اسلامی اور غیر اسلامی معاشرہ
پاکستان کا شاید ہی کوئی ادارہ سلامت ہو جہاں انصاف کا خون نہ ہوا ہو
بس اب ہمارے خوش ہونے کے لیے درخشاں ماضی ہی رہ گیا ہے، حال تو تقریباً اندھیروں کی نذر ہو چکا ہے اگر ان حالات میں بھی کوئی صاحب علم آگہی کا چراغ روشن کرتا ہے تو اسے بھی بجھا دیا جاتا ہے۔
علم اور تبلیغ دین کی کمی نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے جب کہ خواص کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے زر و جواہر کی بدولت گمراہی خرید لی ہے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی ادارہ سلامت ہو جہاں انصاف کا خون نہ ہوا ہو۔ جس ملک میں عدل و انصاف کا نظام اس قدر ناقص ہو، وہاں ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ ملک کی تباہی کا یہی سبب ہے طاقتور اگر قاتل ہو، چور ہو، غدار وطن ہو تو اس کے جرائم معاف کر دیے جاتے ہیں جب کہ غریب ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر ہی سالوں سزا کاٹنی پڑتی ہے۔
مسلم معاشرے میں عدل کو فوقیت حاصل ہے، قصور وار، حاکم ہو، صاحب ثروت ہو، انصاف امرا و غربا کے لیے یکساں ہے اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں تاریخ اسلام کے صفحات پر روشن نظر آتی ہیں۔
مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا، دنیا کے بیشتر حصوں پر اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا، دنیا کی تمام طاقتیں اپنا سر خم کر چکی تھیں، کسی بھی طاقتور کی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کو تنگ کرے یا ان کی طاقت اور نظام کو کمزور کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرے، اسی زمانے کا ایک اہم واقعہ جو قتیبہ بن مسلم سے منسوب ہے۔
وہ ثمرقند میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں لیکن کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر، ہر شخص کو امان حاصل تھی۔ کسی بھی شخص کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جاتا ہے، تمام احتیاط اور احکام کی پاسداری کرنے کے باوجود کچھ معمولی معمولی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔
جن کی حقیقی معنوں میں خاص اہمیت ہرگز نہ تھی، لیکن تمام دور اندیشیوں اور محتاط رویوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ثمرقند کے مقامی باشندوں کو شکایت ہوئی اور وہ اپنی درخواست لے کر اس وقت کے قاضی شہر ''عساکر'' کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا کہ دوران فتح کچھ شرائط پر عمل نہیں ہوا لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے اور فوج کو حکم دیا جائے کہ وہ شہر خالی کر دے۔
قاضی نے ثمرقند کے بدھ باشندوں کی بات توجہ سے سنی جو فیلڈ مارشل جیسے اعلیٰ عہدیدار اور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت بلا کسی خوف کے قاضی کے روبرو پیش کر رہے تھے۔ قاضی نے اپنے سپہ سالار سے جواب طلب کیا۔ قتیبہ بن مسلم نے اپنا موقف بیان کیا۔
لہٰذا تمام حقائق پر غور کرتے ہوئے سپہ سالار کے خلاف فیصلہ دے کر شہر کو خالی کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ میں یہ اعلان بھی کردیا کہ اگر اس پورے عمل کے دوران کسی کا نقصان ہو جائے تو وہ شریعت اسلامی کے مطابق تاوان طلب کر سکتا ہے۔
اسی طرح انصاف کی بالاتری کے حوالے سے ایک اور واقعہ قارئین کی نذر۔ حضرت عمرو بن العاص کو مصر کا پہلا گورنر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کے دور میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے، ایک واقعہ دریائے نیل اور دوشیزہ کی بھینٹ کا ہے جب حضرت عمرؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا تھا ان کے حکم کے مطابق سوکھا ہوا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگا اور دوشیزہ کی جان بچ گئی۔
عمرو بن العاص کا دور تھا، خلاف راشدہ اور ان کے بعد آنے والے خلفا کے نظام حکومت میں جمہوریت کو فروغ حاصل تھا لہٰذا مسلمان تو کیا اقلیتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی جاتی تھی، ایک روز مسیحی علما کا وفد جس کی قیادت اسکندریہ کے آرچ بشپ کر رہے تھے گورنر سے ملنے آیا۔
انھوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اسکندریہ کے بازار میں جوکہ صوبائی دارالحکومت بھی تھا کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمے کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعہ سن کر حضرت عمرو بن العاص سخت پریشان ہوئے۔ انھوں نے مسیحی علما سے کہا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مرمت کروا لیں اگر یہ تجویز پسند نہ آئے تو وہ نیا مجسمہ بنا کر نصب کردیں۔
تمام اخراجات گورنر خود برداشت کریں گے۔ مسیحی وفد نے دونوں تجاویز مسترد کردیں، انھوں نے ازالے کے لیے توہین آمیز تجویز پیش کی مگر حضرت عمروؓ نے اپنے غصے اور جذبات پر قابو پایا اور شمشیر کو بے نیام ہونے سے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ انھوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ناپاک جسارت کو تو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔
البتہ وہ جس کسی بھی مسلمان کا نام تجویز کریں اس کو سزا دی جا سکتی ہے اور مجسمے کے جس حصے کو نقصان پہنچایا ہے اس شخص کے جسم کے اسی حصے کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ انھوں نے اسی روز یہ اعلان جاری کردیا کہ کل تمام مسیحی اور مسلم افواج کے خاص و عام حضرات مقررہ جگہ پر جمع ہوں۔ حکم کے مطابق وقت مقررہ پر ایک خاص مرکز پر اجتماع میں شرکت کرنے پہنچ گئے۔
گورنر نے شہر بھر کے بشپ کو اپنے نزدیک بلا کر پورا واقعہ بیان کیا۔ بشپ حضرات ڈرے ہوئے تھے کہ نہ جانے کیا فیصلہ ہوگا؟ حضرت عمرو بن العاص نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ مسیحی برادری کے سربراہ ہیں، بالکل اسی طرح میں مسلمانوں کا۔ اس خطے پر میری حکومت میں ذمے داری بنتی ہے، لیکن میری انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے آپ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اس کی سزا کا بھی میں ہی حق دار ہوں۔
یہ لیجیے تلوار اور میری ناک کاٹ دیجیے۔ یہ کہہ کر عمرو بن العاص نے اپنی تلوار نکالی اور بشپ کے حوالے کردی۔
یہ سن کر بشپ کے چہرے پر حیرانی و پریشانی کے آثار نمودار ہوئے اسی دوران ایک مسلمان فوجی صفوں کو چیرتا ہوا گورنر کے سامنے پہنچ گیا اور اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ٹوٹی ہوئی ناک دکھائی اور کہا یہ جرم میں نے کیا ہے۔
میری ناک کاٹ دی جائے، میں حاضر ہوں۔ یہ دیکھ کر بشپ نے حضرت عمرو بن العاص کی تلوار زمین پر پھینک دی اور کہا کہ اس سپاہی پر آفرین ہے اور اس کے کمانڈر پر اور ان سب سے بڑھ کر مبارک ہے وہ ذات اقدس حضرت محمدؐ کی، جنھوں نے اپنے پیروکاروں میں وہ روح پھونکی جس کا مظاہرہ آج اس مجمع میں کیا گیا۔ میں اس غلطی کے بدلے بڑی غلطی کا ارتکاب ہرگز نہیں کروں گا کہ ایک شبیہ کو نقصان پہنچانے کے بدلے ایک انسان کا چہرہ بگاڑ دوں یہ ناممکن ہے۔
یہ تھا اسلامی معاشرہ اور ہم غیر اسلامی معاشرے کے شہری ہیں۔ دین اسلام سے بہت دور اعلیٰ فکر سے ناآشنا، انسانیت کے دشمن۔ اسی لیے قتل و غارت گری کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے فقدان نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا ہے جو اسلامی اخوت، مساوات اور منصفی کے تقاضوں سے دور ہے۔
بدعنوانی اور اقربا پروری ناانصافی نے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد کو کمزور کردیا ہے۔ ایسے ایسے لوگ سامنے آئے ہیں، جنھوں نے دین کا مذاق اڑایا ہے ، جس طرح یہودی قوم نے توریت کی آیات مبارکہ کو تھوڑے سے فائدے کے لیے تبدیل کیا۔ آج مسلمانوں کا اپنا حال بھی جدا نہیں ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس نکتے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کی زبوں حالی کو اس شعر میں سمو دیا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
