سول ملٹری اتحاد کا انقلابی نظریہ

بھارتی حکمران طبقے نے ملک وقوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کیلیے ایک نیا اور کارگر نظریہ تخلیق کر لیا…خصوصی رپورٹ


سید عاصم محمود December 04, 2022
بھارتی حکمران طبقے نے ملک وقوم کوترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے ایک نیا اور کارگر نظریہ تخلیق کر لیا…خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

آج کل ہمارے پڑوسی بھارت میں ایک نظریہ ''سول ملٹری اتحاد'' (Military-Civil Fusion) مقبو ل ہو رہا ہے۔ اس نظریے کی مروجہ تشریح یہ ہے کہ نت نیا اسلحہ بنانے کے لیے عسکری اور نجی اداروں میں اشتراک ہونا چاہیے۔ اس طرح بہتر اور جدید ہتھیار بن سکیں گے۔

اس نظریے کو پہلے پہل چین نے اپنایا۔ پھر پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی یہ مقبول ہوا۔ کئی نجی پاکستانی ادارے جدید اسلحہ بنانے میں افواجِ پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ بھارت میں مگر جرنیل اور سیاست داں اس نظریے کو نیا روپ دے چکے ...یہ کہ ملک وقوم کو ترقی دینے اور خوشحال بنانے کی خاطر افواج اور سول اداروں (پارلیمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ) کے مابین زیادہ سے زیادہ اشتراک و اتحاد ہونا چاہیے۔

ان کی کوشش ہے کہ یہ اشتراک بھارتی حکومت کے ہر شعبے میں جاری و ساری ہو۔ گویا اب بھارتی حکمران طبقے کی بھرپور کوشش ہے کہ حکومت کے تمام رکن (سیاست داں ، جرنیل، سرکاری افسر اور جج) باہم مشاورت سے ایسی سرکاری پالیسیاں تشکیل دیں جو بھارت کو ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت میں بدل دے۔ اس طرح معاشی و عسکری طور پہ طاقتور ریاست بلکہ عالمی سپر پاور بنا ڈالیں۔

اگر بھارتی حکمران طبقے کے سوچے سمجھے نئے نظریے، سول ملٹری اتحاد پر پوری طرح عمل ہوا تو یقیناً آنے والے دور میں بھارت معاشی وعسکری لحاظ سے مضبوط طاقت بن کر ابھرے گا ۔وجہ یہی کہ کسی بھی ملک میں حکمران طبقے کے سبھی رکن باہمی اتفاق سے سرکاری پالیسیوں پہ عمل کریں تو اہداف کی تکمیل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔اس ضمن میں امریکا، چین، جاپان، جرمنی، برطانیہ ، ترکی، ملائیشیا وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

عمل مشاورت کا ارتقا

انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سات ہزار سال قبل وادی دجلہ و فرات (عراق وشام) میں اولیّں ریاستوں نے جنم لیا۔ان میں ریاست کیش(Kish) سرفہرست تھی۔اسی کا ایک حاکم، مباررسی(Mebarasi)دنیا کا پہلا بادشاہ بھی کہلاتا ہے۔ مبارسی مطلق العنان حکمران یا ڈکٹیٹر تھا۔یہ علم نہیں کہ اہم حکومتی معاملات میں وہ اپنے درباریوں سے مشاورت کرتا تھا یا سبھی فیصلے اس کی مرضی ومنشا سے انجام پاتے۔ قدیم انسانی ریاستوں میں بادشاہ ہی ریاست میں سیاہ وسفید کا مالک ہوتا۔

رفتہ رفتہ ایسے حکمران وجود میں آئے جو ''مشاورتی کونسل''بنانے لگے۔ ریاست کے بزرگ، جہاں دیدہ اورتجربے کار افراد اس کونسل کے ارکان ہوتے۔عام طور پر اہم حکومتی معاملات میں اس مشاورتی کونسل سے مشورے کیے جاتے۔حقائق سے آشکارا ہے کہ رفتہ رفتہ بیشتر ریاستوں میں مشاورت نظام حکومت کا جزو بن گیا۔

