سلاسلِ تصوف
یہ کتاب تصوف پر ایک مبسوط اور جامع تصنیف ہے اور صوفیہ کے لیے دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے
ڈاکٹر نفیس اقبال اپنی کتاب '' سلاسلِ تصوف '' کی ابتدا اس سوال سے کرتی ہیں '' کسی سلسلہ میں بیعت کی کیا ضرورت ہے؟''
اس سوال کا جواب مولانا روم یہ دیتے ہیں '' اگر خدا کی ہم نشینی اختیار کرنے کی خواہش ہے تو اولیا اللہ کی صحبت اختیار کرو۔'' ان کے اس جواب سے بیعت اور مرشد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور سلاسل کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' طریقت کے تمام سلسلوں کا آغاز حضرت علیؓ سے ہوتا ہے، سوائے سلسلہ نقشبندیہ کے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شروع ہوتا ہے۔ سلاسل کی تعداد تو سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔
ہندوستان میں زیادہ شہرت حاصل کرنے والے سلسلے چار ہیں۔ قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ۔ ہر سلسلے کا اپنا ایک فکری نظام ہوتا ہے۔ اس فکری نظام کی تکمیل کے لیے خانقاہی نظام وجود میں آیا کیونکہ ہر سلسلے میں تعلیم و تربیت، بیعت و ارادت اور معاشرتی زندگی کے طور طریقے دوسرے سلسلے سے کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور مختلف ہوتے ہیں۔ سلسلے سے وابستہ ہر مرید کو اس نظام تربیت سے آگاہ ہونے کے لیے اپنے شیخ طریقت کی نگرانی میں خانقاہ میں قیام لازمی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' بارہویں صدی عیسوی کو اسلامی تصوف کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس صدی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت زبوں تھی۔ سیاسی ، سماجی ، صنعتی انتشار کے ساتھ اخلاقی زوال ساری منزلیں طے کرچکا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اس زمانے کے صوفیا نے مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو دور کرنے کے لیے سلاسل کی تنظیم شروع کی اور اخلاقی تعلیم کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد قرار دیا۔
امام غزالیؒ نے علمی حیثیت سے تصوف کو فن کا درجہ دیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے عملی اعتبار سے تصوف میں جان ڈال دی۔ اخلاقی تعلیم نے مسلمانوں میں اپنی اخلاقی اور دینی حالت درست کر لینے کا احساس پیدا کیا اور ان کے ایمان و عمل کی قوتیں بیدار کردیں۔ سلاسل سے وابستہ صوفیا نے بھی منظم اور موثر طریقے پر کام کرنے کے لیے اپنا اپنا دائرہ عمل واضح اور متعین کر لیا۔
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ'' سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام کی نسبت سے سلسلۂ قادریہ کا اجرا ہوا اور یہ سلسلہ آپ کے فیض سے ساری دنیا میں پھیل گیا۔ حضرت کی ذات میں عالم اور صوفی جمع ہوگئے اور یہ سلسلہ لاکھوں انسانوں کے مردہ دلوں کو حیات جاوداں عطا کرنے اور احیائے اسلام و اصلاح معاشرہ کی ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔''
ڈاکٹر اقبال لکھتی ہیں '' قادریہ سلسلہ میں بھوک ، خاموشی ، بیداری ، تنہائی اور یاد الٰہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ خدمت خلق قادریہ سلسلے کی خصوصیت ہے ، اس لیے حقوق العباد پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ قادریہ سلسلے کے بنیادی اصول تین ہیں۔ اطاعت اللہ ، اطاعت رسول ؐ، خدمت خلق۔ سلسلہ قادریہ میں مراقبے کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔''
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی شخصیت اور تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' آپ کے وعظوں میں تاثیر کی وجہ آپ کا اخلاق تھا ، وہ جاہ و جلال کے ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرتے تھے لیکن کسی امیر کے لیے کبھی کھڑے نہ ہوتے۔ اپنی تمام حاجتیں خدا ہی کو سونپنے کی تعلیم دیتے۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی تلقین فرماتے۔ آپ نے دینی اور قرآنی بصیرت کی روشنی میں شریعت اور طریقت کے مابین ایک خاص توازن پیدا کرنے کی کوشش کی اور عقل کو وحی کے تابع رکھنے کی تعلیم دی۔
سلسلہ نقشبندیہ کے بارے میں ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' یہ ایک قدیم صوفیانہ سلسلہ ہے۔ اس کے بانی خواجہ محمد بہاؤ الدین نقشبندی بخارا میں پیدا ہوئے۔ اس صوفی سلسلے نے وسط ایشیا میں جڑ پکڑی اور پھر ترکستان ، شام ، افغانستان اور برصغیر ہند و پاک میں پھیل گیا۔
