی۔ اس سال پنجاب میں گنے کی قیمت میں 35فیصد اضافہ ہونے سے چینی کی قیمت میں اضافے کو یقینی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں چینی کا استعمال 6.8 ملین ٹن تک لگایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ12 لاکھ ٹن چینی کا اسٹاک موجود ہے لہٰذا چینی کی قلت کو خارج ازامکان کیا جا رہا ہے۔

لہٰذا چینی کی برآمد کرکے کرشنگ سیزن کا آغاز کیا جائے ، اگر تاخیر ہوئی تو ایسی صورت میں کسانوں کا زیادہ نقصان اس طرح ہوگا کہ ان کا گنا سوکھنا شروع ہوجائے گا۔

پہلے ہی مل والوں کی طرف سے ایسا عجیب سسٹم ہے کہ گنا ٹرالیوں میں، ٹرکوں میں اور دیگر مال برداری کے ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے گنے کو فیکٹری ایریا تک لے کر آتے ہیں اور کئی روز کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پھر ادائیگی میں بھی تاخیر برداشت کرنا پڑتی ہے بہرحال کسان ہر حال میں پریشان، مفلوک الحال اور مالی نقصان کا شکار رہتا ہے اور مل اونرز کو مختلف مواقع ملتے ہی رہتے ہیں جس سے وہ اپنی تجوریوں کو بار بار بھرتے رہتے ہیں حکومت صرف اتنا کر لے کہ برآمد کی اجازت کے ساتھ ساتھ اس جانب ہر طرح سے باخبر ہوجائے کہ اب تک کتنی چینی ذخیرہ ہوچکی ہے اور مزید کتنی زیادہ ذخیرہ کرنے کے بارے میں تمام تر انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

عموماً یہی ہوتا ہے کہ یکایک چینی کی قلت پیدا کرکے فی کلو قیمت 140 روپے یا 150 یا 170 روپے تک لے جانے کے بعد اربوں روپے کما لینے کے بعد موجودہ قیمت سے زائد قیمت جو 110 روپے یا 115 روپے بھی ہو سکتی ہے یا زائد یا کم وہاں تک لانے کے بعد چینی کی رسد و طلب کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ذخیرہ گاہوں سے چینی باہر نکال کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرکے جب اربوں روپے عوام کی جیب سے نکل جاتے ہیں تو نئی قیمت مستحکم ہو جاتی ہے۔

سابقہ حکومت کو یہ تلخ تجربہ ہو چکا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت چینی کی قیمت پر جنوری تک گہری نظر رکھے تاکہ قیمت مستحکم رہے ، کیونکہ چینی غریب امیر سب کا پسندیدہ کھاجا ہے جس کے بغیر گزارا بھی نہیں ہے۔
Load Next Story