گو خودغرض بادشاہ اور آمر اُسے خاطر میں نہ لاتے اور من مانی کرتے۔ ریاست مدینہ میں حکم الہی سے مشاورت (شوری)کو نظام حکومت کا اہم جزو بنایا گیا۔ اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کے حکومتی اور خاندانی، دونوں معاملات میں مشاورت ایک اہم اصول کی صورت پروان چڑھا۔

یورپ میں پہلا وزیراعظم

حیرت انگیز بات یہ کہ چند سو سال پہلے تک دنیا میں حقیقی سیاست داں بہت کم تھے۔ بیشتر حکمران جنگ جوئی اور سیاست ، دونوں فنون میں طاق ہوتے۔وہ جنگوں میں حصہ لیتے اور سیاسی چالیں بھی چلتے۔حکمران اچھا ہوتا، جیسے نوشیرواں عادل تو اس کی رعایا بھی خوش رہتی۔آمر مسلط ہو جاتا تو عوام کو اس کے مظالم برداشت کرنا پڑتے۔ تقریباً سبھی چھوٹی بڑی ریاستوں میں انتظام حکومت جاگیرداروں کی مدد سے چلایا جاتا۔رفتہ رفتہ یورپ میں حقیقی سیاست دانوں نے جنم لیا جو خود جنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ یہ کام جرنیلوں کے سپرد ہوا۔ایسا پہلا سیاست داں برطانیہ کا صدر اعظم تھامس کرامویل تھا ۔

وہ 1534ء تا 1540ء صدراعظم رہا جسے وزیراعظم بھی کہہ لیجیے۔دلچسپ بات یہ کہ یورپ میں اول اول جو اشخاص صدر یا وزیراعظم مقرر ہوئے ، ان میں بھی بیشتر جرنیل تھے۔مثلاً امریکی صدر جارج واشنگٹن فوجی افسر تھا۔ اسی طرح فرانسیسی صدر نپولین بونا پارٹ اور جرمن چانسلر، بسمارک فوجی تھے۔ غرض انیسویں صدی کے اواخر تک اکثر یورپی حکمران عسکریات اور سیاست، دونوں پہ دسترس رکھتے تھے۔البتہ برطانیہ میں سیاسی رہنماؤں کا ظہور ہوا جو وزیراعظم بن کر امور مملکت چلانے لگے۔بادشاہ کا عہدہ وہاں نمائشی بن کر رہ گیا۔

فائدہ عام آدمی کو پہنچا

حکمرانی اور نظام حکومت کی مختصر تاریخ سے عیاں ہے کہ رفتہ رفتہ بڑی ریاستیں وجود میں آئیں تو وہاں ذمے داریاں بھی سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں اور ججوں کے درمیان تقسیم ہو گئیں۔یہی ایک ریاست کے ارکان بھی قرار پائے۔ حکومت چلانا سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی ذمے داری بن گیا۔

دفاع پر افواج مامور ہوئیں۔ جبکہ عدل وانصاف کا علم عدلیہ نے بلند کیا۔انسانی معاشروں میں جاری نظام حکومت کا ارتقا ہم پہ واضح کرتا ہے کہ جس ریاست میں حکومت کے چاروں ارکان (سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر، جج)باہمی مشاورت ، اتفاق اور اتحاد سے کاروبار مملکت چلائیں، وہاں معاشی، سیاسی، عسکری اور معاشرتی طور پہ مضبوطی اور استحکام جنم لیتا ہے۔

اس چلن سے سب سے زیادہ فائدہ عام آدمی کو پہنچا کہ امور حکومت عمدگی سے انجام پانے کے باعث اس کی بنیادی ضروریات باآسانی پوری ہونے لگیں۔لیکن جس ریاست یا ملک میں ریاست کے ارکان آپس ہی میں ٹکرا ئے تو وہ سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار رہا۔

لہذا عوام کو حکمران طبقے سے وہ فوائد نہیں مل سکے جو ملنے چاہیے تھے۔ بھارت اور پاکستان کی مثال لیں تو یہ دونوں ممالک ایک ساتھ معرض وجود میں آئے مگر دونوں ملکوں میں نظام حکومت متفرق وجوہ کی بنا پر مختلف انداز میں ظہورپذیر ہوا۔

ملک وقوم کے مفادات مقدم

بھارت میں جو پہلی حکومت بنی اس میں پنڈت نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، بی آر امبیدکر، راج گوپال اچاریہ، کیلاش ناتھ کاٹجو، راجندر ناتھ پرساد، رفیع احمد قدوائی، جگ جیون رام اور ہرمز جی بھابھا وغیرہ جیسے اہم سیاست داں شامل تھے جنھوں نے انگریز شاہی کے خلاف تحریک آزادی میں نمایاں حصہ لیا۔یہ دیانت دار وقابل رہنما مادی آسائشوں کے حصول کے بجائے نظریات پہ عمل پیرا تھے۔

انھوں نے حکومت سنبھال کر ذاتی نہیں ملک وقوم کے مفادات مقدم رکھے۔پھر انھیں انگریز سے جو نظام حکومت ملا، اس میں افواج سول حکومت کے تابع تھیں۔

آزادی کے فوراً بعد بھارت کی ریاستوں اور وفاقی سطح پر بھی رائٹسٹ ، لیفٹسٹ اور معتدل سیاسی رہنماؤں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔مگر بیشتر رہنماحکومت پا کر اپنے نظریات کا فروغ اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان کا مطمع نظر یہ نہیں تھا کہ کرپشن و بے ایمانی سے سرکاری خزانہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر لیں۔ بیوروکریسی میں رشوت کی بیماری موجود تھی مگر وہ زیادہ پھیلنے نہیں پائی تھی۔

بھارتی سیاست دانوں نے مختصر عرصے میں آئین تشکیل دیا اور اسے 26 جنوری 1950ء کو لاگو کر دیا۔یوں بھارت میں نظام حکومت کی سمت بہت جلد متعین ہو گئی جس سے ملک وقوم کو فائدہ پہنچا۔آئین نے سبھی ارکان ِحکومت کے حقوق وفرائض متعین کر دئیے۔سب ارکان باہمی مشاورت سے کاروبار ِریاست چلانے لگے۔

تاہم اس دوران سیاسی رہنماؤں اور سربراہان ِافواج کے مابین ٹکراؤ بھی ہوا۔پہلے بھارتی وزیراعظم، پنڈت نہرو قائداعظم محمد علی جناح کی طرح اس نظریے کے قائل تھے کہ افواج کو سول حکومت کے تابع ہونا چاہیے۔ نہرو نے دہلی میں برطانوی ہند فوج کے سالار اعظم کی رہائش گاہ، فلیگ سٹاف ہاؤس کو اپنی رہائش گاہ میں بدل دیا اور اسے تین مورتی بھون کا نام دیا۔اس عمل سے نہرو بھارتی افواج کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ سول گورنمنٹ کے تابع ہیں۔

پالیسی صرف سول حکومت کی

14 اگست کی شام بھارتی بری فوج کے انگریز چیف، جنرل رابرٹ لاک ہارٹ نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ اگلے دن بھارت کا جھنڈا بلند کرنے کی تقریب سے عوام کو دور رکھا جائے۔نہرو نے بطور نامزد وزیراعظم یہ حکم نامہ معطل کر دیا اور جنرل رابرٹ کو لکھا:''بھارتی بری فوج صرف اس پالیسی پہ عمل کرے گی جو سول حکومت بنائے گی۔اگر کوئی افسر اس پالیسی پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو اسے فوج میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔''یہ کافی سخت الفاظ تھے جو انگریز جنرل کو سننا پڑے۔اکتوبر 1947ء میں نہرو اور سردار پٹیل نے بھارتی افواج کو حکم دیا کہ وہ ریاست جونا گڑھ کا محاصرہ کر لیں۔ریاست کے مسلم حکمران نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔

ازروئے قانون وہ ایسا کرنے کا مجاز تھا۔اس لیے بھارتی افواج کے انگریز چیفس نے نہرو کا حکم ماننے میں پس وپیش سے کام لیا۔ نہرو اور پٹیل تو طیش میں آ گئے۔ان کا کہنا تھا کہ جرنیل سول حکومت کے احکام بے چوں چرا تسلیم کریں۔ بعد ازاں انھوں نے ڈیفنس کمیٹی بنا دی تاکہ سول و ملٹری قیادت مل بیٹھ کر مشاورت سے سرکاری حکمت عملی طے کر سکے۔

''فوج میں سیاست کرنا زہر ہے''

جنوری 1949ء میں ایک مقامی ، جنرل کریاپا بھارتی بری فوج کا چیف بن گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ نہرو اور وزیر دفاع، بلدیو سنگھ ، دونوں اسے کمانڈر انچیف نہیں بنانا چاہتے تھے۔وجہ یہ کہ مشہور تھا، کریاپا سیاست دانوں کو اچھا نہیں سمجھتا اور انھیں چال باز قرار دیتا ہے۔لیکن سینئیر ترین جنرل ہونے کے باعث مجبوراً انھیں اسے آرمی چیف بنانا پڑا۔کریاپا نے کمان سنبھالتے ہی افسروں اور جوانوں کے نام یہ پیغام جاری کیا:''فوج میں سیاست کرنا زہر ہے۔

اس سے دور رہو۔''کہتے ہیں کہ جنرل کریاپا کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی بّری فوج نے ایک غیر سیاسی ادارے کے طور پہ نشوونما پائی۔جنرل کریاپا بھی مگر سیاسی بیان دیتا رہا۔مثلاً اکتوبر 1950ء میں جنرل نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ بھارت کی معیشت کے لیے سوشلسٹ ماڈل مناسب نہیں۔وہ بیوروکریسی میں رشوت خوری کے بڑھتے چلن اور مملکت میں غربت بڑھنے سے بھی پریشان تھا۔

اس انٹرویو کے بعد پنڈت نہرو نے باقاعدہ خط لکھ کر کریاپا کو تلقین کی کہ وہ سول حکومت کی پالیسیوں پر بیان بازی نہ کرے اور نہ ہی ''نیم سیاست داں ''بننے کی کوشش کرے۔کہا جاتا ہے کہ جب جنوری 1953ء میں کریاپا ریٹائر ہوا تو نہرو نے فوراً اسے سفیر بنا کر آسٹریلیا بھجوا دیا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل میدان سیاست میں آ کر ان کے لیے مسائل کھڑے کرے۔

جنرل وجے کمہار سنگھ اپریل 2010ء تا مئی 2012ء بھارتی آرمی چیف رہا۔وہ اپنی آپ بیتی'' Courage and Conviction''میں انکشاف کرتا ہے کہ پنڈت نہرو کو شروع سے یہ خطرہ درپیش رہا کہ کہیں آرمی چیف بغاوت کر کے حکومت نہ سنبھال لے۔ان کی بیٹی ، اندرا گاندھی بھی وزیراعظم بن کر اسی خوف کا شکار رہی۔ جب 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا لگا تو کئی بھارتی جنرلوں نے یہ اقدام درست قرار یا۔اس کے بعد تو نہرو کے ڈر میں اضافہ ہو گیا تھا۔

غرض بھارت میں بھی روزاول سے سیاسی رہنماؤں اور جرنیلوں کے مابین مختلف امور پر اختلافات رہے جو بعض اوقات سنگین بھی ہو گئے۔مگر ایسے حالات نے جنم نہیں لیا کہ جنرل مارشل لا لگاتے یا حکومت پہ قابض ہو جاتے۔صورت حال اسی لیے قابو میں رہی کہ نہرو کے طویل دور حکمرانی میں افواج غیر سیاسی ادارہ بن گئیں اور جرنیلوں نے سویلین کنٹرول کو ذہنی طور پہ تسلیم کر لیا۔