وسط ایشیا میں تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف شہروں بلکہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی نقشبندی خانقاہیں اور تکیے موجود تھے۔ برصغیر میں یہ سلسلہ سولہویں صدی میں پہنچا اور یہاں سے اس کے روحانی سفر میں پہلے خواجہ باقی باللہؒ اور پھر ان کے مرید شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور ہیں، زیر قیادت نئے ولولے سے نئی منزلیں طے کرنا شروع کردیں۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال سلسلہ نقشبندیہ کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ '' ان میں شریعت کی سختی سے پابندی ، حب الٰہی اور حب رسولؐ کے ساتھ آپؐ کی پیروی، رزق حلال کے حصول کی تلقین اور خدمت خلق کی بنیادی اہمیت ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ ایک کامل سلسلہ ہے جس کا مقصد دین کی نصرت اور غلبہ ہے۔ ''
صوفی سلسلہ چشتیہ کے بارے میں ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' چشت خراسان کے ایک شہر کا نام ہے جہاں بزرگانِ دین روحانی اصلاح و تربیت کی خدمات انجام دیتے تھے۔ ایک بزرگ خواجہ ابو اسحاق شامی تھے جن کی پرخلوص جدوجہد سے چشت میں اس روحانی سلسلہ کی داغ بیل پڑی اور یہ اس روحانی نظام کا مرکز بنا۔
چشتیہ سلسلہ کو شہرت اور دوام برصغیر میں حاصل ہوا اور یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ذریعے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ خواجہ صاحب پندرہ سال کی عمر میں عثمان ہارونیؒ کے مرید ہوئے، بیس سال اپنے مرشد کے ساتھ سفر میں رہے، پھر بغداد آگئے اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر عراق سے ایران پہنچے اور پھر افغانستان۔ غزنی میں اپنے مرشد، عثمان ہارونیؒ سے دوبارہ ملاقات ہوئی جنھوں نے انھیں ہندوستان جانے کی ہدایت کی۔ چنانچہ وہ لاہور پہنچے، داتا گنج بخشؒ کے دربار میں چلہ کشی کی اور پھر دلی ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' خواجہ معین الدین چشتی کی کوششوں سے اجمیر کو ایک اسلامی اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔ خواجہ صاحب کے مریدوں میں قطب الدین بختیار کاکیؒ کا نام نمایاں ہے۔ دہلی میں چشتیہ سلسلہ کا مرکز قطب الدین کاکی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ حضرت کے بہت سے خلفا تھے لیکن چشتیہ سلسلہ کے زیادہ کام بابا فریدؒ اور شیخ بدر الدین غزنوی نے انجام دیا۔''
ڈاکٹر نفیس لکھتی ہیں ''ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی داغ بیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے ہاتھوں پڑی، حضرت بابا فرید شکر گنجؒ نے اسے منظم کیا اور حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ نے اسے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ نصف صدی سے زیادہ دہلی میں ان کی خانقاہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنی رہی۔ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوتے اور عشق الٰہی کی تپش اور خدمت خلق کا جذبہ لے کر واپس جاتے تھے۔
حضرت شیخ نظام الدین اولیا کی وجہ سے دہلی علم و عقل اور عشق کا دبستان بن گیا۔ اس دبستان میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی معنویت کا احساس بیدار کیا جاتا تھا ، معاشرے کی اصلاح کا کام ہوتا تھا۔''چوتھا صوفی سلسلہ جس کا ذکر ڈاکٹر نفیس اقبال نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے سلسلہ سہروردیہ ہے۔ اس سلسلے کی بنیاد حضرت شیخ ابوالنجیب عبدالقاہر سہروردی نے رکھی۔
انھوں نے شیخ احمد غزالی اور غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؒ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ان کے بھتیجے، شیخ شہاب الدین عمر سہروردی نے اس سلسلے کو رائج کیا اور اپنے خلفا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ڈاکٹر نفیس لکھتی ہیں کہ '' شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنی تعلیمات اپنی کتاب ''عوارف المعارف'' میں بیان کردی ہیں۔
یہ کتاب تصوف پر ایک مبسوط اور جامع تصنیف ہے اور صوفیہ کے لیے دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں صوفیہ کو روحانی منازل طے کرنے کی ہر چیز سمجھائی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' سہروردیہ سلسلہ کو ہندوستان میں پھیلانے کا شرف حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریا ملتانی کو حاصل ہوا۔ انھوں نے ملتان اور دیگر مقامات پر سہروردیہ سلسلہ کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔''
