پاک افغان تعلقات مستقبل کے آئینے میں
افغانستان میں مکمل امن اور ریڈیکل نظریات کا خاتمہ صرف اور صرف معاشی مشکلات کے خاتمے کی صورت ممکن ہے
افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد امید تھی کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے گی۔ مغربی بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد دہشت گردوں کی آمدو رفت کا راستہ بھی مسدود ہو جائے گا۔
گزشتہ کچھ روز کے دوران پاک افغان بارڈر پر دوطرفہ جھڑپوں اور باڑ اکھاڑنے کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ صورتحال اتنی آسان نہیں ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے لگی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے بڑے شہروں سمیت خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں طالبان کی واپسی کے خلاف سوات سمیت خیبر پختو نخوا کے دیگر علاقوں میں بہت بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔
افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد عام خیال یہ تھا کہ طالبان حکومت دہشت گرد گروپوں کے خلاف پاکستان کی مدد کرے گی۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کروانے کی حد تک تو پاکستان کی مدد کی اور مذاکرات کے دوران کافی عرصے تک پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین سیز فائر بھی رہا، لیکن طالبان حکومت نے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کسی بھی طرح کی ٹھوس کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے طالبان نے دنیا بھر سے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے نہیں دیا جائے گا۔ طالبان نے افغان سرزمین کو بجائے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کے اقدامات کے جیلوں سے ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو رہا کردیا۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات اب دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں۔
افغان سرزمین سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر دہشت گرد حملوں اور سابق قبائلی علاقوں سمیت خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے شدت پسند عناصر کی واپسی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن سے گریزاں ہے۔ ہوسکتا ہے طالبان حکومت کو یہ خدشہ ہو کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی تو ٹی ٹی پی کے جنگجو داعش یا دیگر طالبان مخالف گروپس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود طالبان حکومت کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکا نے افغانستان کے منجمد 7 ارب ڈالر کے اثاثوں کی واپسی کے لیے ایک مرتبہ پھر تمام طبقات پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل ، انسانی حقوق کی پاسداری اور خواتین کی تعلیم اور روزگار پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زائد کا عرصے ہوگیا ہے اور اس دوران طالبان انتظامیہ کی طرف سے ایسے اقدامات کیے گئے جن کے تحت نہ صرف خواتین کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں ، بلکہ افغان معاشرے میں ان کی آزادانہ نقل و حرکت بھی مشکل ہو گئی۔ دوسری جانب نوجوان لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی ملک کے اکثر علاقوں میں معطل ہے۔
طالبان کا موقف ہے کہ ان کی عبوری حکومت میں تمام افغان نسلی اور دیگر سیاسی گروہوں کی نمایندگی ہے اور افغان خواتین کو ملک کے رسم و رواج کے مطابق تمام حقوق حاصل ہیں ، لیکن بین الاقوامی برادری اور خطے کے دیگر ممالک طالبان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
طالبان نے گزشتہ سال اگست میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ ان کی پالیسی ماضی کے مقابلے میں مختلف ہوگی، لیکن خواتین کی سماجی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے متعلق طالبان حکومت کے بعض اقدامات اور لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہ دینا اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان فی الحال اپنی پالیسیوں میں نرمی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
طالبان حکومت کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت افغان خواتین ، نوجوان اور بچے چکا رہے ہیں۔ ایک جانب خواتین پر روزگار اور تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے۔
دوسری جانب عالمی تنہائی اور سخت پابندیوں کی بدولت بدترین معاشی بحران کی وجہ سے خوراک اور ادویات کی قلت اور نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامنا۔
یہ حقیقت ہے کہ بھوک، غربت، افلاس اور بے روزگاری کا شدت پسند نظریات سے براہ راست تعلق ہے۔افغانستان میں مکمل امن اور ریڈیکل نظریات کا خاتمہ صرف اور صرف معاشی مشکلات کے خاتمے کی صورت ممکن ہے۔
چین اور روس نہ صرف براہ راست سرمایہ کاری کی صورت میں افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں بلکہ سفارتی اور سیاسی کوششوں سے طالبان حکومت کی عالمی تنہائی کے خاتمے اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کی واپسی کے لیے امریکی اور یورپی ممالک کو رضا مند کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن جب تک طالبان حکومت اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور روزگار کے مواقعوں پر لگائی پابندیوں کو واپس نہیں لیتی۔ تب تک دنیا طالبان حکومت کے اقدامات اور وعدوں کو سنجیدہ نہیں لے گی۔
طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کی تقدیر دو طرفہ تاریخی ، مذہبی اور ثقافتی تعلقات کی صورت باہم منسلک ہے ، جیسے غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں نہیں بالکل اسی طرح پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات اور سرحد پار سے سیکیورٹی فورسز پر دہشت گرد حملے باہمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماضی کے برعکس اکیسویں صدی کی دنیا اظہار رائے پر پابندیوں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ عالمی سطح پر قبولیت اور سفارتی تنہائی کے خاتمے کے لیے طالبان حکومت کو سیاسی اور سماجی پابندیوں میں نرمی برتتے ہوئے بالغ نظری کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا۔
گزشتہ کچھ روز کے دوران پاک افغان بارڈر پر دوطرفہ جھڑپوں اور باڑ اکھاڑنے کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ صورتحال اتنی آسان نہیں ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے لگی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے بڑے شہروں سمیت خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں طالبان کی واپسی کے خلاف سوات سمیت خیبر پختو نخوا کے دیگر علاقوں میں بہت بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔
افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد عام خیال یہ تھا کہ طالبان حکومت دہشت گرد گروپوں کے خلاف پاکستان کی مدد کرے گی۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کروانے کی حد تک تو پاکستان کی مدد کی اور مذاکرات کے دوران کافی عرصے تک پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین سیز فائر بھی رہا، لیکن طالبان حکومت نے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف کسی بھی طرح کی ٹھوس کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے طالبان نے دنیا بھر سے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے نہیں دیا جائے گا۔ طالبان نے افغان سرزمین کو بجائے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کے اقدامات کے جیلوں سے ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو رہا کردیا۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات اب دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں۔
افغان سرزمین سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر دہشت گرد حملوں اور سابق قبائلی علاقوں سمیت خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے شدت پسند عناصر کی واپسی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن سے گریزاں ہے۔ ہوسکتا ہے طالبان حکومت کو یہ خدشہ ہو کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی تو ٹی ٹی پی کے جنگجو داعش یا دیگر طالبان مخالف گروپس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود طالبان حکومت کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکا نے افغانستان کے منجمد 7 ارب ڈالر کے اثاثوں کی واپسی کے لیے ایک مرتبہ پھر تمام طبقات پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل ، انسانی حقوق کی پاسداری اور خواتین کی تعلیم اور روزگار پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زائد کا عرصے ہوگیا ہے اور اس دوران طالبان انتظامیہ کی طرف سے ایسے اقدامات کیے گئے جن کے تحت نہ صرف خواتین کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں ، بلکہ افغان معاشرے میں ان کی آزادانہ نقل و حرکت بھی مشکل ہو گئی۔ دوسری جانب نوجوان لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی ملک کے اکثر علاقوں میں معطل ہے۔
طالبان کا موقف ہے کہ ان کی عبوری حکومت میں تمام افغان نسلی اور دیگر سیاسی گروہوں کی نمایندگی ہے اور افغان خواتین کو ملک کے رسم و رواج کے مطابق تمام حقوق حاصل ہیں ، لیکن بین الاقوامی برادری اور خطے کے دیگر ممالک طالبان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
طالبان نے گزشتہ سال اگست میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ ان کی پالیسی ماضی کے مقابلے میں مختلف ہوگی، لیکن خواتین کی سماجی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے متعلق طالبان حکومت کے بعض اقدامات اور لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہ دینا اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان فی الحال اپنی پالیسیوں میں نرمی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
طالبان حکومت کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت افغان خواتین ، نوجوان اور بچے چکا رہے ہیں۔ ایک جانب خواتین پر روزگار اور تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے۔
دوسری جانب عالمی تنہائی اور سخت پابندیوں کی بدولت بدترین معاشی بحران کی وجہ سے خوراک اور ادویات کی قلت اور نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامنا۔
یہ حقیقت ہے کہ بھوک، غربت، افلاس اور بے روزگاری کا شدت پسند نظریات سے براہ راست تعلق ہے۔افغانستان میں مکمل امن اور ریڈیکل نظریات کا خاتمہ صرف اور صرف معاشی مشکلات کے خاتمے کی صورت ممکن ہے۔
چین اور روس نہ صرف براہ راست سرمایہ کاری کی صورت میں افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں بلکہ سفارتی اور سیاسی کوششوں سے طالبان حکومت کی عالمی تنہائی کے خاتمے اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کی واپسی کے لیے امریکی اور یورپی ممالک کو رضا مند کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن جب تک طالبان حکومت اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور روزگار کے مواقعوں پر لگائی پابندیوں کو واپس نہیں لیتی۔ تب تک دنیا طالبان حکومت کے اقدامات اور وعدوں کو سنجیدہ نہیں لے گی۔
طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کی تقدیر دو طرفہ تاریخی ، مذہبی اور ثقافتی تعلقات کی صورت باہم منسلک ہے ، جیسے غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں نہیں بالکل اسی طرح پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات اور سرحد پار سے سیکیورٹی فورسز پر دہشت گرد حملے باہمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماضی کے برعکس اکیسویں صدی کی دنیا اظہار رائے پر پابندیوں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ عالمی سطح پر قبولیت اور سفارتی تنہائی کے خاتمے کے لیے طالبان حکومت کو سیاسی اور سماجی پابندیوں میں نرمی برتتے ہوئے بالغ نظری کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا۔