اقتدار اور پیسہ ہی اہم نہیں
حکومت کو چاہیے کہ جن جن حکمرانوں نے توشہ خانے سے یہ سلوک کیا ان سب کا معاملہ سپریم کورٹ لے جائے
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ عمران خان نے قانون کے مطابق گھڑی خریدی اور فروخت کی۔ گھڑی کی قیمت دس کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی اور وزیراعظم عمران خان نے 20 فیصد قیمت ادا کرکے گھڑی خریدی تھی اور انھوں نے کوئی غلط نہیں کیا۔
خریداری کے بعد وہ مالک بن گئے تھے اور گھڑی بیرون ملک نہیں بلکہ اسلام آباد میں فروخت کی گئی۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز نے جواب میں کہا ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں مت کرو، گھڑی کس کو بیچی اس کا نام بتاؤ، خرید و فروخت کی رسیدیں دکھاؤ اور پیسہ کیسے ملک میں لایاگیا یہ بتاؤ۔
مریم نواز کو جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد کے ڈیلر محمد شفیق کو گھڑی بیچی تھی جس کو موجودہ حکومت میں ایف آئی اے نے حراست میں لیا ۔ گھڑی کی فروخت کی رسید بھی جاری کی گئی تھی۔ فواد چوہدری نے گھڑی کے خریدار کی تفصیل بتا دی کہ یہ گھڑی دبئی میں نہیں اسلام آباد میں فروخت کی گئی تھی۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ کہانی یہ ہے کہ گھڑی واپس محمد بن سلمان نے خرید لی تھی کہ یہ میں نے بنوائی تھی، عمران خان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے توشہ خانہ سے گھڑی لی اور فروخت کردی۔ یہ بہت بڑا قصور ہے لیکن آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام تکرار میں سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما گھڑی کے معاملہ کو جسٹی فائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نہیں کر پاتے انھیں چاہیے کہ وہ اسے جسٹی فائی نہ کریں کیوں کہ اس سے ان کی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایک تو گھڑی پر خانہ کعبہ بنا ہوا تھا ، ایک ارب 70کروڑ روپے گھڑی کی مالیت تھی، 28 کروڑ میں فروخت کی گئی۔ قومی خزانے میں صرف دو کروڑ روپے جمع کرائے گئے۔ گھڑی بیچنا غیر آئینی تو نہیں ہے غیر اخلاقی ضرور ہے اور پہلے بھی بعض وزرائے اعظم مقررہ قیمت دے کر یہ چیزیں خریدتے رہے ہیں۔
ایکسپرٹس پروگرام میں سابق وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس تو وہ رسید ہے جو ہم نے بیچی ہے ۔ گھڑی کی قیمت تو کیبنٹ ڈویژن نے مقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں اد ا کیے گئے ٹیکسز کی رسیدیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
ایک نیوز چینل کے مطابق اسلام آباد میں وہ گھڑی ڈیلر اپنی دکان فروخت کرچکا ہے اور وہ دکان ایسی نہیں تھی کہ ڈیلر وہ مہنگی گھڑی خرید سکتا۔ عمران خان کے مخالفین کو پی ٹی آئی کے رہنما گھڑی کی خرید و فروخت کا جواب دے چکے ہیں مگر عمران خان پر تنقید جاری ہے کہ انھیں یہ گھڑی خریدکر فروخت نہیں کرنی چاہیے تھی کیوں کہ وہ سعودی حکمران کا دیا گیا ایک قیمتی تحفہ تھا اس کی فروخت مناسب نہیں تھی۔
عمران خان نے گھڑی فروخت کرکے کروڑوں روپے کمائے۔ یہ گھڑی عمران خان کو ذاتی طور پر نہیں وزیراعظم کے طور پر دی گئی تھی۔
عمران خان کے ایک معاون خصوصی جو اب بھی وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں کا کہنا ہے کہ انھیں گھڑی کی فروخت کا دکھ ہے اور بیرون ممالک سے بھی انھیں فون آرہے ہیں کہ گھڑی بکنی نہیں چاہیے تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ ہو یا قومی خزانہ تمام حکمرانوں کا رویہ مجرمانہ رہا ہے اور اقتدار کے ایوانوں سے ایسی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں اور دنیا میں پاکستان تماشا بن گیا ہے جو ملک کے لیے اچھا نہیں۔
پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کوڑیوں کے مول پہلے یہ تحائف خود خریدے اور بعد میں بیس فیصد پر خرید کر 50 فیصد رقم پر خریداری کا قانون بنایا جو سراسر بددیانتی تھی۔ عمران خان کو سعودی ولی عہد کے تحفے فروخت نہیں کرنے چاہیے تھے۔
ایک تجزیہ کار کے مطابق توشہ خانے کے مال کی تین کیٹیگریز ہیں اور سب سے مہنگے تحائف کو خرید کر اپنے پاس رکھنے کا قانون تو موجود ہے مگر قیمتی تحفے فروخت کردینا قانون میں موجود نہیں اس لیے عمران خان نے تحفے فروخت کرکے غیر قانونی کام کیا۔
آج کل سوشل میڈیا پر بھارتی وزیراعظم مودی کی وڈیو دیکھی جارہی ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بھارتی توشہ خانہ سے کوئی ایک تحفہ تک نہیں لیا کیوں کہ غیر ملکی تحفے ملک کی عزت ہوتے ہیں اور کسی شخصیت کو نہیں ملک کو دیے جاتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں پیسے کی کوئی طلب نہیں وہ سادہ شخص ہیں۔
عمران خان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے کہ انھیں پیسے کی طلب نہیں۔ عمران خان اگر کسی چیز پر ہاتھ لگادیں تو وہ کروڑوں روپے میں لوگ خرید لیتے ہیں اگر ایسا ہی ہے تو انھوں نے توشہ خانہ سے بے شمار تحائف مفت میں لیے اور اپنے لیے تحائف جو بے حد مہنگے تھے وہ صرف بیس فیصد ادائیگی کرکے خریدے اور دوسروں کے لیے 50 فیصد پر خریداری کا قانون بنادیا یہ بد دیانتی نہیں تو کیا ہے۔ تحفے سستے خرید کر بعد میں مہنگے فروخت کرانا کیا ان کی پیسے کی طلب کا واضح ثبوت نہیں ہے۔
عمران خان کے سابق وزراء کہتے ہیں کہ عمران خان تحائف خرید کر ان کے مالک بن گئے تھے ان کی مرضی تحائف رکھیں یا فروخت کریں انھوں نے کوئی غلط نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ جن جن حکمرانوں نے توشہ خانے سے یہ سلوک کیا ان سب کا معاملہ سپریم کورٹ لے جائے اور فیصلہ کرائے کہ کیا ایسا ہونا چاہیے تھا کہ نہیں۔
یہ تو ثابت ہے کہ عمران خان نے تحائف فروخت کرکے کروڑوں روپے کمائے، یہ ان کی پیسے سے محبت کا ثبوت ہے۔ وہ حکمرانی میں کاروبار کرنے نہیں آئے تھے وہ تو خود اب بھی ارب پتی اور تین ہزار کنال کی جائیداد کے مالک ہیں انھیں ایسا کرنا زیب نہیں دیتا تھا۔ وہ اقتدار میں پیسہ جمع کرنے نہیں آئے تھے مگر انھوں نے ایسا کیا۔
کسی عوامی لیڈر کے لیے جو ایمانداری کا بھی دعویٰ کرتا ہو، اس کے لیے اقتدار اور پیسہ اہم نہیں ہونا چاہیے۔ عزت اہم ہونی چاہیے تھی۔ اب ملک میں عمران خان کی ساکھ پر سوال اٹھ گئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کی حکمرانوں کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