جماعتِ اسلامی سراج الحق اور میاں محمد اسلم
ایک زمانہ تھا جب وطنِ عزیز میں تین بڑی مذہبی جماعتوں کا طوطی بولتا تھا: جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علمائے اسلام اور جمعیتِ علمائے پاکستان۔ تینوں میں توڑ پھوڑ بھی ہُوئی اور تینوں میں کئی ذیلی جماعتیں بھی بنیں۔
اس باطنی تقسیم نے سب سے کم نقصان اور دھچکا جماعتِ اسلامی کو پہنچایا،جے یو آئی کو اس سے زیادہ اور سب سے زیادہ نقصان جے یو پی یعنی جمعیتِ علمائے پاکستان کو پہنچا۔ آج حالت یہ ہے کہ جے یو پی کا وجود اور عدم وجود تقریباً یکساں ہو چکا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کی صورت میں جے یو آئی اپنا اعتبار اور وقار قائم رکھے ہُوئے ہے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کے کئی قریبی خاندانی افراد حکومت و اقتدار سے مستفید و مستفیض ہو رہے ہیں۔ جن قلیل سے لوگوں نے جماعتِ اسلامی سے جدا ہو کر اپنا علیحدہ راستہ اپنانے اور اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کی سعی کی تھی، اب وہ تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کی قیادت نے بڑے پن کا کردار ادا کرتے ہُوئے اُن افراد کو کبھی ہدفِ تنقید نہ بنایا جنہوں نے جماعتِ اسلامی کو دو لخت کرنے کی ایک وقتی جدوجہد کی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کو لخت لخت کرنے کی کئی بار کوشش ہو چکی ہے ، لیکن ہر بار ہی کوشش کرنے اور کروانے والے کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ دراصل بانیِ جماعتِ اسلامی ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، کی مضبوط شخصیت ، لائحہ عمل اور مستحکم افکار کی فتح ہے ۔
اگلے روز نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی ، میاں محمد اسلم صاحب، میرے غریب خانہ پر تشریف لائے۔ دورانِ ملاقات جماعتِ اسلامی کی تاریخ، جماعتِ اسلامی کے سیاسی و مذہبی اور سماجی کردار پر بہت سی دلکشا باتیں ہُوئیں۔
پچھلی بار جب میاں اسلم صاحب میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تھے تو اُنہوں نے مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی عظیم تفسیرِ قرآن ( تفہیم القرآن) اور سید صاحب مرحوم کی زندہ تحریوں کا ایک سَیٹ بھی عنایت فرمایا تھا۔ دونوں تحائف شاندار اور قابلِ قدر تھے ۔ ان سے مجھے استفادہ کرنے کے مقدور بھر مواقعے ملے ہیں۔
پچھلے دنوں جماعتِ اسلامی کے ایک دیر ینہ رفیق، شاہد شمسی صاحب، کی جانب سے مجھے ایک برقی خط بھی ملا۔ اس میں یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ اب تفہیم القرآن نیٹ پر بھی منتقل کی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے لنک بھی دیا تھا۔
اب جب دل چاہتا ہے، موبائل فون پر مذکورہ ایپ کھول کر مولانا مودودی صاحب علیہ رحمہ کی عالمی شہرت یافتہ تفسیر پڑھ کر قلب و نظر کو روشن کرنے کی سبیل نکال لیتا ہُوں۔
واقعہ یہ ہے کہ عظیم بانیِ جماعتِ اسلامی کی یہ ایسی شاندار، ایمان افروز اور منفرد خدمت ہے جو کسی دوسری مذہبی و سیاسی جماعت کا اعزاز نہیںِ بن سکا ہے ۔یہ سید مودودیؒ کے افکاروکردار کا ثمر ہے کہ آج سراج الحق صاحب کے ساتھ ساتھ میاں محمد اسلم، لیاقت بلوچ ، امیر العظیم اور پروفیسر ابراہیم بھی جماعتِ اسلامی کی پہچان بن چکے ہیں۔
میاں اسلم صاحب تا دیر امیرِ جماعت ِ اسلامی ، قبلہ سراج الحق، کی متنوع خدمات کا تذکرہ کرتے رہے۔ کے پی کے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہُوا ہے کہ اس صوبے سے دوسری بار امیرِ جماعت منتخب ہُوئے۔
کسی بھی امیرِ جماعتِ اسلامی کی طرح جناب سر اج الحق نے یہ اعزاز اور عہدہ خود خواہش اور کوشش کرکے حاصل نہیں کیا۔ اُنہیں جماعت کے اہل ووٹروں نے اپنی خواہش اور منشا سے اپنا امیر منتخب کیا۔ یہی درحقیقت ملتِ اسلامیہ میں کسی بھی عہدے کے اِ نتخاب کے لیے اسلامی قاعدہ اور قرینہ ہے ۔
اور یہی منظر اور واقعہ جماعتِ اسلامی کو وطنِ عزیز کی دیگر جماعتوں سے ممتاز و ممیز کرتا ہے ۔یوں تو جماعتِ اسلامی نے پچھلے 75برسوں کے دوران ہر اہم اور پُر آزما موقع پر پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خدمت کی ہے لیکن چند سال قبل ہیبتناک زلزلہ زدگان اور اب ہلاکت خیز سیلاب زدگان کی جماعتِ اسلامی ، رفقائے جماعتِ اسلامی اور وابستگانِ جماعتِ اسلامی نے خدمت و ایثار کی جو مثالیں قائم کی ہیں، ہر کسی نے اس کی تحسین و تعریف کی ہے۔
خصوصاً امیرِ جماعتِ اسلامی، جناب سراج الحق کی زیر قیادت، جماعتِ اسلامی کی این جی او، الخدمت فاؤنڈیشن، سب این جی اوز پر بازی لے گئی ہے۔ سندھ میں خاص طور پر ، الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، سیلاب زدگان کی ہر ممکنہ اور ہر قسم کی دستگیری کا سلسلہ اب بھی پوری توانائیوں اور کمٹمنٹ کے ساتھ جاری ہے ۔
جماعتِ اسلامی کے جتنے بھی لوگ منتخب ہو کر قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچتے رہے ہیں، اُن سب نے اپنے کردار و افکار سے ثابت کیا ہے کہ ہماری انتخابی سیاست میں وہ نکھرے، شفاف اور نویکلے کردار کے حامل لوگ ہیں۔
اور یہ بھی کہ بحثیتِ جماعت، جماعتِ اسلامی پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ میاں اسلم صاحب بھی ماضی قریب میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر ، ایوانِ زیریں میں، اپنا شاندار کردار ادا کر چکے ہیں۔ وہ اب بھی سیاست میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔
اسلام آباد میں اپنے انتخابی حلقے کی وہ ایک جانی، مانی اور پہچانی شخصیت ہیں ۔ اپنے حلقے میں ووٹروں کی ہر خوشی ، غمی میں بروقت شریک ہوتے ہیں۔
پچھلے دو قومی انتخابات میں بھی اُنہوں نے حصہ لیا، مگر تھوڑے سے ووٹوں کے فرق سے قومی اسمبلی کے ر کن نہ بن سکے ۔ انتھک ، بے لوث اور مخلص میاں اسلم کی سیاسی تگ و دَو اب بھی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ جاری ہے ۔
ماضی قریب میں جماعتِ اسلامی نے اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحادی و انتخابی سیاست بھی کی، لیکن اب امیرِ جماعت،جناب سراج الحق، کی زیر قیادت جماعتِ اسلامی کا نظریہ اور موقف یہ ہے کہ نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔
سراج الحق اپنی تقریروں، تحریروں اور سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں یہی ایک پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ سینیٹ میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر، مشتاق احمد خان صاحب،بھی اپنے کردار اور ایوانِ بالا میں اپنی خطابات سے یہی ثابت کررہے ہیں ۔
اپنے مر کزی امیر کی مانند میاں اسلم صاحب بھی سوشل میڈیا پر مقدور بھر بروئے کار ہیں ۔ اُن کے ٹویٹس بروقت بھی ہوتے ہیں اور قومی مسائل کو اجاگر کرتے ہُوئے بھی۔ میاں اسلم صاحب کو یقین ہے کہ اگر کراچی میں شفاف اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات ہُوئے تو جماعتِ اسلامی بھاری اکثریت سے جیت جائیگی ۔
اس باطنی تقسیم نے سب سے کم نقصان اور دھچکا جماعتِ اسلامی کو پہنچایا،جے یو آئی کو اس سے زیادہ اور سب سے زیادہ نقصان جے یو پی یعنی جمعیتِ علمائے پاکستان کو پہنچا۔ آج حالت یہ ہے کہ جے یو پی کا وجود اور عدم وجود تقریباً یکساں ہو چکا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن صاحب کی صورت میں جے یو آئی اپنا اعتبار اور وقار قائم رکھے ہُوئے ہے ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کے کئی قریبی خاندانی افراد حکومت و اقتدار سے مستفید و مستفیض ہو رہے ہیں۔ جن قلیل سے لوگوں نے جماعتِ اسلامی سے جدا ہو کر اپنا علیحدہ راستہ اپنانے اور اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کی سعی کی تھی، اب وہ تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کی قیادت نے بڑے پن کا کردار ادا کرتے ہُوئے اُن افراد کو کبھی ہدفِ تنقید نہ بنایا جنہوں نے جماعتِ اسلامی کو دو لخت کرنے کی ایک وقتی جدوجہد کی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کو لخت لخت کرنے کی کئی بار کوشش ہو چکی ہے ، لیکن ہر بار ہی کوشش کرنے اور کروانے والے کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ دراصل بانیِ جماعتِ اسلامی ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، کی مضبوط شخصیت ، لائحہ عمل اور مستحکم افکار کی فتح ہے ۔
اگلے روز نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی ، میاں محمد اسلم صاحب، میرے غریب خانہ پر تشریف لائے۔ دورانِ ملاقات جماعتِ اسلامی کی تاریخ، جماعتِ اسلامی کے سیاسی و مذہبی اور سماجی کردار پر بہت سی دلکشا باتیں ہُوئیں۔
پچھلی بار جب میاں اسلم صاحب میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تھے تو اُنہوں نے مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی عظیم تفسیرِ قرآن ( تفہیم القرآن) اور سید صاحب مرحوم کی زندہ تحریوں کا ایک سَیٹ بھی عنایت فرمایا تھا۔ دونوں تحائف شاندار اور قابلِ قدر تھے ۔ ان سے مجھے استفادہ کرنے کے مقدور بھر مواقعے ملے ہیں۔
پچھلے دنوں جماعتِ اسلامی کے ایک دیر ینہ رفیق، شاہد شمسی صاحب، کی جانب سے مجھے ایک برقی خط بھی ملا۔ اس میں یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ اب تفہیم القرآن نیٹ پر بھی منتقل کی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے لنک بھی دیا تھا۔
اب جب دل چاہتا ہے، موبائل فون پر مذکورہ ایپ کھول کر مولانا مودودی صاحب علیہ رحمہ کی عالمی شہرت یافتہ تفسیر پڑھ کر قلب و نظر کو روشن کرنے کی سبیل نکال لیتا ہُوں۔
واقعہ یہ ہے کہ عظیم بانیِ جماعتِ اسلامی کی یہ ایسی شاندار، ایمان افروز اور منفرد خدمت ہے جو کسی دوسری مذہبی و سیاسی جماعت کا اعزاز نہیںِ بن سکا ہے ۔یہ سید مودودیؒ کے افکاروکردار کا ثمر ہے کہ آج سراج الحق صاحب کے ساتھ ساتھ میاں محمد اسلم، لیاقت بلوچ ، امیر العظیم اور پروفیسر ابراہیم بھی جماعتِ اسلامی کی پہچان بن چکے ہیں۔
میاں اسلم صاحب تا دیر امیرِ جماعت ِ اسلامی ، قبلہ سراج الحق، کی متنوع خدمات کا تذکرہ کرتے رہے۔ کے پی کے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہُوا ہے کہ اس صوبے سے دوسری بار امیرِ جماعت منتخب ہُوئے۔
کسی بھی امیرِ جماعتِ اسلامی کی طرح جناب سر اج الحق نے یہ اعزاز اور عہدہ خود خواہش اور کوشش کرکے حاصل نہیں کیا۔ اُنہیں جماعت کے اہل ووٹروں نے اپنی خواہش اور منشا سے اپنا امیر منتخب کیا۔ یہی درحقیقت ملتِ اسلامیہ میں کسی بھی عہدے کے اِ نتخاب کے لیے اسلامی قاعدہ اور قرینہ ہے ۔
اور یہی منظر اور واقعہ جماعتِ اسلامی کو وطنِ عزیز کی دیگر جماعتوں سے ممتاز و ممیز کرتا ہے ۔یوں تو جماعتِ اسلامی نے پچھلے 75برسوں کے دوران ہر اہم اور پُر آزما موقع پر پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خدمت کی ہے لیکن چند سال قبل ہیبتناک زلزلہ زدگان اور اب ہلاکت خیز سیلاب زدگان کی جماعتِ اسلامی ، رفقائے جماعتِ اسلامی اور وابستگانِ جماعتِ اسلامی نے خدمت و ایثار کی جو مثالیں قائم کی ہیں، ہر کسی نے اس کی تحسین و تعریف کی ہے۔
خصوصاً امیرِ جماعتِ اسلامی، جناب سراج الحق کی زیر قیادت، جماعتِ اسلامی کی این جی او، الخدمت فاؤنڈیشن، سب این جی اوز پر بازی لے گئی ہے۔ سندھ میں خاص طور پر ، الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، سیلاب زدگان کی ہر ممکنہ اور ہر قسم کی دستگیری کا سلسلہ اب بھی پوری توانائیوں اور کمٹمنٹ کے ساتھ جاری ہے ۔
جماعتِ اسلامی کے جتنے بھی لوگ منتخب ہو کر قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچتے رہے ہیں، اُن سب نے اپنے کردار و افکار سے ثابت کیا ہے کہ ہماری انتخابی سیاست میں وہ نکھرے، شفاف اور نویکلے کردار کے حامل لوگ ہیں۔
اور یہ بھی کہ بحثیتِ جماعت، جماعتِ اسلامی پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ میاں اسلم صاحب بھی ماضی قریب میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر ، ایوانِ زیریں میں، اپنا شاندار کردار ادا کر چکے ہیں۔ وہ اب بھی سیاست میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔
اسلام آباد میں اپنے انتخابی حلقے کی وہ ایک جانی، مانی اور پہچانی شخصیت ہیں ۔ اپنے حلقے میں ووٹروں کی ہر خوشی ، غمی میں بروقت شریک ہوتے ہیں۔
پچھلے دو قومی انتخابات میں بھی اُنہوں نے حصہ لیا، مگر تھوڑے سے ووٹوں کے فرق سے قومی اسمبلی کے ر کن نہ بن سکے ۔ انتھک ، بے لوث اور مخلص میاں اسلم کی سیاسی تگ و دَو اب بھی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ جاری ہے ۔
ماضی قریب میں جماعتِ اسلامی نے اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحادی و انتخابی سیاست بھی کی، لیکن اب امیرِ جماعت،جناب سراج الحق، کی زیر قیادت جماعتِ اسلامی کا نظریہ اور موقف یہ ہے کہ نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔
سراج الحق اپنی تقریروں، تحریروں اور سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں یہی ایک پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ سینیٹ میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر، مشتاق احمد خان صاحب،بھی اپنے کردار اور ایوانِ بالا میں اپنی خطابات سے یہی ثابت کررہے ہیں ۔
اپنے مر کزی امیر کی مانند میاں اسلم صاحب بھی سوشل میڈیا پر مقدور بھر بروئے کار ہیں ۔ اُن کے ٹویٹس بروقت بھی ہوتے ہیں اور قومی مسائل کو اجاگر کرتے ہُوئے بھی۔ میاں اسلم صاحب کو یقین ہے کہ اگر کراچی میں شفاف اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات ہُوئے تو جماعتِ اسلامی بھاری اکثریت سے جیت جائیگی ۔