بنا بنایا نظام حکومت

نہرو، پٹیل اور دیگر بھارتی سیاست دانوں کو یہ بہت بڑا فائدہ حاصل تھا کہ انھیں نظام حکومت کا بنابنایا سیٹ اپ مل گیا۔وہ پھر عرصہ دراز سے دہلی میں مقیم تھے۔ پاکستانی قیادت کو تو پورا نظام حکومت نئے سرے سے تشکیل دینا پڑا۔پھر بھارت نے پاکستان کو اس کے حصے کے وسائل بھی پورے نہ دئیے جس سے معاشی بحران نے جنم لیا۔

قائداعظم نے کراچی میں جنم لیا مگر ان کی بیشتر زندگی بمبئی میں گذری۔لیاقت علی خان تو بالکل اجنبی تھے۔لہذا پاکستانی سیاست دانوں کو نئے دارالحکومت کے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے وقت لگا۔پھر لاکھوں مہاجرین کی آمد نے بھی حکومت پہ کافی بوجھ ڈال دیا۔اس باعث نوزائیدہ مملکت میں سیاسی و معاشی استحکام جلد جنم نہیں لے سکا۔

ایک بڑا تضاوت یہ تھا کہ بھارتی سیاست دانوں کی اکثریت متوسط و نچلے طبقوں سے تعلق رکھتی تھی۔لہذا وہ عوامی مسائل سے آگاہ تھے۔انھوں نے جلد نظام حکومت تشکیل دیا اور کاروبار مملکت چلانے لگے۔پاکستان میں خصوصاً مغربی حصے سے بیشتر سیاست دانوں کا تعلق جاگیردار طبقے سے تھا۔مثلاً پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان سے 35 رکن منتخب ہوئے اور ان میں سے 27 جاگیردار تھے۔

ان کی اکثریت عوامی مسائل سے ناآشنا تھی اور انھوں نے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔تاہم مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر آنے والے بیشتر ارکان اسمبلی عوام میں سے آئے تھے۔ وہ عوامی مسائل کو مقدم رکھنا چاہتے تھے۔مزید براں آئین ساز اسمبلی میں دونوں حصّوں کے ارکان کا نظریاتی ٹکراؤ بھی ہوا۔

نظریاتی ٹکراؤ

مثال کے طور پہ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی ممتاز ترین رہنما تھے۔ وہ وہاں لیگی وزیراعلی بھی رہے۔قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ دو حصوں ، بھارتی اور پاکستانی میں منقسم ہو گئی۔کراچی میں منعقدہ پاکستانی مسلم لیگ کے پہلے اجلاس میں یہ سوال اٹھا کہ کیا غیر مسلموں کو بھی پارٹی کا رکن بنایا جائے؟اس کے تین سو نمائندوں (کونسلروں) میں سے صرف دس نے حق میں ووٹ دیا۔

ان میں شہید سہروردی اور میاں افتخار الدین نمایاں تھے۔مارچ 1948ء میں سہروردی صاحب نے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستانی مسلم لیگ کا نام پاکستان نیشنل لیگ رکھ دیا جائے تاکہ غیرمسلم بھی اس کے رکن بن سکیں۔انھوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مذہب کارڈ استعمال کر کے قوم کو تقسیم کر رہی ہے۔اس نظریاتی اختلاف کے بعد سہروردی اور مسلم لیگ کے راستے جدا ہو گئے۔

اس دوران پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں مقامی سیاست دان اقتدار کی خاطر باہم رسّہ کشی کرنے لگے۔ایک دوسرے کے خلاف سازشوں اور چالوں کا بازار گرم ہو گیا۔ اس سیاسی تصادم کی تاریخ افسوس ناک اور سبق آموز ہے۔

اصل کام نہ ہو سکا

مورخین پاکستان کی کتب سے آشکارا ہے کہ اس پُرآشوب دور میں افواج اور بیوروکریسی نے بالعموم اپنے فرائض تندہی، جذبہ حب الوطنی اور محنت سے انجام دئیے۔ تاہم بھانت بھانت کے بیشتر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف بیان دینے اور سازشیں کرنے میں صرف ہوتی رہیں۔

زمینوں اور گھروں کی الاٹمنٹ اور کاروباری پرمٹوں نے سیاست دانوں ، سرکاری افسروں اور عدلیہ کو کرپشن کی جانب راغب کر دیا۔یوں وسیع پیمانے پر ان گنت سیاسی ،معاشی اور معاشرتی بحرانوں کی وجہ سے اصل کام درمیان ہی میں رہ گیا... آئین پاکستان کی تشکیل' تاکہ موثر نظام حکومت تشکیل پا سکے۔چاروں ارکان ریاست کے حقوق وفرائض طے ہو جائیں۔ نظام حکومت بن جانے کے بعد ہی کاروبار مملکت اچھے انداز میں چل سکتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی کے باعث ہی بدانتظامی نے جنم لیا۔

مفاداتی کھیل کا آغاز

بدانتظامی اور غفلت کی انتہا ہے کہ 11 ستمبر 1948ء کی سہ پہر بانی ِپاکستان دو گھنٹے خراب ایمبولینس میں لیٹے رہے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا۔وہ اسی رات چل بسے۔ تقریباً تین سال بعد اکتوبر 1951ء میں لیاقت علی خان پُراسرار حالات میں شہید کر دئیے گئے۔تب عام خیال یہ تھا کہ سردار عبدالرب نشترنئے وزیراعظم بنیں گے۔مگر کرپٹ ارکان حکومت کو ایک دیانت دار اور بااصول سربراہ نہیں چاہیے تھا۔

چناں چہ یہ کھیل کھیلا گیا کہ گورنر جنرل ناظم الدین استعفی دے کر وزیراعظم بن گئے جبکہ وہ منصب سابقہ بیوروکریٹ اور حالیہ وزیر خزانہ، غلام محمد نے سنبھال لیا۔یہ سارا کھیل اسی لیے کھیلا گیا تاکہ اپنے مفادات پورے ہو سکیں۔یہ ملک وقوم کی بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ بہت جلد قومی مفادات پس پشت ڈال کر ذاتی مقاصد پورے کرنے میں محو ہو گیا۔

آئین ساز اسمبلی میں بہرحال آئین کی تیاری کا کام جاری رہا۔مذہبی جماعتیں اس میں اسلامی قوانین شامل کرانا چاہتی تھیں۔سبھی وزرائے عظم اس امر کے حامی تھے۔

مگر غلام محمد سیکولر تھا، وہ آئین سازی کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے لگا۔جب آئین ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کا بل منظور کرنا چاہا تو غلام محمد طیش میں آ گیا۔اس نے اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اسمبلی ہی توڑ دی۔

اسپیکر اسمبلی، مولوی تمیزالدین نے عدلیہ سے مدد چاہی مگر سپریم کورٹ میں ''نظریہ ضرورت''کا راج رہا۔ چار ججوں نے گورنر جنرل کا ناجائز اقدام درست قرار دیا۔صرف غیر مسلم جج، جسٹس کارنیلیس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا علم بلند کیا۔

من پسند آئین بنانے کے لیے گورنر جنرل نے نئی آئین ساز اسمبلی تشکیل دی جس کے ارکان صوبائی اسمبلیوں سے لیے گئے۔غلام محمد کے امریکی حکمران طبقے سے خصوصی تعلقات تھے۔چناں چہ امریکا میں پاکستانی سفیر، محمد علی بوگرا کو پاکستان بلوا کر گورنر جنرل نے وزیراعظم بنایا۔

انھوں نے جو نئی کابینہ تشکیل دی، اس میں طاقت کا سرچشمہ سیاست داں نہیں دو بیوروکریٹ(میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا اور محمد علی) اور ایک جرنیل (آرمی چیف ایوب خان) تھے۔

غلام محمد کو دوامی اقتدار نصیب نہ ہوا کہ اگست 1955ء میں اسکندر مرزا اُسے گھر بھجواکر خود گورنر جنرل بن گیا۔اسی کے دور میں خدا خدا کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین لاگو ہوا۔مگر صرف ڈھائی سال بعد اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لگا کر پاکستان کو پھر آئین اور نظام حکومت سے محروم کر دیا۔

