انسانوں میں تفریق کیسے ہوئی

قدیم کمیونسٹ سماج میں انسانوں میں کوئی تفریق نہیں تھی یعنی کہ طبقات کا وجود نہیں تھا۔۔۔۔


Zuber Rehman March 30, 2014
[email protected]

قدیم کمیونسٹ سماج میں انسانوں میں کوئی تفریق نہیں تھی یعنی کہ طبقات کا وجود نہیں تھا۔ رنگ و نسل، فرقہ کی تفریقات کا تصور بھی نہ تھا۔ سارے لوگ مل کر شکار اور پھل لاتے اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کرلیتے۔ ان کے سماج میں سب سے بڑا جرم ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا تھا۔ ریاست کے وجود سے ہی طبقات نے وجود لیا۔ پھر انسان نے انسان کا استحصال شروع کیا۔ ایک جانب صاحب جائیداد طبقات اور دوسری جانب قوت، محنت پر اپنا پیٹ پالنے والے محنت کش۔ طبقاتی استحصال کو سمجھنے کے لیے، طبقات اور طبقاتی جدوجہد کو سمجھنا ہے۔ سادہ الفاظ میں طبقاتی جدوجہد پیداواری طبقات کے ہاتھوں تخلیق شدہ زائد دولت کی خاطر جدوجہد ہے۔ کیا یہ زائد پیداوار سماج کو قابو کرنے والی اقلیت کی دولت میں مزید اضافے کے لیے استعمال ہوگی؟ یا پھر اسے اس محنت کش اکثریت کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے بروئے کار لایا جائے گا، جو درحقیقت اس دولت کو پیدا کرتے ہیں؟

یا شاید ہم ایک ایسی دنیا میں رہ سکتے ہیں جو استحصال کرنے والوں سے پاک ہو، جہاں مشترکہ طور پہ پیدا کی جانے والی دولت کے استعمال کا تعین سماج خود کرے ؟ حکمراں طبقہ وہ طبقہ ہے جو ریاست کو قابو میں رکھتا ہے اور ذرایع پیداوار کا مالک ہے، جن میں زمین اور قدرتی وسائل، ورک شاپس، کارخانے اور بینک شامل ہیں۔ دولت کو پیدا کرنے والوں کے پاس کام کرنے کی صلاحیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، چنانچہ غلاموں کی شکل میں املاک بنادیے گئے یا جاگیردارانہ مزارعین کی طرح زمین سے باندھ دیے گئے، جس کے پاس شاید زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ ہو، جس سے وہ اپنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھتے لیکن اس کے باوجود انھیں دوسروں کے لیے کام اور قرضے اتارنے ہوتے تھے، یا پھر انھیں اجرت کے عوض سرمایہ دار کے آگے اپنی قوت محنت فروخت کرنی پڑتی ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد کا آسان الفاظ میں اظہار ہے۔

جدید دور میں یہ جدوجہد بنیادی طور پر محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان ہے۔ نوع انسان کی جانب سے جانوروں سے علیحدگی کے بعد سے ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر ہم نے کئی طریقوں سے خود کو منظم کیا۔ ہم کئی طرح کے سماجی و معاشی نظاموں میں رہے ہیں، جس میں قدیم کمیونزم ، غلام داری، جاگیرداری اور اب سرمایہ داری یا مختلف عبوری اور ایک سے زیادہ نظاموں کے امتزاج پر مبنی شکلیں بھی رہی ہیں۔ زیادہ تر وقت ہم ایک غیر طبقاتی سماج میں کمیونسٹ بن کر رہے ہیں، اگرچہ یہ نظام کی پست معیار ہنر پر مبنی تھا۔ طبقاتی سماج کی آمد سے لوگ مختلف پرتوں، ذاتوں اور طبقات میں بٹ گئے جن میں سے ہر کسی کا ایک دوسرے اور ذرایع پیداوار سے مخصوص رشتہ تھا، یعنی ان ذرایع کے ساتھ جن سے ہم روٹی کپڑا اور مکان اور ہر وہ چیز حاصل کرتے ہیں جو ہم انسانوں نے اپنی محنت اورتخلیق کے ذریعے فطرت سے حاصل کی ہے۔

عمومی طور پر بات کی جائے تو ایک طرف محنت کش طبقات ہیں اور دوسری جانب دوسروں کی محنت پر پلتے ہیں یعنی استحصال کا شکار اور استحصال کرنے والے طبقات۔ طبقاتی جدوجہد میں بنیادی طور پر دو بڑے طبقات برسرپیکار ہیں، ایک طبقہ سماج کے کلیدی معاشی عناصر یعنی ذرایع پیداوار کا مالک ہے اور دوسرا طبقہ زندہ رہنے کے ان ذرایع پیداوار پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ بعض اوقات ایک ہی طبقے کے مختلف پرتوں کے درمیان جدوجہد ہوتی ہے اور کئی مرتبہ طبقات کے درمیان تفریق غیر واضح ہوتی ہے، مثلاً 1930 کی دہائی کا اسپین اور پاکستان میں جہاں زمیندار سرمایہ دار بھی تھے اور ہیں، سرمایہ دار زمیندار بھی۔ امریکا کے نیویارک شہر میں ٹرینٹی چرچ کی جائیداد سب سے بڑے مالکان میں سے ایک ہے اوراس بنا پر مالیاتی سرمائے کے مرکزی شہر میں طاقتور کھلاڑی ہیں۔ جہاں تک ناہموار مشترکہ ترقی کی بات ہے تو برصغیر ہند کے محنت کش اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سرمایہ داری کے زیر اثر کسی اور دوسرے ملک کی طرح امریکا کے لیے بھی یہ سب درست ہے۔

