اردو زبان کے سب سے بڑے ادبی میلے کا کراچی میں رنگا رنگ افتتاح
عالمی اردو کانفرنس چار روز جاری رہے گی جس میں صبح سے شام تک مختلف سیشن رکھے گئے ہیں
شہر قائد میں اردو زبان کے سب سے بڑے ادبی میلے 'عالمی اردو کانفرنس' کے پندرھویں سیزن کا رنگا رنگ افتتاح کردیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بطور مہمان خصوصی وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل آف کراچی اس وقت پاکستان میں کلچر کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے، کلچرل کے جتنے پروگرام اور کام سندھ میں ہوتے ہیں کسی اور صوبے میں نہیں ہوتے، عالمی اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے اردو زبان کے عالم آتے ہیں اس سے بھی ثقافتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے سے ہمیشہ محبت اور امن کا پیغام جاتا ہے۔ اس صوبے کی اسمبلی نے پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی اور پاکستان بھر میں محبت کا پیغام یہاں سے عام کیا جاتا ہے، آرٹس کونسل کو پاکستان کا کلچر سینٹر بنانے میں پیپلزپارٹی کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
صوبائی وزیر ثقافت اور تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کو حقیقی معنوں میں پاکستان کا کلچر سینٹر بنا دیا ہے جہاں پاکستان کے فن و ثقافت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ سندھ نے جہاں شاہ لطیف اور سچل سرمست کی انگلی نہیں چھوڑی وہاں انور مقصود اور انور شعور کا دامن بھی پکڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا ہم نے مشترکہ طور پر اپنی روایات کو بحال کرنا ہے جس کے لئے ہم سب کو اپنی اپنی کوششیں کرنی ہیں۔ ہمیں عوام کا تعاون چاہیے، سندھ میں پہلی بار سرکاری اسکولوں کے لئے موسیقی اور آرٹ کے فروغ کے لئے اساتذہ کا تقرر کیا جارہا ہے ،ہمیں آپ لوگوں کا تعاون درکار ہے تاکہ ہم ایک روشن خیال معاشرے کو تشکیل دے سکیں۔
مجلس صدارت کی صدر زہرہ نگاہ نے کہا پاکستان ان دنوں طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے لیکن عام آدمی تو ان مشکلات کو سمجھ ہی نہیں سکتا، بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اردو کانفرنس کا انعقاد بہادری کا کام ہے، مہنگائی اور گرتی ہوئی ساکھ نے صرف کمر ہی نہیں توڑی بلکہ انسان کا غروربھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ حکومتوں کا برتاﺅ ہماری علاقائی زبانوں کے ساتھ منصفانہ نہیں رہا، ان علاقائی زبانوں میں کئی جواہر چھپے ہوئے ہیں یہ سب علاقائی زبانیں ادب اور ثقافت سے مالا مال ہیں۔
انور مقصود نے کہا کہ احمد شاہ کافی عرصے سے اس عمارت میں ہیں میں نے ان سے کہا کہ اب چھڑی کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کو نامزد کریں میں اس کے حوالے کردیتا ہوں مگر میں کسی کو نامزد نہیں کر سکا۔
ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے کہا کہ ادیب سوال کی آزادی چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کے ہونٹوں پر تالا اور زبان پر چھالا نہ ہو۔ ادیب اپنے کلام کی طاقت سے واقف ہوتا ہے، ادیب یہ چاہتا ہے کہ وہ سفاک دنیا کے سامنے بے خوف و خطر بتاتا اور لکھتا جائے۔
برطانیہ سے آئی ہوئی ڈاکٹر ایلکس بیلم نے کہا کہ مجھے عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنے پر فخر ہے، انہوں نے پاکستان علاقائی زبانوں کے نام گن گن کر بتائے اور کہا کہ پاکستان زبانوں کے معاملے میں بہت امیر ہے، زبان ہی ثقافت ہے اور آپ کی پہچان ہے ۔ دنیا بھر میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور زبان ہی ابلاک اور مکالمہ کا بہترین ذریعہ ہے۔
تقریب سے احمد شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اردو کانفرنس چار روز جاری رہے گی جس میں صبح سے شام تک مختلف سیشن رکھے گئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بطور مہمان خصوصی وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل آف کراچی اس وقت پاکستان میں کلچر کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے، کلچرل کے جتنے پروگرام اور کام سندھ میں ہوتے ہیں کسی اور صوبے میں نہیں ہوتے، عالمی اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے اردو زبان کے عالم آتے ہیں اس سے بھی ثقافتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے سے ہمیشہ محبت اور امن کا پیغام جاتا ہے۔ اس صوبے کی اسمبلی نے پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی اور پاکستان بھر میں محبت کا پیغام یہاں سے عام کیا جاتا ہے، آرٹس کونسل کو پاکستان کا کلچر سینٹر بنانے میں پیپلزپارٹی کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
صوبائی وزیر ثقافت اور تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کو حقیقی معنوں میں پاکستان کا کلچر سینٹر بنا دیا ہے جہاں پاکستان کے فن و ثقافت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ سندھ نے جہاں شاہ لطیف اور سچل سرمست کی انگلی نہیں چھوڑی وہاں انور مقصود اور انور شعور کا دامن بھی پکڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا ہم نے مشترکہ طور پر اپنی روایات کو بحال کرنا ہے جس کے لئے ہم سب کو اپنی اپنی کوششیں کرنی ہیں۔ ہمیں عوام کا تعاون چاہیے، سندھ میں پہلی بار سرکاری اسکولوں کے لئے موسیقی اور آرٹ کے فروغ کے لئے اساتذہ کا تقرر کیا جارہا ہے ،ہمیں آپ لوگوں کا تعاون درکار ہے تاکہ ہم ایک روشن خیال معاشرے کو تشکیل دے سکیں۔
مجلس صدارت کی صدر زہرہ نگاہ نے کہا پاکستان ان دنوں طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے لیکن عام آدمی تو ان مشکلات کو سمجھ ہی نہیں سکتا، بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اردو کانفرنس کا انعقاد بہادری کا کام ہے، مہنگائی اور گرتی ہوئی ساکھ نے صرف کمر ہی نہیں توڑی بلکہ انسان کا غروربھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ حکومتوں کا برتاﺅ ہماری علاقائی زبانوں کے ساتھ منصفانہ نہیں رہا، ان علاقائی زبانوں میں کئی جواہر چھپے ہوئے ہیں یہ سب علاقائی زبانیں ادب اور ثقافت سے مالا مال ہیں۔
انور مقصود نے کہا کہ احمد شاہ کافی عرصے سے اس عمارت میں ہیں میں نے ان سے کہا کہ اب چھڑی کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کو نامزد کریں میں اس کے حوالے کردیتا ہوں مگر میں کسی کو نامزد نہیں کر سکا۔
ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے کہا کہ ادیب سوال کی آزادی چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کے ہونٹوں پر تالا اور زبان پر چھالا نہ ہو۔ ادیب اپنے کلام کی طاقت سے واقف ہوتا ہے، ادیب یہ چاہتا ہے کہ وہ سفاک دنیا کے سامنے بے خوف و خطر بتاتا اور لکھتا جائے۔
برطانیہ سے آئی ہوئی ڈاکٹر ایلکس بیلم نے کہا کہ مجھے عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنے پر فخر ہے، انہوں نے پاکستان علاقائی زبانوں کے نام گن گن کر بتائے اور کہا کہ پاکستان زبانوں کے معاملے میں بہت امیر ہے، زبان ہی ثقافت ہے اور آپ کی پہچان ہے ۔ دنیا بھر میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور زبان ہی ابلاک اور مکالمہ کا بہترین ذریعہ ہے۔
تقریب سے احمد شاہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اردو کانفرنس چار روز جاری رہے گی جس میں صبح سے شام تک مختلف سیشن رکھے گئے ہیں۔