معاشی طور پہ کمزور

تاریخ پاکستان کے ابتدائی دس برس سے آشکارا ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر کاروبار ِمملکت والے چاروں ارکان ایسا نظام حکومت بنانے میں ناکام رہے جو ان کے حقوق وفرائض متعین کر دیتا۔تب وہ ملکی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ملک وقوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنا سکتے تھے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان وسائل کی دولت سے مالامال ملک ہے مگر بدقسمتی سے اسے اچھا حکمران طبقہ میّسر نہیں آ سکا۔ درست کہ پچھلے پچھتر برس میں افسروں اور جوانوں کی محنت و جذبہ حب الوطنی کی بدولت پاکستانی افواج کا شمار بہترین فورسسز میں ہونے لگا۔

چاروں ارکان حکومت کے اشتراک سے پاکستان ایٹمی قوت بھی بن گیا جس سے دفاع مضبوط ہوا۔ مگر وطن عزیز معاشی طور پہ طاقتور نہیں ہو سکا۔اس باعث بیشتر پاکستانی اب بھی غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری جیسے عفریتوں کی گرفت میں ہیں۔

مملکت کی معاشی کمزوری اس حد تک پہنچ چکی کہ ہماری حکومت قرض دینے والے غیر ملکی اداروں کی ہدایات پہ بجلی کے نرخ کم یا زیادہ کرتی ہے۔کیا ایسی حکومت کو آزاد وخودمختار کہا جا سکتا ہے؟سٹیٹ بینک پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر 22ء کے دوران پاکستانی حکومت نے 1 ہزار 8 سو 32 ارب روپے خرچ کیے۔اس میں سے 954 ارب روپے سود دینے اور قرض اتارنے پر خرچ ہوئے۔

یہ کل سرکاری اخراجات کا ''52 فیصد''بنتا ہے۔دیگر اخراجات یہ رہے: دفاع 17 فیصد، خسارے میں چلتے سرکاری اداروں کو دی جانے والی گرانٹس10.9 فیصد، سرکاری ملازمین کی پنشن 9.3 فیصد، حکومت چلانے کا خرچ9.3 فیصد اور سبسڈی 5 فیصد۔

نظام حکومت خراب ہو چکا

حکومت کے درج بالا اخراجات سے عیاں ہے کہ ہماری سرکار نے عام آدمی کی فلاح وبہبود کے لیے پھوٹی کوڑی تک خرچ نہیں کی۔ممکن ہے کہ سبسڈی میں سے کچھ رقم عوامی بہبود پہ خرچ ہوئی ہو مگر اس رقم کا بیشتر حصہ بیوروکریسی مفت سہولیات ، مراعات اور کرپشن کی بدولت چٹ کر جاتی ہے ۔ایک طرف حالت یہ ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کو بہ مشکل دو وقت کی روٹی میسّر آتی ہے۔

دوسری طرف وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج دکھائی دیتی ہے۔بیوروکریسی نے الگ اپنی نشوونما کے لیے ان گنت محکمے و ادارے تخلیق کر لیے۔حال یہ ہو چکا کہ اس سارے نظام حکومت کو برقرار رکھنے کی خاطر متعلقہ سرکاری ادارے سوچتے رہتے ہیں کہ عوام پر نت نئے طریقوں سے کیونکر ٹیکس لگائے جائیں تاکہ حکومتی آمدن بڑھ سکے اور حکمران طبقے کے شاہانہ طرززندگی کو گزند نہ پہنچے۔

امریکی کرنسی سے محبت

ڈالر کی الفت نے سب سے زیادہ پاکستانی حکمران طبقے کو مادہ پرستی کی طرف مائل کیا ورنہ 1947ء میں بیشتر ارکان حکومت سادہ زندگی گذارتے اور قناعت پسند تھے۔ امریکی ڈالر پہلے تو امداد کے روپ میں آئے اور پھر قرضہ بن کر ملک وقوم پہ عذاب بن گئے۔اسی قرضے نے پاکستان کو معاشی طور پہ کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 3 تا 5 مئی 1950ء وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کیا۔

