پوٹھو ہار خطہ دل ربا
کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ جس نے ساری عمر آزادی اورسماجی انصاف کی خاطر قربان کردی فرنگیوں کے لیے بھی مردود رہا
شاہد صدیقی سے اسلام آباد کے کتاب میلوں میں ملاقات ہوئی اور پھر ان کی تحریریں نظر سے گزریں اور دل میں اتریں۔ کچھ مہینوں پہلے ان کا کینیڈا سے فون آیا ، وہ شکیل عادل زادہ اور ان کی نصف بہتر شاہینہ جنھیں ہم سب ''چینا'' کہتے ہیں اور شکیل جنھیں ازراہ تفنن '' بیوہ '' کہتے ہیں جس پر سب سے تگڑا احتجاج میں کرتی ہوں ، وہ سب شجو کے مہمان تھے۔
شاہد صدیقی اپنی کتاب '' پوٹھوہار : خطۂ دل ربا '' مرتب کر رہے تھے جب کہ شکیل عادل زادہ اپنی قسط وار کہانی کی زلفیں سنوار رہے تھے۔ شاہد نے خواہش ظاہر کی کہ میں چند سطریں لکھ دوں۔ طبیعت کی خرابی کے سبب میں یہ نہ کرسکی۔
چنانچہ اب کتاب چھپ کر آگئی ہے اور میں شکیل کی ان سطروں سے کیسے اختلاف کرسکتی ہوں۔ '' اپنے ڈاکٹر شاہد صدیقی خوش نما تحریروں کے خالق ہیں۔
بے شک کچھ تو یہ خوبی خداداد بھی ہوتی ہے لیکن بہت کچھ گہرے مشاہدے، عمیق مطالعے، حافظے، زباں دانی، برمحل برجستہ لفظوں کی فراوانی اور جُست جُو پر منحصر ہے۔ اپنے موضوع پر تمام تر تفتیش و تحقیق کے بعد ڈاکٹر صاحب قلم اٹھاتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ حق ادا کردیتے ہیں۔ سادگی ، روانی اور دل کشی ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔''
وہ ہمیں سارنگ کا قصہ سناتے ہیں جو مغلوں کا ساتھ دیتا ہوا اپنی مٹی پر قربان ہوگیا اور کھیوڑا کا گلابی نمک آج تک اس خون کی ہمیں جھلک دکھاتا ہے جو ان پہاڑوں میں بہا تھا اور مری کی بلندیوں میں یہاں کے باغیوں کی سرکشی کی کہانیاں ہیں۔
کہنے کو یہ کالم ہیں لیکن ان میں کیسے کیسے دل ربا مقام اور دل کش انسان ہیں جن کی ہڈیاں تاریخ کے صفحوں میں گم ہوگئیں۔ وہ '' دادا امیر حیدر'' مزاحمت کا روشن استعارہ میں لکھتے ہیں '' امیر حیدر نے ان کی خوب پٹائی کی اور انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔
اس دن اسے دادا کا خطاب ملا۔ بمبئی میں دادا کا اپنا مطلب ہے لیکن بنگالی میں دادا بڑے بھائی کوکہتے ہیں۔ اس دن سے دادا امیر حیدر کے نام کا حصہ بن گیا۔ بمبئی میں دادا کو مرچنٹ نیوی میں معمولی سی نوکری مل گئی۔
تقریباً چار سال یہاں کام کرنے کے بعد وہ یو ایس مرچنٹ نیوی میں بھرتی ہوگیا۔ اب دور دراز کے ملک اس کی دسترس میں تھے۔ اسی طرح کے ایک سفر میں اس کی ملاقات آئرلینڈ کے رہنے والے ایک قوم پرست خوزف ملکین سے ہوئی جس نے دادا کی ذہنی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔
1920 میں دادا کو نیو یارک میں غدر پارٹی کے رہنماؤں سے ملنے کا موقع ملا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں غدر پارٹی کا اہم کردار ہے۔ امیر حیدر کا ذہن غدر پارٹی کے انقلابی پروگرام کا اسیر ہوگیا۔ غدر پارٹی کی ہدایت پر امیر حیدر نے پارٹی کے تیار کردہ پمفلٹ ''غدر کی گونج'' بندرگاہ پر تقسیم کرنا شروع کر دیے۔
یہ دن دادا کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ ایک اجنبی ملک میں نہ اس کا گھر تھا نہ ٹھکانہ ، لیکن کہتے ہیں موسموں کی شدت ہی پھلوں کو رس دار بناتی ہے۔ حالات کی سختی نے دادا کو اپنے نظریات میں اور پختہ کردیا۔ اب وہ باقاعدہ سیاسی ایکٹیوسٹ بن گیا تھا۔
اس نے ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسی دوران اسے روس جانے کا موقع ملا جہاں اس کی اہم انقلابی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔ جس میں اس نے انھیں ہندوستان کی سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا۔ 1928میں دادا نے ماسکو سے بمبئی کا رخ کیا۔
بمبئی سے واپسی پر دادا کو میرٹھ سازش کیس میں گرفتاری سے بچانے کے لیے دوستوں نے اسے مدراس بھیج دیا۔ جنوبی ہندوستان میں دادا نے اپنی شناخت بچانے کے لیے شنکر کے فرضی نام سے کام شروع کردیا اور ینگ ورکز لیگ کے نام سے نوجوانوں کا ایک گروہ تشکیل دیا ، لیکن جلد ہی دادا کو گرفتار کرلیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دادا نے جس کی اسکول کی تعلیم معمولی سی تھی، اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس کی بڑی وجہ دادا کا معاشرے کے مختلف افراد سے میل جول اور مختلف ممالک کے سفر تھے۔
یہ 1932کا ذکر ہے جب دادا کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے حوالے سے ایک پمفلٹ شایع کرنے پر حکومت وقت نے گرفتار کر کے پہلے مظفر گڑھ اور پھر انبالہ جیل بھیج دیا۔ 1938 میں جیل سے رہائی ہوئی۔ 1939 میں دادا کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔
1947 میں پاکستان بن گیا تو دادا کی سرگرمیوں کا مرکز راولپنڈی بن گیا۔ 1949 کا سال تھا جب دادا کو کمیونسٹ پارٹی کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا۔
پندرہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد دادا کو رہائی ملی تو کامریڈ حسن ناصر اور علی امام کے قانونی دفاع کا چیلنج درپیش تھا۔ کچہری سے دادا کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد دادا کو اپنے گاؤں تک محدود کردیا گیا۔
1958 میں ایوب کے مارشل لاء میں ایک بار پھر دادا کو گرفتار کرلیا گیا لیکن یہ گرفتاریاں ، سزائیں اور تازیانے دادا کو جھکا نہ سکے۔ دادا کے آخری ایام راولپنڈی میں گزرے۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر سفر کریں تو روات سے ذرا بعد بائیں ہاتھ ایک سڑک مڑتی ہے جو کلرسیداں کو جاتی ہے۔
کلرسیداں سے ایک راستہ کاہلیاں سیلیاں کو جاتا ہے جہاں امیر حیدر دادا کا گاؤں ہے جس کا نام انقلابی رہنماؤں کی فہرست میں جگمگاتا رہے گا لیکن اس کے اپنے علاقے میں ا س کے نام کی نہ کوئی سڑک ہے نہ کوئی تختی۔ نوجوان نسل کے لیے امیر حیدر دادا کا نام اجنبی ہے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ جس نے ساری عمر آزادی اورسماجی انصاف کی خاطر قربان کردی فرنگیوں کے لیے بھی مردود رہا اور اپنوں کے لیے بھی نامطلوب۔ کاش ہمارا اجتماعی شعور ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنا سکھا سکے۔''
وہ گورڈن کالج میں عصمت چغتائی کی آمد کا بہت دلکش نقشہ کھینچتے ہیں۔ '' عصمت چغتائی کو پڑھنے کا جنون تھا۔ اردو اور انگریزی ادب کے اہم ادبی شاہکار وہ پڑھ چکی تھیں۔
پھر ان کا تعارف روسی ادب سے ہوا اور انھیں احساس ہوا کہ اصل ادب تو یہ ہے جس میں لوگوں کی زندگیاں دھڑکتی ہیں۔ چیخوف ان کا پسندیدہ ادیب تھا۔ لکھنا اور پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ لکھنے کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتی تھیں۔ زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی کہ عصمت کی زندگی میں ایک تلاطم آگیا۔
یوں تو وہ خود ہنگاموں میں خوش رہتی تھیں لیکن اس طوفان نے اس کی زندگی اتھل پتھل کر کے رکھ دی۔ یہ 1944 کی بات ہے انھوں نے ایک افسانہ لکھا عنوان تھا ''لحاف'' پہلے انھوں نے یہ کہانی اپنی بھاوج کو سنائی پھر اپنی خالہ زاد بہن کو اور پھر یہ کہانی '' ادب لطیف '' کو بھیج دی۔ رسالے کے مدیر نے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا اور اسے شایع کر دیا۔ انھی دنوں شاہد احمد دہلوی عصمت کی کہانیوں کا ایک مجموعہ شایع کر رہے تھے۔
انھوں نے یہ کہانی اس مجموعے میں شامل کردی۔ وہ 1944 کا سال تھا اور دسمبر کا مہینہ ، جب انھیں عدالت میں پیشی کا سمن ملا۔ انھی دنوں سعادت حسن منٹو کی ایک کہانی ''بو'' پر بھی فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا اور یوں دونوں جنوری 1945 میں لاہور کی عدالت میں پیش ہوئے۔ منٹو کو تو جیسے پروا ہی نہیں تھی۔
اس کے برعکس عصمت پر گھر والوں کا دباؤ تھا لیکن وہ بہادری سے ساری صورتحال کا سامنا کر رہی تھیں۔ دو پیشیوں میں ہی مقدمے کا فیصلہ ہوگیا۔ عصمت اور منٹو کو باعزت بری کردیا گیا۔ '' لحاف '' کی اشاعت کے بعد کا عرصہ عصمت کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔
دو دن گورڈن کالج کی لائبریری میں گزار کر مجھے عصمت کے حوالے سے یہ معلومات ملی تھیں اور اب عصمت کو دیکھنے اور سننے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا تھا۔ جوبلی ہال کو سجایا گیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک مسرت بھرا دن تھا۔
وہ جوبلی ہال کے اسٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس دن کو گزرے اب چار دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن مجھے وہ روشن دن ہمیشہ یاد رہے گا جب میری ملاقات اردو ادب کی ایک نامور شخصیت سے ہوئی تھی۔ کبھی کبھی یونہی ایک تصور کسی سفر کا نقطہ آغاز بن جاتا ہے اور ہم ایک نئی منزل کو دریافت کرلیتے ہیں۔''
شاہد صدیقی نے یقینا عصمت آپا کا نام دل پر نقش کرایا تب ہی ایسی کاٹ دار تحریریں لکھتے ہیں۔
شاہد صدیقی اپنی کتاب '' پوٹھوہار : خطۂ دل ربا '' مرتب کر رہے تھے جب کہ شکیل عادل زادہ اپنی قسط وار کہانی کی زلفیں سنوار رہے تھے۔ شاہد نے خواہش ظاہر کی کہ میں چند سطریں لکھ دوں۔ طبیعت کی خرابی کے سبب میں یہ نہ کرسکی۔
چنانچہ اب کتاب چھپ کر آگئی ہے اور میں شکیل کی ان سطروں سے کیسے اختلاف کرسکتی ہوں۔ '' اپنے ڈاکٹر شاہد صدیقی خوش نما تحریروں کے خالق ہیں۔
بے شک کچھ تو یہ خوبی خداداد بھی ہوتی ہے لیکن بہت کچھ گہرے مشاہدے، عمیق مطالعے، حافظے، زباں دانی، برمحل برجستہ لفظوں کی فراوانی اور جُست جُو پر منحصر ہے۔ اپنے موضوع پر تمام تر تفتیش و تحقیق کے بعد ڈاکٹر صاحب قلم اٹھاتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ حق ادا کردیتے ہیں۔ سادگی ، روانی اور دل کشی ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔''
وہ ہمیں سارنگ کا قصہ سناتے ہیں جو مغلوں کا ساتھ دیتا ہوا اپنی مٹی پر قربان ہوگیا اور کھیوڑا کا گلابی نمک آج تک اس خون کی ہمیں جھلک دکھاتا ہے جو ان پہاڑوں میں بہا تھا اور مری کی بلندیوں میں یہاں کے باغیوں کی سرکشی کی کہانیاں ہیں۔
کہنے کو یہ کالم ہیں لیکن ان میں کیسے کیسے دل ربا مقام اور دل کش انسان ہیں جن کی ہڈیاں تاریخ کے صفحوں میں گم ہوگئیں۔ وہ '' دادا امیر حیدر'' مزاحمت کا روشن استعارہ میں لکھتے ہیں '' امیر حیدر نے ان کی خوب پٹائی کی اور انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔
اس دن اسے دادا کا خطاب ملا۔ بمبئی میں دادا کا اپنا مطلب ہے لیکن بنگالی میں دادا بڑے بھائی کوکہتے ہیں۔ اس دن سے دادا امیر حیدر کے نام کا حصہ بن گیا۔ بمبئی میں دادا کو مرچنٹ نیوی میں معمولی سی نوکری مل گئی۔
تقریباً چار سال یہاں کام کرنے کے بعد وہ یو ایس مرچنٹ نیوی میں بھرتی ہوگیا۔ اب دور دراز کے ملک اس کی دسترس میں تھے۔ اسی طرح کے ایک سفر میں اس کی ملاقات آئرلینڈ کے رہنے والے ایک قوم پرست خوزف ملکین سے ہوئی جس نے دادا کی ذہنی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔
1920 میں دادا کو نیو یارک میں غدر پارٹی کے رہنماؤں سے ملنے کا موقع ملا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں غدر پارٹی کا اہم کردار ہے۔ امیر حیدر کا ذہن غدر پارٹی کے انقلابی پروگرام کا اسیر ہوگیا۔ غدر پارٹی کی ہدایت پر امیر حیدر نے پارٹی کے تیار کردہ پمفلٹ ''غدر کی گونج'' بندرگاہ پر تقسیم کرنا شروع کر دیے۔
یہ دن دادا کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ ایک اجنبی ملک میں نہ اس کا گھر تھا نہ ٹھکانہ ، لیکن کہتے ہیں موسموں کی شدت ہی پھلوں کو رس دار بناتی ہے۔ حالات کی سختی نے دادا کو اپنے نظریات میں اور پختہ کردیا۔ اب وہ باقاعدہ سیاسی ایکٹیوسٹ بن گیا تھا۔
اس نے ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسی دوران اسے روس جانے کا موقع ملا جہاں اس کی اہم انقلابی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔ جس میں اس نے انھیں ہندوستان کی سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا۔ 1928میں دادا نے ماسکو سے بمبئی کا رخ کیا۔
بمبئی سے واپسی پر دادا کو میرٹھ سازش کیس میں گرفتاری سے بچانے کے لیے دوستوں نے اسے مدراس بھیج دیا۔ جنوبی ہندوستان میں دادا نے اپنی شناخت بچانے کے لیے شنکر کے فرضی نام سے کام شروع کردیا اور ینگ ورکز لیگ کے نام سے نوجوانوں کا ایک گروہ تشکیل دیا ، لیکن جلد ہی دادا کو گرفتار کرلیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دادا نے جس کی اسکول کی تعلیم معمولی سی تھی، اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ اس کی بڑی وجہ دادا کا معاشرے کے مختلف افراد سے میل جول اور مختلف ممالک کے سفر تھے۔
یہ 1932کا ذکر ہے جب دادا کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے حوالے سے ایک پمفلٹ شایع کرنے پر حکومت وقت نے گرفتار کر کے پہلے مظفر گڑھ اور پھر انبالہ جیل بھیج دیا۔ 1938 میں جیل سے رہائی ہوئی۔ 1939 میں دادا کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔
1947 میں پاکستان بن گیا تو دادا کی سرگرمیوں کا مرکز راولپنڈی بن گیا۔ 1949 کا سال تھا جب دادا کو کمیونسٹ پارٹی کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا۔
پندرہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد دادا کو رہائی ملی تو کامریڈ حسن ناصر اور علی امام کے قانونی دفاع کا چیلنج درپیش تھا۔ کچہری سے دادا کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد دادا کو اپنے گاؤں تک محدود کردیا گیا۔
1958 میں ایوب کے مارشل لاء میں ایک بار پھر دادا کو گرفتار کرلیا گیا لیکن یہ گرفتاریاں ، سزائیں اور تازیانے دادا کو جھکا نہ سکے۔ دادا کے آخری ایام راولپنڈی میں گزرے۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر سفر کریں تو روات سے ذرا بعد بائیں ہاتھ ایک سڑک مڑتی ہے جو کلرسیداں کو جاتی ہے۔
کلرسیداں سے ایک راستہ کاہلیاں سیلیاں کو جاتا ہے جہاں امیر حیدر دادا کا گاؤں ہے جس کا نام انقلابی رہنماؤں کی فہرست میں جگمگاتا رہے گا لیکن اس کے اپنے علاقے میں ا س کے نام کی نہ کوئی سڑک ہے نہ کوئی تختی۔ نوجوان نسل کے لیے امیر حیدر دادا کا نام اجنبی ہے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ جس نے ساری عمر آزادی اورسماجی انصاف کی خاطر قربان کردی فرنگیوں کے لیے بھی مردود رہا اور اپنوں کے لیے بھی نامطلوب۔ کاش ہمارا اجتماعی شعور ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنا سکھا سکے۔''
وہ گورڈن کالج میں عصمت چغتائی کی آمد کا بہت دلکش نقشہ کھینچتے ہیں۔ '' عصمت چغتائی کو پڑھنے کا جنون تھا۔ اردو اور انگریزی ادب کے اہم ادبی شاہکار وہ پڑھ چکی تھیں۔
پھر ان کا تعارف روسی ادب سے ہوا اور انھیں احساس ہوا کہ اصل ادب تو یہ ہے جس میں لوگوں کی زندگیاں دھڑکتی ہیں۔ چیخوف ان کا پسندیدہ ادیب تھا۔ لکھنا اور پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ لکھنے کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتی تھیں۔ زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی کہ عصمت کی زندگی میں ایک تلاطم آگیا۔
یوں تو وہ خود ہنگاموں میں خوش رہتی تھیں لیکن اس طوفان نے اس کی زندگی اتھل پتھل کر کے رکھ دی۔ یہ 1944 کی بات ہے انھوں نے ایک افسانہ لکھا عنوان تھا ''لحاف'' پہلے انھوں نے یہ کہانی اپنی بھاوج کو سنائی پھر اپنی خالہ زاد بہن کو اور پھر یہ کہانی '' ادب لطیف '' کو بھیج دی۔ رسالے کے مدیر نے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا اور اسے شایع کر دیا۔ انھی دنوں شاہد احمد دہلوی عصمت کی کہانیوں کا ایک مجموعہ شایع کر رہے تھے۔
انھوں نے یہ کہانی اس مجموعے میں شامل کردی۔ وہ 1944 کا سال تھا اور دسمبر کا مہینہ ، جب انھیں عدالت میں پیشی کا سمن ملا۔ انھی دنوں سعادت حسن منٹو کی ایک کہانی ''بو'' پر بھی فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا اور یوں دونوں جنوری 1945 میں لاہور کی عدالت میں پیش ہوئے۔ منٹو کو تو جیسے پروا ہی نہیں تھی۔
اس کے برعکس عصمت پر گھر والوں کا دباؤ تھا لیکن وہ بہادری سے ساری صورتحال کا سامنا کر رہی تھیں۔ دو پیشیوں میں ہی مقدمے کا فیصلہ ہوگیا۔ عصمت اور منٹو کو باعزت بری کردیا گیا۔ '' لحاف '' کی اشاعت کے بعد کا عرصہ عصمت کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔
دو دن گورڈن کالج کی لائبریری میں گزار کر مجھے عصمت کے حوالے سے یہ معلومات ملی تھیں اور اب عصمت کو دیکھنے اور سننے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا تھا۔ جوبلی ہال کو سجایا گیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک مسرت بھرا دن تھا۔
وہ جوبلی ہال کے اسٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس دن کو گزرے اب چار دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن مجھے وہ روشن دن ہمیشہ یاد رہے گا جب میری ملاقات اردو ادب کی ایک نامور شخصیت سے ہوئی تھی۔ کبھی کبھی یونہی ایک تصور کسی سفر کا نقطہ آغاز بن جاتا ہے اور ہم ایک نئی منزل کو دریافت کرلیتے ہیں۔''
شاہد صدیقی نے یقینا عصمت آپا کا نام دل پر نقش کرایا تب ہی ایسی کاٹ دار تحریریں لکھتے ہیں۔