پاکستان اور ترکیہ… ترقی کی دوڑ میں اتحادی
پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں
پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف ترکیہ کے دورے پر ہیں، اس کی دعوت ترکیہ کے صدر رجب طیب ادوان نے دی تھی۔
وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ روز استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب میں شرکت کی اور یہاں خطاب بھی کیا۔ بعدازاں وزیراعظم پاکستان اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کی۔
اس موقع پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ یک جان دو قالب اور مثالی برادر ملک ہیں۔ پاکستان ترکیہ کے ساتھ دوطرفہ تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی پاکستان اور ترکیہ متحد ہیں، پاکستان اور ترکیہ نے ہمیشہ ہر مشکل میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان پہنچا، اس حوالے سے بھی ترکیہ نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، ہم نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی ہے، پاک ترک میلجم منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ دفاعی تعاون پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کا بنیادی ستون ہے، پاکستان اور ترکیہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہیں، ترکیہ کے صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی پر گامزن ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ہرممکن مدد کریں گے، دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان اور ترکیہ عالمی فورمز میں یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ اگرآپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جنگ کی تیاری رکھنا ہو گی۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکیہ کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کے حوالے سے آج ایک اور عظیم دن ہے کیونکہ ہم پاک بحریہ کے لیے دوسرے میلجم کارویٹ خیبر کا افتتاح کر رہے ہیں۔ یہ تاریخی موقع ہمیں 1920 میں لے گیا ہے جب ترکیہ میں ہمارے بھائی اور بہن آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ برصغیر کے مسلمان ان کے حق میں مہم چلا رہے تھے اور ترک بہن بھائیوں کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہمارے تعلقات کی تاریخ مضبوط ہوتی گئی ہے۔ اپنے ترک بہن بھائیوں کے لیے جو بھی ہمدردانہ تعاون کیا گیا اس کو نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ترکیہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ترکیہ زلزلے اور سیلاب کے دوران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ ترکیہ نے ہر عالمی فورم پر کشمیر سمیت تمام معاملات میں پاکستان کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان اور ترکیہ دفاعی صلاحیت کے فروغ کے لیے وسیع بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ منصوبہ بھی جارحیت کے لیے نہیں بلکہ دفاع کے لیے ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آج دنیا میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع نے دنیا میں کئی قسم کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ روس اور یوکرائن سے گندم کی درآمد کے معاملے میں صدر اردوان کا کردارقابل ستائش ہے کیونکہ انھی کوششوں کی وجہ سے یوکرین سے گندم کی درآمد ہوئی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بڑے بحران سے بچ گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کا ہمارا درآمدی بل گزشتہ برس کے دوران 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ وزیراعظم نے ترک سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ صدر اردوان کو تجویز دینا چاہتے ہیں کہ آئیں مل کر کاربن کے اخراج کو روکیں اور ان شعبوں میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کریں۔
پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ کے تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ماضی میں آر سی ڈی منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، ایران اور ترکی کو ون بیلٹ ون روڈ کے پیٹرن پر اکٹھا کرنے کا منصوبہ تھا لیکن باوجوہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ سرد جنگ کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی رہے لیکن دونوں ملکوں کی قیادت کی ترجیحات میں فرق آ گیا۔
ادھر افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور اس انقلاب کو بچانے کے لیے سابق سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ پاکستان چونکہ اس انقلاب سے متاثر ہو سکتا تھا، اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساری توجہ افغانستان کی جانب مرکوز کر دی اور امریکا اور نیٹو کیمپ میں رہ کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔ اسی دوران ایران میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت ختم ہو گئی اور وہاں آیت اللہ خمینی کی رہنمائی میں انقلابی حکومت قائم ہو گئی۔
جمہوریہ ترکیہ بھی سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار ہو گیا، ان حالات میں آر سی ڈی کا منصوبہ کہیں بیچ میں ہی رہ گیا۔ اب چونکہ عالمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں، ان دونوں کی ترجیحات اور اہداف بھی مشترکہ ہیں، اس لیے حالیہ برسوں میں پاکستان اور ترکی کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
