ٹیکنالوجی سے گرفتاری
معاشرے میں پولیس اور عوام میں رشتہ مضبوط ہوتا ہے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے ۔۔۔
ارشد نے ایک غلطی کی تھی۔ اب وہ لڑکا اور لڑکی اسے بلیک میل کر رہے تھے۔ ارشد کئی مرتبہ انھیں بھاری رقم دے کر اپنے کیے کی سزا بھگت چکا تھا۔ اس دفعہ اسے تھانے سے فون آیا۔ اس جوڑے نے تصویریں پولیس انسپکٹر کو پہنچا دی تھیں۔ اب تنگ کرنے والا ایک نہیں بلکہ دو تھے۔ ارشد کو ڈر تھا کہ اگر تصویریں اس کے بھائی یا بچوں تک پہنچ گئیں تو اس کے چھپے ہوئے عیب اس کے خاندان تک پہنچ جائیں گے۔ ہم نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ یہ سیدھا سادھا Harassment یعنی ایذا دہی کا مقدمہ بنتا تھا۔ اب یہ اختیار سیشن عدالت کو بھی مل گیا ہے کہ ایسے معاملات کی سماعت کریں۔ ہم نے ایس ایچ او کو فریق مقدمہ بنایا تھا۔ عدالت عالیہ میں پہنچے تو وہ پولیس انسپکٹر بیٹھا ہوا تھا۔ہمارا مقدمہ تیسرے نمبر پر تھا۔ پندرہ منٹ بعد ہماری باری آئی۔ جسٹس نے ہمارے دلائل سننے کے بعد پولیس سے کہا کہ کیوں اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
انسپکٹر نے کہا کہ ''جناب والا! میں نے کوئی غلط کام کیا ہے اور نہ کروں گا''۔ اس کے اس بیان پر عدالت نے حکم دیا کہ مدعی کو تنگ نہ کیا جائے۔ اگر اب وہ شکایت کرے گا تو انسپکٹر کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ یہ پچھلی صدی کے آخری لیکن وکالت کے ابتدائی دور کا مقدمہ تھا۔ ایک مہینہ گزرا تو ارشد کا فون آیا کہ اب کوئی اور شخص مجھے دھمکا رہا ہے اور وہ بھی آواز بدل کر، باتیں وہی ہیں جو پہلا شخص کرتا تھا۔ تھانے کا ایس ایچ او سرکاری ملازم اور جانا پہچانا ہوتا ہے۔ اس سے قانون آسانی سے نمٹ سکتا ہے۔ اگر کوئی کال گمنام ہو تو کس سے فریاد کریں اور کس پر الزام دھریں۔ ایک دن ارشد بہت خوش خوش دفتر آیا۔ اس کے پاس ستانے والے کا فون نمبر تھا۔ یہ کہاں سے ملا؟ اس نے کہا کہ میں نے اپنے فون پر CLI لگایا ہے۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ ارشد نے کہا کہ Callers Identification ہوتی ہے۔
بلیک میلر ابھی اس ٹیکنالوجی سے واقف نہ تھا۔ فون وصول ہونے کے ایک دو گھنٹے بعد جب ارشد نے اسے فون کیا تو دوسری طرف وہی شخص تھا جو کئی مہینوں سے بلیک میل کر رہا تھا۔ وہ حیران رہ گیا کہ اس کے ''شکار'' کو اس کے گھر کا نمبر کیسے معلوم ہوگیا۔ اب ڈرانے والا خود ڈر گیا تھا کہ ارشد خود اس کے خاندان کو فون کرکے اس کے عیب بھی دنیا والوں کو بتا سکتا ہے۔ یوں بلیک میلر کے نہلے پر ارشد کے فون پر نمبر کا علم ہوجانا دہلا بن گیا اور جان چھوٹی۔ پولیس کی زیادتی پر تو قانون کا سہارا لے لیا تھا لیکن عام آدمی کو پکڑنا دشوار ہو رہا تھا۔ اس دشواری پر سائنسی علم کام آیا۔ آج کے نوجوانوں کو علم نہیں کہ گزرے کل کے گندے لوگ دوسروں کے گھروں میں فون کرکے بہو بیٹیوں کو تنگ کیا کرتے تھے، اس پر قابو پانے کا عمل بڑا دشوار ہوا کرتا تھا۔ اب فون سیٹ پر نمبر آجانے کی بدولت ناپسندیدہ کالز سے بچا جاسکتا ہے۔
وہ خاتون ایک خوشحال گھرانے کی ایک ڈرامہ پروڈیوسر تھیں۔ اپنی پسند اور مرضی سے خاندان سے باہر شادی کی تھی۔ خاوند کا شہر بھی کوئی اور تھا۔ ایک دن وہ خاتون اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں۔ ملازم اور ملازمہ، جو میاں بیوی تھے اور اب غائب تھے۔ قتل کے دوسرے روز مرحومہ کے شوہر بھی دوسرے شہر سے واپس آگئے۔ وہ بیگم کی موت پر نہایت نڈھال تھے۔ شک کا دائرہ نوکر اور نوکرانی پر جا رہا تھا۔ مرنے والی کا موبائل فون بھی غائب تھا۔ جب تفتیشی افسر نے فون ملایا تو گھنٹی بج رہی تھی۔ قتل والی صبح مرحومہ کے نام سے بینک سے بڑی رقم بھی نکلوائی گئی تھی۔ دونوں نے نہ صرف بیگم صاحبہ کو قتل کیا تھا بلکہ گھر سے قیمتی اشیا بھی لے گئے تھے۔ پولیس مرحوم کے موبائل فون سے جوڑے کا مقام معلوم کرتی جا رہی تھی۔ دونوں میاں بیوی کراچی کی حدود سے باہر نکل گئے تھے۔ فون کی گھنٹی بجتی اور پتہ چل جاتا کہ شک کی زد میں آیا قاتل جوڑا اس وقت کہاں ہے۔ اب دوسرے شہر اور دوسرے صوبے کی پولیس سے رابطہ کیا گیا۔
ٹرین کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کی جیپ چل رہی تھی۔ بالآخر وہ دونوں ریل گاڑی سے اترے اور خوش خوش اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے۔ ابھی کچھ آگے ہی گئے تھے کہ پولیس نے دونوں کو گرفتار کرلیا۔ انھیں کراچی لایا گیا۔ پتہ چلا کہ یہ قتل مرحومہ کے شوہر کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ خاوند جان بوجھ کر شہر سے باہر چلا گیا کہ اس پر شک نہ ہو۔ نوکروں نے بتایا کہ پہلے دن قتل کا پروگرام تھا لیکن بیگم صاحبہ کی والدہ ان کے پاس آگئی تھیں۔ یہ بات صاحب کو بتائی تو انھوں نے ایک دن بعد واردات کرنے کا کہا۔ دونوں نے مالکن کو باندھا اور باتھ روم کے ٹب میں لے گئے۔ اسی دوران انھوں نے ایک بڑی رقم کا چیک لکھواکر دستخط کروا کے اپنے پاس رکھ لیا۔ رات کو قتل کرکے نوکر بینک پہنچا۔
ایک بڑی رقم دیکھ کر منیجر نے بیگم صاحب کو فون ملایا۔ بینک سے باہر فون تھامے ملازمہ نے کہا کہ رقم دے دو۔ ایک خاتون کے نمبر پر خاتون کی آواز سن کر منیجر نے چیک پاس کردیا۔ زیورات، رقم اور قیمتی موبائل لیے خوشحال زندگی گزارنے کا خواب دیکھنے والے ٹیکنالوجی کی بدولت گرفتار ہوگئے۔ اگر وہ فون نہ لیتے، پھینک دیتے یا سم نکال دینے کا ہنر جانتے تو کبھی نہ پکڑے جاتے۔ نہ نوکر و نوکرانی پکڑے جاتے اور نہ ان کا صاحب جو بیگم سے چھٹکارا پانے کے لیے ملازموں کو قتل پر اکسا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو سمجھا جاتا کہ نوکروں نے روپے پیسے کے لالچ میں مالکن کو قتل کردیا۔ مرحومہ کا شوہر بھی بیگم کی موت پر غم کا ڈرامہ کرکے ہمیشہ کے لیے سسرال میں اچھا بنا رہتا۔
تیسرا واقعہ ایک نوجوان جوڑے کا ہے جنھوں نے ایک شخص کو قتل کیا۔ عقلمندی سے مرحوم کا موبائل فون پھینک دیا پھر بھی پکڑے گئے۔ رحمان کا ایک بڑا کاروبار تھا۔ ایک لڑکا اور لڑکی اکثر ان کے دفتر آتے تھے۔ ایک دن سڑک سے رحمان کی لاش ملی۔ انھیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے جب ان کا موبائل فون ملایا تو صرف گھنٹی بج رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ایک بچہ بول رہا تھا۔ بچہ اردو نہیں سمجھ رہا تھا۔ وہ افغان بچہ تھا۔ ایک پختون پولیس افسر نے اس سے پشتو میں بات کی۔ پتہ چلا کہ یہ موبائل اسے جھاڑیوں سے ملا ہے۔ پولیس نے بچے کو حوصلہ دیا کہ تم ہم کو یہ فون دو ہم تم کو انعام دیں گے۔ پتہ معلوم ہونے پر موبائل فون مل گیا۔ اس آلے سے بھی قاتلوں کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ایک ہفتہ گزرا تو ایک صاحب انکوائری افسر کے پاس آئے۔ وہ مقتول رحمان کے رشتے دار تھے۔
انھوں نے کہا کہ نامعلوم کیوں اکثر ایک نوجوان جوڑا رحمان کے پاس آتا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے پوتے کے ساتھ آئے جس نے تصویر کھینچنے کی ضد کی۔ انھوں نے بچے کی فرمائش اور اپنی تشویش کو ذہن میں رکھ کر اس طرح تصویر کھینچی کہ اس جوڑے کی گاڑی کا نمبر بھی اس میں آگیا۔ موبائل فون کے کیمرے سے کھینچی گئی تصویر سے گاڑی والے کا پتہ مل گیا۔ یہ اس لڑکے کی گاڑی تھی جسے بڑی رقم کی ضرورت تھی۔ انھوں نے رحمان کو قابو کرکے اس سے چیک پر دستخط کروائے لیکن ڈر کے مارے بینک تک نہ پہنچے۔ یوں کسی دوسرے ملک میں جانے کے لیے دس پندرہ لاکھ روپے کسی سرمایہ دار سے نکلوانے کے لیے قتل کی حد تک جانے والا جوڑا اب سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اگر موبائل کیمرے سے تصویر نہ کھینچی جاتی تو ممکن ہے یہ لڑکا لڑکی مزید حوصلہ مند ہوکر کسی اور کو قتل کرکے بیرون ملک جاچکے ہوتے۔
چور اور سپاہی کی جنگ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ ٹیکنالوجی جہاں مجرموں کو آسانی فراہم کرتی ہے وہیں ان کی گرفتاری کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ جس معاشرے میں پولیس اور عوام میں رشتہ مضبوط ہوتا ہے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے کیونکہ پولیس کرتی شہریوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے گرفتاری۔
انسپکٹر نے کہا کہ ''جناب والا! میں نے کوئی غلط کام کیا ہے اور نہ کروں گا''۔ اس کے اس بیان پر عدالت نے حکم دیا کہ مدعی کو تنگ نہ کیا جائے۔ اگر اب وہ شکایت کرے گا تو انسپکٹر کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ یہ پچھلی صدی کے آخری لیکن وکالت کے ابتدائی دور کا مقدمہ تھا۔ ایک مہینہ گزرا تو ارشد کا فون آیا کہ اب کوئی اور شخص مجھے دھمکا رہا ہے اور وہ بھی آواز بدل کر، باتیں وہی ہیں جو پہلا شخص کرتا تھا۔ تھانے کا ایس ایچ او سرکاری ملازم اور جانا پہچانا ہوتا ہے۔ اس سے قانون آسانی سے نمٹ سکتا ہے۔ اگر کوئی کال گمنام ہو تو کس سے فریاد کریں اور کس پر الزام دھریں۔ ایک دن ارشد بہت خوش خوش دفتر آیا۔ اس کے پاس ستانے والے کا فون نمبر تھا۔ یہ کہاں سے ملا؟ اس نے کہا کہ میں نے اپنے فون پر CLI لگایا ہے۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ ارشد نے کہا کہ Callers Identification ہوتی ہے۔
بلیک میلر ابھی اس ٹیکنالوجی سے واقف نہ تھا۔ فون وصول ہونے کے ایک دو گھنٹے بعد جب ارشد نے اسے فون کیا تو دوسری طرف وہی شخص تھا جو کئی مہینوں سے بلیک میل کر رہا تھا۔ وہ حیران رہ گیا کہ اس کے ''شکار'' کو اس کے گھر کا نمبر کیسے معلوم ہوگیا۔ اب ڈرانے والا خود ڈر گیا تھا کہ ارشد خود اس کے خاندان کو فون کرکے اس کے عیب بھی دنیا والوں کو بتا سکتا ہے۔ یوں بلیک میلر کے نہلے پر ارشد کے فون پر نمبر کا علم ہوجانا دہلا بن گیا اور جان چھوٹی۔ پولیس کی زیادتی پر تو قانون کا سہارا لے لیا تھا لیکن عام آدمی کو پکڑنا دشوار ہو رہا تھا۔ اس دشواری پر سائنسی علم کام آیا۔ آج کے نوجوانوں کو علم نہیں کہ گزرے کل کے گندے لوگ دوسروں کے گھروں میں فون کرکے بہو بیٹیوں کو تنگ کیا کرتے تھے، اس پر قابو پانے کا عمل بڑا دشوار ہوا کرتا تھا۔ اب فون سیٹ پر نمبر آجانے کی بدولت ناپسندیدہ کالز سے بچا جاسکتا ہے۔
وہ خاتون ایک خوشحال گھرانے کی ایک ڈرامہ پروڈیوسر تھیں۔ اپنی پسند اور مرضی سے خاندان سے باہر شادی کی تھی۔ خاوند کا شہر بھی کوئی اور تھا۔ ایک دن وہ خاتون اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں۔ ملازم اور ملازمہ، جو میاں بیوی تھے اور اب غائب تھے۔ قتل کے دوسرے روز مرحومہ کے شوہر بھی دوسرے شہر سے واپس آگئے۔ وہ بیگم کی موت پر نہایت نڈھال تھے۔ شک کا دائرہ نوکر اور نوکرانی پر جا رہا تھا۔ مرنے والی کا موبائل فون بھی غائب تھا۔ جب تفتیشی افسر نے فون ملایا تو گھنٹی بج رہی تھی۔ قتل والی صبح مرحومہ کے نام سے بینک سے بڑی رقم بھی نکلوائی گئی تھی۔ دونوں نے نہ صرف بیگم صاحبہ کو قتل کیا تھا بلکہ گھر سے قیمتی اشیا بھی لے گئے تھے۔ پولیس مرحوم کے موبائل فون سے جوڑے کا مقام معلوم کرتی جا رہی تھی۔ دونوں میاں بیوی کراچی کی حدود سے باہر نکل گئے تھے۔ فون کی گھنٹی بجتی اور پتہ چل جاتا کہ شک کی زد میں آیا قاتل جوڑا اس وقت کہاں ہے۔ اب دوسرے شہر اور دوسرے صوبے کی پولیس سے رابطہ کیا گیا۔
ٹرین کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کی جیپ چل رہی تھی۔ بالآخر وہ دونوں ریل گاڑی سے اترے اور خوش خوش اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے۔ ابھی کچھ آگے ہی گئے تھے کہ پولیس نے دونوں کو گرفتار کرلیا۔ انھیں کراچی لایا گیا۔ پتہ چلا کہ یہ قتل مرحومہ کے شوہر کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ خاوند جان بوجھ کر شہر سے باہر چلا گیا کہ اس پر شک نہ ہو۔ نوکروں نے بتایا کہ پہلے دن قتل کا پروگرام تھا لیکن بیگم صاحبہ کی والدہ ان کے پاس آگئی تھیں۔ یہ بات صاحب کو بتائی تو انھوں نے ایک دن بعد واردات کرنے کا کہا۔ دونوں نے مالکن کو باندھا اور باتھ روم کے ٹب میں لے گئے۔ اسی دوران انھوں نے ایک بڑی رقم کا چیک لکھواکر دستخط کروا کے اپنے پاس رکھ لیا۔ رات کو قتل کرکے نوکر بینک پہنچا۔
ایک بڑی رقم دیکھ کر منیجر نے بیگم صاحب کو فون ملایا۔ بینک سے باہر فون تھامے ملازمہ نے کہا کہ رقم دے دو۔ ایک خاتون کے نمبر پر خاتون کی آواز سن کر منیجر نے چیک پاس کردیا۔ زیورات، رقم اور قیمتی موبائل لیے خوشحال زندگی گزارنے کا خواب دیکھنے والے ٹیکنالوجی کی بدولت گرفتار ہوگئے۔ اگر وہ فون نہ لیتے، پھینک دیتے یا سم نکال دینے کا ہنر جانتے تو کبھی نہ پکڑے جاتے۔ نہ نوکر و نوکرانی پکڑے جاتے اور نہ ان کا صاحب جو بیگم سے چھٹکارا پانے کے لیے ملازموں کو قتل پر اکسا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو سمجھا جاتا کہ نوکروں نے روپے پیسے کے لالچ میں مالکن کو قتل کردیا۔ مرحومہ کا شوہر بھی بیگم کی موت پر غم کا ڈرامہ کرکے ہمیشہ کے لیے سسرال میں اچھا بنا رہتا۔
تیسرا واقعہ ایک نوجوان جوڑے کا ہے جنھوں نے ایک شخص کو قتل کیا۔ عقلمندی سے مرحوم کا موبائل فون پھینک دیا پھر بھی پکڑے گئے۔ رحمان کا ایک بڑا کاروبار تھا۔ ایک لڑکا اور لڑکی اکثر ان کے دفتر آتے تھے۔ ایک دن سڑک سے رحمان کی لاش ملی۔ انھیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے جب ان کا موبائل فون ملایا تو صرف گھنٹی بج رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ایک بچہ بول رہا تھا۔ بچہ اردو نہیں سمجھ رہا تھا۔ وہ افغان بچہ تھا۔ ایک پختون پولیس افسر نے اس سے پشتو میں بات کی۔ پتہ چلا کہ یہ موبائل اسے جھاڑیوں سے ملا ہے۔ پولیس نے بچے کو حوصلہ دیا کہ تم ہم کو یہ فون دو ہم تم کو انعام دیں گے۔ پتہ معلوم ہونے پر موبائل فون مل گیا۔ اس آلے سے بھی قاتلوں کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ایک ہفتہ گزرا تو ایک صاحب انکوائری افسر کے پاس آئے۔ وہ مقتول رحمان کے رشتے دار تھے۔
انھوں نے کہا کہ نامعلوم کیوں اکثر ایک نوجوان جوڑا رحمان کے پاس آتا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے پوتے کے ساتھ آئے جس نے تصویر کھینچنے کی ضد کی۔ انھوں نے بچے کی فرمائش اور اپنی تشویش کو ذہن میں رکھ کر اس طرح تصویر کھینچی کہ اس جوڑے کی گاڑی کا نمبر بھی اس میں آگیا۔ موبائل فون کے کیمرے سے کھینچی گئی تصویر سے گاڑی والے کا پتہ مل گیا۔ یہ اس لڑکے کی گاڑی تھی جسے بڑی رقم کی ضرورت تھی۔ انھوں نے رحمان کو قابو کرکے اس سے چیک پر دستخط کروائے لیکن ڈر کے مارے بینک تک نہ پہنچے۔ یوں کسی دوسرے ملک میں جانے کے لیے دس پندرہ لاکھ روپے کسی سرمایہ دار سے نکلوانے کے لیے قتل کی حد تک جانے والا جوڑا اب سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اگر موبائل کیمرے سے تصویر نہ کھینچی جاتی تو ممکن ہے یہ لڑکا لڑکی مزید حوصلہ مند ہوکر کسی اور کو قتل کرکے بیرون ملک جاچکے ہوتے۔
چور اور سپاہی کی جنگ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ ٹیکنالوجی جہاں مجرموں کو آسانی فراہم کرتی ہے وہیں ان کی گرفتاری کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ جس معاشرے میں پولیس اور عوام میں رشتہ مضبوط ہوتا ہے وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے کیونکہ پولیس کرتی شہریوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے گرفتاری۔