سی پیک سے جڑے گوادر کے عوام…


عائشہ عمر December 02, 2022

گوادر ، پاکستان نے عمان کی حکومت سے آٹھ ستمبر ، 1958 کو خریدا۔ پاکستان کے وزیراعظم فیروز خان نون نے عمان کے سلطان سے گوادر کی خریداری کے لیے پانچ ارب پچاس کروڑ میں بات چیت کی تھی۔

پاکستان کی حکومت نے یکم جولائی ، 1977 کو گوادرکو ایک نو تشکیل شدہ ضلع گوادر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر کے طور پر اور 2011 میں بلوچستان کے سرمائی دارالحکومت کے طور پر صوبے میں شامل کیا۔2002 میں گوادرکی بندرگاہ پرکام شروع ہوا2015 میں پاکستان اور چین کے مابین سی پیک معاہدے پر دستخط کیے۔

معاہدے کے تحت چین نے اب تک پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف طے کیا ہے جو 15 سال میں مکمل کیا جائیگا۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے عمل میں بہتری لانے پر خرچ کیا جانا ہے۔

نئی سڑکوں اور نئے ریلوے ٹریک کی تعمیر کے لیے بھی خاصی رقم مختص کی گئی۔ گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی کو سی پیک کا دل تسلیم کیا جاتا ہے، جس کے تحت چین مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک کم سفری اخراجات اور کم وقت میں تجارت کر سکے گا۔

پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ بھارت کے لیے بھیانک خواب کی صورت اختیار کرنے لگا۔ بھارتی بحریہ کے چیف ایڈمرل مہتا کے مطابق گوادر کی بندرگاہ '' آبنائے ہرمز'' کی خارجی گزرگاہ سے محض 180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔

ایسی صورت میں پاکستان توانائی کی عالمی شہ رگ کا کنٹرول سنبھال کر بھارتی آئل ٹینکروں کے لیے رکاؤٹ کا سبب بن سکتا ہے۔

سریش مہتا نے کہا تھا کہ چین بحر ہند میں اپنی توانائی کی آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کے لیے اس کی راہ میں اپنے اڈوں کا قیام چاہتا ہے اور یہ گزرگاہ شمال کی جانب گوادرکی گہری بندرگاہ تک آتی ہے۔

ایڈمرل مہتا کے مطابق گوادر سے کراچی کے لیے سڑک اور اسے قراقرم ہائی وے تک توسیع دینے کا منصوبہ چین کو بحر ہند تک رسائی دے گا۔ بھارت اور بھارتی بحریہ کے سربراہ کو اس وقت ہی گوادرکی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔

پاکستان کی ترقی اور چین کی پوزیشن کو مستحکم ہوتا دیکھ کر دشمن متحرک ہوا اور صوبہ بلوچستان اور وزیرستان میں بم دھماکوں، ریاست اور افواج فوج کے خلاف مہم جوئی کا آغاز کیا۔انشا اللہ پاکستان سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان آسان زمینی راستے کے ذریعے سے چین کے علاوہ افغانستان، ایران اور تمام ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہوگا۔

گوادر کی بندرگاہ محل وقوع کی وجہ سے بھارت کی پہنچ سے مکمل باہر ہے ، اس لیے بھارت کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ بھارتی نیوی کا جاسوس کل بھوشن یادیوکراچی اور بلوچستان میں افراتفری کرانے میں بھارتی اثر و رسوخ کا اعتراف بھی کرچکا ہے۔

سی پیک کو متنازعہ بنانے کے لیے بھانت بھانت کی زہر آلودہ آوازیں بھارتی خوف میں گھٹی گھٹی چیخیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ گوادر کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ، تاہم پاکستان سمیت ان کی خوشحالی بھی سی پیک کی تکمیل سے مشروط ہے۔

پاکستان اور چین مخالف لابیز سی پیک کے معاہدے کو مکمل ختم کرنے کی خواہاں رہی ہیں ، جس میں انھیں کامیابی نہیں ملی ہے تاہم اس منصوبے کو سست کرنے میں سبقت لے گئی ہیں، پھر کورونا وائرس کی وجہ سے سی پیک تاخیرکا شکار ہوا۔

اس کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز سرمایہ کاروں دیر سیوا جب الادا رقم دینا بھی اس منصوبے کے مکمل ہونے میں تاخیر کا سبب بنا ہے،اس کے علاوہ قوم پرست اور لسانی سوچ بھی سی پیک کی تکمیل میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔آئیں ! ذرا گوادرکی '' حق دو تحریک '' پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔

حق دو تحریک ' گزشتہ سال نومبر میں گوادر سے شروع ہوئی ، جسے پھر پورے بلوچستان میں وسعت دے کر '' حق دو تحریک بلوچستان'' کردیا گیا تھا۔ اس تحریک نے صوبے کے بلدیاتی انتخابات کے دوران اپنے حمایتی امیدوار بھی کھڑے کیے تھے، جن میں سے اکثر نے کامیابی حاصل کی تھی۔

اس تحریک کا مقصد بلوچستان کے عوام کو حق دلانا ہے ، اپنے اس مقصد کے تحت یہ تحریک آئے دن احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ اس تحریک نے حکومت کے سامنے مندرجہ ذیل مطالبات رکھے ہیں۔

حکومت اور دھرنے کے منتظمین کیساتھ ہونیوالے معاہدے میں ٹرالر مافیا کے حوالے سے کہا گیا کہ آیندہ اگر کوئی ٹرالر اسسٹنٹ ڈائریکٹرکی حدود میں پایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ معاہدے کیمطابق مانیٹرنگ اور ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے جوائنٹ پیٹرولنگ کی جائے گی، جس میں انتظامیہ اورماہی گیر شامل ہوں گے اور ماہی گیر نمایندگان کو باقاعدہ فشریزکے آفس میں ڈیسک دیا جائے گا۔

معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ 12 ناٹیکل کو 30 ناٹیکل میل میں تبدیل کرنے کی تجویز متعلقہ فورم کو بھیجی جائے گی۔ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی اور وی آئی پی موومنٹ کے دوران بلاضرورت عوام الناس کی نقل و حرکت کو محدود نہیں کیا جائے گا۔ معاہدے کیمطابق ٹریڈ یونیز/ کمیٹی کے خاتمے کا آرڈر کیا جائیگا۔

بارڈر کاروبار ضلع انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطہ کار کیمطابق بحال کیا جائے گا۔ بارڈر تجارت ایف سی سے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی جائے گی اور انھیں تمام اختیار دیے جائیں گے جبکہ ٹوکن ، ای ٹیگ ، میسیج اور لسٹنگ وغیرہ کا خاتمہ کیا جائے گا اور ان مطالبات پر ایک مہینے کے اندر عمل درآمد ہوگا۔

معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ضلع گوادر ،کیچ اور پنجگور میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو سروے رپورٹ مرتب کرے گی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں/ چوکیوں کے خاتمے کی سفارشات پیش کرے گی۔

اسی طرح کوسٹ گارڈ اور کسٹم کے پاس جتنی بھی بوٹس، کشتیاں، لانچیں اور گاڑیاں موجود ہیں، انھیں ریلیزکرنے کے لیے صوبائی حکومت ہر قسم کا تعاون کرے گی۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ وزیراعلیٰ ضلع گوادر کے ماہی گیروں کی امداد کے لیے مخصوص پیکیج کا اعلان کریں گے اور ایکپسریس وے کے متاثرین کا دوبارہ سروے کر کے جلد معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

اسی طرح سمندری طوفان سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد کے لیے ڈی سی آفس سے کوآرڈینیٹ کرکے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ معاہدے کیمطابق وفاقی/ صوبائی محکموں میں معذور کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ حق دو تحریک کے کارکنان کے خلاف درج تمام مقدمات ختم کیے جائیں گے اور تحریک کے قائد کا نام فورتھ شیڈول سے فوری خارج کیا جائے گا۔

دھرنے کے بعد حق دو تحریک کے کسی بھی کارکن کیخلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ قوم پرست تنظیموں کی علیحدگی پسند سوچ کی وجہ سے بھی سی پیک تعطل اور تاخیر کا شکار رہا ہے۔

ملک کی ترقی وکامرانی کے لیے اس قسم کی سوچوں کی حوصلہ شکنی بے حد ضروری ہے ، یہ حوصلہ شکنی انھیں بنیادی سہولیات دیکر باآسانی ممکن ہوسکتی ہے ، صوبائی حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی کیونکہ بات چیت سے بہت سے مسائل کا حل نکال سکتا ہے لوگوں کو غربت سے نکالنے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں