جماعت اسلامی نے موجودہ امیر کو فارغ کرکے نئی تاریخ رقم کردی
منور حسن کے متنازع بیانات نے ملکی سیاست میں طوفان برپا کیے، جماعت کا گراف نیچے آیا
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوچکا اور اس کے نتیجے میں نائب امیر سراج الحق کو اگلے5 سال کیلیے امیر جماعت منتخب کرلیا گیا۔
جماعت اسلامی کے ارکان نے اس مرتبہ تنظیمی حوالے سے ماضی کی روایات کے برعکس نئی تاریخ رقم کی ہے اور موجودہ امیر کو فارغ کرکے امارت کا تاج ایک نوجوان، متحرک اور فعال شخص کے سر پر سجادیا ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ورنہ جماعت کی ابتک کی تاریخ اس امرکی گواہ ہے کہ اس کے ارکان (رائے دہندگان ) نے کبھی بھی اپنے امیر کو استصواب رائے سے فارغ نہیں کیا۔ موجودہ سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کا نام پچھلی مرتبہ بھی تجویز کیے جانے والے ناموں میں شامل تھا لیکن ان کی ''صْلح کْل طبعیت ''اور'' فراخدلی اور اوپن ڈور پالیسی'' کے پیش نظر انھیں ارکان کی اکثریت نے شاید ''سنبھال'' کے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ کسی مدت کیلیے ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لیے امیر منتخب کرلیا جائے۔
سراج الحق کا انتخاب جماعت کے ارکان کی عمومی سوچ کی چغلی کھا رہا ہے جو ماضی کے مقابلے میں قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے پیشرو سید منور حسن اپنی تمام تر لیاقت، قابلیت ، ذہانت، خوش مزاجی اور جرات مندانہ نکتہ نظر کے باوجود اگلے 5 سال کے لیے ووٹرز کے لیے قابل قبول نہیں رہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کی افتاد ِ طبع بھی ہے جس نے انھیں جماعت کے باہر ہی نہیںاندر بھی متنازعہ بنا دیا۔ یہ ان کے مزاج کی ''حدت'' اور سختی ہی تھی جس کی بنا پر قاضی حسین احمد جیسی شخصیت سے بھی ان کی بن نہ پائی اور یہ جوڑی مثالی جوڑی ثابت نہ ہوسکی۔
قاضی حسین احمد کی جگہ جب سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی امارت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو جماعت کیلیے آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوگیا اور جماعت کا گراف اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف گرنا شروع ہوگیا ہے۔سید منور حسن پر بعض معاملات میں کراچی کا جیالا پن غالب آجاتا رہا تو پھر وہ کہیں کہیں جذبات کی رو میں بہہ بھی جاتے رہے ہیں۔ طالبان کو شہید اور ریاستی محافظ کو شہید نہ سمجھنے کی بات ہو یا جنگ حنین و جنگ جمل کی مثال، ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جاتا رہا اور پھر پیالی میں وہ طوفان اٹھایا جاتار ہا کہ ''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی'' والی کیفیت پیدا ہونے لگی۔
جماعت اسلامی کے ارکان نے اس مرتبہ تنظیمی حوالے سے ماضی کی روایات کے برعکس نئی تاریخ رقم کی ہے اور موجودہ امیر کو فارغ کرکے امارت کا تاج ایک نوجوان، متحرک اور فعال شخص کے سر پر سجادیا ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ورنہ جماعت کی ابتک کی تاریخ اس امرکی گواہ ہے کہ اس کے ارکان (رائے دہندگان ) نے کبھی بھی اپنے امیر کو استصواب رائے سے فارغ نہیں کیا۔ موجودہ سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کا نام پچھلی مرتبہ بھی تجویز کیے جانے والے ناموں میں شامل تھا لیکن ان کی ''صْلح کْل طبعیت ''اور'' فراخدلی اور اوپن ڈور پالیسی'' کے پیش نظر انھیں ارکان کی اکثریت نے شاید ''سنبھال'' کے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ کسی مدت کیلیے ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لیے امیر منتخب کرلیا جائے۔
سراج الحق کا انتخاب جماعت کے ارکان کی عمومی سوچ کی چغلی کھا رہا ہے جو ماضی کے مقابلے میں قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے پیشرو سید منور حسن اپنی تمام تر لیاقت، قابلیت ، ذہانت، خوش مزاجی اور جرات مندانہ نکتہ نظر کے باوجود اگلے 5 سال کے لیے ووٹرز کے لیے قابل قبول نہیں رہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کی افتاد ِ طبع بھی ہے جس نے انھیں جماعت کے باہر ہی نہیںاندر بھی متنازعہ بنا دیا۔ یہ ان کے مزاج کی ''حدت'' اور سختی ہی تھی جس کی بنا پر قاضی حسین احمد جیسی شخصیت سے بھی ان کی بن نہ پائی اور یہ جوڑی مثالی جوڑی ثابت نہ ہوسکی۔
قاضی حسین احمد کی جگہ جب سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی امارت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو جماعت کیلیے آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوگیا اور جماعت کا گراف اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف گرنا شروع ہوگیا ہے۔سید منور حسن پر بعض معاملات میں کراچی کا جیالا پن غالب آجاتا رہا تو پھر وہ کہیں کہیں جذبات کی رو میں بہہ بھی جاتے رہے ہیں۔ طالبان کو شہید اور ریاستی محافظ کو شہید نہ سمجھنے کی بات ہو یا جنگ حنین و جنگ جمل کی مثال، ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جاتا رہا اور پھر پیالی میں وہ طوفان اٹھایا جاتار ہا کہ ''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی'' والی کیفیت پیدا ہونے لگی۔