سیاسی احتجاج عوام کے لیے عذاب کیوں
وفاقی حکومت اس لیے مطمئن تھی کہ احتجاج اسلام آباد میں نہیں تھا اور متاثرہ لوگ خود مظاہرین کو برا بھلا کہہ رہے تھے
سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کے لیے ہمیشہ سڑکیں استعمال کی جاتی ہیں اور راستے بند کر کے وہاں سے لوگوں کی آمد و رفت بند کردی جاتی ہے اور لوگوں کو وہاں سے گزرنے بھی نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی وہاں سے پیدل بھی گزرنا چاہتا ہے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں احتجاج کے مقام پر ہر طرف گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور بزرگوں، خواتین و بچوں اور ایمبولینسوں کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ، مریضوں کو اسپتال ، بچوں کو اسکولوں اور لوگوں کو ان کی منزل تک نہیں جانے دیا جاتا۔
مجبوری اور ضروری کاموں سے جانے والے احتجاجی مظاہرین کی خوشامد کرتے ہیں مگر ان کی نہیں سنی جاتی اور گزرنے کی کوشش پر ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے کئی دنوں کے حالیہ احتجاج پر بزرگ اور خواتین کی برداشت ختم ہوگئی تھی اور انھوں نے وہاں موجود رہنماؤں کو کھری کھری سنائیں اور متاثرہ افراد مظاہرین سے پوچھتے رہے کہ کیا ریاست مدینہ میں یہی کچھ ہوتا تھا اور آمد و رفت کے راستے بند کرکے وہاں لوگوں کو پریشان کیا جاتا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہمارے نبی رسول اللہ ؐ نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی عمل قرار دیا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ سڑکوں کی بندش پر پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔ دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کرکے آزادی اظہار کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالنے والے یہ مظاہرین کو قانون کے تحت جواب دہ ٹھہرانا لازم ہے۔
پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں احتجاج کے لیے سڑکیں کئی کئی روز بند نہیں کی جاتیں نہ سرکاری اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے بلکہ بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کچھ دیر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا کر پرامن طور پر منتشر ہو جاتے ہیں اور پولیس کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے لاکھوں کی تعداد میں بھی مظاہرے ہوتے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل میں ہی مسلمانوں کو احتجاج کرنے بھی نہیں دیا جاتا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے احتجاج کو پرتشدد بنانے کے راستے خود اختیار کر رکھے ہیں۔ مظاہرین سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچوایا جاتا ہے اور بعد میں توڑ پھوڑ کرنے والوں سے علیحدگی بھی ظاہر کردی جاتی ہے اور الزام اپنے مخالفین اور پولیس پر لگا دیا جاتا ہے۔
کراچی، لاہور اور بڑے شہروں میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی احتجاج کرتی ہیں دھرنے دیتی ہیں اور ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں کہ جہاں سڑکیں مکمل بند اور لوگوں کی آمد و رفت متاثر نہ ہو۔ سڑک کے ایک ٹریک پر اگر احتجاج ہو تو دوسرے ٹریک پر ٹریفک کی روانی جاری رہے تاکہ لوگوں کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
پاکستان میں پرامن احتجاج کی روایت بہت کم ہے زیادہ تر احتجاجوں کے درمیان جب تک لوگوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور پتھراؤ نہ کیا جائے ان کا احتجاج موثر نہیں ہو سکتا اس لیے جان بوجھ کر توڑ پھوڑ کرائی جاتی ہے تاکہ میڈیا میں ان کا احتجاج نمایاں ہو اور اگر پولیس انھیں منتشر کرنے کے لیے کارروائی کرتی ہے تو الٹا حکومت کو مطعون کیا جاتا ہے اور بیانات جاری کرکے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس بار اسلام آباد جا کر احتجاج کرنے والوں کے لیے صورت حال بہت بہتر ہے کیونکہ پنجاب پولیس انھیں توڑ پھوڑ سے روکنے کے بجائے ان کی حفاظت کر رہی ہے۔پی ٹی آئی کے پنجاب و کے پی میں جو احتجاج اور سڑکیں بلاک کی گئیں، میٹرو کا سفر معطل کیا گیا، موٹر وے تک کو نہیں بخشا گیا۔
جہاں بڑے بڑے آہنی کیل ٹھونک کر کروڑوں روپے مالیت سے بنی سڑکوں کو تباہ کیا گیا اور پولیس نے انھیں اس لیے نہیں روکا کہ احتجاج کرنے والوں کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا اور پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت ہے۔
اس لیے مظاہرین کو کوئی ڈر نہیں تھا اور ان کے احتجاج میں صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی شامل تھے اور ان کی موجودگی میں احتجاج ہوتا رہا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج سے اس بار سب سے زیادہ شہری متاثر ہوئے جنھیں سڑکوں کی بندش سے آمد و رفت میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور مظاہرین کو اس بار شہریوں کے ان کے خلاف احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔پنجاب حکومت کی زیر نگرانی ہونے والے پی ٹی آئی کے احتجاج میں سرکاری املاک کو اس لیے نقصان نہیں پہنچایا گیا کہ ان کی اپنی حکومت ہے مگر موٹر وے ضرور کھود دی گئی وہ وفاقی حکومت نے بنوائی تھی۔
احتجاج کا زور سڑکوں کی بندش پر رہا جس سے شہری بری طرح متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت اس لیے مطمئن تھی کہ احتجاج اسلام آباد میں نہیں تھا اور متاثرہ لوگ خود مظاہرین کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔
راولپنڈی لاہور ہائی کورٹ کی حد میں ہے جس نے سڑکوں کی بندش کو اہمیت نہیں دی اور پرامن احتجاج مظاہرین کا حق سمجھا صرف سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج میں سڑکوں کی بندش کو محسوس کیا کیونکہ انھوں نے یہ بندش اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