علم اور تبلیغ دین کی کمی نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے جب کہ خواص کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے زر و جواہر کی بدولت گمراہی خرید لی ہے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی ادارہ سلامت ہو جہاں انصاف کا خون نہ ہوا ہو۔ جس ملک میں عدل و انصاف کا نظام اس قدر ناقص ہو، وہاں ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ ملک کی تباہی کا یہی سبب ہے طاقتور اگر قاتل ہو، چور ہو، غدار وطن ہو تو اس کے جرائم معاف کر دیے جاتے ہیں جب کہ غریب ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر ہی سالوں سزا کاٹنی پڑتی ہے۔
مسلم معاشرے میں عدل کو فوقیت حاصل ہے، قصور وار، حاکم ہو، صاحب ثروت ہو، انصاف امرا و غربا کے لیے یکساں ہے اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں تاریخ اسلام کے صفحات پر روشن نظر آتی ہیں۔
مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا، دنیا کے بیشتر حصوں پر اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا، دنیا کی تمام طاقتیں اپنا سر خم کر چکی تھیں، کسی بھی طاقتور کی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کو تنگ کرے یا ان کی طاقت اور نظام کو کمزور کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرے، اسی زمانے کا ایک اہم واقعہ جو قتیبہ بن مسلم سے منسوب ہے۔
وہ ثمرقند میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں لیکن کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر، ہر شخص کو امان حاصل تھی۔ کسی بھی شخص کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جاتا ہے، تمام احتیاط اور احکام کی پاسداری کرنے کے باوجود کچھ معمولی معمولی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔
جن کی حقیقی معنوں میں خاص اہمیت ہرگز نہ تھی، لیکن تمام دور اندیشیوں اور محتاط رویوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ثمرقند کے مقامی باشندوں کو شکایت ہوئی اور وہ اپنی درخواست لے کر اس وقت کے قاضی شہر ''عساکر'' کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا کہ دوران فتح کچھ شرائط پر عمل نہیں ہوا لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے اور فوج کو حکم دیا جائے کہ وہ شہر خالی کر دے۔
قاضی نے ثمرقند کے بدھ باشندوں کی بات توجہ سے سنی جو فیلڈ مارشل جیسے اعلیٰ عہدیدار اور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت بلا کسی خوف کے قاضی کے روبرو پیش کر رہے تھے۔ قاضی نے اپنے سپہ سالار سے جواب طلب کیا۔ قتیبہ بن مسلم نے اپنا موقف بیان کیا۔
لہٰذا تمام حقائق پر غور کرتے ہوئے سپہ سالار کے خلاف فیصلہ دے کر شہر کو خالی کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ میں یہ اعلان بھی کردیا کہ اگر اس پورے عمل کے دوران کسی کا نقصان ہو جائے تو وہ شریعت اسلامی کے مطابق تاوان طلب کر سکتا ہے۔
اسی طرح انصاف کی بالاتری کے حوالے سے ایک اور واقعہ قارئین کی نذر۔ حضرت عمرو بن العاص کو مصر کا پہلا گورنر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کے دور میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے، ایک واقعہ دریائے نیل اور دوشیزہ کی بھینٹ کا ہے جب حضرت عمرؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا تھا ان کے حکم کے مطابق سوکھا ہوا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگا اور دوشیزہ کی جان بچ گئی۔
عمرو بن العاص کا دور تھا، خلاف راشدہ اور ان کے بعد آنے والے خلفا کے نظام حکومت میں جمہوریت کو فروغ حاصل تھا لہٰذا مسلمان تو کیا اقلیتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی جاتی تھی، ایک روز مسیحی علما کا وفد جس کی قیادت اسکندریہ کے آرچ بشپ کر رہے تھے گورنر سے ملنے آیا۔
انھوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اسکندریہ کے بازار میں جوکہ صوبائی دارالحکومت بھی تھا کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمے کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعہ سن کر حضرت عمرو بن العاص سخت پریشان ہوئے۔ انھوں نے مسیحی علما سے کہا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مرمت کروا لیں اگر یہ تجویز پسند نہ آئے تو وہ نیا مجسمہ بنا کر نصب کردیں۔
تمام اخراجات گورنر خود برداشت کریں گے۔ مسیحی وفد نے دونوں تجاویز مسترد کردیں، انھوں نے ازالے کے لیے توہین آمیز تجویز پیش کی مگر حضرت عمروؓ نے اپنے غصے اور جذبات پر قابو پایا اور شمشیر کو بے نیام ہونے سے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ انھوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ناپاک جسارت کو تو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔
البتہ وہ جس کسی بھی مسلمان کا نام تجویز کریں اس کو سزا دی جا سکتی ہے اور مجسمے کے جس حصے کو نقصان پہنچایا ہے اس شخص کے جسم کے اسی حصے کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ انھوں نے اسی روز یہ اعلان جاری کردیا کہ کل تمام مسیحی اور مسلم افواج کے خاص و عام حضرات مقررہ جگہ پر جمع ہوں۔ حکم کے مطابق وقت مقررہ پر ایک خاص مرکز پر اجتماع میں شرکت کرنے پہنچ گئے۔
گورنر نے شہر بھر کے بشپ کو اپنے نزدیک بلا کر پورا واقعہ بیان کیا۔ بشپ حضرات ڈرے ہوئے تھے کہ نہ جانے کیا فیصلہ ہوگا؟ حضرت عمرو بن العاص نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ مسیحی برادری کے سربراہ ہیں، بالکل اسی طرح میں مسلمانوں کا۔ اس خطے پر میری حکومت میں ذمے داری بنتی ہے، لیکن میری انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے آپ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اس کی سزا کا بھی میں ہی حق دار ہوں۔
یہ لیجیے تلوار اور میری ناک کاٹ دیجیے۔ یہ کہہ کر عمرو بن العاص نے اپنی تلوار نکالی اور بشپ کے حوالے کردی۔
یہ سن کر بشپ کے چہرے پر حیرانی و پریشانی کے آثار نمودار ہوئے اسی دوران ایک مسلمان فوجی صفوں کو چیرتا ہوا گورنر کے سامنے پہنچ گیا اور اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ٹوٹی ہوئی ناک دکھائی اور کہا یہ جرم میں نے کیا ہے۔
میری ناک کاٹ دی جائے، میں حاضر ہوں۔ یہ دیکھ کر بشپ نے حضرت عمرو بن العاص کی تلوار زمین پر پھینک دی اور کہا کہ اس سپاہی پر آفرین ہے اور اس کے کمانڈر پر اور ان سب سے بڑھ کر مبارک ہے وہ ذات اقدس حضرت محمدؐ کی، جنھوں نے اپنے پیروکاروں میں وہ روح پھونکی جس کا مظاہرہ آج اس مجمع میں کیا گیا۔ میں اس غلطی کے بدلے بڑی غلطی کا ارتکاب ہرگز نہیں کروں گا کہ ایک شبیہ کو نقصان پہنچانے کے بدلے ایک انسان کا چہرہ بگاڑ دوں یہ ناممکن ہے۔
یہ تھا اسلامی معاشرہ اور ہم غیر اسلامی معاشرے کے شہری ہیں۔ دین اسلام سے بہت دور اعلیٰ فکر سے ناآشنا، انسانیت کے دشمن۔ اسی لیے قتل و غارت گری کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے فقدان نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا ہے جو اسلامی اخوت، مساوات اور منصفی کے تقاضوں سے دور ہے۔
بدعنوانی اور اقربا پروری ناانصافی نے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد کو کمزور کردیا ہے۔ ایسے ایسے لوگ سامنے آئے ہیں، جنھوں نے دین کا مذاق اڑایا ہے ، جس طرح یہودی قوم نے توریت کی آیات مبارکہ کو تھوڑے سے فائدے کے لیے تبدیل کیا۔ آج مسلمانوں کا اپنا حال بھی جدا نہیں ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس نکتے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کی زبوں حالی کو اس شعر میں سمو دیا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق