دنیا نے ’’ارتھ آور‘‘ منایا
ارتھ آور کا مقصد ’گلوبل وارمنگ‘‘ کے خطرے سے پوری دنیا کے باشندوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے
FAISALABAD:
ہفتے کی رات دنیا بھر کے ہزاروں شہروں اور قصبوں میں ایک گھنٹے کے لیے بجلی کی روشنی گل کر کے ''ارتھ آور'' منایا گیا جس کا مقصد کرہ ارض کے قدرتی وسائل کے تحفظ کو فروغ دینا اور ''گلوبل وارمنگ'' کے خطرے سے پوری دنیا کے باشندوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔ واضح رہے ''ارتھ آور'' منانے کا آغاز 2007میں آسٹریلیا سے کیا گیا تھا۔ لحظہ بھر کے لیے دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیے۔ ایک طرف نیوزی لینڈ اور دوسری طرف نیویارک تک انتہائی مشرق اور انتہائی مغرب کے درمیان اندازاً دنیا کے 7 ہزار چھوٹے بڑے شہر قائم ہیں جو سب کے سب ارتھ آور منانے میں شریک تھے۔ ان تمام شہروں کی بڑی بڑی عمارات پر بھی اس ایک گھنٹے کے دوران جس کا تعین ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو بجے شب تک کیا گیا تھا، بجلی کی روشنیاں بند یا بہت مدھم رہیں۔ پاکستان میں ملک بھر کی 135 مشہور عمارات پر روشنیاں بجھا دی گئیں۔
پاکستان میں یہ ''ارتھ آور'' ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے زیر اہتمام منایا گیا جب کہ سول ایوی ایشن نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس ایک گھنٹے میں ملک کے تمام ہوائی اڈوں کی روشنیاں بھی بند یا مدھم رکھی جائیں۔ اسلام آباد میں آگاہی واک کا اہتمام بھی کیا۔ یہاں اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ ایک دن میں 24، ہفتے میں 168، مہینے میں 672 گھنٹے جب کہ سال بھر میں 34944 گھنٹے ہوئے ہیں۔ اتنے بہت سارے گھنٹوں میں اگر صرف ایک گھنٹہ ارتھ آور منانے کے لیے مختص کیا جائے تو یہ کس قدر موثر ہو سکے گا اس پر بھی کوئی تحقیق کی جانی چاہیے۔ کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے پوری انسانیت کو جدوجہد کرنی چاہیے کیونکہ یہ زمین محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں۔
ہفتے کی رات دنیا بھر کے ہزاروں شہروں اور قصبوں میں ایک گھنٹے کے لیے بجلی کی روشنی گل کر کے ''ارتھ آور'' منایا گیا جس کا مقصد کرہ ارض کے قدرتی وسائل کے تحفظ کو فروغ دینا اور ''گلوبل وارمنگ'' کے خطرے سے پوری دنیا کے باشندوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔ واضح رہے ''ارتھ آور'' منانے کا آغاز 2007میں آسٹریلیا سے کیا گیا تھا۔ لحظہ بھر کے لیے دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیے۔ ایک طرف نیوزی لینڈ اور دوسری طرف نیویارک تک انتہائی مشرق اور انتہائی مغرب کے درمیان اندازاً دنیا کے 7 ہزار چھوٹے بڑے شہر قائم ہیں جو سب کے سب ارتھ آور منانے میں شریک تھے۔ ان تمام شہروں کی بڑی بڑی عمارات پر بھی اس ایک گھنٹے کے دوران جس کا تعین ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو بجے شب تک کیا گیا تھا، بجلی کی روشنیاں بند یا بہت مدھم رہیں۔ پاکستان میں ملک بھر کی 135 مشہور عمارات پر روشنیاں بجھا دی گئیں۔
پاکستان میں یہ ''ارتھ آور'' ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے زیر اہتمام منایا گیا جب کہ سول ایوی ایشن نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس ایک گھنٹے میں ملک کے تمام ہوائی اڈوں کی روشنیاں بھی بند یا مدھم رکھی جائیں۔ اسلام آباد میں آگاہی واک کا اہتمام بھی کیا۔ یہاں اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ ایک دن میں 24، ہفتے میں 168، مہینے میں 672 گھنٹے جب کہ سال بھر میں 34944 گھنٹے ہوئے ہیں۔ اتنے بہت سارے گھنٹوں میں اگر صرف ایک گھنٹہ ارتھ آور منانے کے لیے مختص کیا جائے تو یہ کس قدر موثر ہو سکے گا اس پر بھی کوئی تحقیق کی جانی چاہیے۔ کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے پوری انسانیت کو جدوجہد کرنی چاہیے کیونکہ یہ زمین محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں۔