امیر بننے کا فارمولا

ہر امیر انسان کے حساب سے اسے اپنے کام سے عشق ہے اور اس کام سے وہ کبھی بور نہیں ہوتا ۔۔۔

wabbasi@yahoo.com

دنیا میں ہزاروں طرح کے لوگ بستے ہیں، الگ الگ سوچ الگ الگ یقین اور اسی طرح الگ الگ زندگیوں کا مقصد لیکن کیوں کہ آخر کو ہم سب ہیں تو مٹی کے بنے انسان ہیں، تو اکثر چیزیں ہم سب میں ایک جیسی ہیں۔

انسان خوش ہوتا ہے تو ہنستا ہے اور غم میں روتا ہے، چاہے کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، احساسات کے معاملے میں انسان ایک جیسا ہے اور یہی معاملہ ہماری خواہشات کا بھی ہے، انسان افریقہ میں رہتا ہو یا آسٹریلیا میں، جھونپڑی میں ہو یا محل میں، خواہشات کے سلسلے کبھی ختم نہیں ہوتے ''کاش'' اور ''اگر'' جیسے الفاظ کے آگے ہر انسان کی ڈھیر ساری ایسی خواہشات کی لسٹ ہوتی ہے جو وہ زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہے، شاید کسی کو دو وقت صرف پیٹ بھر روٹی کی خواہش ہے تو کسی کو جزیرہ خریدنے کی، خواہشات کا سائز بدلتا ضرور ہے لیکن ہر انسان کے دل میں آخری سانس تک خواہشات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

تین خواہشات ایسی ہوتی ہیں جو دنیا کے تقریباً ہر انسان کے دل میں موجود ہیں چاہے کوئی کسی بھی بیک گراؤنڈ سے کیوں نہ ہو، پہلا صحت مند رہنا یعنی ہر بیماری سے دور، دوسرا اچھا دکھائی دینا یعنی لوگوں کو خوبصورت لگنا اور تیسرا امیر ہونا۔زندگی کے ساتھ ترجیحات بدلتی ہیں لیکن دنیا کے بیشتر لوگوں نے کبھی نہ کبھی یہ خواہشیں کی ہیں، کئی لوگوں کا خیال ہے کہ انسان امیر قسمت سے بنتا ہے، جہاں تک صحت مند ہونے اور اچھا نظر آنے کا تعلق یقیناً قسمت سے ہے، وہیں امیر ہونے کا تعلق قسمت سے زیادہ کئی دوسری چیزوں سے ہے۔

آج ہم آپ کو امیر بننے کا فارمولا بتائیں گے، اس وقت سب سے زیادہ امیر لوگوں کی تعداد امریکا میں ہے، 8.7 ملین ملینرز اور ہزار بلینرز کی وجہ سے امریکن دنیا میں صرف چھ فیصد ہونے کے باوجود دنیا کا 80 فیصد پیسہ خرچ کرتے ہیں، امریکی اپنی کمائی کا صرف 1.6 فیصد حصہ ہر سال دنیا میں امداد میں دے دیتے ہیں اور امریکا کا یہ حصہ دنیا بھر کے ملکوں کی کل امداد سے زیادہ ہے۔ وہ ملک جہاں کے غریب کو بھی گھر گاڑی علاج کھانا اچھا موبائل فون اور بجلی تک جیسی چیزوں کی کوئی پریشانی نہیں۔

امریکا میں پچھلے کئی سال میں مختلف اسٹڈیز ہوئی ہیں، ان لوگوں کو نزدیک سے جانچا گیا ہے جو خود سے ملینرز بنے، یہ جاننے کے لیے کہ امیر بننے کا فارمولا کیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، نہ ہی جسمانی طور پر دوسروں سے مضبوط ہوتے ہیں اور نہ ہی ذہین لیکن زیادہ گہرائی میں دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان سب سیلف میڈ ملینرز میں کچھ ایسی عادتیں ہیں جو سب میں مشترک ہیں اور وہ عادتیں کچھ یوں ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ وہ کبھی ہار نہیں مانتے۔ بیشتر نے دو سے تین بار اپنی تمام تر دولت سے ہاتھ دھوئے لیکن کبھی Give-Up نہیں کیا، یہ نمبر ون خصوصیت کامیابی حاصل کرنے والوں کی۔

دوسری خصوصیت ہے پیشہ ورانہ ذمے داری نبھانا۔ بیشتر ملینرز اس طرح کام کرتے ہیں جیسے کوئی باس ان کے سر پر مستقل کھڑا ہے، صبح جلدی اٹھنا اور رات دیر تک کام کرنا اور یہ بہانے نہیں کرنا کہ وہ کام کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے، وہ جانتا ہے کہ زندگی میں کچھ نہ کرنے کے لیے آپ ہزار بہانے بناتے رہتے ہیں یا پھر ہر مشکل کو پیچھے چھوڑ کر کامیاب ہونے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ خود سے امیر بننے والے لوگ اپنے لیے راستے بناتے جاتے ہیں جب دوسرے راستے بند ہوجاتے۔


ہنری فورڈ جنھوں نے دنیا میں آٹو موبائل انڈسٹری متعارف کروائی اکتالیس (41) سال کی عمر تک ہر کوشش کرچکے تھے لیکن کامیاب نہیں ہو پائے تھے، اپنے گھر کے کچن میں اپنی بیوی اور بارہ سال کے بیٹے کی مدد سے جب اکتالیس سالہ مسٹر فورڈ پہلی گاڑی بنا رہے تھے تو وہ صرف گاڑی نہیں تھی وہ اپنی کامیابی کا خود بنایا راستہ تھا۔

جب وہ کام کرتے ہیں تو صرف کام کرتے ہیں، بیشتر دفتروں میں لوگ ایک دوسرے سے یا پھر فون پر گھنٹوں باتیں کرکے وقت ضایع کرتے ہیں، خود امیر بننے والوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جب کام کرتے ہیں تو پورے دل سے کرتے ہیں۔ وہ کرو جو کرنا اچھا لگتا ہے، ایپل انک کے اسٹیو جابس نے کہا تھا کہ امیر بننا اتنا محنت کا کام ہے کہ اگر آپ کو وہ کام پسند نہیں ہے تو بہت جلد آپ اس سے بور ہوجائیں گے۔ ہر امیر انسان کے حساب سے اسے اپنے کام سے عشق ہے اور اس کام سے وہ کبھی بور نہیں ہوتا۔

کبھی زندگی میں ''نہیں'' قبول نہ کریں، کئی سیلف میڈ ملینرز کے حالات معلوم کرنے پر پتہ چلا ہے کہ کبھی انھوں نے زندگی میں ''نہ'' کو نہ کی طرح نہیں لیا، اسی لیے کئی بار ایسے لوگوں نے یا کمپنیاں جنھوں نے ان کے ساتھ کام کرنے کو منع کردیا بعد میں ان ہی کے ساتھ کام کرتی نظر آئیں۔

اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو مثبت یعنی پازیٹو رکھنا بھی ان لوگوں کی خصوصیت ہے، بیشتر ملینرز کے ساتھ کام کرنے والے لوگ خود کو خوش اور مطمئن محسوس کرتے ہیں اور یہ اس لیے کہ سیلف میڈ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدد گاروں کو خوش رکھ کر کام اچھا ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گوگل کا آفس ہے جہاں تینوں وقت کا کھانا، لانڈری، بچوں کا اسکول ، آفس کے اوقات میں اگر چاہیں تو ذرا دیر سونے کے لیے بستر تک گوگل کے ہر کارکن کو دیا جاتا ہے۔

سیلف میڈ لوگ خود کو تھکا ہوا محسوس نہیں کرتے، نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے تو سب کچھ حاصل کرلیا، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دن میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے بھی اگلے دن کام پر جانے کے لیے تازہ دم محسوس کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک ملین کماکر یہ نہیں سوچتے کہ ''میں امیر ہوگیا ہوں'' بلکہ اس جستجو میں رہتے ہیں کہ وہ ایک ملین دس ملین کیسے بنائیں؟

آخر میں سیلف میڈ ملینرز کا گلاس ہمیشہ آدھا بھرا ہوا رہتا ہے۔ وہ یا تو جیتتے ہیں یا پھر تجربہ حاصل کرتے ہیں لیکن کبھی ہارتے نہیں، اگر آپ بھی اوپر لکھی باتوں پر عمل کریں تو ممکن ہے کہ ملینرز کی گنتی میں شامل ہوجائیں۔

پیسہ بڑی عجیب چیز ہوتی ہے، نہ ہو تو اپنے بھی پرائے ہوجاتے ہیں اور ہو تو پرائے بھی اپنے، اگر آپ کی تینوں خواہشات میں سے کوئی بھی پوری نہ ہوئی ہو تو قسمت کو قصور وار نہ ٹھہرائیں، امیر بننے کا فارمولا آپ کے پاس ہے انتظار کس کا ہے؟
Load Next Story