شہنشاہوں کا پسندیدہ مقام گجرات
شہنشاہ جہانگیر کے جسم کے کچھ حصے اکبری قلعہ گجرات کے قریب دفن ہیں
شہر گجرات کے انتہاء مشرق میں برلب سڑک ایک خاموش مزار واقع ہے۔دیکھنے میں تو یہ ایک قدیم اور خاموش سا مرقد ہے مگر اس کی خاموشی بھی ایک طویل داستان لیے ہوئے ہے اور وہ داستان بھی معمولی نہیں بادشاہوں کی داستان ہے۔ جس کی کھوج کا آغاز کریں توایک کے بعد ایک بادشاہ ملتا ہے۔سب سے پہلے اس کا سرا آدھی دنیا کے فاتح سکندر کی اولادوں سے جا ملتا ہے۔
سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ٹیکسلا کے راجہ ایمبی سارا کے پرتپاک استقبال کے بعد اسے دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس سے ایک عظیم جنگ لڑنا پڑی۔ جس میں اسے اس عظیم آرین سپوت کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔جی ہزیمت۔۔۔ کیونکہ عددی برتری سکندر کو ہو سکتی ہے مگر جتنا نقصان اس کی سپاہ کو ہوا تھا۔
اس کے بعد سکندر کی افواج نفسیاتی طور پر بد دل ہو چکی تھیں اور انھوں نے مزید مشرقی ہند میں جانے یا لڑنے سے انکار کر دیا اور اس بغاوت پر بھی سکندر نے اپنے تقریباً دس ہزار سپاہیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا۔اسی شکست نے سکندر کو 'جو پوری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تھا' واپسی پہ مجبور کیا تھا۔
سکندر کی مراجعت کے تیرہ تو کہیں گیارہ سال بعد اس کے ایک یونانی سپہ سالار نے پورس کو قتل کر دیا۔ راجہ بچن پال اسی یونانی نسل سے تھا۔
ایک دن راجہ بچن پال اپنی راج نیتی سے اکتا گیا تو وہ اپنی رانی کے ساتھ ایسے ہی ہوا خوری کے لیے کہیں نکل آیا۔ دریائے چناب کے پانی تو کیا اس کی ہوا میں بھی عشق و محبت کی مستی رچی ہوئی ہے۔
راجہ اور رانی کو بھی یہ عشق و مستی کی فضا بہت بھائی۔انھوں نے چند روز دریا کنارے گزارنے کا فیصلہ کیا اور وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ یہ لوگ چند دن یہاں گزار کر واپس چل دیے مگر واپسی سے پہلے راجہ بچن پال نے یہاں ایک بستی آباد کرنے کا حکم دے دیا اور اس بستی کا نام اپنی رانی کے نام پہ ''اودے نگری ''رکھا۔
یہی اودے نگری آج کے پاکستان کا مشہور شہر گجرات ہے۔ وقت اپنے نقش بناتا رہا اور دریائے چناب اپنی سرکشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ نقش مٹاتا رہا۔دونوں میں یہ مقابلہ تقریبا ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ وقت نے ایک اور کروٹ بدلی اور ایک اور راجہ اپنے پیش رو کی تقلید کرتا ہوا اپنی ملکہ سمیت ادھر آ نکلا۔ اس کی بیوی گجراں رانی کو بھی یہ علاقہ بہت بھایا اور اب کی بار یہاں بسائی جانے والی بستی کا نام '' گجراں نگری ''رکھ دیا گیا۔
اب یہ گجراں نگری بھی وقت کے تھپیڑے سہتی، بنتی اور مٹتی رہی۔عشق و محبت اور نفرت کی کئی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔ امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گجرات ایک بہت قدیم علاقہ ہے یہ سکندر کے بعد موریہ اور اشوک سلطنت کا حصہ بھی رہا ہے۔
اس کے بعد 997 عیسوی میں جب محمود غزنوی نے اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد عنان حکومت سنبھالی اور کابل کی فتح کے بعد ہندوستان کا رخ کیا تو اس وقت ہندوستان سوائے ایک آدھ مسلمان ریاست کے،باقی سارا مختلف ہندو راجاوں میں بٹا ہوا تھا۔کہیں بالکا،کہیں آریا تو کہیں ہندو راجاؤں کے آفتاب کہلانے والے بکرماجیت اپنی کرنوں سے ہندوستان کو منور کر رہے تھے۔
تقسیم کے اس دور میں جب محمود غزنوی نے ہندوستان پہ 1005 میں حملہ کیا تو جے پال یہاں کا حکمران تھا، پے در پے لڑائیوں میں پال (ہندو راجہ) خاندان کے خاتمے کے بعد غزنوی خاندان کی حکومت لاہور تک پھیلی تو گجرات بھی اسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ جس کے شواہد میں گجرات سے 12 کلومیٹر مشرق میں رانیوال گاوں میں ایک ٹیلے پہ موجود وہ مقبرہ ہے جس میں سید میراں یحٰیؒ نامی بزرگ دفن ہیں جن کا تعلق غزنی کے قریب واقع شہر ترمزی سے تھا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے مفتوحہ علاقوں پہ نظر رکھنے اور دین اسلام کے پرچار کے لیے محمود غزنوی اپنے ساتھ علماء کو لے کر آیا اور انھیں یہاں تعینات کیا۔ جو یہی خدمات سرانجام دیتے رہے، مقامی لوگ انھیں کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور جب شہید ہوئے تو یہیں پر دفن ہوئے۔
غزنوی کی آل اولاد کے بعد شہاب الدین غوری کی 1185 میں شروع ہونے والی فتوحات کی انتہا ابراہیم لودھی کی پکار پہ ہوتی ہے۔ابراہیم لودھی کی یہ پکار باہمی چپقلشوں،سازشوں اور عدم اطمینان کا نتیجہ تھی یا افغانوں کا زوال قریب تھا۔ بات ایک ہی ہے۔
ابن خلدون کہتا ہے۔''قومیں ابتدا،نشو و نما، عروج اور زوال کے ادوار سے گزرتی ہیں۔ یہ ایک طرح کا چکر ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اس کے کہنے کے مطابق قبائل جب تک بدوی حالت میں رہتے ہیں وہ اپنی منفرد خصوصیات رکھتے ہیں لیکن جب وہ اس بدوی دور سے حضروی دور میں داخل ہوتے ہیں تو گویا ایک ٹھہراوء پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ریاست پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔
سلاطین دہلی بھی رنگ بدلتے بدلتے اب ہندوستان پر بوجھ بن چکے تھے، اور اس بوجھ کو اتار پھینکنے کے لیے مغلوں کا جد امجد ظہیرالدین بابر عین اس موقع پر ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے۔
بابر سے لے کر جتنے حملہ آور آئے ماسوائے شہاب الدین غوری کے،وہ سب کابل سے براستہ گجرات اور لاہور، دلی پہنچے ۔ یہاں ایک بار پھر شیر شاہ سوری کے سپہ سالار خواص خاں کے نام پر گجرات کے قریب ایک گاوں خواص پور کی بنیاد بھی رکھی گئی مگر گجرات کی قسمت اس وقت جاگی جب بابر کے نامور پوتے شہنشاہ ہند، محمد اکبر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی۔اس وقت گجرات خستہ حالی کا شکار تھا یہاں جٹ اور گوجر قبیلے کثرت میں آباد تھے اور ہمیشہ آپس میں دست و گریباں رہتے تھے۔
مغل ہندوستان میں حکمران بن کر تو رہے مگر وہ اندرونی طور پہ ہمیشہ اپنے وطن کی ٹھنڈک کو ہی ان علاقوں میں تلاش کرتے رہتے تھے۔ دریا کنارے آبادیاں اور قلعے، تجارتی اور دفاعی حوالے سے بھی بہترین ہوتے تھے۔ تو انھیں چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اکبر بادشاہ نے گجرات میں دریائے چناب کے دائیں کنارے قلعے کی تعمیر کا حکم دیا۔
قارئین آگے بڑھنے سے پہلے اس بات پہ غور کرتے ہیں کہ اگر قبل از مسیح سے لے کر ابراہیم لودھی کی آخری اور بابر کی پہلی لڑائی تک کا باقاعدہ جائزہ لیں(اس سے آگے آنے والوں کا شمار بعد میں کرتے ہیں) تو سارے حکمران غیر ملکی ہی رہے ہیں اور اہل ہند کی کشادہ دلی دیکھئے کہ ہر حملہ آور کی یادگاریں تعمیر کی ہیں، ہر غاصب کو تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد اپنا ہی مان لیا ہے۔
تاریخ کی کتنی ستم ظریفی ہے کہ فاتح کی یادگاریں بنتی رہی ہیں مگر مفتوح کا نشان نہیں ملتا۔ چاہے وہ سکندر کے مقابلے میں پورس ہو محمود کے مقابلے میں راجہ جے پال یا اس کا بیٹا آنند پال ہو ان کی سمادھی کہیں نہی ملے گی۔ اسی طرح غزنوی خاندان کے فاتح غوری کا مقبرہ تو اپ کو سوہاوہ(جہلم) میں مل جائے گا مگر خسرو شاہ غزنوی کے آثار کہیں نہیں ملیں گے۔
گجرات میں اکبری قلعہ کی موجودگی اسے تاریخ میں اور بھی معتبر بناتی ہے۔ اس قلعے کی تعمیر 1580 میں اکبر بادشاہ کے حکم پر شروع ہوئی جس کا ثبوت مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی کی کتاب ''جلال الدین محمد اکبر ،تاریخ کے آئینے میں'' میں بھی ملتا ہے،مصنف لکھتا ہے،''بادشاہ 17 کو شکار کرتا ہوا قصبہ گجرات میں آیا جس کو اس نے آباد کیا تھا اور 23 کو بھنبھر میں آیا۔ 20 کو راجوڑی میں جشن کیا اور 11 کو پیر پنجال کی طرف برف کو کاٹ کر پہنچا ''قارئین یہ وہی راستہ بنتا ہے جس پہ اکثر مغل بادشاہ سفر کرتے تھے۔
اس وقت اس قلعے کا سب سے بڑا مقصد کشمیر یا کابل سے واپسی پر اس جگہ قیام کرنا اور ایک دفاعی چوکی کا قیام تھا۔قلعے کے اندر ایک کچہری کے آثار بھی پائے گئے ہیں یقینا اس کا اہم مقصد اس علاقے میں خصوصا گوجر اور جاٹ قبیلوں کی باہمی چپقلش کو روکنا اور امن وامان قائم رکھنا تھا ۔
گجرات شہر بھی کئی دوسرے قدیمی و تاریخی شہروں کی طرح ایک چار دیواری میں گھرا ہوا تھا۔پتلی سرخ اینٹوں سے بنی قلعے کے چاردیواری کافی چوڑی ہے، جس میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ آٹھ برج بھی بنے ہوئے تھے۔فصیل میں چار دروازے تھے۔ جن کے نام کابلی دروازہ ، کالری دروازہ ، شاہ دولہ دروازہ ،شیشانوالہ دروازہ ہیں۔ شومئی قسمت کہ ان سب میں صرف شاہ دولہ دروازے کے کچھ آثار باقی ہیں۔
قلعے کے آٹھ برج ہیں جن میں ایک ثمن نامی برج اصل حالت میں موجود ہے جبکہ ایک برج پہ کسی مہربان نے کمال مہربانی سے پلستر کروا کر اسے محفوظ تو کر دیا ہے مگر اس کی اصلیت غائب ہو گئی ہے، تیسرا برج بھی کسی حد تک موجود ہے البتہ جس طرح وہ موسموں کی شدت اور ذمہ داران کی بے توجہی کا شکار ہے وہ کسی بھی لمحے کسی سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس برج کے ساتھ ہی قلعے کی فصیل کے باہر اکبر کے ہمعصر ایک بزرگ کا مزار بھی ہے جن کے بارے میں مقامی سطح پر ایک روایت مشہور ہے کہ جب اکبر نے دین الہی ایجاد کیا تو یہاں کے ایک بزرگ گل شاہ ولی کو بھی اس مذہب کی اطاعت کا حکم دیا گیا یعنی دوسرے الفاظ میں دین الہی کو قبول کرنے پہ زور دیا گیا، جس کا انھوں نے انکار کر دیا۔ مگر بادشاہوں کو اس طرح کے انکار کب گوارا ہوتے ہیں۔
تو مزاج شاہانہ نے حکم عدولی کی بنا پہ ان کے تین بیٹے فصیل سے باہر گرا کر مروا دیے اور قلعے کی فصیل سے باہر تین اطراف میں یہ مقابر ان تین معصومین،کی نشانیاں ہیں۔ وقت کے ساتھ قلعہ تو خشت و ریت کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے جبکہ اللہ کے ولیوں کے مزارات مرجع خلائق بنے یوئے ہیں۔
قلعے کے اندر اکبری حویلی بالکل اپنے اصل روپ میں موجود ہے شاندار لکڑی کے دروازے کے اندر ڈیوڑھی جس کے دونوں طرف کمرے اور ڈیوڑھی سے آگے ایک وسیع دالان جس کے چاروں طرف کشادہ کمرے ہیں۔ سامنے کمرے میں یقینا بادشاہ سلامت گھوڑوں پہ ایک طویل سفر کے بعد استراحت فرماتے ہوں گے۔اس گول کمرے کے چاروں طرف دروازے ہیں اور ان دروازوں سے باہر ٹیرس ہے جس پہ لکڑی کے خوبصورت کام والی کھڑکیاں ہیں جو یقینا دریائے چناب اور جہلم سے آنے والی ہواوں سے معطر ہوتی ہوں گی۔
قلعے کے اندر لکڑی کے بنے کئی زینے اور کھڑکیاں ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ثمن برج جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا،سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو برج کے اوپر سے کنگرے تو گر چکے مگر آثار باقی ہیں یہ برج دراصل اس وقت کے واچ ٹاورز یا حفاظتی چوکیاں تھیں، ان کے آثار تقریبا ہر قلعے اور سرائے پر بھی ملتے ہیں جو اس وقت دشمن پر نظر رکھنے کے کام آتے تھے۔ برج کے ساتھ ایک وسیع صحن ہے جس کے جنوبی حصے میں ایک تخت نما اسٹرکچر بنا ہوا ہے جہاں سے اب بھی دیکھیں تو چناب کنارے درخت نظر آتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چاندنی رات میں جب دریا میں جولانی عروج پہ ہو تو یہاں سے پانی کی چمک بہت خوبصورت لگتی ہے۔ قلعے کی اس حویلی کو اپنی بہترین شکل میں قائم رکھنے میں محترمہ بلقیس زہرا صاحبہ کا ہاتھ ہے جو ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ ہیں اور اس اکبری حویلی میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے والد تقسیم سے پہلے ہندوستان میں محکمہ تعلیم میں ایک اچھی پوسٹ پر تھے۔ تقسیم سے پہلے ہی یہاں آ گئے اور یہ حویلی انھیں الاٹ کی گئی۔ اکبری حمام جس کی تکنیک کی ہندوستان بھر میں دھوم تھی کہ اس کا پانی ایک چراغ جلنے سے شدید سردی میں بھی گرم رہتا تھا،اب اس کی جگہ نل بہہ رہا ہے۔
قلع کی فصیل اگرچہ ختم ہو چکی ہے مگر گلیوں میں گھومتے پھرتے اس کے آثار کا کئی جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔قلعے میں پانی کی رسائی کے لیے دو کنویں بھی تھے جن کے آثار دو جگہ پہ بہت بڑے بڑے کچرے کے ڈھیروں کی صورت میں موجود ہیں۔
یہ دیکھ کر خیال آیا ''کہ تاریخ کو کچرادان کیسے بناتے ہیں، یہ کوئی ہم سے سیکھے۔ شہر کے انتہائی مشرق میں سڑک کے کنارے مغل بادشاہ جہانگیر کا مقبرہ واقع ہے۔جی وہی مغل بادشاہ جہانگیر جس کا مرقد لاہور میں بھی ہے۔تو بات اس طرح ہے کہ مغل گجرات بھمبھر،راجوڑی اور پیر پنجال سے ہو کر سری نگر یا دوسرے علاقوں میں پہنچتے تھے۔اسی طرح بادشاہ جہانگیر بھی کشمیر سے واپسی پہ راجوڑی میں وفات پا گیا۔
اس وقت شورشوں کے خوف سے اس کی موت کو خفیہ رکھ کر سفر جاری رکھا گیا۔مگر جب لاش سے بدبو پیدا ہونے لگی تو حکماء کے فیصلے کے مطابق لاش کے اندر سے آنتوں کو نکال کر وادیء باغ سر میں موجود قلعہ ء باغسر کے پاس دفن کر دیا گیا۔جس کے آثار آج بھی قبر کی صورت میں موجود ہیں، قبر پہ تختی بھی لگی ہے اور قبر بہت اچھی حالت میں ہے۔(قلعہ باغسر کی تاریخ و تفصیل میرے سفرنامے وادی باغسر کی سیر میں دستیاب ہے)
مگر موسموں کی شدت پھر سے آڑے آئی اور لاش پھر سے متعفن ہونے لگی تو گجرات پہنچ کر تمام اندرونی اعضاء نکال کر یہان دفن کر دیے گئے اور یوں باقی ماندہ ڈھانچہ لاہور میں لے جا کر دفن کیا گیا۔پھر گجرات میں اسی جگہ پر ایک یادگار بنا دی گئی جو رفتہ رفتہ شاہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہو گئی اور اس پر میلہ بھی لگنے لگا۔ لوگ اسے کسی ولی اللہ کا مدفن سمجھتے ہیں۔
ہمارے عقائد اور اعمال کا یہ حال ہے کہ اب اس مزار پہ بادشاہ جہانگیر کا حسب نسب نقشبندیوں اور سہروردیوں سے ملا دیا گیا ہے۔دس بارہ سال پہلے جب میں نے خود اس مرقد کو وزٹ کیا تھا تو اس وقت وہاں مکمل ویرانی اور خاموشی تھی۔کچھ بھی حسب نسب نہ لکھا گیا تھا۔ مگر یہ سب کچھ حالیہ چند سالوں میں ہوا، جس کے کئی گھٹیا مقاصد ہیں۔ قبر کے سرہانے کتبے پہ جو تاریخ درج ہے اس سے بھی یہ مرقد بادشاہ جہانگیر کا ہی ثابت ہوتا ہے۔
سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ٹیکسلا کے راجہ ایمبی سارا کے پرتپاک استقبال کے بعد اسے دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس سے ایک عظیم جنگ لڑنا پڑی۔ جس میں اسے اس عظیم آرین سپوت کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔جی ہزیمت۔۔۔ کیونکہ عددی برتری سکندر کو ہو سکتی ہے مگر جتنا نقصان اس کی سپاہ کو ہوا تھا۔
اس کے بعد سکندر کی افواج نفسیاتی طور پر بد دل ہو چکی تھیں اور انھوں نے مزید مشرقی ہند میں جانے یا لڑنے سے انکار کر دیا اور اس بغاوت پر بھی سکندر نے اپنے تقریباً دس ہزار سپاہیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا۔اسی شکست نے سکندر کو 'جو پوری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تھا' واپسی پہ مجبور کیا تھا۔
سکندر کی مراجعت کے تیرہ تو کہیں گیارہ سال بعد اس کے ایک یونانی سپہ سالار نے پورس کو قتل کر دیا۔ راجہ بچن پال اسی یونانی نسل سے تھا۔
ایک دن راجہ بچن پال اپنی راج نیتی سے اکتا گیا تو وہ اپنی رانی کے ساتھ ایسے ہی ہوا خوری کے لیے کہیں نکل آیا۔ دریائے چناب کے پانی تو کیا اس کی ہوا میں بھی عشق و محبت کی مستی رچی ہوئی ہے۔
راجہ اور رانی کو بھی یہ عشق و مستی کی فضا بہت بھائی۔انھوں نے چند روز دریا کنارے گزارنے کا فیصلہ کیا اور وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ یہ لوگ چند دن یہاں گزار کر واپس چل دیے مگر واپسی سے پہلے راجہ بچن پال نے یہاں ایک بستی آباد کرنے کا حکم دے دیا اور اس بستی کا نام اپنی رانی کے نام پہ ''اودے نگری ''رکھا۔
یہی اودے نگری آج کے پاکستان کا مشہور شہر گجرات ہے۔ وقت اپنے نقش بناتا رہا اور دریائے چناب اپنی سرکشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ نقش مٹاتا رہا۔دونوں میں یہ مقابلہ تقریبا ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ وقت نے ایک اور کروٹ بدلی اور ایک اور راجہ اپنے پیش رو کی تقلید کرتا ہوا اپنی ملکہ سمیت ادھر آ نکلا۔ اس کی بیوی گجراں رانی کو بھی یہ علاقہ بہت بھایا اور اب کی بار یہاں بسائی جانے والی بستی کا نام '' گجراں نگری ''رکھ دیا گیا۔
اب یہ گجراں نگری بھی وقت کے تھپیڑے سہتی، بنتی اور مٹتی رہی۔عشق و محبت اور نفرت کی کئی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔ امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گجرات ایک بہت قدیم علاقہ ہے یہ سکندر کے بعد موریہ اور اشوک سلطنت کا حصہ بھی رہا ہے۔
اس کے بعد 997 عیسوی میں جب محمود غزنوی نے اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد عنان حکومت سنبھالی اور کابل کی فتح کے بعد ہندوستان کا رخ کیا تو اس وقت ہندوستان سوائے ایک آدھ مسلمان ریاست کے،باقی سارا مختلف ہندو راجاوں میں بٹا ہوا تھا۔کہیں بالکا،کہیں آریا تو کہیں ہندو راجاؤں کے آفتاب کہلانے والے بکرماجیت اپنی کرنوں سے ہندوستان کو منور کر رہے تھے۔
تقسیم کے اس دور میں جب محمود غزنوی نے ہندوستان پہ 1005 میں حملہ کیا تو جے پال یہاں کا حکمران تھا، پے در پے لڑائیوں میں پال (ہندو راجہ) خاندان کے خاتمے کے بعد غزنوی خاندان کی حکومت لاہور تک پھیلی تو گجرات بھی اسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ جس کے شواہد میں گجرات سے 12 کلومیٹر مشرق میں رانیوال گاوں میں ایک ٹیلے پہ موجود وہ مقبرہ ہے جس میں سید میراں یحٰیؒ نامی بزرگ دفن ہیں جن کا تعلق غزنی کے قریب واقع شہر ترمزی سے تھا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے مفتوحہ علاقوں پہ نظر رکھنے اور دین اسلام کے پرچار کے لیے محمود غزنوی اپنے ساتھ علماء کو لے کر آیا اور انھیں یہاں تعینات کیا۔ جو یہی خدمات سرانجام دیتے رہے، مقامی لوگ انھیں کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور جب شہید ہوئے تو یہیں پر دفن ہوئے۔
غزنوی کی آل اولاد کے بعد شہاب الدین غوری کی 1185 میں شروع ہونے والی فتوحات کی انتہا ابراہیم لودھی کی پکار پہ ہوتی ہے۔ابراہیم لودھی کی یہ پکار باہمی چپقلشوں،سازشوں اور عدم اطمینان کا نتیجہ تھی یا افغانوں کا زوال قریب تھا۔ بات ایک ہی ہے۔
ابن خلدون کہتا ہے۔''قومیں ابتدا،نشو و نما، عروج اور زوال کے ادوار سے گزرتی ہیں۔ یہ ایک طرح کا چکر ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اس کے کہنے کے مطابق قبائل جب تک بدوی حالت میں رہتے ہیں وہ اپنی منفرد خصوصیات رکھتے ہیں لیکن جب وہ اس بدوی دور سے حضروی دور میں داخل ہوتے ہیں تو گویا ایک ٹھہراوء پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ریاست پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔
سلاطین دہلی بھی رنگ بدلتے بدلتے اب ہندوستان پر بوجھ بن چکے تھے، اور اس بوجھ کو اتار پھینکنے کے لیے مغلوں کا جد امجد ظہیرالدین بابر عین اس موقع پر ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے۔
بابر سے لے کر جتنے حملہ آور آئے ماسوائے شہاب الدین غوری کے،وہ سب کابل سے براستہ گجرات اور لاہور، دلی پہنچے ۔ یہاں ایک بار پھر شیر شاہ سوری کے سپہ سالار خواص خاں کے نام پر گجرات کے قریب ایک گاوں خواص پور کی بنیاد بھی رکھی گئی مگر گجرات کی قسمت اس وقت جاگی جب بابر کے نامور پوتے شہنشاہ ہند، محمد اکبر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی۔اس وقت گجرات خستہ حالی کا شکار تھا یہاں جٹ اور گوجر قبیلے کثرت میں آباد تھے اور ہمیشہ آپس میں دست و گریباں رہتے تھے۔
مغل ہندوستان میں حکمران بن کر تو رہے مگر وہ اندرونی طور پہ ہمیشہ اپنے وطن کی ٹھنڈک کو ہی ان علاقوں میں تلاش کرتے رہتے تھے۔ دریا کنارے آبادیاں اور قلعے، تجارتی اور دفاعی حوالے سے بھی بہترین ہوتے تھے۔ تو انھیں چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اکبر بادشاہ نے گجرات میں دریائے چناب کے دائیں کنارے قلعے کی تعمیر کا حکم دیا۔
قارئین آگے بڑھنے سے پہلے اس بات پہ غور کرتے ہیں کہ اگر قبل از مسیح سے لے کر ابراہیم لودھی کی آخری اور بابر کی پہلی لڑائی تک کا باقاعدہ جائزہ لیں(اس سے آگے آنے والوں کا شمار بعد میں کرتے ہیں) تو سارے حکمران غیر ملکی ہی رہے ہیں اور اہل ہند کی کشادہ دلی دیکھئے کہ ہر حملہ آور کی یادگاریں تعمیر کی ہیں، ہر غاصب کو تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد اپنا ہی مان لیا ہے۔
تاریخ کی کتنی ستم ظریفی ہے کہ فاتح کی یادگاریں بنتی رہی ہیں مگر مفتوح کا نشان نہیں ملتا۔ چاہے وہ سکندر کے مقابلے میں پورس ہو محمود کے مقابلے میں راجہ جے پال یا اس کا بیٹا آنند پال ہو ان کی سمادھی کہیں نہی ملے گی۔ اسی طرح غزنوی خاندان کے فاتح غوری کا مقبرہ تو اپ کو سوہاوہ(جہلم) میں مل جائے گا مگر خسرو شاہ غزنوی کے آثار کہیں نہیں ملیں گے۔
گجرات میں اکبری قلعہ کی موجودگی اسے تاریخ میں اور بھی معتبر بناتی ہے۔ اس قلعے کی تعمیر 1580 میں اکبر بادشاہ کے حکم پر شروع ہوئی جس کا ثبوت مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی کی کتاب ''جلال الدین محمد اکبر ،تاریخ کے آئینے میں'' میں بھی ملتا ہے،مصنف لکھتا ہے،''بادشاہ 17 کو شکار کرتا ہوا قصبہ گجرات میں آیا جس کو اس نے آباد کیا تھا اور 23 کو بھنبھر میں آیا۔ 20 کو راجوڑی میں جشن کیا اور 11 کو پیر پنجال کی طرف برف کو کاٹ کر پہنچا ''قارئین یہ وہی راستہ بنتا ہے جس پہ اکثر مغل بادشاہ سفر کرتے تھے۔
اس وقت اس قلعے کا سب سے بڑا مقصد کشمیر یا کابل سے واپسی پر اس جگہ قیام کرنا اور ایک دفاعی چوکی کا قیام تھا۔قلعے کے اندر ایک کچہری کے آثار بھی پائے گئے ہیں یقینا اس کا اہم مقصد اس علاقے میں خصوصا گوجر اور جاٹ قبیلوں کی باہمی چپقلش کو روکنا اور امن وامان قائم رکھنا تھا ۔
گجرات شہر بھی کئی دوسرے قدیمی و تاریخی شہروں کی طرح ایک چار دیواری میں گھرا ہوا تھا۔پتلی سرخ اینٹوں سے بنی قلعے کے چاردیواری کافی چوڑی ہے، جس میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ آٹھ برج بھی بنے ہوئے تھے۔فصیل میں چار دروازے تھے۔ جن کے نام کابلی دروازہ ، کالری دروازہ ، شاہ دولہ دروازہ ،شیشانوالہ دروازہ ہیں۔ شومئی قسمت کہ ان سب میں صرف شاہ دولہ دروازے کے کچھ آثار باقی ہیں۔
قلعے کے آٹھ برج ہیں جن میں ایک ثمن نامی برج اصل حالت میں موجود ہے جبکہ ایک برج پہ کسی مہربان نے کمال مہربانی سے پلستر کروا کر اسے محفوظ تو کر دیا ہے مگر اس کی اصلیت غائب ہو گئی ہے، تیسرا برج بھی کسی حد تک موجود ہے البتہ جس طرح وہ موسموں کی شدت اور ذمہ داران کی بے توجہی کا شکار ہے وہ کسی بھی لمحے کسی سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس برج کے ساتھ ہی قلعے کی فصیل کے باہر اکبر کے ہمعصر ایک بزرگ کا مزار بھی ہے جن کے بارے میں مقامی سطح پر ایک روایت مشہور ہے کہ جب اکبر نے دین الہی ایجاد کیا تو یہاں کے ایک بزرگ گل شاہ ولی کو بھی اس مذہب کی اطاعت کا حکم دیا گیا یعنی دوسرے الفاظ میں دین الہی کو قبول کرنے پہ زور دیا گیا، جس کا انھوں نے انکار کر دیا۔ مگر بادشاہوں کو اس طرح کے انکار کب گوارا ہوتے ہیں۔
تو مزاج شاہانہ نے حکم عدولی کی بنا پہ ان کے تین بیٹے فصیل سے باہر گرا کر مروا دیے اور قلعے کی فصیل سے باہر تین اطراف میں یہ مقابر ان تین معصومین،کی نشانیاں ہیں۔ وقت کے ساتھ قلعہ تو خشت و ریت کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے جبکہ اللہ کے ولیوں کے مزارات مرجع خلائق بنے یوئے ہیں۔
قلعے کے اندر اکبری حویلی بالکل اپنے اصل روپ میں موجود ہے شاندار لکڑی کے دروازے کے اندر ڈیوڑھی جس کے دونوں طرف کمرے اور ڈیوڑھی سے آگے ایک وسیع دالان جس کے چاروں طرف کشادہ کمرے ہیں۔ سامنے کمرے میں یقینا بادشاہ سلامت گھوڑوں پہ ایک طویل سفر کے بعد استراحت فرماتے ہوں گے۔اس گول کمرے کے چاروں طرف دروازے ہیں اور ان دروازوں سے باہر ٹیرس ہے جس پہ لکڑی کے خوبصورت کام والی کھڑکیاں ہیں جو یقینا دریائے چناب اور جہلم سے آنے والی ہواوں سے معطر ہوتی ہوں گی۔
قلعے کے اندر لکڑی کے بنے کئی زینے اور کھڑکیاں ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ثمن برج جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا،سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو برج کے اوپر سے کنگرے تو گر چکے مگر آثار باقی ہیں یہ برج دراصل اس وقت کے واچ ٹاورز یا حفاظتی چوکیاں تھیں، ان کے آثار تقریبا ہر قلعے اور سرائے پر بھی ملتے ہیں جو اس وقت دشمن پر نظر رکھنے کے کام آتے تھے۔ برج کے ساتھ ایک وسیع صحن ہے جس کے جنوبی حصے میں ایک تخت نما اسٹرکچر بنا ہوا ہے جہاں سے اب بھی دیکھیں تو چناب کنارے درخت نظر آتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چاندنی رات میں جب دریا میں جولانی عروج پہ ہو تو یہاں سے پانی کی چمک بہت خوبصورت لگتی ہے۔ قلعے کی اس حویلی کو اپنی بہترین شکل میں قائم رکھنے میں محترمہ بلقیس زہرا صاحبہ کا ہاتھ ہے جو ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ ہیں اور اس اکبری حویلی میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے والد تقسیم سے پہلے ہندوستان میں محکمہ تعلیم میں ایک اچھی پوسٹ پر تھے۔ تقسیم سے پہلے ہی یہاں آ گئے اور یہ حویلی انھیں الاٹ کی گئی۔ اکبری حمام جس کی تکنیک کی ہندوستان بھر میں دھوم تھی کہ اس کا پانی ایک چراغ جلنے سے شدید سردی میں بھی گرم رہتا تھا،اب اس کی جگہ نل بہہ رہا ہے۔
قلع کی فصیل اگرچہ ختم ہو چکی ہے مگر گلیوں میں گھومتے پھرتے اس کے آثار کا کئی جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔قلعے میں پانی کی رسائی کے لیے دو کنویں بھی تھے جن کے آثار دو جگہ پہ بہت بڑے بڑے کچرے کے ڈھیروں کی صورت میں موجود ہیں۔
یہ دیکھ کر خیال آیا ''کہ تاریخ کو کچرادان کیسے بناتے ہیں، یہ کوئی ہم سے سیکھے۔ شہر کے انتہائی مشرق میں سڑک کے کنارے مغل بادشاہ جہانگیر کا مقبرہ واقع ہے۔جی وہی مغل بادشاہ جہانگیر جس کا مرقد لاہور میں بھی ہے۔تو بات اس طرح ہے کہ مغل گجرات بھمبھر،راجوڑی اور پیر پنجال سے ہو کر سری نگر یا دوسرے علاقوں میں پہنچتے تھے۔اسی طرح بادشاہ جہانگیر بھی کشمیر سے واپسی پہ راجوڑی میں وفات پا گیا۔
اس وقت شورشوں کے خوف سے اس کی موت کو خفیہ رکھ کر سفر جاری رکھا گیا۔مگر جب لاش سے بدبو پیدا ہونے لگی تو حکماء کے فیصلے کے مطابق لاش کے اندر سے آنتوں کو نکال کر وادیء باغ سر میں موجود قلعہ ء باغسر کے پاس دفن کر دیا گیا۔جس کے آثار آج بھی قبر کی صورت میں موجود ہیں، قبر پہ تختی بھی لگی ہے اور قبر بہت اچھی حالت میں ہے۔(قلعہ باغسر کی تاریخ و تفصیل میرے سفرنامے وادی باغسر کی سیر میں دستیاب ہے)
مگر موسموں کی شدت پھر سے آڑے آئی اور لاش پھر سے متعفن ہونے لگی تو گجرات پہنچ کر تمام اندرونی اعضاء نکال کر یہان دفن کر دیے گئے اور یوں باقی ماندہ ڈھانچہ لاہور میں لے جا کر دفن کیا گیا۔پھر گجرات میں اسی جگہ پر ایک یادگار بنا دی گئی جو رفتہ رفتہ شاہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہو گئی اور اس پر میلہ بھی لگنے لگا۔ لوگ اسے کسی ولی اللہ کا مدفن سمجھتے ہیں۔
ہمارے عقائد اور اعمال کا یہ حال ہے کہ اب اس مزار پہ بادشاہ جہانگیر کا حسب نسب نقشبندیوں اور سہروردیوں سے ملا دیا گیا ہے۔دس بارہ سال پہلے جب میں نے خود اس مرقد کو وزٹ کیا تھا تو اس وقت وہاں مکمل ویرانی اور خاموشی تھی۔کچھ بھی حسب نسب نہ لکھا گیا تھا۔ مگر یہ سب کچھ حالیہ چند سالوں میں ہوا، جس کے کئی گھٹیا مقاصد ہیں۔ قبر کے سرہانے کتبے پہ جو تاریخ درج ہے اس سے بھی یہ مرقد بادشاہ جہانگیر کا ہی ثابت ہوتا ہے۔