سات ماہ بعد امریکی حکومت نے پاکستان کو 6 لاکھ ڈالر کی امداد دے دی۔اس موقع پہ موقر انگریزی اخبار، پاکستان ٹائمز نے 11 دسمبر 1950ء کو ایک چشم کشا کارٹون شائع کیا۔اس میں وزیراعظم پاکستان بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔جبکہ پیچھے سے دو امریکی یہ کہتے نظر آتے ہیں:''اب پاکستانی کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔یہ ہمیشہ ہمارے محتاج رہیں گے۔''

آج سے ٹھیک 72 سال پہلے محض ایک کارٹون میں جو پیشن گوئی ہوئی تھی، وہ عملی جامہ پہن چکی۔اب پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے اخراجات پورے کرنے کی خاطر امریکی حکومت اور اس کے زیراثر مالیاتی اداروں کی مالی مدد کا محتاج ہو چکا۔

پٹرول کی قیمت بڑھانے سے لے کر بجٹ بنانے تک، اب وہ آئی ایم ایف سے ہدایات لینے پر مجبور ہے۔وجہ یہی کہ ہمارے حکمران طبقے نے پے در پے قرضے لے کر ملک وقوم کو قرضوں کی دلدل میں اتار دیا۔اور حیران کن بات یہ کہ اب بھی یہ خطرناک چلن جاری ہے۔حتی کہ نئے قرض لے کر پرانے قرضے اتارے جا رہے ہیں۔ یہ روش پاکستان کو کسی دن دیوالیہ کر سکتی ہے۔

ہمارا حکمران طبقہ سبق سیکھے گا؟

دانشمندی و دوراندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے کے مانند حکومت پاکستان کے تمام ارکان بھی سول ملٹری اتحاد کے چلن کو اپنا لیں۔قومی مفاد کو مقدم رکھیں اور ملک وقوم کو درپیش مسائل کا حل باہمی مشاورت سے تلاش کریں۔ہمیں تو اللہ اور رسولﷺ نے حکم دیا ہے کہ اپنے معاملات مشاورت سے طے کرو۔

ہمارے ارکان حکومت یہ عظیم درس کیسے بھول گئے؟یہ سبق فراموش کرنے کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ارکان حکومت ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔اور اسی وجہ سے ملکی نظام حکومت میں بدانتظامی نے فروغ پایا اور اس میں بہت سی خرابیاں در آئیں مثلاً ذاتی مفادات کو ترجیح دینا لہذا کرپشن، اقربا پروری، کام چوری، خود غرضی، اپنے فرائض سے غفلت، قانون شکنی وغیرہ نے جنم لیا۔اس روش سے عام آدمی ہی گھاٹے میں رہا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں ہزار خامیاں ہوں گی مگر یہ امر مسلم ہے کہ وہ اپنے ملک وقوم سے مخلص ہے۔اسے حکومت کرتے بائیس سال ہو گئے، اس کا کوئی مالی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔اس نے کوئی کاروبار کھڑا نہیں کیا، اپنے رشتے داروں کو کروڑ پتی نہیں بنایا، نہ شاہانہ فلیٹ خریدے نہ توشہ خانے سے تحائف اڑائے۔نہ قیمتی گاڑیاں خریدیں۔لے دے کر اسے اچھا لباس پہننے کا شوق ہے۔

مودی نے برسراقتدار آ کر افواج کو طاقتور بنایا اور انھیں جدید اسلحہ خرید کر دیا۔جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا ادارہ بنایا۔اب وہ بذریعہ سول ملٹری اتحاد افواج کے چیفس کو حکومتی معاملات میں باقاعدہ شامل کرنا چاہتاہے تاکہ حکومت بہتر طریقے سے چل سکے۔اس حکمت عملی سے آخرکار بھارتی عوام کو فائدہ ہو گا کہ وہ غربت، جہالت ،بیماری اور بیروزگاری سے نجات پائیں گے۔آمدن بڑھنے سے ان کا معیار زندگی بلند ہو گا۔پڑوسی حکمران طبقے کے اس چلن سے ہمارے ارکان ِحکومت کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں