اسلام کے تجارتی اصول
اسلام میں بہ راہ راست کاروباری لین دین کو پسند کیا گیا ہے جس میں دلالوں اور سٹہ بازوں کی کوئی گنجائش نہیں
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے تاجر پر لازم ہے کہ وہ شے کے معیار کے متعلق صحیح معلومات خریدار کو بتا دے، کسی چیز کے کسی بھی نقص کو نہ چھپائے، اگر چیز میں کوئی نقص پڑگیا ہو تو اسے چھپانے کے بہ جائے خریدار کو سودا طے کرنے سے پہلے آگاہ کردے۔
اسلامی تاریخ میں ہمیں کاروباری دیانت کی سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ سودا طے ہوتے وقت فروخت کار خریدار کو مال میں موجود نقص کے متعلق بتانا بھول گیا یا دانستہ چھپا گیا بعد میں جب فروخت کار کو یاد آیا تو وہ میلوں خریدار کے پیچھے مارا مارا پھرا اور پھر کبھی تو غیر مسلم، مسلم تاجر کی اس دیانت داری کو دیکھ کر اسلام لے آیا۔ انڈونیشیا کے باشندے دیانت دار مسلم تاجروں کے ذریعے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے۔
اچھے معیار کی چیز میں گھٹیا شے کی ملاوٹ حرام بھی ہے اور کاروباری اصولوں کے مطابق یہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ غلّے کی ایک منڈی سے گزر رہے تھے کہ آپؐ رک گئے اور اپنا دست مبارک غلّے کے ڈھیر میں ڈالا، نیچے سے گیلا غلہ نکلا جب کہ ڈھیر کے اوپر خشک غلہ تھا، آپ ﷺ نے اس بددیانتی کو سخت ناپسند فرمایا اور پھر ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ دیانت دار تاجر روز محشر صدیقوں میں سے اٹھائے جائیں گے۔
اس کے علاوہ تاجروں پر اسلامی اور کاروباری اصولوں کے مطابق یہ جائز نہیں کہ وہ اشیائے ضرورت کو کھلے بازار سے گوداموں میں منتقل کر کے اس کی چور بازاری شروع کر دیں اور اس طرح اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کا خون چوسیں۔ حضرت عمرؓ نے ایسے تاجروں کے خلاف عملی اقدام کر کے ثابت کیا کہ اسلام ایسے افراد کے وجود کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا جو محض دولت کی ہوس کی خاطر عوام الناس کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوں۔
اسلام خریدار اور فروخت کار کے درمیان آزادانہ اور کھلے مقابلے کی ناصرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تاکید اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
اجارہ داری آج کے دور کی سرمایہ دارانہ نظام کا خاصا ہے اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش ہر جگہ ہو رہی ہے۔ اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے وضع کردہ اصول معیشت پر وقت نے کوئی اثر نہیں ڈالا اور دنیا کے تمام ممالک اسلامی اصولوں کو اپنے نظام ہائے معیشت میں جگہ دے رہے ہیں۔
اسلام میں بہ راہ راست کاروباری لین دین کو پسند کیا گیا ہے جس میں دلالوں اور سٹہ بازوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں، کیوں کہ بہ راہ راست لین دین سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔ مستقبل کا کاروبار حال میں نہیں ہونا چاہیے حال کا کاروبار حال میں اور مستقبل کا کاروبار مستقبل میں ہونا چاہیے، کیوں کہ سٹہ بازی میں جوئے کا شائبہ پایا جاتا ہے اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے ناصرف اسے ناپسند کیا گیا ہے بلکہ اسے حرام بھی قرار دیا گیا ہے۔
اسلام کے معاشی نظام نے کاروبار کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق مقرر کیا ہے تاکہ افراد معاشرے کے باہمی تعلقات خوش گوار ہوں اور صالح و منصفانہ معیشت فروغ پاسکے۔ جس کے لیے اسلام نے بنیادی اصول وضع کیے ہیں کہ باہمی رضا مندی۔ دیانت داری۔ جائز اشیاء کی تجارت۔ جوئے اور نشے کی ممانعت۔
اسلام میں تجارت کی بنیاد باہمی رضا مندی پر ہے قرآن کریم میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طور سے نہ کھاؤ ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو تو درست ہے۔
(النسائ) اس آیت کریمہ کے مفہوم سے ظاہر ہے کہ اسلام صرف باہمی رضا مندی کے کاروبار کو جائز قرار دیتا ہے اور اس کے برعکس حق تلفی اور دھوکا دہی، مکر و فریب، اور ظلم و زیادتی وغیرہ ذرائع پر مبنی لین دین کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ اسی طرح معاملات کی وہ تمام صورتیں جن میں دوسرے کی کم زوری و مجبوری سے فائدہ اٹھا یا گیا ہو ناجائز ہیں۔
اسلامی تجارت کا دوسرا اصول دیانت داری ہے یعنی لین دین کھلا صاف صاف اور برسر عام ہونا چاہیے، مال کے اصل معیار کو گاہک کے سامنے رکھ دینا چاہیے اور کسی قسم کا دھوکا اور فریب نہ ہو، تجارت کو فروغ دینے کے خفیہ ہیھکنڈے مثلا ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی وغیرہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے، حضور پاک ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے لعنت فرمائی ہے۔ اسلامی تجارت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہر وہ ذریعہ جس سے بغیر محنت کسی ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہو ناجائز ہے مثال کے طور پر جوا وغیرہ تمام صورتیں ناجائز ہیں کیوں کہ اس طرح معاشرے میں انتشار و اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول تاجروں کا اعلی کردار کا ہونا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ تاجر ایسے اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں جس سے دوسرے متاثر ہوں ان میں دولت جمع کرنے کی ہوس نہ ہو، وہ اپنے کاروبار کو محنت سے کریں۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ اسلام میں تاجروں کا خاص حصہ ہے، تجارت کا عام مفہوم باہمی لین دین کاروبار اور خرید و فروخت ہے تجارت کا لفظ دو افراد یا اداروں کے باہمی لین دین سے لے کر ملکوں اور قوموں کے باہمی تجارتی معاہدوں تک محیط ہے اور آج کل اس میں ہر قسم کی صنعت اور پیشہ شامل ہے، پس ہر وہ شخص تاجر ہے جو کاروباری تجارت اور خرید و فروخت سے اپنی روزی کماتا ہے۔
سرکار نبی کریم ﷺ خود تاجر تھے، آپؐ جب جوان ہوئے تو تجارت کو اپنا پیشہ بنایا، آپؐ کی دیانت صداقت امانت کا تمام مکہ معترف تھا، آپؐ صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے۔
حضرت خدیجہؓ کا کاروبار وسیع تھا انہیں ایک دیانت دار شریک حیات کی ضرورت تھی، آپؐ کی دیانت دیکھ کر انہوں نے پیغام نکاح بھیجا۔ آپ ﷺ کا نکاح ہوا اور آپؐ نے تمام تجارت خود سنبھالی جس نے فروغ اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔
تاجروں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہے کہ ان کا رزق کمانا حلال طریقہ سے خود کریم آقا ﷺ کی سنت مبارک ہے، یہ اپنی ضرورت زندگی کے لیے رزق بھی کما رہے ہیں اور سنّت کا ثواب ان کو مل رہا ہے، مگر آج ا س دور میں طرف بے ایمانی، بددیانتی کا جال بچھا ہے، ذخیرہ اندوزی عام ہوچکی ہے، ناپ تول میں کمی تو اب معمولی بات ہے، اسی لیے ہم پر خدا کے عذاب نازل ہو رہے ہیں اور معاشرہ تباہ برباد ہوگیا ہے، ہمیں روز آخرت بھول گیا ہے، اﷲ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے حال پر اپنا فضل و کرم فرمائے۔ آمین
اسلامی تاریخ میں ہمیں کاروباری دیانت کی سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ سودا طے ہوتے وقت فروخت کار خریدار کو مال میں موجود نقص کے متعلق بتانا بھول گیا یا دانستہ چھپا گیا بعد میں جب فروخت کار کو یاد آیا تو وہ میلوں خریدار کے پیچھے مارا مارا پھرا اور پھر کبھی تو غیر مسلم، مسلم تاجر کی اس دیانت داری کو دیکھ کر اسلام لے آیا۔ انڈونیشیا کے باشندے دیانت دار مسلم تاجروں کے ذریعے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے۔
اچھے معیار کی چیز میں گھٹیا شے کی ملاوٹ حرام بھی ہے اور کاروباری اصولوں کے مطابق یہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔
ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ غلّے کی ایک منڈی سے گزر رہے تھے کہ آپؐ رک گئے اور اپنا دست مبارک غلّے کے ڈھیر میں ڈالا، نیچے سے گیلا غلہ نکلا جب کہ ڈھیر کے اوپر خشک غلہ تھا، آپ ﷺ نے اس بددیانتی کو سخت ناپسند فرمایا اور پھر ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ دیانت دار تاجر روز محشر صدیقوں میں سے اٹھائے جائیں گے۔
اس کے علاوہ تاجروں پر اسلامی اور کاروباری اصولوں کے مطابق یہ جائز نہیں کہ وہ اشیائے ضرورت کو کھلے بازار سے گوداموں میں منتقل کر کے اس کی چور بازاری شروع کر دیں اور اس طرح اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کا خون چوسیں۔ حضرت عمرؓ نے ایسے تاجروں کے خلاف عملی اقدام کر کے ثابت کیا کہ اسلام ایسے افراد کے وجود کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا جو محض دولت کی ہوس کی خاطر عوام الناس کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوں۔
اسلام خریدار اور فروخت کار کے درمیان آزادانہ اور کھلے مقابلے کی ناصرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تاکید اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
اجارہ داری آج کے دور کی سرمایہ دارانہ نظام کا خاصا ہے اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش ہر جگہ ہو رہی ہے۔ اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے وضع کردہ اصول معیشت پر وقت نے کوئی اثر نہیں ڈالا اور دنیا کے تمام ممالک اسلامی اصولوں کو اپنے نظام ہائے معیشت میں جگہ دے رہے ہیں۔
اسلام میں بہ راہ راست کاروباری لین دین کو پسند کیا گیا ہے جس میں دلالوں اور سٹہ بازوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں، کیوں کہ بہ راہ راست لین دین سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔ مستقبل کا کاروبار حال میں نہیں ہونا چاہیے حال کا کاروبار حال میں اور مستقبل کا کاروبار مستقبل میں ہونا چاہیے، کیوں کہ سٹہ بازی میں جوئے کا شائبہ پایا جاتا ہے اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے ناصرف اسے ناپسند کیا گیا ہے بلکہ اسے حرام بھی قرار دیا گیا ہے۔
اسلام کے معاشی نظام نے کاروبار کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق مقرر کیا ہے تاکہ افراد معاشرے کے باہمی تعلقات خوش گوار ہوں اور صالح و منصفانہ معیشت فروغ پاسکے۔ جس کے لیے اسلام نے بنیادی اصول وضع کیے ہیں کہ باہمی رضا مندی۔ دیانت داری۔ جائز اشیاء کی تجارت۔ جوئے اور نشے کی ممانعت۔
اسلام میں تجارت کی بنیاد باہمی رضا مندی پر ہے قرآن کریم میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طور سے نہ کھاؤ ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو تو درست ہے۔
(النسائ) اس آیت کریمہ کے مفہوم سے ظاہر ہے کہ اسلام صرف باہمی رضا مندی کے کاروبار کو جائز قرار دیتا ہے اور اس کے برعکس حق تلفی اور دھوکا دہی، مکر و فریب، اور ظلم و زیادتی وغیرہ ذرائع پر مبنی لین دین کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ اسی طرح معاملات کی وہ تمام صورتیں جن میں دوسرے کی کم زوری و مجبوری سے فائدہ اٹھا یا گیا ہو ناجائز ہیں۔
اسلامی تجارت کا دوسرا اصول دیانت داری ہے یعنی لین دین کھلا صاف صاف اور برسر عام ہونا چاہیے، مال کے اصل معیار کو گاہک کے سامنے رکھ دینا چاہیے اور کسی قسم کا دھوکا اور فریب نہ ہو، تجارت کو فروغ دینے کے خفیہ ہیھکنڈے مثلا ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی وغیرہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے، حضور پاک ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے لعنت فرمائی ہے۔ اسلامی تجارت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہر وہ ذریعہ جس سے بغیر محنت کسی ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہو ناجائز ہے مثال کے طور پر جوا وغیرہ تمام صورتیں ناجائز ہیں کیوں کہ اس طرح معاشرے میں انتشار و اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول تاجروں کا اعلی کردار کا ہونا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ تاجر ایسے اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں جس سے دوسرے متاثر ہوں ان میں دولت جمع کرنے کی ہوس نہ ہو، وہ اپنے کاروبار کو محنت سے کریں۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ اسلام میں تاجروں کا خاص حصہ ہے، تجارت کا عام مفہوم باہمی لین دین کاروبار اور خرید و فروخت ہے تجارت کا لفظ دو افراد یا اداروں کے باہمی لین دین سے لے کر ملکوں اور قوموں کے باہمی تجارتی معاہدوں تک محیط ہے اور آج کل اس میں ہر قسم کی صنعت اور پیشہ شامل ہے، پس ہر وہ شخص تاجر ہے جو کاروباری تجارت اور خرید و فروخت سے اپنی روزی کماتا ہے۔
سرکار نبی کریم ﷺ خود تاجر تھے، آپؐ جب جوان ہوئے تو تجارت کو اپنا پیشہ بنایا، آپؐ کی دیانت صداقت امانت کا تمام مکہ معترف تھا، آپؐ صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے۔
حضرت خدیجہؓ کا کاروبار وسیع تھا انہیں ایک دیانت دار شریک حیات کی ضرورت تھی، آپؐ کی دیانت دیکھ کر انہوں نے پیغام نکاح بھیجا۔ آپ ﷺ کا نکاح ہوا اور آپؐ نے تمام تجارت خود سنبھالی جس نے فروغ اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔
تاجروں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہے کہ ان کا رزق کمانا حلال طریقہ سے خود کریم آقا ﷺ کی سنت مبارک ہے، یہ اپنی ضرورت زندگی کے لیے رزق بھی کما رہے ہیں اور سنّت کا ثواب ان کو مل رہا ہے، مگر آج ا س دور میں طرف بے ایمانی، بددیانتی کا جال بچھا ہے، ذخیرہ اندوزی عام ہوچکی ہے، ناپ تول میں کمی تو اب معمولی بات ہے، اسی لیے ہم پر خدا کے عذاب نازل ہو رہے ہیں اور معاشرہ تباہ برباد ہوگیا ہے، ہمیں روز آخرت بھول گیا ہے، اﷲ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے حال پر اپنا فضل و کرم فرمائے۔ آمین