تلوار کی دھار
'' تلوار کی دھار'' کے مصنف کرنل عادل اختر کا کہنا ہے کہ وہ کوئی عالم نہیں بلکہ عسکری علوم کے ایک معمولی سے طالب علم ہیں۔ 1971کی جنگ انھوں نے اپنی یونٹ کے ساتھ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر لڑی۔ یونٹ کے افسروں اور سپاہیوں کی بے مثال شجاعت کے باوجود ان کی فوج ہار گئی اور جنگی قیدی بن کر انھوں نے اپنی زندگی کے دو قیمتی سال ایک اجاڑ بی ڈبلیو کیمپ میں گزارے۔
اپنی کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں '' اﷲ کی رحمت سے قید کا مشکل وقت Blessing in Disguise بن گیا۔
یہاں دنیا کی بہترین کتابیں پڑھنے اور غور و فکر کرنے کا خوب موقع ملا۔ نوجوانی کا وقت تھا ، قید کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ گھنٹوں کتابیں پڑھنے کا اسٹیمنا بھی تھا ، اسبابِ شکست پر غورکرنے کا جو موقع ملا ، یہ کتاب اسی غوروفکر کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔
کتابیں لکھنے کے لیے جس علم اور قدرتِ بیان کی ضرورت ہے، میں اس سے محروم ہوں لیکن اسبابِ شکست پر غورو فکر کرنے کے عمل میں سینہ راز نہاں سے آتش کدہ بن گیا۔''
کرنل اختر کی کتاب کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں عسکری امور بیان کیے گئے ہیں، دوسرے حصے میں روحانی امور اور تصوف کے معاملات کو آسان زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور تیسرے حصے میں غیر مسلموں کا رسول اﷲ ﷺ کے متعلق جو تصور ہے اس کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔
کرنل اختر کہتے ہیں ''اس کتاب کا ایک موضوع تو یہی ہے کہ کس طرح چھوٹی فوجیں بڑی فوجوں پر غالب آجاتی ہیں۔ دوسرا موضوع یہ ہے کہ جو جنگ بغیر مقصد کے لڑی جائے وہ جنگ نہیں خوں ریزی ہوتی ہے۔
جنگ میں دو طرح کے وسائل فوج کو درکار ہوتے ہیں، مادی وسائل، اسلحہ وغیرہ اور دشمن پر اخلاقی برتری۔ اخلاقی برتری کی تعریف بیان کرنے کے لیے ہماری تاریخ میں ہزاروں مثالیں ہیں ، اگر ان دونوں یعنی مادی وسائل اور اخلاقی برتری میں سے کوئی ایک فیکٹر سرے سے موجود نہ ہو تو جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔''
کتاب کے دوسرے حصے یعنی روحانی معاملات کے بارے میں کرنل اختر کہتے ہیں کہ تصوف سے میرا دور کا واسطہ ہے۔ میں روحانی علوم کی اہمیت اور طاقت کا قائل ہوں۔ روحانی علوم کا پاکیزہ اخلاق کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے اخلاق کی پاکیزگی پر بہت زور دیا ہے۔ اخلاقی اقدار کا سب سے برا حال میدان جنگ میں ہوتا ہے۔
مغرب میں تو کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے لیکن اسلامی تعلیمات نفس کے سرکش گھوڑے کو جنگ میں بھی بے قابو ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ دشمن کی بستیوں کو اجاڑنا ، شہر خاموشاں آباد کرنا، اخلاقی افلاس کا ثبوت ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب میں اور معاشروں میں اخلاقِ عالیہ کی تعلیم دی گئی ہے لیکن اسلام کی تعلیمات سب پر فائق ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں لوگوں کو آداب خداوندی سکھائے جاتے ہیں ، اچھے آداب و اخلاق انسان کی زندگی میں فلاح و سعادت کا سب سے خوب صورت انقلاب لاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آداب و اخلاق سکھانے کا فریضہ ہمارے اولیاء و صوفیا نے انجام دیا۔ افسوس اب علم کے یہ سرچشمے خشک ہوچکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک بے مقصد جنگ ، جنگ نہیں خونریزی ہے،انسانیت کا قتل ہے۔ پرانے زمانے میں اس کی مثالیں چنگیز اور ہلاکو کی جنگیں تھیں ، نپولین اور ہٹلرکی جنگیں بھی بلا مقصد تھیں۔ دونوں میں لاکھوں سپاہی ہلاک ہوئے۔ اس زمانے میں امریکا سارے کرۂ ارض پر ایسی ہی جنگیں لڑرہا ہے۔
کرنل عادل اختر اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں '' روحانی امور'' کے تحت لکھتے ہیں کہ الجھنیں اور پریشانیاں خوف کی پیداوار ہیں۔
خوف ایک مضر چیز ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور مظلوم سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ زیادہ فکر انسان کو برباد کرسکتی ہے۔ روحانی علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ سچے افکار ایک قوت ہیں جو روحانی امراض کا علاج کرسکتے ہیں ، اگر ہم اپنے دل کے دریچے آسمان کی طرف کھول دیں تو رجائی قوتیں ہماری مدد کریں۔
اخلاق کے معلم ہمیں ہدایت کرتے ہیں کہ جدوجہد کو کبھی ترک نہ کرو ، دن رات اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو کامیابی تسلیم و رضا سے ہوتی ہے۔
اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرکے راضی بہ رضا ہوجاؤ۔ جب انسان کے نفس سے بدگمانی اور فکر وغم کے پردے اٹھ جاتے ہیں تو اس کا نفس حقیقی کائنات سے ہم کلام ہوجاتا ہے۔کرنل عادل اختر نے اپنی کتاب کے تیسرے حصے میں دنیا کے چند مشہور غیر مسلموں کے اسلام کے بارے میں خیالات پیش کیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس موضوع پر ایک نہیں ہزاروں غیر مسلموں کے خیالات کتابی شکل میں دستیاب ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حق کو حق جاننے کی استعداد کسی بھی مذہب کے ماننے والے میں ہوسکتی ہے۔ اس گئے گزرے زمانے میں بھی روز خبریں آتی ہیں کہ اتنے غیر مسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ کسی نے مشہور ذاکر، ڈاکٹر نائیک سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جواب دیا کہ آج ہمارے ہاتھ میں تلوار تو کیا چاقو بھی نہیں ہے پھر ہر روز سیکڑوں آدمی کیوں اسلام قبول کرلیتے ہیں پھر یہ کہ مسلمان کتنے ہی بے عمل کیوں نہ ہوں ، گناہ گار کیوں نہ ہوں ، اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار نہیں کرتے۔
اپنی کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں '' اﷲ کی رحمت سے قید کا مشکل وقت Blessing in Disguise بن گیا۔
یہاں دنیا کی بہترین کتابیں پڑھنے اور غور و فکر کرنے کا خوب موقع ملا۔ نوجوانی کا وقت تھا ، قید کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ گھنٹوں کتابیں پڑھنے کا اسٹیمنا بھی تھا ، اسبابِ شکست پر غورکرنے کا جو موقع ملا ، یہ کتاب اسی غوروفکر کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔
کتابیں لکھنے کے لیے جس علم اور قدرتِ بیان کی ضرورت ہے، میں اس سے محروم ہوں لیکن اسبابِ شکست پر غورو فکر کرنے کے عمل میں سینہ راز نہاں سے آتش کدہ بن گیا۔''
کرنل اختر کی کتاب کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں عسکری امور بیان کیے گئے ہیں، دوسرے حصے میں روحانی امور اور تصوف کے معاملات کو آسان زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور تیسرے حصے میں غیر مسلموں کا رسول اﷲ ﷺ کے متعلق جو تصور ہے اس کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔
کرنل اختر کہتے ہیں ''اس کتاب کا ایک موضوع تو یہی ہے کہ کس طرح چھوٹی فوجیں بڑی فوجوں پر غالب آجاتی ہیں۔ دوسرا موضوع یہ ہے کہ جو جنگ بغیر مقصد کے لڑی جائے وہ جنگ نہیں خوں ریزی ہوتی ہے۔
جنگ میں دو طرح کے وسائل فوج کو درکار ہوتے ہیں، مادی وسائل، اسلحہ وغیرہ اور دشمن پر اخلاقی برتری۔ اخلاقی برتری کی تعریف بیان کرنے کے لیے ہماری تاریخ میں ہزاروں مثالیں ہیں ، اگر ان دونوں یعنی مادی وسائل اور اخلاقی برتری میں سے کوئی ایک فیکٹر سرے سے موجود نہ ہو تو جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔''
کتاب کے دوسرے حصے یعنی روحانی معاملات کے بارے میں کرنل اختر کہتے ہیں کہ تصوف سے میرا دور کا واسطہ ہے۔ میں روحانی علوم کی اہمیت اور طاقت کا قائل ہوں۔ روحانی علوم کا پاکیزہ اخلاق کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے اخلاق کی پاکیزگی پر بہت زور دیا ہے۔ اخلاقی اقدار کا سب سے برا حال میدان جنگ میں ہوتا ہے۔
مغرب میں تو کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے لیکن اسلامی تعلیمات نفس کے سرکش گھوڑے کو جنگ میں بھی بے قابو ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ دشمن کی بستیوں کو اجاڑنا ، شہر خاموشاں آباد کرنا، اخلاقی افلاس کا ثبوت ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب میں اور معاشروں میں اخلاقِ عالیہ کی تعلیم دی گئی ہے لیکن اسلام کی تعلیمات سب پر فائق ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں لوگوں کو آداب خداوندی سکھائے جاتے ہیں ، اچھے آداب و اخلاق انسان کی زندگی میں فلاح و سعادت کا سب سے خوب صورت انقلاب لاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آداب و اخلاق سکھانے کا فریضہ ہمارے اولیاء و صوفیا نے انجام دیا۔ افسوس اب علم کے یہ سرچشمے خشک ہوچکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک بے مقصد جنگ ، جنگ نہیں خونریزی ہے،انسانیت کا قتل ہے۔ پرانے زمانے میں اس کی مثالیں چنگیز اور ہلاکو کی جنگیں تھیں ، نپولین اور ہٹلرکی جنگیں بھی بلا مقصد تھیں۔ دونوں میں لاکھوں سپاہی ہلاک ہوئے۔ اس زمانے میں امریکا سارے کرۂ ارض پر ایسی ہی جنگیں لڑرہا ہے۔
کرنل عادل اختر اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں '' روحانی امور'' کے تحت لکھتے ہیں کہ الجھنیں اور پریشانیاں خوف کی پیداوار ہیں۔
خوف ایک مضر چیز ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور مظلوم سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ زیادہ فکر انسان کو برباد کرسکتی ہے۔ روحانی علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ سچے افکار ایک قوت ہیں جو روحانی امراض کا علاج کرسکتے ہیں ، اگر ہم اپنے دل کے دریچے آسمان کی طرف کھول دیں تو رجائی قوتیں ہماری مدد کریں۔
اخلاق کے معلم ہمیں ہدایت کرتے ہیں کہ جدوجہد کو کبھی ترک نہ کرو ، دن رات اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو کامیابی تسلیم و رضا سے ہوتی ہے۔
اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرکے راضی بہ رضا ہوجاؤ۔ جب انسان کے نفس سے بدگمانی اور فکر وغم کے پردے اٹھ جاتے ہیں تو اس کا نفس حقیقی کائنات سے ہم کلام ہوجاتا ہے۔کرنل عادل اختر نے اپنی کتاب کے تیسرے حصے میں دنیا کے چند مشہور غیر مسلموں کے اسلام کے بارے میں خیالات پیش کیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس موضوع پر ایک نہیں ہزاروں غیر مسلموں کے خیالات کتابی شکل میں دستیاب ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حق کو حق جاننے کی استعداد کسی بھی مذہب کے ماننے والے میں ہوسکتی ہے۔ اس گئے گزرے زمانے میں بھی روز خبریں آتی ہیں کہ اتنے غیر مسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ کسی نے مشہور ذاکر، ڈاکٹر نائیک سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جواب دیا کہ آج ہمارے ہاتھ میں تلوار تو کیا چاقو بھی نہیں ہے پھر ہر روز سیکڑوں آدمی کیوں اسلام قبول کرلیتے ہیں پھر یہ کہ مسلمان کتنے ہی بے عمل کیوں نہ ہوں ، گناہ گار کیوں نہ ہوں ، اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار نہیں کرتے۔