انجام کار کیا ہوگا
کوئی کہے تو کس سے؟ جن سے کہہ سکتے ہیں وہ اپنی اپنی کرسی کی جنگ میں اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں کچھ سجھائی دے رہا ہے
اللہ جانے یہ انجام کا آغاز (Beginning of the end) ہے یا غبار در غبار کا کوئی نیا سلسلہ۔ نومبر جاتے جاتے کچھ سوالوں کے جواب دے گیا مگر کئی نئے سوال جواب کے منتظر چھوڑ گیا۔
ہم اس کرپٹ نظام کا اب مزید حصہ نہیں رہ سکتے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام اسمبلیوں سے نکل جائیں؛ عمران خان کا یہ اعلان ان کی اپنی پارٹی اور پی ڈی ایم کے لیے ایک بھونچال ثابت ہوا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی نظریں پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے کلیدی حلیف چوہدری پرویز الٰہی کی طرف اٹھیں تو انھوں نے اسی وقت اعادہ کیا کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے، جب حکم ہوگا، آدھا منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔ پی ٹی آئی کے اندر اب مشاورت اور سوچ بچار کا دور جاری ہے، آدھے منٹ کا کام کئی دنوں پر پھیل گیا ہے۔
سیاست میں ظاہری بیان بازی اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی کی جانب سے استعفوں کی طرف اٹھتے قدم کے ساتھ ہی مخالفین کی حالت بھی کچھ کم دیدنی نہ تھی۔ کہاں یہ کہ ہر پریس کانفرنس اور بیان میں یہ طعنہ کہ استعفے دینے ہیں تو دو مگر نہیں، یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو پی ٹی آئی اعلان کے بعد بھی اپنی رائے پر قائم ہیں بلکہ مصر ہوئے کہ لکھ لو، یہ استعفے نہیں دیں گے۔ سیاسی بیان بازی کی حد تک کئی ایک نے طعنہ زنی کا سلسلہ جاری رکھا کہ اعلان کیسا؟ استعفے دے بھی چکو وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی قیادت سرجوڑ کر ان تمام آپشنز کو کھنگالنے بیٹھی ہوئی ہے جس سے اسمبلیاں بچائی جا سکیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے آپشن پر عدم اعتماد، گورنرز کی جانب سے عدم اعتماد سمیت ان ہاؤس تبدیلی کے آپشنز زیر غور ہیں۔ آصف زرداری نے ایک ہی سانس میں ساری الجھنیں اور جنھیں کچھ یوں بیان کیں؛ پنجاب اور پختون خوا میں عدم اعتماد لائیں گے۔
عمران خان الیکشن سے قبل گرفتار یا نااہل ہو سکتے ہیں۔ پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی ممکن، کے پی کے میں ہماری نشستیں ہیں بس کچھ گمراہ دوستوں کو واپس لانا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں توڑیں گے تو الیکشن لڑیں گے۔
قبل از وقت عام انتخابات ہمارے اور جمہوریت کے لیے مناسب نہیں! مولانا فضل الرحمان نے البتہ ایک اور آپشن کی طرف اشارہ کیا کہ عام انتخابات ایک سال آگے جا سکتے ہیں!سیاست کے میدان میں ہر ایک اپنے اپنے مفاد اور سیاسی برتری اور بقاء کے لیے آخری حد تک جانے پر کمر بستہ ہے، اور کیوں نہ ہو؟ سیاست طاقت و ثروت کا وسیلہ جو ٹھہری۔ اس ساری دھینگا مشتی اور سیاسی لڑائی میں ملک اور عوام کے ساتھ وہی بیت رہی ہے جو ہاتھیوں کی جنگ میں کھیتوں کھلیانوں کے ساتھ بیتتی ہے مگر عوام کے ساتھ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ بقول پروین شاکر :
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پنجاب ملک کے سب سے بڑا صوبہ اور آبادی کا نصف سے کچھ زائد ہے ۔ پی ٹی آئی کے بزدار دور میں اس صوبے کو مہیا کی گئی انتظامیہ میں تسلسل کا عالم کچھ یوں رہا؛ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری 28 بار تبدیل ہوئے، پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکریٹری10بار تبدیل ہوئے، اسپیشلایزڈ ہیلتھ کو آٹھ بار سیکریٹریز کی تبدیلی کا سامنا رہا۔ چار سالہ دور میں چھ چیف سیکریٹری بدلے اور نو بار صوبے کے پولیس آئی جی بدلے گئے! بیوروکریسی سیاسی محاذ آرائی کے پاٹ میں پس رہی ہے۔
چیف سیکریٹری مسلسل چھٹی پر چھٹی کی درخواستیں دے کر دفتر سے جان چھڑا رہے ہیں۔ پولیس کے ایک سینئر آفیسر کو پنجاب حکومت سینے سے لگا کر شاباش دے رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت اسے صوبہ بدر کرنے کے درپے ہے۔ درمیان میں حکومتی میوزک چئیر چند دنوں کے لیے ن لیگ کے حمزہ شہباز کو ملی تو بھی تبادلوں کا ایک ریلا جاری ہوا۔ اس ماحول میں کیا فیصلہ سازی ہو سکتی ہے۔
اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن سیاست دان اپنی اپنی لڑائی میں یہ سب کچھ آسانی سے کیے جا رہے ہیں۔ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ اسحاق ڈار کی تمام کوششیں اپنی جگہ مگر ان کی سر توڑ کوشش کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے امپورٹس کی ایل سیز میں تاخیر اور دیگر ادائیگیوں میں تاخیر سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششوں نے اکونومی اور سرمایہ کاروں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بدستور تعطل کا شکار ہیں۔ اگلا جائزہ مشن ابھی تک آنے کے لیے تیار نہیں۔ دوست ممالک سے ادائیگیوں کو موخر کرنے اور مزید امداد کی کوششیں بھی اسی ہاتھی کے پاؤں کے ساتھ بندھی ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیے ہیں۔ سردی کی آمد کے ساتھ ہی اب گیس کی شارٹیج کی نوید ہے۔
کوئی کہے تو کس سے؟ جن سے کہہ سکتے ہیں وہ اپنی اپنی کرسی کی جنگ میں اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ سجھائی۔ اسے جمہوریت کا حسن کہیں یا کچھ اور، جمہوریت چند پارٹیوں اور اشخاص کی گرفت میں آنے کے بعد اپنی ظاہری شکل میں برقرار ہے مگر اصلاً بے روح ہو چکی ہے ۔ سوشل میڈیا پر گھمسان کی لڑائی اور شام ڈھلے ٹاک شوز پر اپنے اپنے ممدوح کی صفات اور مخالفین کی بے آبروئی کے میچ دیکھ کر عوام اپنی بپتا بھول جاتے ہیں۔
مہنگائی کا وبال ہے، بے روزگاری کا جنجال ہے، دنیا کے اقتصادی حالات اور سیلاب کے نقصانات کے جھٹکوں نے انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بڑی تعداد میں لیبر کو بے روزگاری کا عذاب درپیش ہے۔ یونی ورسٹیوں اور کالجز سے تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیاں ڈگریاں لیے نوکری کی تلاش اور آس میں ہیں لیکن سیاسی اشرافیہ کے مسائل کا جہاں ہی اور ہے۔ ایسے میں کیا کہیں کہ؛
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھرجائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ ِجاں میں اتر جائے گا
ہم اس کرپٹ نظام کا اب مزید حصہ نہیں رہ سکتے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام اسمبلیوں سے نکل جائیں؛ عمران خان کا یہ اعلان ان کی اپنی پارٹی اور پی ڈی ایم کے لیے ایک بھونچال ثابت ہوا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی نظریں پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے کلیدی حلیف چوہدری پرویز الٰہی کی طرف اٹھیں تو انھوں نے اسی وقت اعادہ کیا کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے، جب حکم ہوگا، آدھا منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔ پی ٹی آئی کے اندر اب مشاورت اور سوچ بچار کا دور جاری ہے، آدھے منٹ کا کام کئی دنوں پر پھیل گیا ہے۔
سیاست میں ظاہری بیان بازی اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی کی جانب سے استعفوں کی طرف اٹھتے قدم کے ساتھ ہی مخالفین کی حالت بھی کچھ کم دیدنی نہ تھی۔ کہاں یہ کہ ہر پریس کانفرنس اور بیان میں یہ طعنہ کہ استعفے دینے ہیں تو دو مگر نہیں، یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو پی ٹی آئی اعلان کے بعد بھی اپنی رائے پر قائم ہیں بلکہ مصر ہوئے کہ لکھ لو، یہ استعفے نہیں دیں گے۔ سیاسی بیان بازی کی حد تک کئی ایک نے طعنہ زنی کا سلسلہ جاری رکھا کہ اعلان کیسا؟ استعفے دے بھی چکو وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی قیادت سرجوڑ کر ان تمام آپشنز کو کھنگالنے بیٹھی ہوئی ہے جس سے اسمبلیاں بچائی جا سکیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے آپشن پر عدم اعتماد، گورنرز کی جانب سے عدم اعتماد سمیت ان ہاؤس تبدیلی کے آپشنز زیر غور ہیں۔ آصف زرداری نے ایک ہی سانس میں ساری الجھنیں اور جنھیں کچھ یوں بیان کیں؛ پنجاب اور پختون خوا میں عدم اعتماد لائیں گے۔
عمران خان الیکشن سے قبل گرفتار یا نااہل ہو سکتے ہیں۔ پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی ممکن، کے پی کے میں ہماری نشستیں ہیں بس کچھ گمراہ دوستوں کو واپس لانا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں توڑیں گے تو الیکشن لڑیں گے۔
قبل از وقت عام انتخابات ہمارے اور جمہوریت کے لیے مناسب نہیں! مولانا فضل الرحمان نے البتہ ایک اور آپشن کی طرف اشارہ کیا کہ عام انتخابات ایک سال آگے جا سکتے ہیں!سیاست کے میدان میں ہر ایک اپنے اپنے مفاد اور سیاسی برتری اور بقاء کے لیے آخری حد تک جانے پر کمر بستہ ہے، اور کیوں نہ ہو؟ سیاست طاقت و ثروت کا وسیلہ جو ٹھہری۔ اس ساری دھینگا مشتی اور سیاسی لڑائی میں ملک اور عوام کے ساتھ وہی بیت رہی ہے جو ہاتھیوں کی جنگ میں کھیتوں کھلیانوں کے ساتھ بیتتی ہے مگر عوام کے ساتھ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ بقول پروین شاکر :
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پنجاب ملک کے سب سے بڑا صوبہ اور آبادی کا نصف سے کچھ زائد ہے ۔ پی ٹی آئی کے بزدار دور میں اس صوبے کو مہیا کی گئی انتظامیہ میں تسلسل کا عالم کچھ یوں رہا؛ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری 28 بار تبدیل ہوئے، پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکریٹری10بار تبدیل ہوئے، اسپیشلایزڈ ہیلتھ کو آٹھ بار سیکریٹریز کی تبدیلی کا سامنا رہا۔ چار سالہ دور میں چھ چیف سیکریٹری بدلے اور نو بار صوبے کے پولیس آئی جی بدلے گئے! بیوروکریسی سیاسی محاذ آرائی کے پاٹ میں پس رہی ہے۔
چیف سیکریٹری مسلسل چھٹی پر چھٹی کی درخواستیں دے کر دفتر سے جان چھڑا رہے ہیں۔ پولیس کے ایک سینئر آفیسر کو پنجاب حکومت سینے سے لگا کر شاباش دے رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت اسے صوبہ بدر کرنے کے درپے ہے۔ درمیان میں حکومتی میوزک چئیر چند دنوں کے لیے ن لیگ کے حمزہ شہباز کو ملی تو بھی تبادلوں کا ایک ریلا جاری ہوا۔ اس ماحول میں کیا فیصلہ سازی ہو سکتی ہے۔
اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن سیاست دان اپنی اپنی لڑائی میں یہ سب کچھ آسانی سے کیے جا رہے ہیں۔ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ہیں۔ اسحاق ڈار کی تمام کوششیں اپنی جگہ مگر ان کی سر توڑ کوشش کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے امپورٹس کی ایل سیز میں تاخیر اور دیگر ادائیگیوں میں تاخیر سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششوں نے اکونومی اور سرمایہ کاروں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بدستور تعطل کا شکار ہیں۔ اگلا جائزہ مشن ابھی تک آنے کے لیے تیار نہیں۔ دوست ممالک سے ادائیگیوں کو موخر کرنے اور مزید امداد کی کوششیں بھی اسی ہاتھی کے پاؤں کے ساتھ بندھی ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیے ہیں۔ سردی کی آمد کے ساتھ ہی اب گیس کی شارٹیج کی نوید ہے۔
کوئی کہے تو کس سے؟ جن سے کہہ سکتے ہیں وہ اپنی اپنی کرسی کی جنگ میں اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ سجھائی۔ اسے جمہوریت کا حسن کہیں یا کچھ اور، جمہوریت چند پارٹیوں اور اشخاص کی گرفت میں آنے کے بعد اپنی ظاہری شکل میں برقرار ہے مگر اصلاً بے روح ہو چکی ہے ۔ سوشل میڈیا پر گھمسان کی لڑائی اور شام ڈھلے ٹاک شوز پر اپنے اپنے ممدوح کی صفات اور مخالفین کی بے آبروئی کے میچ دیکھ کر عوام اپنی بپتا بھول جاتے ہیں۔
مہنگائی کا وبال ہے، بے روزگاری کا جنجال ہے، دنیا کے اقتصادی حالات اور سیلاب کے نقصانات کے جھٹکوں نے انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بڑی تعداد میں لیبر کو بے روزگاری کا عذاب درپیش ہے۔ یونی ورسٹیوں اور کالجز سے تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیاں ڈگریاں لیے نوکری کی تلاش اور آس میں ہیں لیکن سیاسی اشرافیہ کے مسائل کا جہاں ہی اور ہے۔ ایسے میں کیا کہیں کہ؛
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھرجائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ ِجاں میں اتر جائے گا