جعلی کاربن کاپی
پاکستانیوں سے خصوصاً پوچھا جاتاہے کہ وہ اس ملک میں کس لیے آئے ہیں؟ کیوں! اس لیے کہ انھیں معلوم ہے ۔۔۔
VEHARI:
بہترین لوگ، ذرخیز ذہن مگر ہر امر عبث۔ ملکی معاملات پر دہائیوں سے پڑے ہوئے گہرے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ حکومت میں آنا، رہنا اور بے توقیر ہو کر واپس جانا اب ملکی اور صرف ملکی عوامل کی بدولت نہیں ہے۔ آپ صرف ایک بین الاقوامی لابی کی بدولت اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ باقی سب باتیں اور حس ظرافت سے محروم بیانات! جتنا کم لکھا جائے اتنا ہی بہتر۔
آپ امریکا یا مغربی یورپ کے کسی ملک میں چلے جائیے۔ آپ کو ہر کونے میں غیر معمولی ترقی کے اثرات محسوس ہونگے۔ ایک اور نکتہ بھی فکر کے دروازے پر مسلسل دستک دیتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ان ملکوں کے شہری اپنے ملکوں سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ آپ ہالینڈ، سویڈن یا فرانس جائیں۔ آپ کو اکثر گھروں کے باہر اپنے اپنے ملک کے قومی پرچم ایستادہ نظر آئینگے۔ امریکا میں تو یہ بالکل عام سی بات ہے۔ گھروں کے کمپلیکس کے احاطہ میں امریکی جھنڈا لہراتا نظر آئے گا۔ گھروں کی کھڑکیوں کے باہر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے قومی پرچم رکھے ہونگے۔ آپ کو خوبصورت پھولوں کے گملوں کے درمیان ملکی پرچم ہر جگہ نظر آئے گا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے۔
ان ممالک کے شہریوں کو مکمل ادراک ہے کہ ان کی غیر معمولی ترقی، صرف اور صرف اس ملک کے شہری ہونے کی بدولت ہے۔ ان کی دولت، بے مثال سہولیات، اعلیٰ تعلیمی اور طبی نظام سب کچھ اس ملک کی ہی دین ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کی نفسیات سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لیے ہر انتہائی قدم بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے عام سے باشندے کی تکلیف کو حل کرنے کے لیے دنیا کے ہر کونے میں اپنی پوری اقتصادی اور فوجی طاقت استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ عام شہری کی حفاظت کے لیے جنگ جیسے قدم سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا ایک سُپر پاور ہونے کے باوجود جنگ میں شامل نہیں تھا۔ اس کی پالیسی دونوں فریقوں کے لیے تقریباً بین بین سی تھی۔ سات دسمبر1941ء کو جاپان نے امریکا کو مکمل حیرت زدہ کر دیا۔ پرل ہاربر امریکی زمین سے دور ہوائی کا حصہ تھا۔ یہاں امریکی بحریہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ان کی بحریہ پر اتنا موثر حملہ کرنے کی ہمت کرے گا۔ وائس ایڈمرل نگومو نے جاپان کی طرف سے منصوبہ بندی کر کے پرل ہاربر کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ دو گھنٹے کے اس فضائی حملے میں امریکا کے چوبیس سو فوجی اور شہری مارے گئے۔ اس کے اکیس بحری جہاز تباہ ہو گئے۔188 جنگی طیارے نیست و نابود ہو گئے۔ امریکا کے متعلق یہ تاثر کہ وہ اپنے لوگوں اور اثاثوں کی حفاظت نہیں کر سکتا، مکمل طور پر ناقابل قبول تھا۔
اگلے روز امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کا نتیجہ بہت خوفناک نکلا۔ امریکا نے جاپان کے دو شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جاپان میں ایٹم بم گرائے گئے۔ ہیروشیما میں ڈیڑھ لاکھ اور ناگاساکی میں پچھتر ہزار شہری مارے گئے۔ جاپان کے شہنشاہ نے فورا ًاپنی شکست قبول کر لی اور ہتھیار ڈال دیے۔ امریکا کا پیغام بالکل صاف اور موثر تھا، کہ وہ اپنے شہریوں، فوجیوں اور اثاثوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ پیغام آج تک موثر ہے۔
11 ستمبر2001 میں القاعدہ نے امریکا پر دہشت گردی کے چار وار کیے۔ ہائی جیک کیے گئے فضائی طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور اور پنٹا گون کے دفتر کا مغربی حصہ تباہ کر دیا۔ دہشت گردی کے ان حملوں میں تین ہزار شہری مارے گئے۔ چھ ہزار شہری زخمی ہو گئے۔ وال اسٹریٹ تاریخ میں پہلی بار17 ستمبر تک بند رہی۔ امریکا کے اسٹاک ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کے خسارے میں چلے گئے۔ امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر انتہائی قدم اٹھایا۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا ادارہ قائم کیا گیا۔ جس کے پاس کسی کو بھی گرفتار کرنے کے وسیع اختیار موجود تھے۔ افغانستان پر حملہ، عراق کی بربادی، مسلمان ممالک میں حکومتوں کی مکمل تبدیلی! اس کے ابتدائی ا قدام تھے۔ یہ پالیسی گیارہ سال گزرنے کے بعد آج تک جاری ہے۔ امریکا نے ایک خوفناک اور مہنگی ترین جنگ شروع کر دی۔ 9/11 کے بعد امریکا میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیا گیا۔ ہم جو مرضی کہیں، مگر یہ سب کچھ صرف ایک کلیہ پر مرکوز ہے کہ وہ اپنے ملک اور شہریوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
مسلمان ممالک میں کسی جگہ پر بھی مضبوط جمہوری اصولوں پر مبنی حکومت نہیں ہے۔ بادشاہت اور کمزور جمہوری رویوں پر مبنی شخصی حکومتیں ہر جانب موجود ہیں۔ حکمران طبقے اور عام لوگوں کے درمیان ایک بھر پور خلیج موجود ہے۔ جسے عبور کرنے کی جرا ت کوئی نہیں کر سکتا۔ دولت کا ارتکاز اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی عدم دستیابی پر کوئی بات کرنا وقت کا ضیاع ہے! کیونکہ یہ سب کچھ بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیبیا میں کرنل قذافی دہائیوں تک حکومت کرتا رہا۔ وہ مسلمان ممالک میں شخصی طرز اقتدار کی ایک مثال تھا۔ انسانی حقوق تو خیر دور کی بات، اپوزیشن کا وجود ہی نہیں تھا۔ صاحبان زیست! اُس کے حکم کے بغیر کوئی دم نہیں مار سکتا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا ابتدائی طرز کا جوہری پروگرام بھی لپیٹ کر امریکی دستر خوان پر پیش کر دیا تھا۔
مگر وہ ایک چیز پر غور نہ کر سکا کہ عام لوگ اس سے کتنے تنگ ہیں اور اس سے کتنے بیزار ہیں۔ نیٹو کے حملے کے بعد اکتوبر2011میں مسراٹا کے نزدیک لوگوں نے اسے ایک خندق میں چھپے ہوئے پکڑ لیا۔ یہ لیبیا کے عام شہری تھے جنھیں قذافی اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ ان لوگوں نے قذافی پر بے پناہ تشدد کیا۔ اس کی آنکھ، گردن اور سینے میں گولیاں ماریں۔ مرتے وقت قذافی معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس نے دو فقرے کہے "جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو یہ اسلام کے خلاف ہے" اور "کیا تمہیں علم ہے کہ صحیح اور غلط کیا ہے"۔ قذافی کی نعش کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اس کو مسراٹا کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ بعد میں ایک فریزر میں رکھ کر نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ پھر رات کی تاریکی میں نیٹو فوجیوں نے اس کی نعش کو ایک بے نام صحرا میں دفن کر دیا۔
میں چار سال پہلے تیونس ایک سرکاری وفد کے ساتھ گیا تھا۔ صدر زین العابدین کی سیکڑوں فٹ بڑی بڑی تصویریں ہر عمارت کے ساتھ آویزہ نظر آتی تھی۔ حکومت کا جاسوسی نظام اتنا موثر تھا کہ کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ صدر کے خلاف کچھ سوچ بھی سکے۔ صدر زین العابدین کے سامنے وزیر اعظم ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا تھا۔ وہ اپنے وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار رکھتا تھا۔ یہ اختیار وہ اکثر استعمال بھی کرتا تھا۔ اس کی دوسری بیوی کے لیے ہر وقت ایک بوئنگ جہاز تیار کھڑا رہتا تھا کیونکہ اسکو ایک خاص آئس کریم پسند تھی جو صرف پیرس میں بنتی تھی۔ بیگم صاحبہ اکثر جہاز کو پیرس بھجوا کر وہ آئس کریم منگواتی رہتیں تھیں۔ میں نے زین العابدین کا محل باہر سے دیکھا تھا۔ یہ طاقت، ہیبت اور قوت کا نشان تھا۔ مگر وہ بھی ایک چیز کو محسوس نہ کر سکا۔ کہ عام لوگ اس سے کتنے تنگ ہیں۔ صرف ایک ہفتہ کے ہنگاموں کے بعد زین العابدین گھٹنے ٹیک کر اپنے ملک سے فرار ہو گیا۔ آج وہ سعودی عرب میں بے نام زندگی گزار رہا ہے۔
زاہد امریکا کے ایک شہر ملواکی میں رہتا ہے۔ اُس کے بزرگ والد اَسی سال کے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے امریکا جانے کے لیے ویزہ کی درخواست دی۔ انھیں سفارت خانہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔ بات ختم ہو گئی۔ زاہد کی دس سالہ بیٹی نے اپنے مقامی سینیٹر کو ای میل کی کہ اس کے دادا اسے ملنے کے لیے ملواکی آنا چاہتے تھے اور انھیں ویزہ نہیں مل سکا۔ وہ اُس سینیٹر کا نام بھی نہیں جانتی تھی۔ اُس سینیٹر نے صرف ایک بچی کی ای میل پر سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ اُس کے الفاظ تھے کہ آپ کیسے ایک بچی کو اُس کے دادا سے ملاقات کرنے سے روک سکتے ہیں۔ زاہد کے والد کو فیصل آباد سے بلوا کر ویزہ دیا گیا۔ وہ اپنے بیٹے اور اپنی پوتی کے ساتھ ایک مہینہ گزار کر واپس آ گئے۔ اس بچی نے قطعاً اس سینیٹر کو فون نہیں کیا۔ وہ ذاتی طور پر اس کے پاس گئی بھی نہیں۔ اور اس نے یہ سب کچھ اپنے والد کو بھی نہیں بتایا۔ یہ ہے عام آدمی کی طاقت اور نظام میں اس کی حیثیت۔
ہمارے ہاں روز لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے مسائل پر توجہ دلانے کے لیے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر آگ لگاتے ہیں۔ لوگ اپنے جائز کاموں کے لیے دفتروں کے سال ہا سال بے سود چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لوگ غربت کی بدولت اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی اداروں پر ہر جگہ بے دریغ حملے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے فضائی جنگی جہاز تباہ کیے جاتے ہیں۔ ہمارے شہریوں کی گردنیں کاٹ کر فٹبال کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے ایئر پورٹس پر راکٹ فائر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے اہل فکر اور دانشور ان دیکھی گولیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کو دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر جگہ جوتے اتروا کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔
پاکستانیوں سے خصوصاً پوچھا جاتاہے کہ وہ اس ملک میں کس لیے آئے ہیں؟ کیوں! اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہم لوگوں کی اپنے ملک میں کوئی عزت نہیں ہے۔ جب ہمارے حکمران ہی ہمیں باعث توقیر نہیں گردانتے تو ترقی یافتہ ممالک اپنے ایئر پورٹس پر ہماری عزت کیوں کریں؟ ہمارے حکمران کرنل قذافی کے آخری جملے یاد رکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ ہر چیز ٹھیک کر رہے ہیں اور عوام ان سے از حد خوش ہیں! ہمارے عام لوگ تو ان کی نظر میں صرف پلاسٹک کے بے جان شناختی کارڈ ہیں! شائد اب وہ اصلی کاغذ کے ٹکڑے بھی نہیں رہے! میری نظر میں تو وہ کارڈ کی کاربن کاپی ہیں! جعلی کاربن کاپی!
بہترین لوگ، ذرخیز ذہن مگر ہر امر عبث۔ ملکی معاملات پر دہائیوں سے پڑے ہوئے گہرے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ حکومت میں آنا، رہنا اور بے توقیر ہو کر واپس جانا اب ملکی اور صرف ملکی عوامل کی بدولت نہیں ہے۔ آپ صرف ایک بین الاقوامی لابی کی بدولت اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ باقی سب باتیں اور حس ظرافت سے محروم بیانات! جتنا کم لکھا جائے اتنا ہی بہتر۔
آپ امریکا یا مغربی یورپ کے کسی ملک میں چلے جائیے۔ آپ کو ہر کونے میں غیر معمولی ترقی کے اثرات محسوس ہونگے۔ ایک اور نکتہ بھی فکر کے دروازے پر مسلسل دستک دیتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ان ملکوں کے شہری اپنے ملکوں سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ آپ ہالینڈ، سویڈن یا فرانس جائیں۔ آپ کو اکثر گھروں کے باہر اپنے اپنے ملک کے قومی پرچم ایستادہ نظر آئینگے۔ امریکا میں تو یہ بالکل عام سی بات ہے۔ گھروں کے کمپلیکس کے احاطہ میں امریکی جھنڈا لہراتا نظر آئے گا۔ گھروں کی کھڑکیوں کے باہر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے قومی پرچم رکھے ہونگے۔ آپ کو خوبصورت پھولوں کے گملوں کے درمیان ملکی پرچم ہر جگہ نظر آئے گا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے۔
ان ممالک کے شہریوں کو مکمل ادراک ہے کہ ان کی غیر معمولی ترقی، صرف اور صرف اس ملک کے شہری ہونے کی بدولت ہے۔ ان کی دولت، بے مثال سہولیات، اعلیٰ تعلیمی اور طبی نظام سب کچھ اس ملک کی ہی دین ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کی نفسیات سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لیے ہر انتہائی قدم بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے عام سے باشندے کی تکلیف کو حل کرنے کے لیے دنیا کے ہر کونے میں اپنی پوری اقتصادی اور فوجی طاقت استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ عام شہری کی حفاظت کے لیے جنگ جیسے قدم سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا ایک سُپر پاور ہونے کے باوجود جنگ میں شامل نہیں تھا۔ اس کی پالیسی دونوں فریقوں کے لیے تقریباً بین بین سی تھی۔ سات دسمبر1941ء کو جاپان نے امریکا کو مکمل حیرت زدہ کر دیا۔ پرل ہاربر امریکی زمین سے دور ہوائی کا حصہ تھا۔ یہاں امریکی بحریہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ان کی بحریہ پر اتنا موثر حملہ کرنے کی ہمت کرے گا۔ وائس ایڈمرل نگومو نے جاپان کی طرف سے منصوبہ بندی کر کے پرل ہاربر کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ دو گھنٹے کے اس فضائی حملے میں امریکا کے چوبیس سو فوجی اور شہری مارے گئے۔ اس کے اکیس بحری جہاز تباہ ہو گئے۔188 جنگی طیارے نیست و نابود ہو گئے۔ امریکا کے متعلق یہ تاثر کہ وہ اپنے لوگوں اور اثاثوں کی حفاظت نہیں کر سکتا، مکمل طور پر ناقابل قبول تھا۔
اگلے روز امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کا نتیجہ بہت خوفناک نکلا۔ امریکا نے جاپان کے دو شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جاپان میں ایٹم بم گرائے گئے۔ ہیروشیما میں ڈیڑھ لاکھ اور ناگاساکی میں پچھتر ہزار شہری مارے گئے۔ جاپان کے شہنشاہ نے فورا ًاپنی شکست قبول کر لی اور ہتھیار ڈال دیے۔ امریکا کا پیغام بالکل صاف اور موثر تھا، کہ وہ اپنے شہریوں، فوجیوں اور اثاثوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ پیغام آج تک موثر ہے۔
11 ستمبر2001 میں القاعدہ نے امریکا پر دہشت گردی کے چار وار کیے۔ ہائی جیک کیے گئے فضائی طیاروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور اور پنٹا گون کے دفتر کا مغربی حصہ تباہ کر دیا۔ دہشت گردی کے ان حملوں میں تین ہزار شہری مارے گئے۔ چھ ہزار شہری زخمی ہو گئے۔ وال اسٹریٹ تاریخ میں پہلی بار17 ستمبر تک بند رہی۔ امریکا کے اسٹاک ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کے خسارے میں چلے گئے۔ امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر انتہائی قدم اٹھایا۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا ادارہ قائم کیا گیا۔ جس کے پاس کسی کو بھی گرفتار کرنے کے وسیع اختیار موجود تھے۔ افغانستان پر حملہ، عراق کی بربادی، مسلمان ممالک میں حکومتوں کی مکمل تبدیلی! اس کے ابتدائی ا قدام تھے۔ یہ پالیسی گیارہ سال گزرنے کے بعد آج تک جاری ہے۔ امریکا نے ایک خوفناک اور مہنگی ترین جنگ شروع کر دی۔ 9/11 کے بعد امریکا میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیا گیا۔ ہم جو مرضی کہیں، مگر یہ سب کچھ صرف ایک کلیہ پر مرکوز ہے کہ وہ اپنے ملک اور شہریوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
مسلمان ممالک میں کسی جگہ پر بھی مضبوط جمہوری اصولوں پر مبنی حکومت نہیں ہے۔ بادشاہت اور کمزور جمہوری رویوں پر مبنی شخصی حکومتیں ہر جانب موجود ہیں۔ حکمران طبقے اور عام لوگوں کے درمیان ایک بھر پور خلیج موجود ہے۔ جسے عبور کرنے کی جرا ت کوئی نہیں کر سکتا۔ دولت کا ارتکاز اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی عدم دستیابی پر کوئی بات کرنا وقت کا ضیاع ہے! کیونکہ یہ سب کچھ بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیبیا میں کرنل قذافی دہائیوں تک حکومت کرتا رہا۔ وہ مسلمان ممالک میں شخصی طرز اقتدار کی ایک مثال تھا۔ انسانی حقوق تو خیر دور کی بات، اپوزیشن کا وجود ہی نہیں تھا۔ صاحبان زیست! اُس کے حکم کے بغیر کوئی دم نہیں مار سکتا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا ابتدائی طرز کا جوہری پروگرام بھی لپیٹ کر امریکی دستر خوان پر پیش کر دیا تھا۔
مگر وہ ایک چیز پر غور نہ کر سکا کہ عام لوگ اس سے کتنے تنگ ہیں اور اس سے کتنے بیزار ہیں۔ نیٹو کے حملے کے بعد اکتوبر2011میں مسراٹا کے نزدیک لوگوں نے اسے ایک خندق میں چھپے ہوئے پکڑ لیا۔ یہ لیبیا کے عام شہری تھے جنھیں قذافی اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ ان لوگوں نے قذافی پر بے پناہ تشدد کیا۔ اس کی آنکھ، گردن اور سینے میں گولیاں ماریں۔ مرتے وقت قذافی معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس نے دو فقرے کہے "جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو یہ اسلام کے خلاف ہے" اور "کیا تمہیں علم ہے کہ صحیح اور غلط کیا ہے"۔ قذافی کی نعش کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اس کو مسراٹا کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ بعد میں ایک فریزر میں رکھ کر نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ پھر رات کی تاریکی میں نیٹو فوجیوں نے اس کی نعش کو ایک بے نام صحرا میں دفن کر دیا۔
میں چار سال پہلے تیونس ایک سرکاری وفد کے ساتھ گیا تھا۔ صدر زین العابدین کی سیکڑوں فٹ بڑی بڑی تصویریں ہر عمارت کے ساتھ آویزہ نظر آتی تھی۔ حکومت کا جاسوسی نظام اتنا موثر تھا کہ کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ صدر کے خلاف کچھ سوچ بھی سکے۔ صدر زین العابدین کے سامنے وزیر اعظم ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا تھا۔ وہ اپنے وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار رکھتا تھا۔ یہ اختیار وہ اکثر استعمال بھی کرتا تھا۔ اس کی دوسری بیوی کے لیے ہر وقت ایک بوئنگ جہاز تیار کھڑا رہتا تھا کیونکہ اسکو ایک خاص آئس کریم پسند تھی جو صرف پیرس میں بنتی تھی۔ بیگم صاحبہ اکثر جہاز کو پیرس بھجوا کر وہ آئس کریم منگواتی رہتیں تھیں۔ میں نے زین العابدین کا محل باہر سے دیکھا تھا۔ یہ طاقت، ہیبت اور قوت کا نشان تھا۔ مگر وہ بھی ایک چیز کو محسوس نہ کر سکا۔ کہ عام لوگ اس سے کتنے تنگ ہیں۔ صرف ایک ہفتہ کے ہنگاموں کے بعد زین العابدین گھٹنے ٹیک کر اپنے ملک سے فرار ہو گیا۔ آج وہ سعودی عرب میں بے نام زندگی گزار رہا ہے۔
زاہد امریکا کے ایک شہر ملواکی میں رہتا ہے۔ اُس کے بزرگ والد اَسی سال کے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے امریکا جانے کے لیے ویزہ کی درخواست دی۔ انھیں سفارت خانہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔ بات ختم ہو گئی۔ زاہد کی دس سالہ بیٹی نے اپنے مقامی سینیٹر کو ای میل کی کہ اس کے دادا اسے ملنے کے لیے ملواکی آنا چاہتے تھے اور انھیں ویزہ نہیں مل سکا۔ وہ اُس سینیٹر کا نام بھی نہیں جانتی تھی۔ اُس سینیٹر نے صرف ایک بچی کی ای میل پر سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ اُس کے الفاظ تھے کہ آپ کیسے ایک بچی کو اُس کے دادا سے ملاقات کرنے سے روک سکتے ہیں۔ زاہد کے والد کو فیصل آباد سے بلوا کر ویزہ دیا گیا۔ وہ اپنے بیٹے اور اپنی پوتی کے ساتھ ایک مہینہ گزار کر واپس آ گئے۔ اس بچی نے قطعاً اس سینیٹر کو فون نہیں کیا۔ وہ ذاتی طور پر اس کے پاس گئی بھی نہیں۔ اور اس نے یہ سب کچھ اپنے والد کو بھی نہیں بتایا۔ یہ ہے عام آدمی کی طاقت اور نظام میں اس کی حیثیت۔
ہمارے ہاں روز لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے مسائل پر توجہ دلانے کے لیے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر آگ لگاتے ہیں۔ لوگ اپنے جائز کاموں کے لیے دفتروں کے سال ہا سال بے سود چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لوگ غربت کی بدولت اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی اداروں پر ہر جگہ بے دریغ حملے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے فضائی جنگی جہاز تباہ کیے جاتے ہیں۔ ہمارے شہریوں کی گردنیں کاٹ کر فٹبال کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے ایئر پورٹس پر راکٹ فائر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے اہل فکر اور دانشور ان دیکھی گولیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کو دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر جگہ جوتے اتروا کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔
پاکستانیوں سے خصوصاً پوچھا جاتاہے کہ وہ اس ملک میں کس لیے آئے ہیں؟ کیوں! اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہم لوگوں کی اپنے ملک میں کوئی عزت نہیں ہے۔ جب ہمارے حکمران ہی ہمیں باعث توقیر نہیں گردانتے تو ترقی یافتہ ممالک اپنے ایئر پورٹس پر ہماری عزت کیوں کریں؟ ہمارے حکمران کرنل قذافی کے آخری جملے یاد رکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ ہر چیز ٹھیک کر رہے ہیں اور عوام ان سے از حد خوش ہیں! ہمارے عام لوگ تو ان کی نظر میں صرف پلاسٹک کے بے جان شناختی کارڈ ہیں! شائد اب وہ اصلی کاغذ کے ٹکڑے بھی نہیں رہے! میری نظر میں تو وہ کارڈ کی کاربن کاپی ہیں! جعلی کاربن کاپی!