ترکیہ نے کشمیر کے تنازع پر جس طرح کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، کسی دوسرے مسلم ملک نے اتنی دلیری کے ساتھ بات نہیں کی ہے۔ پاکستان میں ترکیہ کے سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مزید سرمایہ کاری بھی آ رہی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد ترکیہ میں کاروبار کر رہی ہے اور وہاں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو وسط ایشیا اور پورے جنوبی ایشیا کے ساتھ پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی تنازع پیدا نہیں ہوا، بانی ترکیہ مصطفی کمال پاشا اور ان کے نظریے کی حامل حکومتیں ہوں یا اسلامی مائنڈسیٹ رکھنے والی حکومتیں ہوں، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا ہے۔
آج بھی پاکستان اور ترکیہ مختلف عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ ترکیہ کے یورپ کے ساتھ معاملات ہوں، شام کا تنازع ہو یا اسرائیل کے ساتھ معاملات ہوں، نیٹو کے ساتھ کوئی ایشو ہو، پاکستان نے ہمیشہ ترکیہ کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ اسی طرح ترکیہ نے بھی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان اور اس کے عوام کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ترقی کے لیے وسائل موجود ہیں۔
دونوں ملک سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی دیگر مسلم ملکوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں جمہوریت قائم ہے، اس لیے اگر پاکستان اور ترکیہ تعمیر وترقی کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کریں اور اس پر عمل درآمد کا شفاف نظام بنائیں تو دونوں ملک آنے والے چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
اس وقت دونوں ملکوں کے لیے عالمی حالات بھی سازگار ہیں، امریکا، مغربی یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، چین اور جنوبی کوریا بھی دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ایسے حالات سے دونوں ملکوں کو خصوصاً پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو اس وقت سیاسی استحکام اور سرمائے کی اشد ضرورت ہے۔
ترکی اور عرب ممالک سرمائے کی کمی کی ضرورت کو پورا کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو جائے تو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہوتے چلے جائیں گے اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی۔ پاکستان کو ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بھی بننا چاہیے۔
پاکستان کے پاس تاریخ بھی موجود ہے اور تاریخی آثار بھی موجود ہیں۔ ان مقامات کے تحفظ کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ روڈ انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دی جائے، سیاحوں کے لیے سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس حوالے سے بے جا قسم کی پابندیاں اٹھا لی جائیں تو پاکستان سیاحت کے شعبے سے بھی اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔
اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش سیاحت سے بھاری زرمبادلہ کما رہے ہیں اور ان کی حکومتیں سیاحت کو مزید پرکشش، کم خرچ، آرام دہ بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ روز استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب میں شرکت کی اور یہاں خطاب بھی کیا۔ بعدازاں وزیراعظم پاکستان اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کی۔
اس موقع پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ یک جان دو قالب اور مثالی برادر ملک ہیں۔ پاکستان ترکیہ کے ساتھ دوطرفہ تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی پاکستان اور ترکیہ متحد ہیں، پاکستان اور ترکیہ نے ہمیشہ ہر مشکل میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان پہنچا، اس حوالے سے بھی ترکیہ نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، ہم نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی ہے، پاک ترک میلجم منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ دفاعی تعاون پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کا بنیادی ستون ہے، پاکستان اور ترکیہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہیں، ترکیہ کے صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی پر گامزن ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ہرممکن مدد کریں گے، دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان اور ترکیہ عالمی فورمز میں یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے چار میلجم کارویٹ جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کی لانچنگ تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ اگرآپ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جنگ کی تیاری رکھنا ہو گی۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکیہ کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کے حوالے سے آج ایک اور عظیم دن ہے کیونکہ ہم پاک بحریہ کے لیے دوسرے میلجم کارویٹ خیبر کا افتتاح کر رہے ہیں۔ یہ تاریخی موقع ہمیں 1920 میں لے گیا ہے جب ترکیہ میں ہمارے بھائی اور بہن آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ برصغیر کے مسلمان ان کے حق میں مہم چلا رہے تھے اور ترک بہن بھائیوں کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ہمارے تعلقات کی تاریخ مضبوط ہوتی گئی ہے۔ اپنے ترک بہن بھائیوں کے لیے جو بھی ہمدردانہ تعاون کیا گیا اس کو نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ترکیہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ترکیہ زلزلے اور سیلاب کے دوران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ ترکیہ نے ہر عالمی فورم پر کشمیر سمیت تمام معاملات میں پاکستان کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان اور ترکیہ دفاعی صلاحیت کے فروغ کے لیے وسیع بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ منصوبہ بھی جارحیت کے لیے نہیں بلکہ دفاع کے لیے ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آج دنیا میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع نے دنیا میں کئی قسم کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ روس اور یوکرائن سے گندم کی درآمد کے معاملے میں صدر اردوان کا کردارقابل ستائش ہے کیونکہ انھی کوششوں کی وجہ سے یوکرین سے گندم کی درآمد ہوئی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بڑے بحران سے بچ گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کا ہمارا درآمدی بل گزشتہ برس کے دوران 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ وزیراعظم نے ترک سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ صدر اردوان کو تجویز دینا چاہتے ہیں کہ آئیں مل کر کاربن کے اخراج کو روکیں اور ان شعبوں میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کریں۔
پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ کے تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ماضی میں آر سی ڈی منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، ایران اور ترکی کو ون بیلٹ ون روڈ کے پیٹرن پر اکٹھا کرنے کا منصوبہ تھا لیکن باوجوہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ سرد جنگ کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی رہے لیکن دونوں ملکوں کی قیادت کی ترجیحات میں فرق آ گیا۔
ادھر افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور اس انقلاب کو بچانے کے لیے سابق سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ پاکستان چونکہ اس انقلاب سے متاثر ہو سکتا تھا، اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساری توجہ افغانستان کی جانب مرکوز کر دی اور امریکا اور نیٹو کیمپ میں رہ کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔ اسی دوران ایران میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت ختم ہو گئی اور وہاں آیت اللہ خمینی کی رہنمائی میں انقلابی حکومت قائم ہو گئی۔
جمہوریہ ترکیہ بھی سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار ہو گیا، ان حالات میں آر سی ڈی کا منصوبہ کہیں بیچ میں ہی رہ گیا۔ اب چونکہ عالمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں، ان دونوں کی ترجیحات اور اہداف بھی مشترکہ ہیں، اس لیے حالیہ برسوں میں پاکستان اور ترکی کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
ترکیہ نے کشمیر کے تنازع پر جس طرح کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، کسی دوسرے مسلم ملک نے اتنی دلیری کے ساتھ بات نہیں کی ہے۔ پاکستان میں ترکیہ کے سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مزید سرمایہ کاری بھی آ رہی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد ترکیہ میں کاروبار کر رہی ہے اور وہاں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو وسط ایشیا اور پورے جنوبی ایشیا کے ساتھ پاکستان اور ترکیہ تاریخی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی تنازع پیدا نہیں ہوا، بانی ترکیہ مصطفی کمال پاشا اور ان کے نظریے کی حامل حکومتیں ہوں یا اسلامی مائنڈسیٹ رکھنے والی حکومتیں ہوں، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا ہے۔
آج بھی پاکستان اور ترکیہ مختلف عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ ترکیہ کے یورپ کے ساتھ معاملات ہوں، شام کا تنازع ہو یا اسرائیل کے ساتھ معاملات ہوں، نیٹو کے ساتھ کوئی ایشو ہو، پاکستان نے ہمیشہ ترکیہ کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ اسی طرح ترکیہ نے بھی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان اور اس کے عوام کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ترقی کے لیے وسائل موجود ہیں۔
دونوں ملک سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی دیگر مسلم ملکوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں جمہوریت قائم ہے، اس لیے اگر پاکستان اور ترکیہ تعمیر وترقی کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کریں اور اس پر عمل درآمد کا شفاف نظام بنائیں تو دونوں ملک آنے والے چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
اس وقت دونوں ملکوں کے لیے عالمی حالات بھی سازگار ہیں، امریکا، مغربی یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، چین اور جنوبی کوریا بھی دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ایسے حالات سے دونوں ملکوں کو خصوصاً پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو اس وقت سیاسی استحکام اور سرمائے کی اشد ضرورت ہے۔
ترکی اور عرب ممالک سرمائے کی کمی کی ضرورت کو پورا کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو جائے تو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہوتے چلے جائیں گے اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی۔ پاکستان کو ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بھی بننا چاہیے۔
پاکستان کے پاس تاریخ بھی موجود ہے اور تاریخی آثار بھی موجود ہیں۔ ان مقامات کے تحفظ کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ روڈ انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دی جائے، سیاحوں کے لیے سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس حوالے سے بے جا قسم کی پابندیاں اٹھا لی جائیں تو پاکستان سیاحت کے شعبے سے بھی اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔
اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش سیاحت سے بھاری زرمبادلہ کما رہے ہیں اور ان کی حکومتیں سیاحت کو مزید پرکشش، کم خرچ، آرام دہ بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