پاکستان ریڈیو اور پی ٹی وی استحکام کی راہ پر
ریڈیو پاکستان کی طرح پاکستان ٹیلی ویژن کی بحالی کی جانب بھی ایک نیا سفر شروع ہو چکا ہے
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب اور عمران خان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری میں فرق کیا ہے؟ دونوں سیاسی کارکن ہیں اور اپنی جماعت کے حق میں نہ صرف خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔
فواد چوہدری نے منصب سنبھالا تو حالات کچھ اور تھے۔ مریم اورنگ زیب نے یہی ذمے داری سنبھالی تومعاملات اور الگ تھے۔ وہ ادارے جنھیں ناکام قرار دیا جارہا ہے، اپنے قدموں پر کھڑے ہورہے ہیں۔
کوئی چار ساڑھے چار برس قبل ریڈیو پاکستان کے ذمے دار اور کارکنان سڑکوں پر تھے۔ وجہ تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والی حکومت تھی۔ وہ اسلام آباد میں واقع ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کی شاندار عمارت کی فروخت کے خلاف سڑکوں پر تھے۔
احتجاج کرنے والوں میں وہ تمام لوگ تو شامل تھے ہی جو تبدیلی سے پہلے تبدیلی کے نتائج جانتے تھے لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو تبدیلی رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان کے بیش قیمت اثاثے فروخت کرنے کے منصوبے سامنے آئے تو ان کی آنکھیں کھلیں ۔
ریڈیو پاکستان ہو یا پی ٹی وی انھیں برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یعنی بی بی سی کی طرز پر قائم کیا گیا تھا۔ ایسے اداروں کے ساتھ اگر وہی سلوک کیا جائے جو عمران خان نے پنجاب پولیس کے ساتھ کیا تو ظاہر ہے کہ نتیجہ تباہی ہو گا۔ اب یہ کسے یاد نہیں ہے کہ پنجاب میں عمران خان نے تین چار آئی جی محض اس لیے تبدیل کر دیے تھے کہ وہ ان کی خواہش کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
کچھ یہی سلوک اس دور میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ بھی ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹر کی مرکزی عمارت تو فروخت نہ ہو سکی البتہ ریڈیو پاکستان کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رہا۔
راولپنڈی میں ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت جو ایک عظیم ثقافتی ورثے کا درجہ رکھتی ہے، اسے نشانہ بنا لیا گیا۔ اس کے احاطے میں موجود بے شمار قدیم اور قیمتی درخت تہہ تیغ کر کے اس عمارت کا حسن تو تاراج کرہی دیا گیا، ماحولیات کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
کچھ ایسا ہی سلوک ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے درجنوں اثاثوں کو بے دردی کے ساتھ ضایع کر کے کیا گیا۔
ملک کے اس اہم ادارے کے کارکنوں کی فلاح و بہبود تو رہی ایک طرف، اسے نظر انداز کر کے اس کی کارکردگی بھی تباہ کر دی گئی۔ اللہ بھلا کرے سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا جنھوں نے راول پنڈی اسٹیشن میں درختوں کو تباہ و برباد کرنے کا معاملہ سینیٹ میں اٹھا کر ارباب اختیار اور قوم کو اس جانب متوجہ کیا۔
موجودہ حکومت نے وزارت اطلاعات کی ذمے داری مریم اورنگ زیب کے سپرد کی تو انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن پر خصوصی توجہ کی اور نہ صرف ا س کے کارکنوں کی بہبود کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی بلکہ ان اداروں کو ان کے حقیقی کردار کی ادائیگی کی طرف بھی راغب کیا۔
اس سلسلے کاآغاز سہیل علی خان کے دور میں ہوا جنھوں نے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد بنیادی نوعیت کے چند اہم اقدامات کیے۔ تھوڑے دنوں کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کی ذمے داری بھی انھیں سونپ دی گئی تو ضرورت محسوس کی گئی کہ ریڈیو پاکستان کی ذمے داریاں ایک کل وقتی سربراہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیئں۔ یوں وزارت اطلاعات کے ایک اور سینئرافسر طاہر حسن کو یہ ذمے داری تفویض کر دی گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ طاہر حسن کی خدمات ریڈیو پاکستان کو راس آگئیں۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان کے اصل کردار کی بحالی کے لیے فوری نوعیت کے کئی اقدامات کیے۔
یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ کھیلوں کے قومی اور بین الاقوامی مقابلوں کی پہلی خبر ہمیں ریڈیو پاکستان سے ہی ملا کرتی تھی۔ کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جیب میں ایک چھوٹا سا ٹرانسسٹر چھپائے پھرتا ہوتا لیکن جیسے ریڈیو پاکستان نظر انداز کیا جانے لگا، اس کی نہ صرف کارکردگی متاثر ہوتی چلی گئی بلکہ اس کے مفید اور آمدنی میں اضافہ کرنے والے پروگرام بھی ختم کیے جانے لگے۔
ایسے پروگراموں میں ایک پروگرام کھلیوں کے مقابلوں پر رواں تبصرے کا بھی خاتمہ تھا۔ طاہر حسن نے اس ادارے کا انتظام سنبھالنے کے صرف چند ہی روز کے بعد ریڈیو پاکستان کے شعبہ کھیل میں زندگی کی نئی روح پھونک دی۔
حال ہی میں کرکٹ کے ورلڈ کپ کے ٹورنامنٹ کی رننگ کمنٹری کا فوری طور پر احیا کر دیا گیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو کے سامعین کی تعداد میں یک دم کروڑوں افراد کا اضافہ ہو گیا جس کے مثبت اثرات اس ادارے کی آمدن پر بھی مرتب ہوئے۔
خرابیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ متعلقہ ادارے یا وزارت کے سربراہ کی توجہ اپنے کام پر ہوتی ہے اور نہ قومی مقاصد پر، نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مریم اورنگ زیب جیسی متحرک شخصیت کا اس وزارت میں آنے کے بعد اس ادارے کو فایدہ یہ ہوا ہے کہ ذیلی اداروں کی قیادت کا اعتماد بحال ہوا اور وہ متعلقہ اداروں کی بحالی میں مصروف ہو گئے۔ کھیلوں کی کمنٹری کی بحالی کے ساتھ ہی ساتھ جو دوسرا کارنامہ ہوا ہے ، وہ اس ادارے کے انگریزی چینل کی بحالی ہے۔
یوں پاکستان میں بسنے والے غیر ملکیوں، سفارت کاروں اور دیگر اہم طبقات جو ماضی قریب میں خبروں اور معلومات کے حصول کے لیے مختلف ذرایع اختیار کرنے پر مجبور تھے، ریڈیو پاکستان کے ساتھ دوبارہ منسلک ہو رہے ہیں۔ قومی مقاصد کے حصول کی جانب یہ اتنا بڑا قدم ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
ریڈیو پاکستان کی طرح پاکستان ٹیلی ویژن کی بحالی کی جانب بھی ایک نیا سفر شروع ہو چکا ہے سہیل علی خان جب سے اس ادارے میں آئے ہیں، انھوں نے پی ٹی وی کے وسائل میں اضافے پر توجہ دینے کے علاوہ اس کی پروگرامنگ پر خصوصی توجہ دی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے عرصے میں پی ٹی وی کے پروگراموں کا معیار بہت بہتر ہوا ہے۔
اسی طرح انھوں نے اپنے ریڈیو پاکستان کے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے پی ٹی وی کے انگریزی چینل کے معیار پر بھی توجہ دی ہے۔ صرف گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اس کے انگریزی چینل کی اسکرین میں معنوی اعتبار سے کئی بہتر تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔
اب قومی اور موضوعات پر پرانے ازکار رفتہ چہرے اس قومی چینل کی اسکرین پر دکھائی نہیں دیتے بلکہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی شہرت یافتہ مبصرین کی غیر روایتی گفتگو سننے کو مل رہی ہے۔ پی ٹی وی کی اسکرین جس تیزی سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر جاذب نظر ہو رہی ہے اور اپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ جلد ہی یہ پلیٹ فارم ٹی آر ٹی ورلڈ کی طرح اپنا اعتبار قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
میں اپنی براہ راست ذاتی معلومات کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ ان دونوں اداروں کی قیادت جس مشنری جذبے اور خلوص کے ساتھ کام کر رہی، وہ اسی کا حصہ ہے لیکن کوئی اچھے سے اچھا ادارہ جاتی لیڈر اور کارکن کچھ نہیں کر سکتا اگر اسے فیصلہ سازی کی سطح پر اعتماد اور راہنما حاصل نہ ہو۔
عمومی خیال تو یہ تھا کہ دھان سی مریم اورنگ زیب کی ساری توجہ اپنے سیاسی مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے تک ہی ہے لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کی بدلی ہوئی اسکرین اور ریڈیو پاکستان جیسے نظر انداز کیے گئے ادارے کی متاثر کر دینے والی کارکردگی مختلف کہانی بیان کر رہی ہے۔