آشفتہ سر سعید حسن خان آخری حصہ

سعید حسن خان نے اپنی زندگی کا آخری حصہ کراچی میں گزارا۔ وہ اپنی یادیں بھی قلم بند کرنے پر تیار نہیں تھے

zahedahina@gmail.com

19 نومبر ہفتے کا دن تھا،شام کے پانچ بجے تھے، پریس کلب کا ہال تھا۔ سعید حسن خان کی ہنستی مسکراتی تصویر تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کہیں گئے نہیں ہیں۔ کسی دوست سے گپ کر رہے ہیں۔

توصیف احمد خان اس محفل کی کمپیئرنگ کر رہے ہیں۔ اس محفل کا اہتمام ان کی بھاوج مسز اسد، داماد جنید زبیری اور بھتیجی صدف زبیری نے کیا ہے۔ شاہ بانو، امینہ سید، ان کی بیٹی شیاما سید اپنے بیمار والد کی دیکھ بھال کر رہی تھیں اور ساتھ کے ساتھ سحینا کی خیر خبر بھی پوچھتی جارہی تھیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں اور راولپنڈی کی آرٹ یونیورسٹی میں پڑھارہی ہے۔ امینہ سید، زبیدہ مصطفی، زہرا نگاہ اور اس خاکسار نے ان کے بارے میں چند محبت بھرے جملے کہے۔ ان کے دوستوں مارک ٹلی، ڈیوڈ پیج اور سبی سگال کو یاد کیا۔

یہ وہ لوگ تھے جو ایک دوسرے کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے، علائوالدین صاحب اور دوسرے۔ ان کے لیے یوں تو ساری دنیا ایک تھی لیکن دنیا میں امن کے حوالے سے وہ ملکوں ملکوں پھرے اور آخر کراچی میں آکر ٹکے۔ یہیں انھوں نے آخری سانسیں لیں۔ بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان کہاں کہاں ان کے دوست اور چاہنے والے نہیں تھے۔ کینزے مراد اور سارہ سلہری ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوان ان کے حلقہ ارادت میں تھے۔

سعید حسن خان کا خاندانی پس منظر انتہائی شاندار اور حلقہ احباب بہت وسیع اور بااثر تھا۔ ان کے کالم اور مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ کس قدر وسیع تھا۔ وہ ایک ایسے دور میں جوان ہوئے جب پاکستان میں ہر تعلیم یافتہ نوجوان کی ''ترقی'' کے لیے بے شمار مواقع موجود تھے، لیکن اس ترقی کے لیے فکری آزادی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

سعید حسن خان نے آزاد رہنے کا انتخاب کیا اور ایک ایسی آزاد اور بامعنی زندگی گزاری جو سب کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ انھوں نے جو یادیں قلمبند کی ہیں اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی بھرپور، بامقصد اور ہمہ جہت زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ بریلی سے لاہور آئے، اس شہر کے عشق میں گرفتار ہوئے لیکن پاکستان کی سیاسی صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر لندن چلے گئے۔

اس حوالے سے وہ کہتے ہیں: 1956 اس حوالے سے اہم ہے کہ اس سال دستور ساز اسمبلی نے تمام صوبوں کی رضامندی سے ایک آئین کی منظوری دی۔ سہروردی کی قیادت میں مشرقی پاکستان نے آبادی میں اپنی اکثریت (56%) کی قربانی دیتے ہوئے مساوات کے فارمولے کو تسلیم کرلیا جس کے تحت ملک کے مشرقی بازو اور پنجاب، سندھ ، شمال مغربی سرحدی صوبے پر مشتمل مغربی بازو کے درمیان نشستوں کی تعداد یکساں ہوگئی۔ نو آبادیاتی حکمرانی کی نو سال بعد بالآخر ملک اپنا پہلا آئین بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

1956 کی آئین کی منظوری کے بعد یہ طے ہوا کہ پورے ملک میں 1958 میں عام انتخابات کرادیے جائیں لیکن مذکورہ انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی صدر اسکندرمرزانے مارشل لاء کا اعلان کردیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے صرف تین ہفتوں کے اندر ہی پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندرمرزا کو معزول کرکے خود اقتدار سنبھال لیا۔

اسکندر مرزا کو معزول کرنے کے بعد جنرل ایوب خان نے خود کو فیلڈ مارشل کے منصب پر ترقی دے دی حالانکہ انھوںنے نہ تو کوئی جنگ لڑی تھی اور نہ ہی کوئی عسکری کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس وقت ملک میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس نے مجھے بہت مایوس اور پریشان کردیا تھا۔ لہٰذا میں نے قانون کی تعلیم کے حصول کا اپنا خواب پورا کرنے کا ارادہ کرلیا۔ میں پاکستان کے کسی لاء کالج کے بجائے لندن میںبیرسٹر کا امتحان دینا چاہتا تھا۔


برطانیہ روانگی کے لیے جب میں بحری جہاز میں سوار ہوا تو میری ملاقات ایک صحافی دوست سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس کی چھوٹی بہن قرۃ العین حیدر اور ان کی والدہ بھی جہاز کے مسافروں میں شامل ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب میںنے ابھی دو ناول پڑھ کر ختم کیے تھے، ان میں ایک قرۃ العین حیدر کا ناول ''آگ کا دریا'' جب کہ دوسرا بورس پاسترنک کا ''ڈاکٹرژواگو'' تھا۔ آج 50 سال گزرنے کے بعد بھی میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ان دو ناولوں میں ''آگ کا دریا'' زیادہ بڑا ناول تھا۔ تاہم، ان دونوں شاہ کار ناولوں میں تخلیق کاروں نے اپنے اپنے ملکوں کی المناک داستان بڑے پر اثر انداز میں رقم کی تھی۔

برطانیہ کے بحری سفر کے دوران میں نے قرۃ العین حیدر سے کھانا ساتھ کھانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ اپنی والدہ کو چھوڑ نہیں سکتی تھی جو ایک سخت مزاج خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی پرہمیشہ اپنا حکم چلاتی تھیں۔ میں نے قرۃ العین حیدر کو بڑا خشک مزاج پایا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اس وقت سخت ذہنی دبائو میں تھیں اور ہجرت کرکے واپس ہندوستان جانے کا ذہن بنا رہی تھیں۔ برطانیہ کے اس دورے کے بعد وہ ہندوستان واپس چلی گئیں۔

سعید حسن خان کے مطابق 1968 ان کی زندگی کا ناقابل فراموش سال تھا۔ اس سال کے بارے میں اپنے تاثرات وہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ایسے لوگ جنھوں نے 1968 کا سال دیکھا ہے ان کے لیے اسے فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سال پوری دنیا میں جنگ کے خلاف طلبا کے مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ امن کے حامی سرگرم کارکن سڑکوںپر گشت کررہے تھے، پولیس سے جھڑپیں ہورہی تھیں اور یونیورسٹی کے کیمپسوں پر قبضہ کرلیا گیا تھا۔ اس سال لندن میں بھی ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا تھا۔

اس عوامی اجتماع سے خطاب کرنے والوں میں ایک نوجوان پاکستانی کارکن طارق علی بھی شامل تھا جو آکسفورڈ میں پڑھتا تھا۔ برٹینڈرسل پیس فائونڈیشن نے ویت نام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کیے گئے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک بڑا ٹریبونل تشکیل دیا تھا۔ ان گواہان کو اس ٹریبونل کے سامنے گواہی دینے کے لیے بلایا تھا جنھوں نے ان جرائم اورمظالم کو ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

جب امریکی افواج کی جانب سے بم باری اپنی انتہا پر تھی تو میںاس وقت جنوبی اور شمالی ویتنام میں موجود تھا اور اس کا چشم دید گواہ تھا۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس ٹربیونل میں گواہی دینے کے لیے پیش ہونا چاہیے۔ میں نے اس 100 رکنی کمیٹی کے ساتھ بھی کام کیا تھا جو برٹرینڈرسل نے ایٹمی عدم پھیلائو کی مہم کو فروغ دینے کے لیے تشکیل دی تھی۔

میں برٹرینڈرسل کو ذاتی طور پر جانتا تھا اس لیے میں نے اس مقصد کے لیے انھیں ایک خط لکھا اس خط کے جواب میں ٹریبونل آفس سے مجھے ایک بہت سرد جواب موصول ہوا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ میں اس ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے کے لیے پہلے اپنی ساکھ ثابت کروں۔ اس خط پر رالف شونیمان کے دستخط تھے جو رسل سے ہونے والی خط و کتابت کے معاملات سنبھال چکے تھے۔

مجھے یقین ہے کہ میرا خط رسل تک نہیں پہنچا تھا۔ ان دنوں امن کے لیے سرگرم کارکنوں میں عام خیال یہی پایا جاتا تھا کہ رالف خود کو زیادہ نمایاں کرنے میں مصروف ہیں اور رسل کو اس بات کاعلم نہیں ہے۔ میرے دوست حمزہ علوی رسل فائونڈیشن کے ڈائریکٹر تھے جب کہ میرے ایک دوسرے دوست اور پاکستان کے معروف قانون دان محمود علی قصوری کو اس ٹریبونل کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ میں ان حضرات کو بھی اس معاملے میں خط لکھ سکتا تھا لیکن میں نے اس سلسلے میں زیادہ فکر مند نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

سعید حسن خان نے اپنی زندگی کا آخری حصہ کراچی میں گزارا۔ وہ اپنی یادیں بھی قلم بند کرنے پر تیار نہیں تھے لیکن دوستوں کے اصرار پر ان کی انگریزی کتاب عشبا پبلشنگ انٹرنیشنل نے 2013 میں شایع کی۔ ڈاکٹر مبارک علی، تسنیم صدیقی مرحوم، ڈاکٹر ادیب رضوی اور ڈاکٹر توصیف احمد نے ان کی تحریروں کا اردو ترجمہ شایع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ کتاب جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کی تقریب اجراء میں سعید بھائی گھبراتے اور شرماتے ہوئے ہمارے ساتھ ہوتے۔
Load Next Story