کیا تاریخ خود کو دہرانے والی ہے

حکمرانوں سے التجا ہے کہ پاکستان کو مزید کسی خون خرابے کے کھیل کا حصہ بنانے کے بجائے امن کا گہوارا بنانے کی کوشش کریں۔


Muqtida Mansoor March 30, 2014
[email protected]

رضا رومی پر ہونے والے حملے سے یہ واضح ہو گیا کہ ملک میں ایسے حلقوں اور طبقات کی نمایاں کمی ہے، جن میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پایا جاتا ہے۔ وقت و حالات یہ بھی ثابت کر رہے ہیں کہ بعض مخصوص حلقے اس ملک کو مسلسل بدامنی کی آماجگاہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ رضا رومی سے میری چند سرسری بالمشافہ ملاقاتیں ہیں، لیکن فیس بک پر وہ میرے دوستوں کے حلقے میں شامل ہیں اور میں ان کی تحاریر کو غور سے پڑھتا اور ٹیلی ویژن پروگراموں کو توجہ سے دیکھتا ہوں۔ اس لیے رضا کے بارے میں میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ وہ انتہائی شائستہ اور شگفتہ انداز میں اپنی رائے اور نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔

مجھے ان کی کسی تحریر یا گفتگو میں کبھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی، جو ذرایع ابلاغ کے ضابطہ اخلاق سے ماورا ہو۔ اب اگر ایک ایسے شخص کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں شائستگی کے ساتھ تنقید کا حق بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔ اس لیے اس قسم کی کارروائیوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نظر انداز کرنے سے ان عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوں گے، جو پورے معاشرے کو تباہ کرنے کا سبب بنے گا۔ لہٰذا اگر اس وقت ہم اظہارِ رائے کی آزادی کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکے تو شاید آزادیِ صحافت کا سورج جو ابھی طلوع ہی ہوا ہے، کہیں وقت سے پہلے ہی غروب نہ ہو جائے۔

پاکستان میں صحافت اس لیے زد پر ہے کہ اس کی وجہ سے صرف غیر ریاستی عناصر ہی نہیں بلکہ ریاستی عناصر کے بعض ایسے اقدامات جنھیں وہ عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، طشت از بام ہو جاتے ہیں۔ اس لیے تمامتر دعوئوں کے باوجود حکومتی حلقے، ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طور ذرایع ابلاغ کو دبائو میں رکھنے کی خواہشمند ہوتی ہیں۔ غیر ریاستی عناصر کا مظہر (Phenomenon) تو اب سامنے آیا ہے، ریاستی عناصر تو قیامِ پاکستان کے وقت سے صحافت کو پابہ زنجیر کرنے پر تلے رہے اور اس میں وہ 60 برس تک کامیاب بھی رہے۔ بابائے قوم کی 11 اگست کی تقریر کے سنسر کیے جانے سے شروع ہونے والا کھیل پروگریسو پیپرز کے اخبارات و جرائد کو قومی ملکیت میں لینے پر ختم نہیں ہوا، بلکہ سلسلہ جنرل ضیاء کے دور میں صحافیوں پر کوڑے برسانے اور مختلف اخبارات پر پابندیوں تک پہنچا۔ آج جس قدر اظہار کی آزادی ہمیں میسر ہے، وہ کسی نے تھالی میں سجا کر نہیں دی ہے، بلکہ ہماری 65 برس پر محیط جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

اب سعودی حکومت سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر ہی کے معاملے کو لیجیے، حکومت نجانے کیوں اس رقم کو چھپانے پر مصر رہی ہے، حالانکہ ذرایع ابلاغ کے پھیلائو کے اس دور میں اس قسم کے معاملات کو زیادہ دیر تک چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میںکسی قدر استحکام آنا شروع ہوا، تو عام لوگوں کے بھی کان کھڑے ہونے لگے۔ لیکن وزیر خزانہ رقم کی نوعیت اور مشیرِ خارجہ ملنے کے اسباب بتانے کے بجائے ٹال مٹول کرتے رہے، جس کی وجہ سے مزید کنفیوژن پھیلا۔ شنید یہ بھی ہے کہ آیندہ ماہ کسی بھی وقت اتنی ہی مزیدرقم ملنے کو ہے۔ یوں سعودی حکومت کی طرف سے کل 3 ارب ڈالر کی رقم بجٹ سے قبل حکومت کو مل جائے گی، جو حکومت کے لیے بجٹ سازی میں درپیش مشکلات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔ لیکن اس کے عوض پاکستان کو جو کچھ کرنا ہو گا، وہ اہم موضوع ہے۔ اس لیے اس پر بحث ضروری ہے، کیونکہ اس سے مستقبل کا نقشہ واضح ہو گا۔

