طبی فضلہ موت کا پیغام

انتظامیہ کوطبی فضلے کو ری سائیکل کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی ۔۔۔


Pakiza Munir March 30, 2014

KARACHI: کراچی کے شہریوں کو اب روز کئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ٹریفک کے مسائل تو دہشت گردی کا سامنا، تو کبھی دکان داروں کی اپنی بڑھائی ہوئی مہنگائی کی مصیبت کا سامنا اب روز ہی کراچی کے شہریوں کو مسائل کا سامنا ہے اور اب ایسی ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جو کبھی نہ ہوئیں اور نہ کبھی سنی گئی تھیں۔ ایسے حادثات سامنے آتے ہیں جو انسانی عقل کو حیران کردیتے ہیں، اب آپ اسی خبر کو لیجیے کہ طبی فضلے سے مختلف مصنوعات کی تیاری کا انکشاف ہوا۔

کراچی میں 90 فیصد سے زائد نجی و سرکاری اسپتالوں کا طبی فضلہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے انسی ٹیریٹر پلانٹ میں سائنسی بنیادوں پر تلف کیے جانے کے بجائے ری سائیکل ہوکر مختلف مصنوعات میں استعمال ہورہی ہیں، جیسے بچوں کے کھلونے، پلاسٹک کی ٹنکیاں، پلاسٹک کی بوتلیں، بالٹیاں، تھیلیاں، سرنجز اور دیگر مصنوعات تیار کی جارہی ہے جس کو تلف کرنے کے بجائے مارکیٹ میں فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ ایسی خبر ہے جو انسانی ذہن کو حیران کردیتی ہے، یاخدا یہ آخر کیا ہورہا ہے؟ آخر ہمارا قصور کیا ہے، ہر طرح اور ہر طرف سے کراچی والوں کو کیوں مارا جارہا ہے، ہم دہشت گردوں کو الزام دیتے ہیں اور اصل میں ہم خود دہشت گرد بنے ہوئے ہیں، چند روپوں کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ کون سی ایسی چیز ہے جو اس وقت ملک میں کم قیمت پر مل جائے، عوام سے دگنا زیادہ ہر چیز پر پیسے زیادہ لیے جاتے ہیں اور ان کو مل کیا رہا ہے جراثیم سے بھری ہوئی چیزیں۔ پیسہ پورا لیتے ہیں اور اس کے بدلے بیماری اور موت دے رہے ہیں۔

یہ آخر کون لوگ ہیں جو اتنے سفاک کام کرتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتے؟ یہ بھی ہماری ہی طرح کے عام انسان ہوںگے، ان کے بھی عزیز اور بچے ہوںگے۔ یہ لوگ جو مارکیٹ میں جراثیم بھری چیزیں فروخت کررہے ہیں، بچوں کے کھلونے بنارہے ہیں تو کیا یہ جراثیم بھری چیزیں اپنے گھر میں استعمال کرتے ہوں گے؟ ان کے بچے ایسے کھلونوں سے کھیلتے ہوںگے؟ ہرگز نہیں، کیوں کہ یہ وہ امیر طبقہ ہے جو صرف عوام کے خون سے محل تعمیر کرتے ہیں اور ان کے عزیز اور ان کے بچے بیرون ملک رہتے ہیں۔ یہ امیر طبقہ کماتا تو یہاں ہے اور خرچ بیرون ملک کرتا ہے، کیوں کہ وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ یہاں پیسوں کے بدلے کیا مل رہا ہے۔ اس طبی فضلے کو ری سائیکل کرکے استعمال کیے جانے کے باعث ہیپا ٹائٹس بی، سی، ایڈز اور دیگر جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پاکستانی شہریوں کو بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خطرات ہیں، ہم خود پاکستان کی تباہی کے ذمے دار ہیں اور نام دوسروں پر لگادیتے ہیں۔ کیونکہ یہ آسان کام ہے، اپنی خود کی غلطی دوسروں کے سر ڈال کر غیر ذمے دار لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بچ گئے ہیں اور دوسرے پھنس گئے۔

اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے، ایسے جملے کئی سال سے سن رہے ہیں، پہلے تو یہی سمجھ آتا تھا کہ واقعی ملک کو بیرونی طاقتوں کی دہشت گردی کا سامنا ہے مگر حقیقت میں ملک کو اپنے ہی لوگوں کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔

سول اسپتال، جناح اسپتال، عباسی اور دیگر نجی اور سرکاری اسپتالوں میں طبی فضلے کو جلانے کے بجائے فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں 1400 اسپتال کلینک، میٹرنٹی ہومز، بلڈ بینک اور لیبارٹریز قائم ہیں ان میں سے صرف 130 اسپتال اور دیگر ہیلتھ سینٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی سے رجسٹرڈ ہیں اور ماہانہ فیس ادا کرکے اسپتال کا طبی فضلہ یومیہ کے ایم سی کے محکمے سالڈ ویسٹ کی انتظامیہ کے حوالے کیاجاتا ہے جہاں انسی ٹیریٹر پلانٹ سائنسی بنیادوں پر تلف کیا جاتا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے انسی ٹیریٹر پلانٹ میں ایک گھنٹے کے دوران ایک ٹن طبی فضلہ تلف کرنے کی استعداد ہے، جب کہ یومیہ صرف 1.5 ٹن فضلہ مختلف اسپتالوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اپنے اسپتالوں کی اپنی انتظامیہ اسپتال کا فضلہ محکمہ سولڈ ویسٹ کے حوالے کرنے کے بجائے فروخت کردیتی ہے، جس سے بچوں کے کھلونے، بوتلیں، بالٹیاں، تھیلیاں وغیرہ بنائی جاتی ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو موت کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

آخر ہمارے شہر کی انتظامیہ کہاں ہے؟ شہر میں کھلے عام بڑے بڑے اسپتال اس کام میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ کیوں ان لوگوں کو کھلی دہشت گردی کی اجازت ملی ہوئی ہے، کہاں ہے قانون؟ کیوں آزاد ہیں یہ دہشت گرد؟ معصوم شہریوں کی زندگی سے کھیلنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہیں؟

ہماری انتظامیہ کو اپنی خاموشی ختم کرنی پڑے گی اور ایسے تمام افراد اور انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو طبی فضلے کو ری سائیکل کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ایسے تمام اسپتالوں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔ ان اسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ اپنے اسپتال کا طبی فضلہ بلدیہ عظمیٰ کے انسی ٹیریٹر پلانٹ میں سائنسی بنیادوں پر تلف کیا جائے تاکہ پاکستانی معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے جو ہوسکے ہر طرح کے اقدامات کیے جائے، ایسے قاعدے قانون بنائے جائے اور ان پر عمل بھی کروایا جائے جو انسانی زندگی اور معاشرے کی بقا کو نقصان نہ پہنچاسکے اور درحقیقت جو اصل مجرم ہیں ان کو سزائیں دی جائیں تاکہ دوبارہ پھر سے کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے۔

ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب اپنے لوگ اپنے ملک اور اپنے ہی شہریوں کے ساتھ مخلص نہ ہوں۔ سب سے پہلے ہمارا خود کا مخلص ہونا بہت ضروری ہے۔ کیا ہم واقعی اپنے معاشرے اور اپنے لوگوں سے مخلص ہیں۔ دہشت گردوں میں اور ایسے لوگوں میں کیا فرق ہے۔ ان سے تو دہشت گرد ہی اچھے ہیں، کم سے کم وہ مار کر بولتے تو ہیں قبول تو کرلیتے ہیں اور ایسے ادارے جو شہریوں کو مار رہے ہیں وہ تو قبول بھی نہیں کرتے بلکہ معاشرے میں باعزت اور امیر شمار کیے جاتے ہیں اور شہری سمجھتے ہیں کہ اصل میں یہ ادارے ان کی خدمت کررہے ہیں، ان کو موت سے بچارہے ہیں۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور یہ ادارے ہمیں دکھاتے کچھ اور ہی ہیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ ایسے تمام اسپتالوں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے اسپتالوں کا طبی فضلہ ضایع کرنے کے بجائے ری سائیکل کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں