ظلم کی ہوگئی ہے حد یا رب
پولیس والے اپنے سرکاری اسلحہ خانوں سے اسلحہ بیچ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ کراچی کے پولیس حکام تک بھی پہنچ چکی ہے ۔۔۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر بین الاقوامی سطح پر بھی بڑا اہم شہر، اہم ترین بندرگاہ، پاکستان کے لیے معاشی حب، ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر کو جسے ہم پاکستانی روشنیوں کا شہر کہتے تھے، عروس البلاد کہتے تھے، اسی شہر کو، ہاں اسی شہر کو آہستہ آہستہ اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ گھپ اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ گزشتہ بیس پچیس سال سے ''آغوش مادر'' کا احساس لیے کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، پیپلز پارٹی آئی اور گئی، مسلم لیگ آئی اور گئی، پرویز مشرف کی فوجی حکومت بھی آئی اور چلی گئی، ان تمام حکومتوں کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ ہمیشہ ساتھ رہی، مگر اس شہر کراچی کی تباہی و بربادی کو کوئی روک نہ سکا۔ اس شہر کے لوگ فریاد کرتے رہے، مگر ''انھیں بچانے کوئی نہ آیا''۔
سمندر کے کنارے آباد اس شہر میں بھی ملک کے مختلف علاقوں سے روزگار کی تلاش میں لوگ آتے رہے، آباد ہوتے رہے، اور کراچی نے ہمیشہ آغوش مادر بن کر تمام آنے والوں کو سمیٹا، انھیں روزگار دیا، تعلیمی اداروں میں جگہ دی، ملازمتیں دیں، اسی شہر نے بٹوارے کے بعد ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والے لاکھوں مہاجرین کو بھی اپنی ممتا بھری آغوش میں سمیٹا تھا۔ اس شہر کا جگر، حوصلہ بلا کا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محض چند سال میں ممتا بھرے اس شہر نے زبان و نسل و رنگ کا امتیاز رکھے بغیر سب ہی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور سب لوگ بھائیوں کی طرح رہنے لگے، بھائیوں میں کبھی کبھی جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، مگر بزرگ بیچ میں پڑ کر جھگڑا رفع دفع کروا دیتے تھے۔ مگر پھر اچانک آغوش مادر سے بچے چھننے لگے اور ان کی بوری بند لاشیں ملنے لگیں۔ ماں کو رونے کی بھی اجازت نہیں تھی اور یوں خاموشی سے قبرستان آباد ہوتے رہے، پھر ایک ''غیبی مخلوق'' اس شہر میں قتل و غارت گری کا طویل منصوبہ لے کر داخل ہوگئی اور شہر کے اہم لوگ مرنا شروع ہوگئے۔
ڈاکٹر، وکیل، علما، صحافی مرتے رہے اور قاتل ''غیبی مخلوق'' اپنا کام دکھا کر غائب ہوتی رہی اور آج تک قاتل ''نامعلوم'' ہی ہیں۔ پھر بھتہ گیری شروع ہوگئی، پرچی آتی یا لفافے میں گولیاں آتیں۔ ساتھ تحریر بھی ہوتی ''ہمیں پتا ہے تمہارے بچے کن اسکولوں میں پڑھتے ہیں''۔ کاروباری حلقے شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے۔ مارکیٹیں بند رہنے لگیں، کاروبار بند اور سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل۔ بھتہ گیروں کو سارا شہر اور حکومت بھی جانتی تھی مگر کوئی ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ کراچی شہر میں اسلحہ آتا رہا، جمع ہوتا رہا اور پھر شرپسندوں کے روپ میں انسانوں کے شکاری اس شہر میں گھس آئے۔ وہ بندے مارتے، خودکش دھماکے کرتے اور پھر فوراً میڈیا کو بتاتے کہ ''یہ کام ہم نے کیا ہے''۔ اس شہر میں رینجرز اور پولیس موجود، مگر دونوں بے بس۔ ایک لمبا عرصہ شہر میں بلڈنگیں ملبے کا ڈھیر بنتی رہیں، لوگ مرتے رہے اور حکومت بے بس۔ اسلحہ بردار پہرے دار بے بس۔ یوں قبرستانوں کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔
پھر حکومت خواب غفلت سے ذرا بیدار ہوئی اور اس نے ''کھلم کھلا اعلان شدہ دہشت گردوں''کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ مورچہ بند، جدید ترین اسلحے سے لیسشرپسندوں سے دوبدو مقابلے ہوئے اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ ہوا تو یہ ہوا کہ پولیس کے سپہ سالار چوہدری اسلم کو مار ڈالا گیا۔
یہ تو ان عذابوں کا بیان تھا جو ہم اہل کراچی سہہ چکے اور اب ہم اہل کراچی جس خوف مستقبل میں مبتلا ہوچکے ہیں وہ بھی سن لیجیے۔
چند روز پہلے کی بات ہے، خبر یہ ہے کہ پولیس والے اپنے سرکاری اسلحہ خانوں سے اسلحہ بیچ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ کراچی کے پولیس حکام تک بھی پہنچ چکی ہے اور انھوں نے تھانہ نبی بخش کے دو تین اہلکاروں کو معطل بھی کردیا ہے۔ ایک اور خبر بھی اسی روز آئی اور اہل کراچی نے اسے بھی ٹی وی چینل پر براہ راست دیکھا، خبر یہ ہے کہ دو افراد کو اغوا کیا گیا اور ان کی رہائی کے بدلے اغوا کنندگان نے پانچ لاکھ روپے فی کس طلب کیے اور فریقین کے درمیان طے ہوا کہ پرانی نمایش کی چورنگی پر رقم لے کر آجائیں وہیں مغویوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔
مغویوں کے رشتے دار رقم لے کر پرانی نمائش پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ پولیس وین سے باوردی پولیس والے ان کے مغوی کو لے کر اتر رہے تھے، جنھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ تیسری خبر بھی سن لیں۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے ناظم آباد میں پاکستان کوارٹرز میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں خوف کے مارے ساری رات جاگ کر گزار رہے ہیں اور چھتوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، عورتیں کہہ رہی تھیں ''آدھی رات گئے پولیس کی وین سائرن بجاتی گزرتی ہے، اور ان کے پیچھے ہی ڈاکو آجاتے ہیں''۔
یہ خبریں ہم کراچی والوں کے لیے انتہائی خوفناک ہیں، حکومتیں اور سیاستدان تو ہمیں نہ بچا سکے اور اب تو ڈائریکٹ خدا سے ہی التجا ہے۔ (جالب کا حمدیہ شعر)
اپنے بندوں کی کر مدد یا رب
ظلم کی ہوگئی ہے حد یا رب
سمندر کے کنارے آباد اس شہر میں بھی ملک کے مختلف علاقوں سے روزگار کی تلاش میں لوگ آتے رہے، آباد ہوتے رہے، اور کراچی نے ہمیشہ آغوش مادر بن کر تمام آنے والوں کو سمیٹا، انھیں روزگار دیا، تعلیمی اداروں میں جگہ دی، ملازمتیں دیں، اسی شہر نے بٹوارے کے بعد ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والے لاکھوں مہاجرین کو بھی اپنی ممتا بھری آغوش میں سمیٹا تھا۔ اس شہر کا جگر، حوصلہ بلا کا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محض چند سال میں ممتا بھرے اس شہر نے زبان و نسل و رنگ کا امتیاز رکھے بغیر سب ہی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور سب لوگ بھائیوں کی طرح رہنے لگے، بھائیوں میں کبھی کبھی جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، مگر بزرگ بیچ میں پڑ کر جھگڑا رفع دفع کروا دیتے تھے۔ مگر پھر اچانک آغوش مادر سے بچے چھننے لگے اور ان کی بوری بند لاشیں ملنے لگیں۔ ماں کو رونے کی بھی اجازت نہیں تھی اور یوں خاموشی سے قبرستان آباد ہوتے رہے، پھر ایک ''غیبی مخلوق'' اس شہر میں قتل و غارت گری کا طویل منصوبہ لے کر داخل ہوگئی اور شہر کے اہم لوگ مرنا شروع ہوگئے۔
ڈاکٹر، وکیل، علما، صحافی مرتے رہے اور قاتل ''غیبی مخلوق'' اپنا کام دکھا کر غائب ہوتی رہی اور آج تک قاتل ''نامعلوم'' ہی ہیں۔ پھر بھتہ گیری شروع ہوگئی، پرچی آتی یا لفافے میں گولیاں آتیں۔ ساتھ تحریر بھی ہوتی ''ہمیں پتا ہے تمہارے بچے کن اسکولوں میں پڑھتے ہیں''۔ کاروباری حلقے شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے۔ مارکیٹیں بند رہنے لگیں، کاروبار بند اور سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل۔ بھتہ گیروں کو سارا شہر اور حکومت بھی جانتی تھی مگر کوئی ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ کراچی شہر میں اسلحہ آتا رہا، جمع ہوتا رہا اور پھر شرپسندوں کے روپ میں انسانوں کے شکاری اس شہر میں گھس آئے۔ وہ بندے مارتے، خودکش دھماکے کرتے اور پھر فوراً میڈیا کو بتاتے کہ ''یہ کام ہم نے کیا ہے''۔ اس شہر میں رینجرز اور پولیس موجود، مگر دونوں بے بس۔ ایک لمبا عرصہ شہر میں بلڈنگیں ملبے کا ڈھیر بنتی رہیں، لوگ مرتے رہے اور حکومت بے بس۔ اسلحہ بردار پہرے دار بے بس۔ یوں قبرستانوں کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔
پھر حکومت خواب غفلت سے ذرا بیدار ہوئی اور اس نے ''کھلم کھلا اعلان شدہ دہشت گردوں''کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ مورچہ بند، جدید ترین اسلحے سے لیسشرپسندوں سے دوبدو مقابلے ہوئے اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ ہوا تو یہ ہوا کہ پولیس کے سپہ سالار چوہدری اسلم کو مار ڈالا گیا۔
یہ تو ان عذابوں کا بیان تھا جو ہم اہل کراچی سہہ چکے اور اب ہم اہل کراچی جس خوف مستقبل میں مبتلا ہوچکے ہیں وہ بھی سن لیجیے۔
چند روز پہلے کی بات ہے، خبر یہ ہے کہ پولیس والے اپنے سرکاری اسلحہ خانوں سے اسلحہ بیچ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ کراچی کے پولیس حکام تک بھی پہنچ چکی ہے اور انھوں نے تھانہ نبی بخش کے دو تین اہلکاروں کو معطل بھی کردیا ہے۔ ایک اور خبر بھی اسی روز آئی اور اہل کراچی نے اسے بھی ٹی وی چینل پر براہ راست دیکھا، خبر یہ ہے کہ دو افراد کو اغوا کیا گیا اور ان کی رہائی کے بدلے اغوا کنندگان نے پانچ لاکھ روپے فی کس طلب کیے اور فریقین کے درمیان طے ہوا کہ پرانی نمایش کی چورنگی پر رقم لے کر آجائیں وہیں مغویوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔
مغویوں کے رشتے دار رقم لے کر پرانی نمائش پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ پولیس وین سے باوردی پولیس والے ان کے مغوی کو لے کر اتر رہے تھے، جنھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ تیسری خبر بھی سن لیں۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے ناظم آباد میں پاکستان کوارٹرز میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں خوف کے مارے ساری رات جاگ کر گزار رہے ہیں اور چھتوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، عورتیں کہہ رہی تھیں ''آدھی رات گئے پولیس کی وین سائرن بجاتی گزرتی ہے، اور ان کے پیچھے ہی ڈاکو آجاتے ہیں''۔
یہ خبریں ہم کراچی والوں کے لیے انتہائی خوفناک ہیں، حکومتیں اور سیاستدان تو ہمیں نہ بچا سکے اور اب تو ڈائریکٹ خدا سے ہی التجا ہے۔ (جالب کا حمدیہ شعر)
اپنے بندوں کی کر مدد یا رب
ظلم کی ہوگئی ہے حد یا رب