موسمیاتی انصاف اور مستقبل کا لائحہ عمل
ہم بطورانسان اپنی سرگرمیوں سے اس کی رفتار اور منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں بہت نقصان ہوا، پاکستان موسمیاتی انصاف چاہتا ہے، خیرات نہیں۔ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے شرم الشیخ میں کوپ 27 کانفرنس میں پاکستان کی کامیاب سفارت کاری پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ کوپ-27 کے 'لاس اینڈ ڈیمیج' فنڈ پر عملی طور کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے باعث 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، سیلاب سے زراعت، صنعت، غلہ بانی کا 30 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، حالیہ سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی، پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد پر تمام ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں، وزیراعظم نے بلاول بھٹو اور شیری رحمان کے بین الاقوامی فورمز پر بھرپور کردار کو بھی سراہا۔
بلاشبہ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پیدا کردہ موسمی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ27 میںغریب اور ترقی پذیر ممالک کا کیس بھرپور طریقے سے پیش کیا ، جس کے نتیجے میں ایک عالمی فنڈ کا قیام عمل میں آنا خوش آیند امر ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو صورتحال ہے دنیا کو اس پر جاگنا چاہیے، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کلائمنٹ چینج کے کم ذمے دار ممالک کو تباہی اور اموات کا دوسروں کی نسبت زیادہ سامنا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔
دنیا کا پاکستان کے لیے وسائل کو متحرک کرنا انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک بے مثال قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں شرکت کی اور مزید 100 ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔ پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اِس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آ چکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہو سکا تو پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 50 سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔
حالانکہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، اسی تناظر میں انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ امداد اور معاونت کی جائے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کے لیے پائیدار بنیادی ڈھانچہ قائم کر سکے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنی چاہیے۔ ایسا ہونا بھی ضروری ہے، مگر جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے کیوں کر بچا جاسکتا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ چونکہ عالمی ذمے داری ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری یہ ادا کررہی ہے تو جواب خاصا مشکل ہے ۔ اس مسئلے کا حل اجتماعی عالمی کوششوں سے ہی ممکن ہے، چنانچہ وہ بڑی صنعتی طاقتیں، جنھیں اپنی پیداواری سرگرمیاں اور معاشی نمو عزیز ہے۔
ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باب میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں، فی الوقت نظر نہیں آرہیں، سب کو صاف ستھرا اور محفوظ ماحول چاہیے مگر کوئی بھی اس کے لیے قربانی دینے کو تیار نہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے جیسے ممالک جن کا عالمی ماحولیاتی حدت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کی تباہی کے متاثرین میں سرفہرست ہیں، اور ماحول سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اس موضوع پر سالانہ کانفرنسیں منعقد کروائی جائیں، یا تھنک ٹینکس کو فنڈ دے کر اس خطرے کے مطالعات پر مبنی رپورٹس تیار کروائی جاتی ہیں۔
انتہائی نوعیت کے موسمی حادثات مختصرالمدتی امدادی سرگرمیوں اور ریاستی وسائل پر طویل مدت کے لیے بوجھ کا نام ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بچے، خاص کر چھوٹی بچیاں انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کم ہو جاتی ہے، بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے اور یہ تمام کے تمام کثیر الشعبہ جاتی مسائل ہیں۔
ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے۔
قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں، لہٰذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دارہیں۔
گویا کثیرالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ ہو جب کہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔
این ایس پی نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر گفت و شنید شروع کی لیکن قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا تخمینہ لگائے بغیر صرف غذا، پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقا کو لاحق خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں، اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا، وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔
دوسری طرف آبادی میں بے دریغ اضافہ ہورہا ہے،نتیجتاً پانی جیسی بنیادی ضرورت تیزی سے کم ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم مستقبل میں پانی پر جنگیں لڑیں گے۔
اس کے علاوہ جوہری توانائی کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس توانائی کی افادیت اپنی جگہ لیکن اس سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ہمارے ماحول کو زہرآلودکررہی ہیں۔ ہمارے شہر بھی روزبروز پھیل رہے ہیں،صنعتی انقلاب کے بعد عوام کی شہروں کی جانب نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب ہیوی ٹریفک، گاڑیوں اور کارخانوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحولیاتی اورصحت کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی لیکن ہم بطورانسان اپنی سرگرمیوں سے اس کی رفتار اور منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلی ہر ایک کا مسئلہ ہے اور اسے صرف کوئی ادارہ، حکومت یا سائنسدان نہیں بلکہ ہم سب مل کر حل کریں گے۔
ہمیں چند کام ضرور کرنے چاہئیں،ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں ان جگہوں پر پودے لگائیں جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، سائیکل یاپبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوںکوترجیح دیں۔
اپنے موبائل فونز اور دیگر اپلائنسز کے چارجرز بلاضرورت آن نہ رکھیں، کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ کا استعمال کریں، پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں اور خود بھی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات پوری طرح سے سمجھیں، معاشرے میں بھی اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور آخر میں ایک منظم طریقے سے اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ جلد از جلد حقیقی معنوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور عملی اقدامات کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ کوپ-27 کے 'لاس اینڈ ڈیمیج' فنڈ پر عملی طور کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے باعث 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، سیلاب سے زراعت، صنعت، غلہ بانی کا 30 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، حالیہ سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی، پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد پر تمام ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں، وزیراعظم نے بلاول بھٹو اور شیری رحمان کے بین الاقوامی فورمز پر بھرپور کردار کو بھی سراہا۔
بلاشبہ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پیدا کردہ موسمی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ27 میںغریب اور ترقی پذیر ممالک کا کیس بھرپور طریقے سے پیش کیا ، جس کے نتیجے میں ایک عالمی فنڈ کا قیام عمل میں آنا خوش آیند امر ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو صورتحال ہے دنیا کو اس پر جاگنا چاہیے، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کلائمنٹ چینج کے کم ذمے دار ممالک کو تباہی اور اموات کا دوسروں کی نسبت زیادہ سامنا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔
دنیا کا پاکستان کے لیے وسائل کو متحرک کرنا انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک بے مثال قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں شرکت کی اور مزید 100 ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔ پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اِس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آ چکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہو سکا تو پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 50 سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔
حالانکہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، اسی تناظر میں انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ امداد اور معاونت کی جائے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کے لیے پائیدار بنیادی ڈھانچہ قائم کر سکے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنی چاہیے۔ ایسا ہونا بھی ضروری ہے، مگر جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے کیوں کر بچا جاسکتا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ چونکہ عالمی ذمے داری ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری یہ ادا کررہی ہے تو جواب خاصا مشکل ہے ۔ اس مسئلے کا حل اجتماعی عالمی کوششوں سے ہی ممکن ہے، چنانچہ وہ بڑی صنعتی طاقتیں، جنھیں اپنی پیداواری سرگرمیاں اور معاشی نمو عزیز ہے۔
ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باب میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں، فی الوقت نظر نہیں آرہیں، سب کو صاف ستھرا اور محفوظ ماحول چاہیے مگر کوئی بھی اس کے لیے قربانی دینے کو تیار نہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے جیسے ممالک جن کا عالمی ماحولیاتی حدت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کی تباہی کے متاثرین میں سرفہرست ہیں، اور ماحول سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اس موضوع پر سالانہ کانفرنسیں منعقد کروائی جائیں، یا تھنک ٹینکس کو فنڈ دے کر اس خطرے کے مطالعات پر مبنی رپورٹس تیار کروائی جاتی ہیں۔
انتہائی نوعیت کے موسمی حادثات مختصرالمدتی امدادی سرگرمیوں اور ریاستی وسائل پر طویل مدت کے لیے بوجھ کا نام ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بچے، خاص کر چھوٹی بچیاں انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کم ہو جاتی ہے، بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے اور یہ تمام کے تمام کثیر الشعبہ جاتی مسائل ہیں۔
ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے۔
قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں، لہٰذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دارہیں۔
گویا کثیرالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ ہو جب کہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔
این ایس پی نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر گفت و شنید شروع کی لیکن قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا تخمینہ لگائے بغیر صرف غذا، پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقا کو لاحق خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں، اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا، وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔
دوسری طرف آبادی میں بے دریغ اضافہ ہورہا ہے،نتیجتاً پانی جیسی بنیادی ضرورت تیزی سے کم ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم مستقبل میں پانی پر جنگیں لڑیں گے۔
اس کے علاوہ جوہری توانائی کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس توانائی کی افادیت اپنی جگہ لیکن اس سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ہمارے ماحول کو زہرآلودکررہی ہیں۔ ہمارے شہر بھی روزبروز پھیل رہے ہیں،صنعتی انقلاب کے بعد عوام کی شہروں کی جانب نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب ہیوی ٹریفک، گاڑیوں اور کارخانوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحولیاتی اورصحت کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی لیکن ہم بطورانسان اپنی سرگرمیوں سے اس کی رفتار اور منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلی ہر ایک کا مسئلہ ہے اور اسے صرف کوئی ادارہ، حکومت یا سائنسدان نہیں بلکہ ہم سب مل کر حل کریں گے۔
ہمیں چند کام ضرور کرنے چاہئیں،ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں ان جگہوں پر پودے لگائیں جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، سائیکل یاپبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوںکوترجیح دیں۔
اپنے موبائل فونز اور دیگر اپلائنسز کے چارجرز بلاضرورت آن نہ رکھیں، کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ کا استعمال کریں، پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں اور خود بھی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات پوری طرح سے سمجھیں، معاشرے میں بھی اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور آخر میں ایک منظم طریقے سے اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ جلد از جلد حقیقی معنوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور عملی اقدامات کریں۔