اقتدار کے گرگٹ رنگ
پاکستانی سیاست اور اقتدار کے بالادست طبقات کے حکمرانی کرنے کے مختلف بدلتے ہوئے رنگوں سے صاحبان عقل و خرد کسی طور واقف ضرور ہیں اور ملکی سیاست پر ان کا اپنا نکتہ نظر بھی ہوگا جس سے اتفاق اور اختلاف بہر طور ایک بہتر سیاسی ماحول کی تشکیل کے لیے ضروری ہے ، تاکہ بحث و مباحث کے نتیجے میں ایک متوازی سوچ سماج کو ایک ایسا سیاسی و معاشی نظام دے سکے جو مجموعی طور سے عوام کو سیاسی ، معاشی اور ان کے آئینی جمہوری حقوق دلا سکے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کی گنجلکیاں سمجھنے اور ستر دہائیوں پر محیط ملکی نظام چلانے کی کوتاہیوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے ابتدائی سیاسی حالات اور اس کے کرداروں کا اجمالی جائزہ لیا جائے اور ان کے متعلق حقائق کی روشنی میں بحث کی جائے تاکہ کسی حتمی نتیجے اور حل کی طرف ممکنہ طور سے بڑھا جاسکے۔
اس تاریخی سچائی سے انکار ناممکن ہے کہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی جمہوریت کو استحکام دینے والے اعتدال پسندوں کے ذریعے انڈین نیشنل کانگریس 1885 میں بنوائی گئی جس کی مخالفت پارٹی کے اندر ہوئی اور اسی اثنا آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈلوائی گئی جس میں بھی برطانوی راج کے نوازے گئے زعما کو شامل کیا گیا ، جبکہ اس سے قبل سب سیاسی رہنما برطانوی تسلط کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کا ہی حصہ تھے۔
اسی دوران دنیا میں سوشلسٹ اور کارل مارکس کے کمیونسٹ نظریے کی بازگشت متحدہ ہندوستان کے طبقاتی جبر میں جکڑے نوجوانوں تک پہنچ چکی تھی ، جن کے آگے پہلا ہدف برٹش راج سے ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔
اس کوشش میں سب سے زیادہ ابھر کرکردار بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا آیا ، جن کی برطانوی سامراج مخالف تحریک ہندوستان کے نوجوانوں میں پذیرائی حاصل کرنے لگی اور برٹش ایمپائر کے ہندوستانی رہنماؤں کی مرضی منشا سے سوشلسٹ خیالات کے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو مختلف مقدمات کے تحت قید کیا گیا اور بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی دی گئی۔ کمیونسٹ نظریے کے پرچارک خاطر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا وجود ہوا اورکمیونسٹوں کے اثر کو بڑھتا ہوا دیکھ کر کانگریس اور مسلم لیگ کو متحرک کر کے متحدہ ہندوستان کا نقشہ ہی برطانوی راج نے تبدیل کردیا۔
منقسم ہندوستان کے وقت پاکستان کے وجود میں آنے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کمیونسٹ سیاست کرنے کے لیے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور پارٹی کے رہنماؤں کو سجاد ظہیرکی قیادت میں پاکستان روانہ کیا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت برطانوی راج کی فوج بھی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور برطانوی فوج میں کام کرنیوالے تربیتی فوج کے افسران و سپاہیوں کو ایک معاہدے کے ذریعے پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
اس پس منظر میں ہماری فوج کی بنیادی تربیت گاہ برطانوی نظام رہا ، جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں نہ صرف قائم ہے بلکہ اسی برطانوی راج کی سوچ و طرز پر تربیت دے رہا ہے ، جس میں گاہے بگاہے ملکی اور خطے کے مفادات کے نام پر مختلف ادوار آتے رہے جو بحث طلب ہیں ، سو پھرکبھی ، سر دست ہمیں موجودہ حالات میں جمہوری اداروں کا تسلسل اور اس کے منفی و مثبت نتائج کے حاصلات پر بات کرنی ہے۔
