معاشی بحران سے لڑنے کا عزم

اقتدار کے لیے جاری کشمکش نے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں کی ہے بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ سے دوچار کررکھا ہے

اقتدار کے لیے جاری کشمکش نے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں کی ہے بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ سے دوچار کررکھا ہے (فوٹو فائل)

جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے، جس کے بعد وہ پاک فوج کے 17 ویں سربراہ بن گئے ہیں۔

پاک فوج میں کمان تبدیلی کی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی، اس اہم تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان، سینئر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران، ان کی فیملیز کے علاوہ وفاقی سیکریٹریز اور دیگر مہمان بھی شریک تھے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل آئین اور قانون کے مطابق انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام پایا، اس اہم تقرری کے بعد وہ تمام افواہیں بھی دم توڑ گئیں جو کہ اس ضمن میں پھیلائی جارہی تھیں۔

پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو غیریقینی اور عدم استحکام کے بادل چھائے ہوئے ہیں،موجودہ اتحادی حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے ، بلاشبہ حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے دن رات ایک ہوئے ہے ، گو کہ اس ضمن میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے ، لیکن دوسری جانب ملکی جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔

سیاسی عدم استحکام کا عنصر نامناسب وقت پر آیا ہے پاکستان کے لیے یہ خطرناک وقت ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم کی ملک میں آمد اور مذاکرات کا عمل ابھی باقی ہے ، کہا جاتا ہے کہ مجوزہ لانگ مارچ کی وجہ سے وفد نے اپنی آمد کچھ دنوں کے لیے آگے بڑھا دی ہے ، جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کادورہ پاکستان بھی ملتوی ہوا ہے۔

سیاسی میدان میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے ، جیسا کہ تحریک انصاف کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی توثیق کردی ہے۔

سندھ اور بلوچستان سے ہمارے ممبر اپنے استعفے جمع کرائیں گے، اسپیکر قومی اسمبلی کو ممبران کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائے گا ، جب کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی صوبائی پارلیمانی ایڈوائزری گروپ نے حمزہ شہباز کی سربراہی میں 2 گھنٹوں سے زائد بھرپور مشاورت کی اور عمران خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لیے پنجاب میں گورنر راج لگانے سمیت دیگر آپشنز بھی زیر غور آئے، اگر دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں ،تو الیکشن کمیشن کے مطابق ایک حلقے میں پانچ تا سات کروڑ روپے کے اخراجات انتخابات منعقد کروانے پر آئیں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب تاریخ کے بدترین سیلاب نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، الیکشن میں جانا ملک معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس طرح ملک میں تصادم بڑھے گا ۔ مسلسل انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے ۔

ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی معمول بن گئی تو کیا معیشت ٹھیک ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے، اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کا اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان پر بیرونی قرضے کا تناسب بڑھ گیا ہے اور تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں زرعی شعبہ تقریباً دائمی جمود کا شکار ہورہا ہے۔

مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیہ میں سیز فائر ختم کرنے اور پورے ملک میں حملے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔

ٹی ٹی پی کے سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کی ٹائمنگ بہت معنی خیز ہے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دشمن طبقہ حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اور مائنڈ سیٹ برسوں سے دہشت گردوں کو گلورفائی کرنے میں مصروف ہے،جب افغانستان پر طالبان نے قبضہ کیا تو پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو یہ استدلال پیش کررہے تھے کہ افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تو بھارت کا وہاں اثر ختم ہوجائے گا۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن ہوا یہ کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی جیلوں میں بند پاکستانی طالبان کو رہا کرکے ہماری مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ،پاک افغان سرحد پر جھڑپیں معمولی بن چکی ہیں، یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ۔


ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے، اقتدار کے لیے جاری کشمکش نے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں کی ہے بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ سے دوچار کررکھا ہے ، رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے عام شہری کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔

ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کسان، روزانہ اجرت کمانے والے مزدور اور متوسط طبقہ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ اسی تناظر میں کئی ممتاز ماہرین اقتصادیات نے معاشی بحالی کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار کی یکجائی کے ذریعے جامع اصلاحاتی پیکیجز اور پائیدار ترقی پر زور دیا ہے۔

جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے پر صرف توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے مسائل زیادہ تر ساختی ہیں۔ پاکستان کا معاشی پروفائل ساکھ اور مالی استحکام کے بین الاقوامی پیمانے پر مستحکم سے منفی تک گر گیا ہے۔ملک سرکاری قرضوں کے خطرے میں بھی چوتھے نمبر پر ہے ۔

متوسط طبقہ جو کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے،اس کا خاتمہ آمدنی کے تفاوت کو بڑھا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ملک میں ایک سیاسی گروہ عام آدمی کی پریشانیوں سے بڑی حد تک بے خبر ہے، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں یا تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بلاشبہ سیاست میں کسی کے بھی اقتدار کو دوام حاصل نہیں مثلاً آج کی اپوزیشن جماعت کل کی حکمران پارٹی ہے اور کل حکومت میں رہنے والی پارٹی آج حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکتی ہے، دراصل جمہوریت کی یہی خوبی عملاً سیاست دانوں کو اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ وہ سیاسی کھیل کے قواعد وضوابط پختہ سوچ کے ساتھ طے کریں، مثلاً مسائل حل کرنے میں ناکامی کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دینے کے بجائے ایسی طویل المعیاد پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن پر عمل کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔

اس میں دو آرا نہیں کہ موجودہ اتحادی حکومت خلوص نیت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف سے تعمیری بات چیت کی خواہشمند ہے۔

پاکستان کا ہر باشعور پاکستانی اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ قومی منظر نامہ میں نمایاں سیاسی قوتوں میں پاکستان تحریک انصاف ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔

بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف آگے بڑھے اور قومی منظر نامہ میں اپنا ایسا کردار ادا کر کے تاریخ میں سرخرو ہونے کی کوشش کرے جو وہ اب تک ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ سمجھ لینا چاہے کہ الزام تراشی کی سیاست نہ ماضی میں سود مند ثابت ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں اس کی افادیت سامنے آنے کا روشن امکان ہے۔

پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہی ملکی معیشت کو بہتر سمت گامزن کرسکتا ہے۔

مقامی کاروبار زندگی کو سازگار حالات ملنے سے ہی ملک کا صنعتی و تجارتی طبقہ خوشحال ہوگا جس کے اثرات امید فزا ہوں گے۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے جلد سے جلد ثمرات سمیٹنے کے لیے ملک میں مستحکم سیاسی و معاشی حالات استوار کیے جائیں۔اس معاملے کو ملک کی سیاسی قیادت جتنا جلد سمجھ لے اتنا ہی اچھا ہو گا کیونکہ موجودہ حالات میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

ملکی تاریخ کے 75 ویں برس میں ہمیں اس کی سمجھ آجانی چاہیے، ہم دوسروں کو دیکھ کر ہی کچھ سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں۔ قومیں اپنے رہنماؤں کی پیروی کرتی ہیں۔

یہ ذمے داری رہنماؤں کی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے حالات کو دیکھ کر کچھ سبق حاصل کریں اور قوم کی رہنمائی کا حق ادا کریں۔

سیاست دانوں کو صرف اور صرف قوم اور ملک کا مفاد پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسی صورت میں ہی ملک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوسکتا ہے اور اس سے سماجی سطح پر جو مثبت اثرات سامنے آئیں گے اس سے یقینا جمہوری نظام بھی مضبوط ہوگا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا فائدہ ہے۔ قومی سیاسی قیادت متحد ہوکر سی پیک کی تکمیل ممکن بنائے۔ پاکستان کو آج متحد ہوکر اپنے معاشی بحرانوں سے لڑنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story