فروری میں وزیر اعظم اور آرمی چیف کے سعودی عرب کے خیر سگالی دورے کے بعد گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تسلسل کے ساتھ خلیجی ممالک سے کئی اعلیٰ سطح سفارتی وفود کے علاوہ بحرین کے امیر بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ مارچ کے اوائل میں اسلام آباد میں پاک سعودی اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا، اس میں شام کی صورتحال پر تشویش کے ساتھ عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کی حمایت کی گئی۔ حالانکہ اگلے روز وزارت خارجہ کی ترجمان نے واضح کیا کہ شام کے مسئلے پر پاکستان کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لیکن لوگوں کے کان کھڑے ہونا فطری بات تھی۔ جب کہ فروری سے مار چ کے وسط تک جو سفارتی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں اور عالمی میڈیا پر تسلسل کے ساتھ جو پورٹس شایع ہو رہی ہیں، وہ بھی ذرایع ابلاغ اور متوشش شہریوں کو چونکانے کے لیے کافی تھیں۔

اس دوران ایم کیو ایم کے قائد نے فوج کو ایسے احکامات ماننے سے انکار کرنے کا مشورہ دیا، جو بقول ان کے آئین سے متصادم ہوں اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کے مختلف مکاتیبِ فکر کے درمیان آویزش میں اضافہ کا خطرہ ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے صحافیوں اور بعض دیگر حلقوں نے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن تنقید کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ اسی قسم کا مشورہ خود میاں صاحب نے اس وقت سرکاری افسروں کو دیا تھا، جب گزشتہ دور میں پنجاب میں گورنر راج نافذ ہوا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے بھی سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران اسی قسم کے ریمارکس دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ الطاف حسین جو ایک بڑی جماعت کے رہنما اور عالمی منظر نامے پر ہونے والے واقعات پر نظر رکھتے ہیں، اس لیے انھیں ان تمام اقدامات کے بارے میں پیشگی علم ہے، جو پاکستان کو ایک بار پھر 1980 کے عشرے میں کیے گئے غلط فیصلے دہرانے کی طرف لے جا رہی ہے۔

اس امداد کے حوالے سے جو افواہیں اور قیاس آرائیاں سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق پاکستان سعودیہ کو عسکری مہارتوں کے علاوہ بعض مخصوص ہتھیار فراہم کرے گا۔ اگر اس افواہ یا قیاس آرائی میں سچائی موجود ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودیہ جو ایک دولتمند ملک ہے اور جس کے امریکا کے ساتھ عمدہ تعلقات ہیں، وہ امریکا سے براہ راست اسلحہ خریدنے کے بجائے استعمال شدہ امریکی اسلحہ پاکستان سے کیوں خرید رہا ہے؟ اور اس مقصد کے لیے اتنی خطیر رقم کیوں دے رہا ہے؟ یہ سوا لات انتہائی اہم ہیں اور انھیں آئیں بائیں شائیں کر کے ٹالا نہیں جا سکتا۔ یہ ملک کی قومی سلامتی اور اس کے مستقبل سے وابستہ سوالات ہیں۔

ان قیاس آرائیوں کا جواب نہ دیا گیا تو کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے پاکستان سے اسلحہ خرید رہا ہے۔ بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ پاکستانی حکمران ایک بار پھر 1980 کے عشرے کی تاریخ دہرانے پر آمادہ ہو چکے ہیں اور ملنے والی اس رقم کے عوض شام میں جنگجو جتھے اور اسلحہ بھجوانے پر آمادہ ہو گئے ہیں، جس کا ثبوت قبائلی علاقوں میں موجود جنگجو جتھوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کا شروع کیا جانا اور وفاقی وزیر داخلہ کی ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔

اگر یہ خدشات درست ہیں، تو پاکستان ایک بار پھر اسی جھنجھٹ میں پھنسنے جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کے سماجی ڈھانچے کا Fabric تار تار اور پورا معاشرہ شدت پسندی اور متشدد فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہوا ہے۔ اس فیصلے سے جہاں ایک طرف ایران سے تعلقات خراب ہوں گے، وہیں دوسری طرف عالم اسلام میں فرقہ وارانہ تقسیم بھی مزید گہری ہو گی۔ اس کے علاوہ 2015میں افغانستان کے مسئلے کے حل میں پاکستان کا کردار کمزور پڑے گا۔ یہ باتیں نجانے کیوں حکمران اشرافیہ کی سمجھ میں نہیں آ رہیں اور وہ اسی راستے پر گامزن ہیں، جس کے دیے گھائو اب گہرا زخم بن چکے ہیں اور جن کے بھرنے کا فی الحال کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے حکمرانوں سے یہ التجا ہے کہ براہِ مہربانی پاکستان کو مزید کسی خون خرابے کے کھیل کا حصہ بنانے کے بجائے امن کا گہوارا بنانے کی کوشش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں