کان کنی سے وابستہ مزدوروں کا استحصال
ہنگو لوئر اورکزئی کے علاقے ڈولی میں کوئلے کی کان میں دھماکے کی وجہ سے 9 مزدور کان کن جاں بحق ہوگئے ہیں جب کہ چار مزدور زخمی ہوئے ہیں۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب مزدور کوئلے کی کان کے اندر کام کر رہے تھے۔
کان کنی کے حوالے سے آئے دن حادثات اور اموات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہر سال دو سے تین سو افراد دم گھٹنے اور دیگر حادثات میں جان گنوا دیتے ہیں ، بہت سی کانوں میں مزدور کسی ہیڈ گیئر کے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔
کئی کانوں میں زہریلی گیس کے اخراج کے لیے وینٹی لیٹر فین یا اخراج کے پائپ تک موجود نہیں ہیں یا بہت ہی خستہ حالت میں ہیں، جب کہ بہت سے کان کن سانس، ٹی بی اور دیگر مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر جان گنوا دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ کان کنی کے حادثات بلوچستان میں ہوتے ہیں۔
پاکستان اربوں ٹن کوئلے کے ذخائر کا گھر ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے جس سے نہ صرف حکومت کو بلکہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو بھی بہت بڑا ریونیو ملتا ہے۔
یہ آمدنی ان کان کنوں کی بدولت ہے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر زمین سے ہزاروں فٹ نیچے چلے جاتے ہیں۔
دراصل کوئلے کی کانوں میں 800 سے 1000 فٹ کے بعد زہریلی گیس والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں مزید کھدائی کے لیے کان کنوں کو حفاظتی آلات دینے کے ساتھ کانوں کی چھت کو ایک خاص تکنیک سے مضبوط اور محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ کسی دھماکے کی صورت میں اندر پھنسے مزدوروں کو با آسانی نکا لا جا سکے، لیکن پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اس طرح کی تکنیک زیر استعمال نہیں، اگر کہیں ہیں بھی ان کی تعداد بہت کم ہے ، اسی لیے گیس بھرنے کے بعد دھماکے سے عموماً کان کنوں کی لاشیں تک نہیں ملتیں۔
کان کنوں کو زیر زمین انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنا ہے۔ کان کنوں کی جان ہمیشہ ہتھیلی پر رہتی ہے، کسی بھی ناگہانی حادثے کا پیش آنا معمول کی بات ہے۔ کانوں کے لیز ہولڈرز اور ٹھیکیداروں کو مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں،اکثر کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ہائی اسٹینڈر حفاظتی ساز وسامان کی سہولت حاصل نہیں ہے اور نہ حکومت نے کبھی ان اسٹینڈرز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
موت سے کھیلنے والا کان کن بہ مشکل 15 سے 20 ہزار روپے مہینہ ماہانہ کماتا ہے۔ کانوں میں حفاظتی اقدامات اور سہولیات کی فراہمی کانوں کے مالکان کی ذمے داری ہے۔
مالکان نے اپنی کانیں ٹھیکے پر دے رکھی ہیں ، جہاں ٹھیکیداروں کی غیر ذمے داری کی وجہ سے مزدور زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں، وہیں حکومتی سطح پر ریسکیو کے بھی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں ، اگر ریسکیو، مائن انسپکٹر اپنا کام ذمے داری اور ایمانداری سے سرانجام دیں تو حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں سی ایم آر ٹیکنالوجی، لانگ وال کول ٹیکنالوجی وغیرہ کا کوئی تصور اور استعمال نہیں ہے۔کان کنی کا قدیم بوسیدہ نظام رائج ہے۔
زیادہ تر واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب کان کن ہزاروں فٹ گہرائی میں چلے جاتے ہیں جہاں کوئلے کی موجودگی محدود ہوتی ہے۔ جنھیں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (سفید گیس) میں اضافے کے ساتھ آکسیجن کی بہت بڑی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔
ان گیسوں کی سطح کو جانچنے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ گیسوں کے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز کا نہ ہونا حکومت اور ٹھیکیداروں کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ زیادہ تر کانوں میں وینٹیلیشن کے لیے معیاری ہوائی اور ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔
متعدد کوئلے کی کانوں کا داخلی راستہ صرف 3 بائی 3فٹ کا ہے جہاں کان کنوں کو لیٹ کر داخل ہونا پڑتا ہے، جب کہ معیاری داخلہ جو انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ہے وہ 7 بائی 6 فٹ ہونا چاہیے۔ حفاظتی اقدامات کی تکمیل کے بغیر ٹھیکیداروں کو لائسنس کیسے الاٹ کیا جاتا ہے؟ یہ بذات خود ایک بہت بڑا سوال ہے۔
اس صنعت سے جڑا ایک اہم مسئلہ چائلڈ لیبر بھی ہے جس پر کم بات کی جاتی ہے۔ گلوبل ہیومن رائٹس ڈیفنس کی رپورٹ 2021 کہتی ہے کہ پاکستان کے تقریباً 20 فیصد بچے مزدور کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
جب بات ہو کان کن بچوں کی، تو بچے پہلے ہی کم خوراک، غیر محفوظ بچپن اور غیرمعیاری تعلیم کا شکار ہیں، وہاں کانوں میں کام کرتے بچے کسے دکھائی دیتے ہیں۔
ملک کے لیبر قوانین میں مزدوروں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے مگر ملک کی کانوں میں کام کرنے والے غریب کان کنوں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ہزاروں کان کن آج بھی ٹھیکیداری نظام کے زیر سایہ دور غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کان کن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں ان کی تنخواہوں کا تعین اسی مناسب سے حکومت کرے۔ کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مائنز ایریا میں صحت کی جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں۔ ہر کان کے قریب ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس مہیا کی جائے اور ابتدائی طبی امداد کو یقینی بنایا جائے۔ قدیم ریسکیو نظام کی جگہ جدید ریسکیو نظام لایا جائے۔
کان کنوں کو سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ ( ڈیتھ گرانٹ ، میرج گرانٹ اور بچوں کے لیے تعلیمی وظائف دیے جائیں) حادثاتی اموات پر فی کس 10 لاکھ پر معاوضہ ادا کیا جائے اور گروپ انشورنس کو لازمی کیا جائے۔ ملک میں کوئلے کی خدمت کو بطور انڈسٹری تسلیم کیا جائے۔
شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے کان کنوں کے معاوضے کا تعین سرکاری سطح پر کیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ کان کنوں کو روزگار اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔
کان کنی کے حوالے سے آئے دن حادثات اور اموات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہر سال دو سے تین سو افراد دم گھٹنے اور دیگر حادثات میں جان گنوا دیتے ہیں ، بہت سی کانوں میں مزدور کسی ہیڈ گیئر کے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔
کئی کانوں میں زہریلی گیس کے اخراج کے لیے وینٹی لیٹر فین یا اخراج کے پائپ تک موجود نہیں ہیں یا بہت ہی خستہ حالت میں ہیں، جب کہ بہت سے کان کن سانس، ٹی بی اور دیگر مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر جان گنوا دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ کان کنی کے حادثات بلوچستان میں ہوتے ہیں۔
پاکستان اربوں ٹن کوئلے کے ذخائر کا گھر ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے جس سے نہ صرف حکومت کو بلکہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو بھی بہت بڑا ریونیو ملتا ہے۔
یہ آمدنی ان کان کنوں کی بدولت ہے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر زمین سے ہزاروں فٹ نیچے چلے جاتے ہیں۔
دراصل کوئلے کی کانوں میں 800 سے 1000 فٹ کے بعد زہریلی گیس والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں مزید کھدائی کے لیے کان کنوں کو حفاظتی آلات دینے کے ساتھ کانوں کی چھت کو ایک خاص تکنیک سے مضبوط اور محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ کسی دھماکے کی صورت میں اندر پھنسے مزدوروں کو با آسانی نکا لا جا سکے، لیکن پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اس طرح کی تکنیک زیر استعمال نہیں، اگر کہیں ہیں بھی ان کی تعداد بہت کم ہے ، اسی لیے گیس بھرنے کے بعد دھماکے سے عموماً کان کنوں کی لاشیں تک نہیں ملتیں۔
کان کنوں کو زیر زمین انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنا ہے۔ کان کنوں کی جان ہمیشہ ہتھیلی پر رہتی ہے، کسی بھی ناگہانی حادثے کا پیش آنا معمول کی بات ہے۔ کانوں کے لیز ہولڈرز اور ٹھیکیداروں کو مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں،اکثر کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ہائی اسٹینڈر حفاظتی ساز وسامان کی سہولت حاصل نہیں ہے اور نہ حکومت نے کبھی ان اسٹینڈرز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
موت سے کھیلنے والا کان کن بہ مشکل 15 سے 20 ہزار روپے مہینہ ماہانہ کماتا ہے۔ کانوں میں حفاظتی اقدامات اور سہولیات کی فراہمی کانوں کے مالکان کی ذمے داری ہے۔
مالکان نے اپنی کانیں ٹھیکے پر دے رکھی ہیں ، جہاں ٹھیکیداروں کی غیر ذمے داری کی وجہ سے مزدور زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں، وہیں حکومتی سطح پر ریسکیو کے بھی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں ، اگر ریسکیو، مائن انسپکٹر اپنا کام ذمے داری اور ایمانداری سے سرانجام دیں تو حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں سی ایم آر ٹیکنالوجی، لانگ وال کول ٹیکنالوجی وغیرہ کا کوئی تصور اور استعمال نہیں ہے۔کان کنی کا قدیم بوسیدہ نظام رائج ہے۔
زیادہ تر واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب کان کن ہزاروں فٹ گہرائی میں چلے جاتے ہیں جہاں کوئلے کی موجودگی محدود ہوتی ہے۔ جنھیں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (سفید گیس) میں اضافے کے ساتھ آکسیجن کی بہت بڑی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔
ان گیسوں کی سطح کو جانچنے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ گیسوں کے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز کا نہ ہونا حکومت اور ٹھیکیداروں کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ زیادہ تر کانوں میں وینٹیلیشن کے لیے معیاری ہوائی اور ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔
متعدد کوئلے کی کانوں کا داخلی راستہ صرف 3 بائی 3فٹ کا ہے جہاں کان کنوں کو لیٹ کر داخل ہونا پڑتا ہے، جب کہ معیاری داخلہ جو انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ہے وہ 7 بائی 6 فٹ ہونا چاہیے۔ حفاظتی اقدامات کی تکمیل کے بغیر ٹھیکیداروں کو لائسنس کیسے الاٹ کیا جاتا ہے؟ یہ بذات خود ایک بہت بڑا سوال ہے۔
اس صنعت سے جڑا ایک اہم مسئلہ چائلڈ لیبر بھی ہے جس پر کم بات کی جاتی ہے۔ گلوبل ہیومن رائٹس ڈیفنس کی رپورٹ 2021 کہتی ہے کہ پاکستان کے تقریباً 20 فیصد بچے مزدور کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
جب بات ہو کان کن بچوں کی، تو بچے پہلے ہی کم خوراک، غیر محفوظ بچپن اور غیرمعیاری تعلیم کا شکار ہیں، وہاں کانوں میں کام کرتے بچے کسے دکھائی دیتے ہیں۔
ملک کے لیبر قوانین میں مزدوروں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے مگر ملک کی کانوں میں کام کرنے والے غریب کان کنوں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ہزاروں کان کن آج بھی ٹھیکیداری نظام کے زیر سایہ دور غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کان کن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں ان کی تنخواہوں کا تعین اسی مناسب سے حکومت کرے۔ کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مائنز ایریا میں صحت کی جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں۔ ہر کان کے قریب ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس مہیا کی جائے اور ابتدائی طبی امداد کو یقینی بنایا جائے۔ قدیم ریسکیو نظام کی جگہ جدید ریسکیو نظام لایا جائے۔
کان کنوں کو سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ ( ڈیتھ گرانٹ ، میرج گرانٹ اور بچوں کے لیے تعلیمی وظائف دیے جائیں) حادثاتی اموات پر فی کس 10 لاکھ پر معاوضہ ادا کیا جائے اور گروپ انشورنس کو لازمی کیا جائے۔ ملک میں کوئلے کی خدمت کو بطور انڈسٹری تسلیم کیا جائے۔
شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے کان کنوں کے معاوضے کا تعین سرکاری سطح پر کیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ کان کنوں کو روزگار اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