پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت اشارے

ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پوری طرح طے نہیں ہوئے لیکن وہ بھی مثبت سمت جاری ہیں

ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پوری طرح طے نہیں ہوئے لیکن وہ بھی مثبت سمت جاری ہیں۔ فوٹو : فائل

وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کا اجلاس گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہوا۔اس اجلاس میں کئی اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی ہے۔

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 3.60 روپے فی یونٹ سبسڈی دینے کی منظوری دے دی، تاہم اس کے ساتھ ہی ''کے الیکٹرک'' کے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 3.21 روپے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے۔

ای سی سی نے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 15ارب روپے دینے کا بھی فیصلہ کیا ۔ مجموعی طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مختلف مدات میں 139ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری دی، ان میں گردشی قرضوں میں کمی کی خاطر حکومتی ملکیت کے پاور پلانٹس کو واجبات کی ادائیگی کی مد میں دیے جانے والے 93.4 ارب روپے بھی شامل ہیں۔

زرعی ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کے نرخ میں 3.60 پیسے کی کمی کے بعد اب انھیں13 روپے فی یونٹ کی بیس پرائس ادا کرنی ہوگی، اس رعایت کا اطلاق یکم نومبر2022سے ہوگا، جس کا مقصد سیلاب سے کاشتکاروں کو ہونے والے نقصان کی جزوی تلافی کرنا ہے۔

تاہم بجلی کی قیمت میں سیلزٹیکس اور ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ شامل کیے جانے کے بعد کسانوں کو اب بھی بجلی کی کم سے کم قیمت 23.40 روپے فی یونٹ ادا کرنی پڑے گی۔

زرعی شعبہ کو مستحکم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کو اپنے اپنے مینڈیٹ کے تحت زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی ضرورت ہے۔

بہتر یہ ہوتا کہ زرعی شعبے کے لیے بجلی کے حوالے سے کچھ مالی بوجھ صوبائی حکومتیں اٹھاتیں ، اس طرح کسانوں پر مالی بوجھ مزید کم کیا جاسکتا ہے، بہرحال وفاقی حکومت نے اپنے وسائل کے مطابق جو فیصلہ کیا ہے، اس کو بھی سراہنے کی ضرورت ہے ۔زرعی شعبے کی ترقی اور چھوٹے کاشتکاروں کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔

خاص طور پر زرعی مداخل کو سستا ہونا چاہیے،کھاد ، بیج، زرعی ادویات وغیرہ سستے کرنے کی ضرورت ہے۔ بارہ ایکڑ تک کے زرعی اراضی کے مالک کاشتکاروں کے ذمے بینک قرضے معاف کردیے جائیں۔

بڑے بڑے صنعتکار اور کاروباری طبقے کے کروڑوں، اربوں کے قرضے ری شیڈول اور مارک اپ وغیرہ معاف کیا جاسکتا ہے تو چھوٹے کسانوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دی جاسکتی۔

چھوٹے کاشتکار اور زرعی مزدور طبقے ہر قسم کے وفاقی، صوبائی اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے عائد کردہ ٹیکس ادا کرتے ہیں،ممکن ہے یہ طبقے انکم ٹیکس کے دائرے میں نہ آتے ہوں لیکن یہ جی ایس ٹی،بجلی اور دوسرے یوٹیلٹی بلز میں عائد ٹیکسز،میونسپل کمیٹیوں کے ٹیکس ادا کرتے ہیںجب کہ سرکار اس طبقے کو علاج ومعالجے کی سہولت دیتی ہے اور نہ ہی سرکاری ٹرانسپورٹ کی سہولت دیتی ہے۔

مفت تعلیم کی سہولت بھی مہیا کرتی، دیہی اسکولز انفرااسٹرکچر فرسودہ ہے، اس جانب بھی حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ پسماندہ اور غریب طبقہ چھوٹا کاشتکار اور زرعی مزدور ہے۔

بہرحال پاکستان چونکہ سخت مالیاتی اور معاشی بحران کا شکار ہے،اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کو ایشین انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے500ملین(50 کروڑ) ڈالرکی مالی معاونت موصول ہوگئی۔

وزیر خزانہ سینیٹرمحمد اسحاق ڈار نے منگل کو اپنے ٹویٹ میں کہاکہ ایشین انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک کے بورڈ کی منظوری کے بعد بینک نے 50 کروڑ ڈالر پروگرام فنانسنگ کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو منتقل کردیے ہیں۔


ایشین انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک نے بریس ترقیاتی پروگرام کے تحت پاکستان کے لیے 500 ملین ڈالر کی مالی معاونت کا اعلان کیا تھا۔ بورڈ کی منظوری کے بعد مذکورہ رقم پاکستان کو موصول ہوگئی ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 500ملین ڈالر کی منتقلی کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔گزشتہ ماہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے بجٹ کو سپورٹ کرنے اور تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر اسٹیٹ بینک کو جاری کیے تھے۔

پاکستان کی معیشت کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے' ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پوری طرح طے نہیں ہوئے لیکن وہ بھی مثبت سمت جاری ہیں اور امید یہی کی جا رہی ہے کہ حالیہ سیلاب زدگان کے لیے آئی ایم ایف اور یورپی ممالک پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور اس سے بھی پاکستان کی معیشت پر پہلے سے موجود بوجھ مزید نہیں بڑھے گا۔

اسی دوران پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر افغانستان کے دورے پر گئیں'دارالحکومت کابل میں انھوں نے طالبان حکومت کی اہم شخصیات سے مثبت ملاقاتیں کیں ' میڈیا میں چھپنے والی خبروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے جنوبی اور وسطی ایشیا کو ٹرانسپورٹ، تاپی اور کاسا۔1000 جیسے توانائی منصوبوں کے ذریعے جوڑنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اپنے ایک روزہ دورہ کابل میں افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی، نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی، وزیر معدنیات وپٹرولیم شہاب الدین دلاور اور وزیرتجارت حاجی نورالدین عزیزی سے ملاقاتیں کیں۔

میڈیا کے مطابق ان ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ امور کے علاوہ دونوں ملکوں میں تعلیم، صحت،زراعت،تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون ،خطے کو آپس میں جوڑنے ،عوام سے عوام کے رابطوں اور سماجی واقتصادی منصوبوں پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اپنے کابل میں قیام کے دوران پاکستان کی طرف سے پرامن،مستحکم،خوشحال اور متحدہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔انھوں نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور گہرا بنانے کے ساتھ دونوں ملکوں میں مشترکہ خوشحالی پر مبنی پائیدار شراکت داری کے قیام پر زوردیا۔

انھوں نے عالمی برادری پرزوردیاکہ وہ افغانستان میں انسانی صورتحال سے نمٹنے اور تباہ حال ملک کی تعمیر نواور اس کی سماجی و اقتصادی ترقی میں عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔وزیرمملکت حنا ربانی کھر نے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے پر بھی زور دیا تاکہ افغانستان کی مشکلات کم کی جاسکیں۔دہشت گردی اور اس کی روک تھام کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

بلاشبہ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کا خواہش مند ہے اور اس معاملے میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس سے افغانستان کی موجودہ حکومت کے زعما ء اچھی طرح واقف ہیں' افغان طالبان کو اقتدار دلانے میں بھی پاکستان نے سفارتی سطح پر اہم کردارادا کیا ہے ' دوحہ مذاکرات اس کی واضح مثالیں ہیں ۔

تاہم طالبان کی حکومت سے پاکستانی عوام کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر پاکستان میں آ کر کارروائیاں کر رہے ہیں ' پاکستان کے عوام کو امید تھی کہ افغانستان کی طالبان حکومت ایسے عناصر کا قلع قمع کرے گی مگر اس کے برعکس طالبان حکومت نے جیلوں میں بند ایسے لوگوں کو رہا کر دیا جو پاکستان کو مطلوب ہیں۔

اس کے باوجود پاکستان نے افغانستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے مثبت کردار ادا کیا۔ سابق حکومت کے وزیراعظم عمران خان نے عالمی فورم پر افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے خاصی کوششیں کیں لیکن طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اقوام عالم کے تحفظات ختم نہ ہو سکے۔

اسی دوران پاکستان کے اندر دہشت گرد انہ کارروائیوں کی شرح بڑھنا شروع ہو گئی'اس حوالے سے پاکستان نے طالبان حکومت سے بات بھی کی لیکن معاملات اسی طرح خراب چلے آ رہے ہیں' ممکن ہے اس سارے معاملے میں افغان طالبان کی حکومت بھی مجبور ہو اور وہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں اپنا نقصان سمجھتی ہو۔

افغانستان میں القاعدہ داعش اور اس کی سسٹر آرگنائزیشن موجود ہیں اور وہاں کارروائیاں بھی کر رہی ہیں' پاکستان کو افغانستان کے حالات کا پوری طرح علم بھی ہے۔ اس لیے پاکستان نے ہر معاملے میں افغان طالبان حکومت کو مارجن دیا ہے۔

وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ طالبان حکومت اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کے خلاف زیروٹالرنس پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے۔
Load Next Story