اور وہ وجہ تلاش کرنی ہے جس سے پچھتر برس بعد بھی ہماری نسل اپنے جمہوری حقوق سے اب تک محروم ہے جبکہ عوام کو یہ حقوق ملک کے قیام کے ابتدائی سالوں ہی میں مل جانے چاہیے تھے ، ہم مختصرا ان اسباب کا بھی جائزہ لیں گے جن کے حصول میں سیاسی جماعتیں عوام کو ان کی حقیقی اور جمہوری آزادی دلانے میں اب تک یکسر ناکام نظر آتی ہیں۔
قیام پاکستان کے وجود کی جماعت کے طور پر مسلم لیگ نے نئے ملک کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا اور برطانوی اثرات کے زیر اثر فوج کے پہلے دو آرمی چیف بھی مستعار لیے ، اور اسی دوران محمد علی جناح ٹی بی کے موذی مرض کا شکار بھی ہوگئے۔
قائد اعظم کی بیماری کے ابتدا ہی میں جب آئین ساز اسمبلی کے قیام کی کوششیں تیز ہوئیں تو برطانوی فوج کے سابقہ فوجی افسران جن میں جنرل اکبر اور میجر ایوب خان شامل تھے نے مسلم لیگ کے ان زعما کی حمایت حاصل کر لی جو کسی نہ کسی طور اہم حیثیت رکھتے تھے۔
جن میں سر فہرست لیاقت علی خان تھے جبکہ سر ہدایت اللہ کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے جی ایم سید خود انتہائی متحرک مسلم لیگی رہے اور سندھ میں قرارداد پاکستان پاس کروائی۔ جی ایم سید نے یہ عمل کیوں اورکس واسطے کیا تھا ۔
وہ الگ ایک تاریخ ہے جس پر بہت کم لکھا گیا ہے ، مگر جی ایم سید کی سندھ اسمبلی کی قرارداد پیش کرنے کی ٹھوس وجہ سیاست کے طالبعلم جاننے کی کوشش ضرور کریں اور تاریخی حقائق کو کسی ایک خاص نکتہ نظر میں دیکھنے کے بجائے تاریخی تناظر میں دیکھیں ، جس کے لیے سندھ کی سیاسی و معاشی تحاریک کے علاوہ غیر سول اقتدار کے دوران کیونکر قوم پرست تحاریک کا سر ابھارنا ٹہرا اورکیونکر ایسے اہم واقعات کی سیاسی سماجی اور معاشی وجوہات کو جاننے کی کوشش نہیں کی گئی یا نہیں کرنے دی گئی۔
مذکورہ ضمنی بات سے زیادہ اہم بات یہ رہی کہ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ نہ کبھی سیاسی و نظریاتی جماعت تھی اور نہ ہی عوام میں اس کی سیاسی جڑیں تھیں ، البتہ ملک حاصل کرنے کی بنا پر مسلم لیگ سے ایک جذباتی وابستگی ضرور تھی ، جو اقتدار ملنے کے بعد ایک اشرافیائی جماعت کے طور پر عوام کے سامنے لائی گئی ۔
جس کو عوام میں کبھی سیاسی پذیرائی نہ مل سکی۔ ان حالات میں اقتدار مسلم لیگ کے پاس جانے کو کمیونسٹوں نے اپنی سیاست کا محور بنایا اور ملک میں انسانی حقوق سے لے کر تمام طبقات کے افراد کی تنظیم کاری کرکے خود کو منظم کیا اور اپنی قوت کا محور پسے ہوئے طبقات ، مزدور اور ٹریڈ یونین کو رکھا اور یوں ابتدا میں کمیونسٹوں نے عوامی جدوجہد کو مضبوط کرنے میں اپنا فعال سیاسی کردار ادا کیا ۔
سیاسی سرگرمی اور عوام میں سوشل ازم کی اسی سیاسی سوچ کو ختم کرنے کے لیے سوشلسٹ نظام معیشت سے زیادہ طاقتور سیاسی بیانیہ چاہیے تھا ، جو اقتدار کی غلام گردشوں میں مسلم لیگ بھلا چکی تھی اور لیاقت علی خان کے دور میں کمیونسٹوں کی سیاست کیساتھ ہر اس محنت کش طبقے کی ٹریڈ یونین کو نہ صرف ختم کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی، بلکہ ہر جمہوری آواز کو ہر صورت ریاستی طاقت اور جبر سے ختم کرنے کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔
اس مقصد کے لیے اسٹبلشمنٹ کو سیاسی پارٹیاں بنانے کا وہ دشوار کام سونپا گیا جو ان کا تھا ہی نہیں، اس کوشش میں اس آمرانہ نظریے کی مخالف اور عوام کے لیے جمہوری جدوجہد کرنیوالی محترمہ فاطمہ جناح سمیت ہر اس جمہوری سوچ کی جماعت کو ختم کیا گیا جو فرمانبردار نہ تھی۔
اس طرح ملک کے نظام چلانے کا پورا نظم و ضبط اپنے دائرہ کار میں منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں کی فیکٹری سے سیاست اور جمہوریت کے نام پرکبھی پیپلز پارٹی کو عوام کا ترجمان بنایا ، کبھی جہاد کا غوغا چھوڑا گیا تو کبھی پنجاب جگانے کا کام کرنے کو کہا گیا اور جب اسٹبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹیاں پی پی ، نواز لیگ اور دیگر اقتدار میں رہ کر مقتدر قوتوں کا کھیل سمجھنے لگیں تو اسی مقتدر قوتوں کی فیکٹری نے طالبان آمرانہ سوچ کی تحریک انصاف کھڑی کر کے اس کے رہنما عمران خان کو نئی نسل کا ہیرو بنا دیا ، پھر عمران پروجیکٹ بھی ناکام ہو گیا ۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی ، خارجی اور معاشی نظام کو وہ سیاسی جماعتیں درست کر پائیں گی جو ہمیشہ مقتدر قوتوں کے آبرو کے ہلنے کا انتظار کرتی رہی ہوں جبکہ دوسری جانب عمران خان کا وہ گھوڑا ہو جو مقتدر قوتوں کے چارے بنا دوڑنا ہی نہ چاہتا ہو تو ایسے حالات میں مقتدر قوتوں کی پیدا کردہ معاشی سیاسی اور خارجی خرابیوں کا یہ بوجھ جماعتیں کیسے اٹھا پائیں گی۔
مقتدر قوتوں کی مذکورہ تراشی ہوئی جماعتیں تو اپنی تنظیم میں بھی جمہوریت نہ لا سکی ہیں یا جن کی تربیت ہی مقتدر قوتوں نے اعلیٰ اقتداری طبقے میں رہنے کی کی گئی ہو تو وہ جماعتیں عوام کے سیاسی ، جمہوری اور معاشی حقوق کے لیے کیا کچھ کرسکیں گی؟ عوام اور اہل فکر و نظر کے لیے آج کے سیاسی بحران کا یہ اہم سوال بغیر حل مقتدر قوتوں اور ان کی تراشیدہ سیاسی جماعتوں کو منہ ضرور چڑا رہا ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کی گنجلکیاں سمجھنے اور ستر دہائیوں پر محیط ملکی نظام چلانے کی کوتاہیوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے ابتدائی سیاسی حالات اور اس کے کرداروں کا اجمالی جائزہ لیا جائے اور ان کے متعلق حقائق کی روشنی میں بحث کی جائے تاکہ کسی حتمی نتیجے اور حل کی طرف ممکنہ طور سے بڑھا جاسکے۔
اس تاریخی سچائی سے انکار ناممکن ہے کہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی جمہوریت کو استحکام دینے والے اعتدال پسندوں کے ذریعے انڈین نیشنل کانگریس 1885 میں بنوائی گئی جس کی مخالفت پارٹی کے اندر ہوئی اور اسی اثنا آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈلوائی گئی جس میں بھی برطانوی راج کے نوازے گئے زعما کو شامل کیا گیا ، جبکہ اس سے قبل سب سیاسی رہنما برطانوی تسلط کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کا ہی حصہ تھے۔
اسی دوران دنیا میں سوشلسٹ اور کارل مارکس کے کمیونسٹ نظریے کی بازگشت متحدہ ہندوستان کے طبقاتی جبر میں جکڑے نوجوانوں تک پہنچ چکی تھی ، جن کے آگے پہلا ہدف برٹش راج سے ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔
اس کوشش میں سب سے زیادہ ابھر کرکردار بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا آیا ، جن کی برطانوی سامراج مخالف تحریک ہندوستان کے نوجوانوں میں پذیرائی حاصل کرنے لگی اور برٹش ایمپائر کے ہندوستانی رہنماؤں کی مرضی منشا سے سوشلسٹ خیالات کے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو مختلف مقدمات کے تحت قید کیا گیا اور بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی دی گئی۔ کمیونسٹ نظریے کے پرچارک خاطر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا وجود ہوا اورکمیونسٹوں کے اثر کو بڑھتا ہوا دیکھ کر کانگریس اور مسلم لیگ کو متحرک کر کے متحدہ ہندوستان کا نقشہ ہی برطانوی راج نے تبدیل کردیا۔
منقسم ہندوستان کے وقت پاکستان کے وجود میں آنے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کمیونسٹ سیاست کرنے کے لیے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور پارٹی کے رہنماؤں کو سجاد ظہیرکی قیادت میں پاکستان روانہ کیا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت برطانوی راج کی فوج بھی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور برطانوی فوج میں کام کرنیوالے تربیتی فوج کے افسران و سپاہیوں کو ایک معاہدے کے ذریعے پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
اس پس منظر میں ہماری فوج کی بنیادی تربیت گاہ برطانوی نظام رہا ، جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں نہ صرف قائم ہے بلکہ اسی برطانوی راج کی سوچ و طرز پر تربیت دے رہا ہے ، جس میں گاہے بگاہے ملکی اور خطے کے مفادات کے نام پر مختلف ادوار آتے رہے جو بحث طلب ہیں ، سو پھرکبھی ، سر دست ہمیں موجودہ حالات میں جمہوری اداروں کا تسلسل اور اس کے منفی و مثبت نتائج کے حاصلات پر بات کرنی ہے۔
اور وہ وجہ تلاش کرنی ہے جس سے پچھتر برس بعد بھی ہماری نسل اپنے جمہوری حقوق سے اب تک محروم ہے جبکہ عوام کو یہ حقوق ملک کے قیام کے ابتدائی سالوں ہی میں مل جانے چاہیے تھے ، ہم مختصرا ان اسباب کا بھی جائزہ لیں گے جن کے حصول میں سیاسی جماعتیں عوام کو ان کی حقیقی اور جمہوری آزادی دلانے میں اب تک یکسر ناکام نظر آتی ہیں۔
قیام پاکستان کے وجود کی جماعت کے طور پر مسلم لیگ نے نئے ملک کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا اور برطانوی اثرات کے زیر اثر فوج کے پہلے دو آرمی چیف بھی مستعار لیے ، اور اسی دوران محمد علی جناح ٹی بی کے موذی مرض کا شکار بھی ہوگئے۔
قائد اعظم کی بیماری کے ابتدا ہی میں جب آئین ساز اسمبلی کے قیام کی کوششیں تیز ہوئیں تو برطانوی فوج کے سابقہ فوجی افسران جن میں جنرل اکبر اور میجر ایوب خان شامل تھے نے مسلم لیگ کے ان زعما کی حمایت حاصل کر لی جو کسی نہ کسی طور اہم حیثیت رکھتے تھے۔
جن میں سر فہرست لیاقت علی خان تھے جبکہ سر ہدایت اللہ کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے جی ایم سید خود انتہائی متحرک مسلم لیگی رہے اور سندھ میں قرارداد پاکستان پاس کروائی۔ جی ایم سید نے یہ عمل کیوں اورکس واسطے کیا تھا ۔
وہ الگ ایک تاریخ ہے جس پر بہت کم لکھا گیا ہے ، مگر جی ایم سید کی سندھ اسمبلی کی قرارداد پیش کرنے کی ٹھوس وجہ سیاست کے طالبعلم جاننے کی کوشش ضرور کریں اور تاریخی حقائق کو کسی ایک خاص نکتہ نظر میں دیکھنے کے بجائے تاریخی تناظر میں دیکھیں ، جس کے لیے سندھ کی سیاسی و معاشی تحاریک کے علاوہ غیر سول اقتدار کے دوران کیونکر قوم پرست تحاریک کا سر ابھارنا ٹہرا اورکیونکر ایسے اہم واقعات کی سیاسی سماجی اور معاشی وجوہات کو جاننے کی کوشش نہیں کی گئی یا نہیں کرنے دی گئی۔