استحصال کرنے والا سرمایہ دار طبقے کی موجودگی کے لیے استحصال کا شکار محنت کش طبقہ ہونا ضروری ہے۔ امریکی سرمایہ داری کے درندہ صفت سامراجی مرحلے میں داخل ہونے سے بہت پہلے حکمراں طبقے نے یہاں براعظم امریکا میں بے پناہ قدرتی وسائل اور کروڑوں لوگوں کی محنت کے بل بوتے پر اپنی دولت میں اضافہ کیا۔ درحقیقت امریکا کے 15 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ محنت کش دنیا میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار مزدروں میں ہیں۔ انتہائی بلند پیداواری کارکردگی کی بنیاد پر امریکی محنت کش سرمایہ داروں کے لیے بہت زیادہ دولت پیدا کرتے ہیں، لیکن اس کا بہت ہی معمولی حصہ انھیں اجرتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے۔ امریکی محنت کشوں کی چھوٹی سی تعداد کی ہڑتال بھی سرمایہ داروں کے منافع کے لیے تباہ کن ہوگی، مثلاً امریکا کے مغربی ساحل پر آنے والے ہر بحری جہاز سے مال اتارنے اور لادنے کا کام یونین میں شامل صرف 36 ہزار گودی کے محنت کش کرتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ایشیا اور دوسرے خطوں سے امریکا کے بحرالکاہل کے ساحل کے راستے درآمد ہونے والے ہر کنٹینر کو یونین میں شامل محنت کشوں کی نسبتاً کم تعداد کے ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بندرگاہ کے ان مزدوروں کی ایک دن کی ہڑتال بھی سرمایہ داروں کے لیے اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے ہم امریکی محنت کش طبقے کی بے پناہ طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ محنت کش طبقہ امریکا میں وسیع اکثریت کا حامل ہے۔ امریکی شہروں کے عجوبے، ریل، شاہراہیں، کانیں، صنعت اور وسیع زرعی زمینیں، محنت کشوں کے خون، پسینے، آنسوئوں اور ذہن کی دین ہے۔ لیکن خود امریکیوں کو اس کی تاریخ کے حقائق کے متعلق شاذ و نادر ہی پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے، اگر امریکی محنت کشوں کو اپنی حقیقی طاقت اور ان کے طبقے کی جانب سے سماج کو بدلنے کی متواتر کوشش کا علم ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ پھر سے کھل کر طبقاتی جدوجہد کی جانب راغب ہوجائیں، یہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے مہلک خطرہ ہے۔ جب پہلے یورپی امریکا میں پہنچے تو انھیں ملنے والے زیادہ تر مقامی امریکی قدیم کمیونسٹ تھے جو انتہائی بنیادی ہنر کی سطح پر اشتراکی زندگی گزار رہے تھے۔

امریکا میں طبقاتی نظام یورپیوں نے متعارف کرایا تھا۔ وہ اپنے ساتھ جاگیرداری اور تجارتی سرمایہ داری کے عناصر اور بلاشبہ جبری ملازمت اور غلامی کو لائے۔ کروڑوں مقامی امریکیوں کا صفایا اور انھیں غلام بنائے جانے کا عمل قدیم کمیونسٹوں اور جاگیرداروں/ نوزائیدہ سرمایہ داروں کے درمیان یکطرفہ طبقاتی جنگ تھی۔ امریکا میں غلامی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ جس کی قیادت ابراہم لنکن نے کی، پھر 1886 میں امریکا کے عظیم محنت کشوں نے یکم مئی کو عظیم ہڑتال کے ذریعے دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی، ٹریڈ یونین تحریک کی عظیم جدوجہد کی روایت ڈالی، ایما گولڈمان جیسی انقلابی دانشور کو پیدا کیا، غلامی اور نسل پرستی کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ پھر حالیہ چند برس پہلے مزدوروں کی بے روزگاری اور کٹوتی کے خلاف وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نیویارک سے شروع ہوئی اور ٹوکیو اور سڈنی تک جاپہنچی۔ یہ سب طبقاتی تحریک کا نتیجہ ہے۔

اس دنیا کی آبادی کا 99 فیصد محنت کشوں پر مشتمل ہے، جب کہ ریاست جبر کا ادارہ ہے۔ کارکنان تحریکوں اور جدوجہد کے ذریعے عوام کو سہولت اور فائدہ دلواتے ہیں جب کہ ریاست لوٹ مار میں لگی رہتی ہے، جیسا کہ تھر کے قحط زدہ عوام کی شہری اور کارکنان مدد کر رہے ہیں جب کہ ریاستی کارندے اس امداد کی لوٹ مار کر رہے ہیں۔ اس لیے ریاست کی موجودگی میں عوام کی کوئی بھلائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ یہاں ایک عالمی اشتمالی انقلاب کی ضرورت ہے، جہاں سب مل کر پیداوار تو کرتے ہیں مگر اب پیداوار کو بھی آپس میں مل بانٹ کے تقسیم کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