امید افزاء اشارے
حکومت نے جب سے طالبان سے مذاکرات شروع کیے ہیں ‘اس میں خاصے اتار چڑھائو آتے رہے ہیں
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران حکومت ان کا کوئی غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی'آئین اور قانون سے باہر کوئی بات نہیں ہوگی تاہم انھوں نے واضح کیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور مکمل امن قائم ہو تاکہ تمام لوگ سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ہفتے کو اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے طالبان سے جاری مذاکراتی عمل کو خوش آیند قرار دیا۔
اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کو ان کی عدم موجودگی میں طالبان سے ہونیوالے پہلے مذاکراتی دور کی تفصیلات اور طالبان کی طرف سے پیش کردہ اپنے عسکری اور غیرعسکری قیدیوں کی رہائی و دیگر مطالبات کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ طالبان کی طرف سے کی جانیوالی ایک ماہ کی جنگ بندی اکتیس مارچ کو ختم ہو رہی ہے تاہم طالبان کی طرف سے اس میں مزید توسیع کا یقین دلایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے طالبان سے ہونے والی بات چیت کی روشنی میں وزیر داخلہ کو بعض ضروری ہدایات بھی دیں۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تاہم واضح کیا کہ آئین اور قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور کوئی غیرقانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
جب طالبان اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں بھی چاہیے کہ عسکری یا غیر عسکری کی شرط عائد کیے بغیر خیر سگالی کے جذبہ کے تحت تمام مغوی افراد کو رہا کردیں ،ان کا یہ فعل اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ہو گا۔ وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے پر موقف دینے کے لیے وقت مانگ لیا۔ ہفتے کی شام وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیرصدارت پنجاب ہائوس میں حکومتی و طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس موقع پر طالبان رابطہ کار اور حکومتی کمیٹی نے چند روز قبل وزیرستان میں طالبان رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں سامنے آنے والے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرایع نے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، وزیرستان کو پیس زون قرار دینے، طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرایع نے بتایا کہ حکومت نے طالبان رابطہ کار کمیٹی سے کہا کہ چونکہ حکومت اور طالبان کے درمیاں مذاکرات عملی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں، اس لیے طالبان 31 مارچ کو ختم ہونے والی جنگ بندی کے اعلان میں توسیع کریں جس پر طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ نے کہاکہ وہ اس سلسلے میں طالبان رہنمائوں سے رابطہ کر رہے ہیں اور امید ہے کہ جنگ بندی میں توسیع ہوجائیگی۔ ذرایع نے بتایاکہ اس موقعے پر طے پایا کہ اب تک کی پیش رفت پر حکومت اور طالبان رہنمائوں سے مشاورت کی جائے گی جب کہ وزیر داخلہ نے طالبان رابطہ کار کمیٹی سے کہاکہ وہ آیندہ چند روز میں حکومتی موقف سے انھیں آگاہ کردیں گے جس کے بعد طالبان رابطہ کار کمیٹی طالبان رہنمائوں سے مشاورت کے بعد آیندہ چند دنوں میں حکومتی کمیٹی کے ساتھ اجلاس کے وقت اور جگہ کا تعین کرے گی۔
حکومت نے جب سے طالبان سے مذاکرات شروع کیے ہیں 'اس میں خاصے اتار چڑھائو آتے رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد ان میں تعطل بھی آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں خوں ریزی کے واقعات بھی جاری رہے'حکومت کی جانب سے شمالی وزیرستان میں محدود اسٹرائیکس بھی ہوئیں اور آپریشن کی باتیں بھی منظرعام پر آ ئیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مذاکرات مستقل ناکام ہو گئے ہیں اور کسی بھی وقت آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔ اس نازک اور سنگین موقع پر حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے ارکان نے مثبت کردار ادا کیا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پھر طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا جس کے بعد صورت حال میں مثبت تبدیلی کا آغاز ہوا اور ٹوٹے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہو گیا۔ اس دوران بھی اسلام آباد کچہری کا واقعہ ہوا لیکن خوش آیند امر یہ کہ فریقین نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔
طالبان نے اس واقعے سے نہ صرف لاتعلقی کا اعلان کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ یوں ماضی سے وابستہ ان امور کا جائزہ لیا جائے تو اس منظر نامے میں یہی سامنے آتا ہے کہ حالات کا رخ مثبت جانب رواں ہے۔ اس سارے عمل کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک دو سیاسی جماعتوں کے سوا سب مذاکرات کی حامی ہیں۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں قتل و غارت ہو ۔ہر سیاسی جماعت اور اس کے قائد کی اپنے وژن کے مطابق حکومت پر تنقید سامنے آئی ہے جو ایک جمہوری رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور طالبان نے جو سلسلہ شروع کیا ہے اسے خوشگوار انجام تک پہنچانے کی سعی مسلسل کی جائے۔
طالبان کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ حکومت آئین سے ماورا ان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتی لہٰذا اگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں ہوتی تو تب بھی مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے کیونکہ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو فوری تو حل نہیں ہوتے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کا کوئی حل نکل آئے۔ ادھر حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ طالبان کے ایسے مطالبات جو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے مانے جا سکتے ہیں 'انھیں تسلیم کر لیا جائے۔ حکومت کو اس مذاکراتی عمل میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی شریک کرنا چاہیے تاکہ انھیں بھی صورت حال کا پتہ چل سکے۔ انھیں پتہ ہو کہ حکومت کن شرائط پر مذاکرات کر رہی ہے۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس کی رائے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے مذاکرات کا عمل زیادہ سبک خیز 'قابل اعتماد اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔
اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کو ان کی عدم موجودگی میں طالبان سے ہونیوالے پہلے مذاکراتی دور کی تفصیلات اور طالبان کی طرف سے پیش کردہ اپنے عسکری اور غیرعسکری قیدیوں کی رہائی و دیگر مطالبات کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ طالبان کی طرف سے کی جانیوالی ایک ماہ کی جنگ بندی اکتیس مارچ کو ختم ہو رہی ہے تاہم طالبان کی طرف سے اس میں مزید توسیع کا یقین دلایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے طالبان سے ہونے والی بات چیت کی روشنی میں وزیر داخلہ کو بعض ضروری ہدایات بھی دیں۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تاہم واضح کیا کہ آئین اور قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور کوئی غیرقانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
جب طالبان اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں بھی چاہیے کہ عسکری یا غیر عسکری کی شرط عائد کیے بغیر خیر سگالی کے جذبہ کے تحت تمام مغوی افراد کو رہا کردیں ،ان کا یہ فعل اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ہو گا۔ وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے پر موقف دینے کے لیے وقت مانگ لیا۔ ہفتے کی شام وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیرصدارت پنجاب ہائوس میں حکومتی و طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس موقع پر طالبان رابطہ کار اور حکومتی کمیٹی نے چند روز قبل وزیرستان میں طالبان رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں سامنے آنے والے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرایع نے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، وزیرستان کو پیس زون قرار دینے، طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرایع نے بتایا کہ حکومت نے طالبان رابطہ کار کمیٹی سے کہا کہ چونکہ حکومت اور طالبان کے درمیاں مذاکرات عملی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں، اس لیے طالبان 31 مارچ کو ختم ہونے والی جنگ بندی کے اعلان میں توسیع کریں جس پر طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ نے کہاکہ وہ اس سلسلے میں طالبان رہنمائوں سے رابطہ کر رہے ہیں اور امید ہے کہ جنگ بندی میں توسیع ہوجائیگی۔ ذرایع نے بتایاکہ اس موقعے پر طے پایا کہ اب تک کی پیش رفت پر حکومت اور طالبان رہنمائوں سے مشاورت کی جائے گی جب کہ وزیر داخلہ نے طالبان رابطہ کار کمیٹی سے کہاکہ وہ آیندہ چند روز میں حکومتی موقف سے انھیں آگاہ کردیں گے جس کے بعد طالبان رابطہ کار کمیٹی طالبان رہنمائوں سے مشاورت کے بعد آیندہ چند دنوں میں حکومتی کمیٹی کے ساتھ اجلاس کے وقت اور جگہ کا تعین کرے گی۔
حکومت نے جب سے طالبان سے مذاکرات شروع کیے ہیں 'اس میں خاصے اتار چڑھائو آتے رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد ان میں تعطل بھی آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں خوں ریزی کے واقعات بھی جاری رہے'حکومت کی جانب سے شمالی وزیرستان میں محدود اسٹرائیکس بھی ہوئیں اور آپریشن کی باتیں بھی منظرعام پر آ ئیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مذاکرات مستقل ناکام ہو گئے ہیں اور کسی بھی وقت آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔ اس نازک اور سنگین موقع پر حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے ارکان نے مثبت کردار ادا کیا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پھر طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا جس کے بعد صورت حال میں مثبت تبدیلی کا آغاز ہوا اور ٹوٹے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہو گیا۔ اس دوران بھی اسلام آباد کچہری کا واقعہ ہوا لیکن خوش آیند امر یہ کہ فریقین نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔
طالبان نے اس واقعے سے نہ صرف لاتعلقی کا اعلان کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ یوں ماضی سے وابستہ ان امور کا جائزہ لیا جائے تو اس منظر نامے میں یہی سامنے آتا ہے کہ حالات کا رخ مثبت جانب رواں ہے۔ اس سارے عمل کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک دو سیاسی جماعتوں کے سوا سب مذاکرات کی حامی ہیں۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں قتل و غارت ہو ۔ہر سیاسی جماعت اور اس کے قائد کی اپنے وژن کے مطابق حکومت پر تنقید سامنے آئی ہے جو ایک جمہوری رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور طالبان نے جو سلسلہ شروع کیا ہے اسے خوشگوار انجام تک پہنچانے کی سعی مسلسل کی جائے۔
طالبان کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ حکومت آئین سے ماورا ان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتی لہٰذا اگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں ہوتی تو تب بھی مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے کیونکہ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو فوری تو حل نہیں ہوتے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کا کوئی حل نکل آئے۔ ادھر حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ طالبان کے ایسے مطالبات جو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے مانے جا سکتے ہیں 'انھیں تسلیم کر لیا جائے۔ حکومت کو اس مذاکراتی عمل میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی شریک کرنا چاہیے تاکہ انھیں بھی صورت حال کا پتہ چل سکے۔ انھیں پتہ ہو کہ حکومت کن شرائط پر مذاکرات کر رہی ہے۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس کی رائے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے مذاکرات کا عمل زیادہ سبک خیز 'قابل اعتماد اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