اس سوال کا جواب مولانا روم یہ دیتے ہیں '' اگر خدا کی ہم نشینی اختیار کرنے کی خواہش ہے تو اولیا اللہ کی صحبت اختیار کرو۔'' ان کے اس جواب سے بیعت اور مرشد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور سلاسل کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' طریقت کے تمام سلسلوں کا آغاز حضرت علیؓ سے ہوتا ہے، سوائے سلسلہ نقشبندیہ کے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شروع ہوتا ہے۔ سلاسل کی تعداد تو سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔
ہندوستان میں زیادہ شہرت حاصل کرنے والے سلسلے چار ہیں۔ قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ۔ ہر سلسلے کا اپنا ایک فکری نظام ہوتا ہے۔ اس فکری نظام کی تکمیل کے لیے خانقاہی نظام وجود میں آیا کیونکہ ہر سلسلے میں تعلیم و تربیت، بیعت و ارادت اور معاشرتی زندگی کے طور طریقے دوسرے سلسلے سے کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور مختلف ہوتے ہیں۔ سلسلے سے وابستہ ہر مرید کو اس نظام تربیت سے آگاہ ہونے کے لیے اپنے شیخ طریقت کی نگرانی میں خانقاہ میں قیام لازمی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' بارہویں صدی عیسوی کو اسلامی تصوف کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس صدی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت زبوں تھی۔ سیاسی ، سماجی ، صنعتی انتشار کے ساتھ اخلاقی زوال ساری منزلیں طے کرچکا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اس زمانے کے صوفیا نے مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو دور کرنے کے لیے سلاسل کی تنظیم شروع کی اور اخلاقی تعلیم کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد قرار دیا۔
امام غزالیؒ نے علمی حیثیت سے تصوف کو فن کا درجہ دیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے عملی اعتبار سے تصوف میں جان ڈال دی۔ اخلاقی تعلیم نے مسلمانوں میں اپنی اخلاقی اور دینی حالت درست کر لینے کا احساس پیدا کیا اور ان کے ایمان و عمل کی قوتیں بیدار کردیں۔ سلاسل سے وابستہ صوفیا نے بھی منظم اور موثر طریقے پر کام کرنے کے لیے اپنا اپنا دائرہ عمل واضح اور متعین کر لیا۔
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ'' سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام کی نسبت سے سلسلۂ قادریہ کا اجرا ہوا اور یہ سلسلہ آپ کے فیض سے ساری دنیا میں پھیل گیا۔ حضرت کی ذات میں عالم اور صوفی جمع ہوگئے اور یہ سلسلہ لاکھوں انسانوں کے مردہ دلوں کو حیات جاوداں عطا کرنے اور احیائے اسلام و اصلاح معاشرہ کی ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔''
ڈاکٹر اقبال لکھتی ہیں '' قادریہ سلسلہ میں بھوک ، خاموشی ، بیداری ، تنہائی اور یاد الٰہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ خدمت خلق قادریہ سلسلے کی خصوصیت ہے ، اس لیے حقوق العباد پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ قادریہ سلسلے کے بنیادی اصول تین ہیں۔ اطاعت اللہ ، اطاعت رسول ؐ، خدمت خلق۔ سلسلہ قادریہ میں مراقبے کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔''
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی شخصیت اور تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' آپ کے وعظوں میں تاثیر کی وجہ آپ کا اخلاق تھا ، وہ جاہ و جلال کے ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرتے تھے لیکن کسی امیر کے لیے کبھی کھڑے نہ ہوتے۔ اپنی تمام حاجتیں خدا ہی کو سونپنے کی تعلیم دیتے۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی تلقین فرماتے۔ آپ نے دینی اور قرآنی بصیرت کی روشنی میں شریعت اور طریقت کے مابین ایک خاص توازن پیدا کرنے کی کوشش کی اور عقل کو وحی کے تابع رکھنے کی تعلیم دی۔
سلسلہ نقشبندیہ کے بارے میں ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' یہ ایک قدیم صوفیانہ سلسلہ ہے۔ اس کے بانی خواجہ محمد بہاؤ الدین نقشبندی بخارا میں پیدا ہوئے۔ اس صوفی سلسلے نے وسط ایشیا میں جڑ پکڑی اور پھر ترکستان ، شام ، افغانستان اور برصغیر ہند و پاک میں پھیل گیا۔
وسط ایشیا میں تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف شہروں بلکہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی نقشبندی خانقاہیں اور تکیے موجود تھے۔ برصغیر میں یہ سلسلہ سولہویں صدی میں پہنچا اور یہاں سے اس کے روحانی سفر میں پہلے خواجہ باقی باللہؒ اور پھر ان کے مرید شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور ہیں، زیر قیادت نئے ولولے سے نئی منزلیں طے کرنا شروع کردیں۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال سلسلہ نقشبندیہ کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ '' ان میں شریعت کی سختی سے پابندی ، حب الٰہی اور حب رسولؐ کے ساتھ آپؐ کی پیروی، رزق حلال کے حصول کی تلقین اور خدمت خلق کی بنیادی اہمیت ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ ایک کامل سلسلہ ہے جس کا مقصد دین کی نصرت اور غلبہ ہے۔ ''
صوفی سلسلہ چشتیہ کے بارے میں ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' چشت خراسان کے ایک شہر کا نام ہے جہاں بزرگانِ دین روحانی اصلاح و تربیت کی خدمات انجام دیتے تھے۔ ایک بزرگ خواجہ ابو اسحاق شامی تھے جن کی پرخلوص جدوجہد سے چشت میں اس روحانی سلسلہ کی داغ بیل پڑی اور یہ اس روحانی نظام کا مرکز بنا۔
چشتیہ سلسلہ کو شہرت اور دوام برصغیر میں حاصل ہوا اور یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ذریعے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ خواجہ صاحب پندرہ سال کی عمر میں عثمان ہارونیؒ کے مرید ہوئے، بیس سال اپنے مرشد کے ساتھ سفر میں رہے، پھر بغداد آگئے اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر عراق سے ایران پہنچے اور پھر افغانستان۔ غزنی میں اپنے مرشد، عثمان ہارونیؒ سے دوبارہ ملاقات ہوئی جنھوں نے انھیں ہندوستان جانے کی ہدایت کی۔ چنانچہ وہ لاہور پہنچے، داتا گنج بخشؒ کے دربار میں چلہ کشی کی اور پھر دلی ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' خواجہ معین الدین چشتی کی کوششوں سے اجمیر کو ایک اسلامی اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔ خواجہ صاحب کے مریدوں میں قطب الدین بختیار کاکیؒ کا نام نمایاں ہے۔ دہلی میں چشتیہ سلسلہ کا مرکز قطب الدین کاکی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ حضرت کے بہت سے خلفا تھے لیکن چشتیہ سلسلہ کے زیادہ کام بابا فریدؒ اور شیخ بدر الدین غزنوی نے انجام دیا۔''
ڈاکٹر نفیس لکھتی ہیں ''ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی داغ بیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے ہاتھوں پڑی، حضرت بابا فرید شکر گنجؒ نے اسے منظم کیا اور حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ نے اسے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ نصف صدی سے زیادہ دہلی میں ان کی خانقاہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنی رہی۔ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوتے اور عشق الٰہی کی تپش اور خدمت خلق کا جذبہ لے کر واپس جاتے تھے۔
حضرت شیخ نظام الدین اولیا کی وجہ سے دہلی علم و عقل اور عشق کا دبستان بن گیا۔ اس دبستان میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی معنویت کا احساس بیدار کیا جاتا تھا ، معاشرے کی اصلاح کا کام ہوتا تھا۔''چوتھا صوفی سلسلہ جس کا ذکر ڈاکٹر نفیس اقبال نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے سلسلہ سہروردیہ ہے۔ اس سلسلے کی بنیاد حضرت شیخ ابوالنجیب عبدالقاہر سہروردی نے رکھی۔
انھوں نے شیخ احمد غزالی اور غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؒ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ان کے بھتیجے، شیخ شہاب الدین عمر سہروردی نے اس سلسلے کو رائج کیا اور اپنے خلفا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ڈاکٹر نفیس لکھتی ہیں کہ '' شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنی تعلیمات اپنی کتاب ''عوارف المعارف'' میں بیان کردی ہیں۔
یہ کتاب تصوف پر ایک مبسوط اور جامع تصنیف ہے اور صوفیہ کے لیے دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں صوفیہ کو روحانی منازل طے کرنے کی ہر چیز سمجھائی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں۔''
ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتی ہیں کہ '' سہروردیہ سلسلہ کو ہندوستان میں پھیلانے کا شرف حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریا ملتانی کو حاصل ہوا۔ انھوں نے ملتان اور دیگر مقامات پر سہروردیہ سلسلہ کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔''