سائبر کرائمز
جرائم پیشہ عناصر آج کل انٹرنیٹ کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی معلومات حاصل کر لیتے ہیں
حال ہی میں ایک سائبر کرائم رپورٹ نظر سے گزری سوچا قارئین کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں انسان کے لیے بے شمار آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بے شمار مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔
انسان کی ذاتی معلومات بڑی آسانی سے دوسروں کی دسترس میں آگئی ہیں۔ ہم جیسے پس ماندہ غریب ملکوں میں ان مسائل سے انسان مزید غیر محفوظ ہو رہا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں قانون کی حکمرانی گڈگورنینس اور عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے وہاں اس حوالے سے فوری طور پر خصوصی قوانین بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں اور اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جا رہی ہیں۔ مسئلہ ہم جیسے ملکوں کا ہے کہ قوانین تو بنا دیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیقاتی ادارے ان پر عمل درآمد کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں تو کرپشن کا عنصر بھی شامل ہے۔ قانون توڑنے والے عناصر کو پتہ ہوتا ہے کہ رشوت سے کسی بھی تحقیقی ادارے اور فرد کو باآسانی خریدا جا سکتا ہے۔ ہمارا ہر ادارہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔
جرائم پیشہ عناصر مافیاز کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ پھر یہ اس قدر طاقتور ہو جاتے ہیں کہ حکومتیں تک ان کے آگے بے بس ہو جاتی ہیں ۔ دیت کے قانون کو ہی لے لیں طاقتور لوگ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کا اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ قتل جیسے سنگین ترین جرم کا ارتکاب کر کے باآسانی پھانسی کے پھندے سے بچ نکلتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ کے ایک انتہائی طاقتور گھرانے سے تعلق رکھنے والا اور اس کے ساتھی پھانسی سے بچ نکلے۔ اسی طرح دوسرا کیس بھی سندھ سے ہی تعلق رکھتا ہے۔
جہاں ایک عورت جس کا شوہر طاقتور وڈیرے کے ہاتھوں انتہائی پر تشدد بہیمانہ طریقے سے قتل ہوا اس عورت پر ہر طرح کا دباؤ اس طرح استعمال ہوا کہ اس کے گھر والے اور پورا خاندان قاتل کے حق میں کھڑے ہو گئے کہ وہ عورت اپنے شوہر کے قاتلوں سے ایک حقیر رقم کے عو ض صلح کر لے۔
یاد آتا ہے کہ ماضی میں دہلی میں ریپ کیس ہوا تو پورا بھارت اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور جب تک مجرموں کو سزا نہیں مل گئی چین سے نہیں بیٹھا، لیکن ہمارے ہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی عوام بے چارے ایک کمزور سا احتجاج کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہی نہیں قانون طاقتور کے سامنے بے بس ہے۔
پاکستان کی پوری تاریخ ہی اس صورت حال سے عبارت ہے۔ مختاراں مائی سے آج تک صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
بات ہو رہی تھی سائبر کرائم کی جس کی ایک بڑی مثال بے نظیر انکم سپورٹ کی ہے جس میں عوام کو یہ کہہ کر دھوکا دیا جاتا ہے کہ ان کے اس اسکیم میں لاکھوں روپے آگئے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں ہزاروں کے حساب سے پیشگی ادائیگی کرنی ہوگی۔
اس میں کوئی تخصیص نہیں بے شمار مرد و خواتین اس دھوکے میں آکر اپنی خطیر رقم سے محروم ہو چکے ہیں۔
ظاہر ہے اس جھانسے میں آنے کی خواتین کی تعداد زیادہ ہے تو مرد بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ جرائم پیشہ عناصر آج کل انٹرنیٹ کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کو انٹر نیٹ کی اصطلاح میں Phishing پشنگ کہا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کسی شخص کی ذاتی اور مالی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
اس کے لیے آپ کی ذاتی معلومات خاص طور پر بینک میں اکاؤنٹ نمبر اور اے ٹی ایم کارڈ نمبر یا سی وی سی نمبر اجنبی شخص یہ کہہ کر مانگتا ہے کہ آپ کی کچھ ویری فکیشن درکار ہیں اگر آپ نہیں دیں گے تو آپکا اکاؤنٹ یا اے ٹی ایم کارڈ بلاک کر دیا جائے گا۔
لیکن فراڈ کرنے والے کو جو چیز سب سے پہلے درکار ہوتی ہے وہ آپکا نام، فون نمبر اور شناختی کارڈ نمبر ہوتا ہے تاکہ کال ریسو کرنے والے کو یہ لگے کہ کال متعلقہ ادارے یا بینک سے ہی کی جا رہی ہے جب کہ پاکستانیوں کی یہ انتہائی اہم معلومات انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے موبائل نمبر کے ذریعے آپ کے گھر کا ایڈریس بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آپ کو یہ جان پر حیرت ہوگی کہ جرائم پیشہ افراد پاکستانیوں کا یہ ڈیٹا موبائل کمپنیوں سے چوری کرتے ہیں نہ صرف بلکہ یہ سائبر فراڈ کرنے والے بائیو میٹرک مشین سے شہریوں کے انگوٹھے فنگر پرنٹس سیلیکون پر لیتے ہیں جس کو مالی ٹرانسزکشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان نامعلوم کالرز کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے سے بتایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ جرائم پیشہ عناصر انٹر نیٹ کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے کسی فرضی قریبی عزیز رشتے دار کو کسی فرضی جرم میں ملوث کرتے ہوئے دہشت زدہ کر کے ہزاروں افراد سے لاکھوں روپے لوٹ چکے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم کے پاس اس طرح کی لاکھوں شکایات موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
انسان کی ذاتی معلومات بڑی آسانی سے دوسروں کی دسترس میں آگئی ہیں۔ ہم جیسے پس ماندہ غریب ملکوں میں ان مسائل سے انسان مزید غیر محفوظ ہو رہا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں قانون کی حکمرانی گڈگورنینس اور عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے وہاں اس حوالے سے فوری طور پر خصوصی قوانین بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں اور اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جا رہی ہیں۔ مسئلہ ہم جیسے ملکوں کا ہے کہ قوانین تو بنا دیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیقاتی ادارے ان پر عمل درآمد کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں تو کرپشن کا عنصر بھی شامل ہے۔ قانون توڑنے والے عناصر کو پتہ ہوتا ہے کہ رشوت سے کسی بھی تحقیقی ادارے اور فرد کو باآسانی خریدا جا سکتا ہے۔ ہمارا ہر ادارہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔
جرائم پیشہ عناصر مافیاز کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ پھر یہ اس قدر طاقتور ہو جاتے ہیں کہ حکومتیں تک ان کے آگے بے بس ہو جاتی ہیں ۔ دیت کے قانون کو ہی لے لیں طاقتور لوگ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کا اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ قتل جیسے سنگین ترین جرم کا ارتکاب کر کے باآسانی پھانسی کے پھندے سے بچ نکلتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ کے ایک انتہائی طاقتور گھرانے سے تعلق رکھنے والا اور اس کے ساتھی پھانسی سے بچ نکلے۔ اسی طرح دوسرا کیس بھی سندھ سے ہی تعلق رکھتا ہے۔
جہاں ایک عورت جس کا شوہر طاقتور وڈیرے کے ہاتھوں انتہائی پر تشدد بہیمانہ طریقے سے قتل ہوا اس عورت پر ہر طرح کا دباؤ اس طرح استعمال ہوا کہ اس کے گھر والے اور پورا خاندان قاتل کے حق میں کھڑے ہو گئے کہ وہ عورت اپنے شوہر کے قاتلوں سے ایک حقیر رقم کے عو ض صلح کر لے۔
یاد آتا ہے کہ ماضی میں دہلی میں ریپ کیس ہوا تو پورا بھارت اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور جب تک مجرموں کو سزا نہیں مل گئی چین سے نہیں بیٹھا، لیکن ہمارے ہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی عوام بے چارے ایک کمزور سا احتجاج کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہی نہیں قانون طاقتور کے سامنے بے بس ہے۔
پاکستان کی پوری تاریخ ہی اس صورت حال سے عبارت ہے۔ مختاراں مائی سے آج تک صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
بات ہو رہی تھی سائبر کرائم کی جس کی ایک بڑی مثال بے نظیر انکم سپورٹ کی ہے جس میں عوام کو یہ کہہ کر دھوکا دیا جاتا ہے کہ ان کے اس اسکیم میں لاکھوں روپے آگئے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں ہزاروں کے حساب سے پیشگی ادائیگی کرنی ہوگی۔
اس میں کوئی تخصیص نہیں بے شمار مرد و خواتین اس دھوکے میں آکر اپنی خطیر رقم سے محروم ہو چکے ہیں۔
ظاہر ہے اس جھانسے میں آنے کی خواتین کی تعداد زیادہ ہے تو مرد بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ جرائم پیشہ عناصر آج کل انٹرنیٹ کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کو انٹر نیٹ کی اصطلاح میں Phishing پشنگ کہا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کسی شخص کی ذاتی اور مالی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
اس کے لیے آپ کی ذاتی معلومات خاص طور پر بینک میں اکاؤنٹ نمبر اور اے ٹی ایم کارڈ نمبر یا سی وی سی نمبر اجنبی شخص یہ کہہ کر مانگتا ہے کہ آپ کی کچھ ویری فکیشن درکار ہیں اگر آپ نہیں دیں گے تو آپکا اکاؤنٹ یا اے ٹی ایم کارڈ بلاک کر دیا جائے گا۔
لیکن فراڈ کرنے والے کو جو چیز سب سے پہلے درکار ہوتی ہے وہ آپکا نام، فون نمبر اور شناختی کارڈ نمبر ہوتا ہے تاکہ کال ریسو کرنے والے کو یہ لگے کہ کال متعلقہ ادارے یا بینک سے ہی کی جا رہی ہے جب کہ پاکستانیوں کی یہ انتہائی اہم معلومات انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے موبائل نمبر کے ذریعے آپ کے گھر کا ایڈریس بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آپ کو یہ جان پر حیرت ہوگی کہ جرائم پیشہ افراد پاکستانیوں کا یہ ڈیٹا موبائل کمپنیوں سے چوری کرتے ہیں نہ صرف بلکہ یہ سائبر فراڈ کرنے والے بائیو میٹرک مشین سے شہریوں کے انگوٹھے فنگر پرنٹس سیلیکون پر لیتے ہیں جس کو مالی ٹرانسزکشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان نامعلوم کالرز کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے سے بتایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ جرائم پیشہ عناصر انٹر نیٹ کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے کسی فرضی قریبی عزیز رشتے دار کو کسی فرضی جرم میں ملوث کرتے ہوئے دہشت زدہ کر کے ہزاروں افراد سے لاکھوں روپے لوٹ چکے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم کے پاس اس طرح کی لاکھوں شکایات موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