افضال احمد
سرخ و سفید رنگ کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا
عابد علی، محبوب عالم اور سہیل اصغر کے بعد افضال احمد وہ چوتھا اداکار تھا جس نے میرے تین سے زیادہ سیریلز میں ہمیشہ یاد رہ جانے والے کردار ادا کیے۔
آج کی نسل ممکن ہے اس کے کام یا شاید نام سے بھی واقف نہ ہو کہ گزشتہ اٹھارہ برس سے وہ ذہنی اور جسمانی طو رپر ایک اپاہج کی سی زندگی گزار رہا تھا لیکن جن لوگوں نے اس کو ساٹھ کی دہائی کے آخر سے لے کر اس کے برین ہیمرج کے درمیانی تقریباً 35 برسوں میں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر جھنڈے گاڑتے دیکھا ہے، ان کے لیے وہ کسی بھی طرح ایک سپراسٹار سے کم نہ تھا۔
اس کا سرخ و سفید رنگ جس کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا، متاثر کن شخصیت اور بارعب آواز اس کی ایسی پہچان تھی جس کا کوئی مماثل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے اشفاق احمد صاحب کے ابتدائی ڈراموں سے پی ٹی وی میں اس وقت ناظرین کی توجہ حاصل کی جب وہ ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
خاندانی طور پر مضبوط معاشی پس منظر کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج میں ایک طرح کا اعتماد شامل تھا مگر اسے غرور کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہر محفل میں فوراً گھل مل جاتا تھااور خاص طور پر جونیئر اور معاشی طور پر کمزور فنکاروں کے لیے اس کے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھاالبتہ سیٹ پر ساتھی اداکاروں کے لیے اس کی شرارت پسند طبیعت سے نباہ مشکل ہو جاتا تھا۔ اپنے کام اور رول کے تقاضوں کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔
جب کبھی اسے محسوس ہوتا کہ وہ کسی سین میں اپنے ساتھ والے اداکار جیسی پرفارمنس نہیں دے رہا تو وہ جان بوجھ کر یا تو کوئی Move غلط دیتا یا مکالمے کی ادائیگی میں کوئی گڑبڑ کر کے ایک دم سوری سوری کا ورد شروع کر دیتا جس کا واحد مقصد اس سین کو زیادہ بہتر انداز میں کرنا ہوتا تھا جس پر بعض اوقات پروڈیوسر اور متعلقہ ایکٹر دونوں سخت ناراضی کا اظہار کرتے مگر وہ اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رکھتا جب تک سین میں اس کا حصہ اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو جاتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ''دہلیز''، ''دن'' اور ''رات'' کی ریکارڈنگ کے دوران وہ اپنے کردار کو سمجھنے کے لیے اس وقت تک سوال کرتا رہتا جب تک بات اس کی پوری طرح سے سمجھ میں نہ آ جاتی۔ ''رات'' سیریل میں اس کا کردار ایک ایسے ادھیڑ عمر شخص کا تھا جس کی شادی شدہ زندگی بوجوہ خوشگوار نہیں تھی اور وہ اپنی بیٹی کی سہیلی (ثمینہ پیرزادہ) میں اپنی من پسند عورت کی جھلک دیکھتا اور اس کے قریب رہنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا کہ اپنے سے بیس سال کم عمر کی لڑکی کے ساتھ اس کی اس پسندیدگی کی نوعیت کیا ہے اور اس کی پسندیدگی اور فطری شرافت کے درمیان ایک کشمکش پورے سیریل میں جاری رہتی ہے۔
1990میں مجھے لندن میں دلیپ کمار صاحب سے اپنے اسلام آباد والے دوست شیخ وارث کی وساطت سے ملاقات کا موقع ملا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں بہت سی باتوں میں سے ایک بات ان کی ''رات'' کے بارے میں تعریفی الفاظ تھے جن میں انھوں نے خاص طور پر افضال احمد کے رول اور اس کی ایکٹنگ کی بہت دل کھول کر تعریف کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب کچھ عرصے بعد ایک ملاقات کے دوران میں نے افضال احمد کو یہ واقعہ سنایا تو وہ خوشی سے آبدیدہ ہو گیا کہ جس اداکار کو وہ رول ماڈل مانتا تھا،اس نے اس کی تعریف کی ہے۔
وہ ہر کام کو بہترین انداز میں کرنے کا قائل تھا جس کا ایک ثبوت فیروز پور روڈ لاہور پر اپنی خاندانی زمین پر اس کا قائم کردہ تھیٹر ''تماثیل'' بھی تھا جو اپنی تکنیکی سہولیات اور ماحول کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کا سب سے مقبول تھیٹر ہال بن گیا۔
عجیب بات ہے کہ اس کے چلنے اور بولنے کے انداز ہی اس کی شخصیت کے نمایاں ترین پہلو تھے مگر ایک دن اچانک برین ہیمرج کی وجہ سے یہ دونوں چیزیں اس سے چھن گئیں۔ اب وہ بولنے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ سے طرح طرح کی بے معنی آوازیں نکلتیں اور ٹانگوں کی فالج زدگی کے باعث وہ ویل چیئر کے علاوہ کہیں آ جا نہیں سکتا تھا۔
میں ان دنوں میں دو تین بار اس سے ملا مگر ایسے زندہ اور متحرک آدمی کو ایسی بے بسی کی حالت میں دیکھنا ایک انتہائی تکلیف دہ تجربہ تھا چنانچہ میں احباب سے تو اس کے بارے میں پوچھتا رہا لیکن اس سے ملنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ اتفاق سے جمیل فخری مرحوم کے جنازے پر وہ مجھے ایک دم مل گیا اور میرے گلے سے لگ کر وہ اپنی انھی عجیب وغریب مگر دل کو کاٹنے والی چھریوں جیسی چیخوں کے ساتھ میرے گلے سے لگ کر اتنی دیر اور اتنی زور زور سے رویا کہ میرے لیے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہو گیا اور میں نے اس کے بعد شعوری طور پر کوشش کی کہ میرا اس سے کہیں آمنا سامنا نہ ہو مگر آج یہ احتیاط ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہے کہ وہ زندگی سے بھرپور انسان اٹھارہ برس کی مسلسل بے بسی کے بعد اس دنیا کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے آٓزاد ہو گیا ہے۔
جب سے میں نے یہ خبر سنی ہے، مجھے اس کے کیے ہوئے کئی رول اور سین پتہ نہیں کیسے بار بار اور اس طرح سے یاد آ رہے ہیں جیسے وہ میرے سامنے چل رہے ہوں۔
حالانکہ وہ ''وارث'' کی کاسٹ میں شامل نہیں تھا مگر اس کی آخری قسط ڈرامے کے فنکار اور کچھ مہمانوں کے ساتھ دیکھنے کے لیے خاص طور پر اپنی بیگم کے ساتھ آیا تھا اور اس نے خاص طور پر احمد ندیم قاسمی، صادقین، سید محمد کاظم، محمد خالد اختر اور لوک فنکار اقبال باہو کے ساتھ ایک تصویر بھی بنوائی تھی۔ اتفاق سے مذکورہ بالا تمام لوگ گزشتہ چالیس برس میں ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور اب افضال احمد کے جانے کے بعد اس کہکشاں کا آخری ستارا بھی غروب ہو گیا ہے۔
رب کریم اس کی روح پر اپنا کرم فرمائے اور اس کی بشری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما کر اسے اپنے دامانِ رحمت میں جگہ دے کہ اگر ایسی کوئی بات تھی بھی تو شاید اس نے اپنی زندگی ہی میں اس کی تعزیر سہہ لی تھی۔
آج کی نسل ممکن ہے اس کے کام یا شاید نام سے بھی واقف نہ ہو کہ گزشتہ اٹھارہ برس سے وہ ذہنی اور جسمانی طو رپر ایک اپاہج کی سی زندگی گزار رہا تھا لیکن جن لوگوں نے اس کو ساٹھ کی دہائی کے آخر سے لے کر اس کے برین ہیمرج کے درمیانی تقریباً 35 برسوں میں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر جھنڈے گاڑتے دیکھا ہے، ان کے لیے وہ کسی بھی طرح ایک سپراسٹار سے کم نہ تھا۔
اس کا سرخ و سفید رنگ جس کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا، متاثر کن شخصیت اور بارعب آواز اس کی ایسی پہچان تھی جس کا کوئی مماثل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے اشفاق احمد صاحب کے ابتدائی ڈراموں سے پی ٹی وی میں اس وقت ناظرین کی توجہ حاصل کی جب وہ ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
خاندانی طور پر مضبوط معاشی پس منظر کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج میں ایک طرح کا اعتماد شامل تھا مگر اسے غرور کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہر محفل میں فوراً گھل مل جاتا تھااور خاص طور پر جونیئر اور معاشی طور پر کمزور فنکاروں کے لیے اس کے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھاالبتہ سیٹ پر ساتھی اداکاروں کے لیے اس کی شرارت پسند طبیعت سے نباہ مشکل ہو جاتا تھا۔ اپنے کام اور رول کے تقاضوں کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔
جب کبھی اسے محسوس ہوتا کہ وہ کسی سین میں اپنے ساتھ والے اداکار جیسی پرفارمنس نہیں دے رہا تو وہ جان بوجھ کر یا تو کوئی Move غلط دیتا یا مکالمے کی ادائیگی میں کوئی گڑبڑ کر کے ایک دم سوری سوری کا ورد شروع کر دیتا جس کا واحد مقصد اس سین کو زیادہ بہتر انداز میں کرنا ہوتا تھا جس پر بعض اوقات پروڈیوسر اور متعلقہ ایکٹر دونوں سخت ناراضی کا اظہار کرتے مگر وہ اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رکھتا جب تک سین میں اس کا حصہ اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو جاتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ''دہلیز''، ''دن'' اور ''رات'' کی ریکارڈنگ کے دوران وہ اپنے کردار کو سمجھنے کے لیے اس وقت تک سوال کرتا رہتا جب تک بات اس کی پوری طرح سے سمجھ میں نہ آ جاتی۔ ''رات'' سیریل میں اس کا کردار ایک ایسے ادھیڑ عمر شخص کا تھا جس کی شادی شدہ زندگی بوجوہ خوشگوار نہیں تھی اور وہ اپنی بیٹی کی سہیلی (ثمینہ پیرزادہ) میں اپنی من پسند عورت کی جھلک دیکھتا اور اس کے قریب رہنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا کہ اپنے سے بیس سال کم عمر کی لڑکی کے ساتھ اس کی اس پسندیدگی کی نوعیت کیا ہے اور اس کی پسندیدگی اور فطری شرافت کے درمیان ایک کشمکش پورے سیریل میں جاری رہتی ہے۔
1990میں مجھے لندن میں دلیپ کمار صاحب سے اپنے اسلام آباد والے دوست شیخ وارث کی وساطت سے ملاقات کا موقع ملا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں بہت سی باتوں میں سے ایک بات ان کی ''رات'' کے بارے میں تعریفی الفاظ تھے جن میں انھوں نے خاص طور پر افضال احمد کے رول اور اس کی ایکٹنگ کی بہت دل کھول کر تعریف کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب کچھ عرصے بعد ایک ملاقات کے دوران میں نے افضال احمد کو یہ واقعہ سنایا تو وہ خوشی سے آبدیدہ ہو گیا کہ جس اداکار کو وہ رول ماڈل مانتا تھا،اس نے اس کی تعریف کی ہے۔
وہ ہر کام کو بہترین انداز میں کرنے کا قائل تھا جس کا ایک ثبوت فیروز پور روڈ لاہور پر اپنی خاندانی زمین پر اس کا قائم کردہ تھیٹر ''تماثیل'' بھی تھا جو اپنی تکنیکی سہولیات اور ماحول کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کا سب سے مقبول تھیٹر ہال بن گیا۔
عجیب بات ہے کہ اس کے چلنے اور بولنے کے انداز ہی اس کی شخصیت کے نمایاں ترین پہلو تھے مگر ایک دن اچانک برین ہیمرج کی وجہ سے یہ دونوں چیزیں اس سے چھن گئیں۔ اب وہ بولنے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ سے طرح طرح کی بے معنی آوازیں نکلتیں اور ٹانگوں کی فالج زدگی کے باعث وہ ویل چیئر کے علاوہ کہیں آ جا نہیں سکتا تھا۔
میں ان دنوں میں دو تین بار اس سے ملا مگر ایسے زندہ اور متحرک آدمی کو ایسی بے بسی کی حالت میں دیکھنا ایک انتہائی تکلیف دہ تجربہ تھا چنانچہ میں احباب سے تو اس کے بارے میں پوچھتا رہا لیکن اس سے ملنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ اتفاق سے جمیل فخری مرحوم کے جنازے پر وہ مجھے ایک دم مل گیا اور میرے گلے سے لگ کر وہ اپنی انھی عجیب وغریب مگر دل کو کاٹنے والی چھریوں جیسی چیخوں کے ساتھ میرے گلے سے لگ کر اتنی دیر اور اتنی زور زور سے رویا کہ میرے لیے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہو گیا اور میں نے اس کے بعد شعوری طور پر کوشش کی کہ میرا اس سے کہیں آمنا سامنا نہ ہو مگر آج یہ احتیاط ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہے کہ وہ زندگی سے بھرپور انسان اٹھارہ برس کی مسلسل بے بسی کے بعد اس دنیا کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے آٓزاد ہو گیا ہے۔
جب سے میں نے یہ خبر سنی ہے، مجھے اس کے کیے ہوئے کئی رول اور سین پتہ نہیں کیسے بار بار اور اس طرح سے یاد آ رہے ہیں جیسے وہ میرے سامنے چل رہے ہوں۔
حالانکہ وہ ''وارث'' کی کاسٹ میں شامل نہیں تھا مگر اس کی آخری قسط ڈرامے کے فنکار اور کچھ مہمانوں کے ساتھ دیکھنے کے لیے خاص طور پر اپنی بیگم کے ساتھ آیا تھا اور اس نے خاص طور پر احمد ندیم قاسمی، صادقین، سید محمد کاظم، محمد خالد اختر اور لوک فنکار اقبال باہو کے ساتھ ایک تصویر بھی بنوائی تھی۔ اتفاق سے مذکورہ بالا تمام لوگ گزشتہ چالیس برس میں ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور اب افضال احمد کے جانے کے بعد اس کہکشاں کا آخری ستارا بھی غروب ہو گیا ہے۔
رب کریم اس کی روح پر اپنا کرم فرمائے اور اس کی بشری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما کر اسے اپنے دامانِ رحمت میں جگہ دے کہ اگر ایسی کوئی بات تھی بھی تو شاید اس نے اپنی زندگی ہی میں اس کی تعزیر سہہ لی تھی۔