مذکورہ ضمنی بات سے زیادہ اہم بات یہ رہی کہ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ نہ کبھی سیاسی و نظریاتی جماعت تھی اور نہ ہی عوام میں اس کی سیاسی جڑیں تھیں ، البتہ ملک حاصل کرنے کی بنا پر مسلم لیگ سے ایک جذباتی وابستگی ضرور تھی ، جو اقتدار ملنے کے بعد ایک اشرافیائی جماعت کے طور پر عوام کے سامنے لائی گئی ۔
جس کو عوام میں کبھی سیاسی پذیرائی نہ مل سکی۔ ان حالات میں اقتدار مسلم لیگ کے پاس جانے کو کمیونسٹوں نے اپنی سیاست کا محور بنایا اور ملک میں انسانی حقوق سے لے کر تمام طبقات کے افراد کی تنظیم کاری کرکے خود کو منظم کیا اور اپنی قوت کا محور پسے ہوئے طبقات ، مزدور اور ٹریڈ یونین کو رکھا اور یوں ابتدا میں کمیونسٹوں نے عوامی جدوجہد کو مضبوط کرنے میں اپنا فعال سیاسی کردار ادا کیا ۔
سیاسی سرگرمی اور عوام میں سوشل ازم کی اسی سیاسی سوچ کو ختم کرنے کے لیے سوشلسٹ نظام معیشت سے زیادہ طاقتور سیاسی بیانیہ چاہیے تھا ، جو اقتدار کی غلام گردشوں میں مسلم لیگ بھلا چکی تھی اور لیاقت علی خان کے دور میں کمیونسٹوں کی سیاست کیساتھ ہر اس محنت کش طبقے کی ٹریڈ یونین کو نہ صرف ختم کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی، بلکہ ہر جمہوری آواز کو ہر صورت ریاستی طاقت اور جبر سے ختم کرنے کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔
اس مقصد کے لیے اسٹبلشمنٹ کو سیاسی پارٹیاں بنانے کا وہ دشوار کام سونپا گیا جو ان کا تھا ہی نہیں، اس کوشش میں اس آمرانہ نظریے کی مخالف اور عوام کے لیے جمہوری جدوجہد کرنیوالی محترمہ فاطمہ جناح سمیت ہر اس جمہوری سوچ کی جماعت کو ختم کیا گیا جو فرمانبردار نہ تھی۔
اس طرح ملک کے نظام چلانے کا پورا نظم و ضبط اپنے دائرہ کار میں منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں کی فیکٹری سے سیاست اور جمہوریت کے نام پرکبھی پیپلز پارٹی کو عوام کا ترجمان بنایا ، کبھی جہاد کا غوغا چھوڑا گیا تو کبھی پنجاب جگانے کا کام کرنے کو کہا گیا اور جب اسٹبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹیاں پی پی ، نواز لیگ اور دیگر اقتدار میں رہ کر مقتدر قوتوں کا کھیل سمجھنے لگیں تو اسی مقتدر قوتوں کی فیکٹری نے طالبان آمرانہ سوچ کی تحریک انصاف کھڑی کر کے اس کے رہنما عمران خان کو نئی نسل کا ہیرو بنا دیا ، پھر عمران پروجیکٹ بھی ناکام ہو گیا ۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی ، خارجی اور معاشی نظام کو وہ سیاسی جماعتیں درست کر پائیں گی جو ہمیشہ مقتدر قوتوں کے آبرو کے ہلنے کا انتظار کرتی رہی ہوں جبکہ دوسری جانب عمران خان کا وہ گھوڑا ہو جو مقتدر قوتوں کے چارے بنا دوڑنا ہی نہ چاہتا ہو تو ایسے حالات میں مقتدر قوتوں کی پیدا کردہ معاشی سیاسی اور خارجی خرابیوں کا یہ بوجھ جماعتیں کیسے اٹھا پائیں گی۔
مقتدر قوتوں کی مذکورہ تراشی ہوئی جماعتیں تو اپنی تنظیم میں بھی جمہوریت نہ لا سکی ہیں یا جن کی تربیت ہی مقتدر قوتوں نے اعلیٰ اقتداری طبقے میں رہنے کی کی گئی ہو تو وہ جماعتیں عوام کے سیاسی ، جمہوری اور معاشی حقوق کے لیے کیا کچھ کرسکیں گی؟ عوام اور اہل فکر و نظر کے لیے آج کے سیاسی بحران کا یہ اہم سوال بغیر حل مقتدر قوتوں اور ان کی تراشیدہ سیاسی جماعتوں کو منہ ضرور چڑا رہا ہے۔