معیاری پچز بنانا ملکی کرکٹ کی ضرورت
کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ 5 دن تک بورنگ میچ دیکھے گا
سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ
کراچی میں ان دنوں آرٹس کونسل کے زیراہتمام عالمی اردو کانفرنس جاری ہے، اس میں ملک بھر سے معروف شخصیات شرکت کر رہی ہیں،آج وہاں میری ملاقات شاعر امجد اسلام امجد سے ہوئی، انھوں نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا کہ فاروقی صاحب یہ راولپنڈی میں کیسی پچ بنا دی ہے۔
کوئی آؤٹ ہی نہیں ہو رہا،ایسی کرکٹ سے کیا حاصل ہوگا؟امجد صاحب کی طرح دیگر کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگوں کا بھی یہی سوال تھا، میں اس کا جواب نہیں دے سکا کیونکہ خود میرے ذہن میں یہی بات گھوم رہی ہے کہ پہلے ٹیسٹ کیلئے کیسی ڈیڈ پچ بنا دی گئی، انگلینڈ کی ٹیم 17 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیل رہی ہے۔
اس تاریخی موقع کو یادگار بنانے کیلئے ہمیں ایسی پچز تیار کرنا چاہیے تھیں جس پر بولرز اور بیٹرز یکساں طور پر اچھا کھیل پیش کر پاتے مگر بدقسمتی سے راولپنڈی میں ایسا نہ ہوا،ویسے تو کرکٹ بائی چانس ہے حتمی طور پر کچھ کہہ نہیں سکتے مگر بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میچ ڈرا ہو جائے گا۔
3دن میں 2 اننگز بھی مکمل نہ ہونا اور ایک ہزار سے زائد رنز بن جانا ٹیسٹ کرکٹ کی مناسب تشہیر نہیں،ایسی پچز بنا کر شاید ہم ہارنے سے بچ جائیں لیکن حاصل کیا ہوگا؟ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ سپورٹنگ وکٹ بنا کر فتح کی کوشش کرتے؟ شارٹ ٹرم فوائد کے بجائے ملکی کرکٹ کو دیکھنا چاہیے، اگر اچھی پچز بنائیں گے تومستقبل میں بہت فائدہ ہو گا، ابھی ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں زبردست پرفارم کرنے والے کھلاڑی جب قومی ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یا جنوبی افریقہ جیسے ملک میں جاتے ہیں تو مختلف پچز پر بیٹنگ میں مشکلات ہوتی ہیں، چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے پہلے کہا تھا کہ اچھی پچز بنائی جائیں گی۔
اب وقت آگیا کہ اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنائیں، اس کا آغاز ملتان اور کراچی ٹیسٹ سے کریں،پھر نیوزی لینڈ سے سیریز میں بھی ایسی پچز بنائیں جہاں نتیجہ پرآمد ہونے کا امکان ہو،میرا دل کہتا ہے کہ ہم جیت بھی سکتے ہیں۔
پاکستان سے اچھے بولرز دنیا میں کہاں موجود ہیں، ٹھیک ہے شاہین شاہ آفریدی موجود نہیں لیکن حارث رؤف کو ٹیسٹ کیپ مل چکی، ابھی تو وہ ان فٹ ہونے کے سبب زیادہ بولنگ نہیں کر سکے لیکن فٹ ہو کر کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں، آپ تصور کریں شاہین، نسیم شاہ اور حارث ایک اچھی پچ پر بولنگ کریں تو کیا کچھ ممکن ہے،ماضی میں پاکستان میں ایسی پچز بنتی تھیں جہاں کھیل کر گورے پریشان ہوجاتے تھے۔
فیصل آباد تو ڈیڈ وکٹ کیلئے مشہور تھا لیکن پھر وقت تبدیل ہوا اور اچھی پچز بننے لگیں مگر اب پھر ہم پیچھے کی جانب جا رہے ہیں جو درست نہیں ہے، زمانہ بدل گیا، یہ ٹی20 کرکٹ کا وقت ہے بلکہ اب تو ٹی 10 بھی ہونے لگی، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ 5 دن تک بورنگ میچ دیکھے گا،اگر سلو وکٹوں پر ہی میچز ہوتے رہے تو ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے والے جو لوگ باقی بچے ہیں وہ بھی دور ہوجائیں گے،انسان غلطیوں سے ہی سبق سیکھتا ہے ،مجھے امید ہے کہ رمیز راجہ ملکی پچز کی حالت ہنگامی طور پر درست کرائیں گے۔
میں اس تاثر سے متفق نہیں کہ پاکستان میں معیاری پچز نہیں بن سکتیں، زیادہ دور نہ جائیں گذشتہ سال ہی جنوبی افریقہ سے سیریز میں بہترین پچز بنی تھیں،اب بھی ایسا ممکن ہے، رمیز راجہ ڈراپ ان پچز کی بات بھی کر رہے ہیں،میں نہیں جانتا کہ ان کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا، اگر وہ مسئلے کا حل ثابت ہو سکتی ہیں تو ضرور استعمال کریں مگر پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستان اور یورپ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
کیا ہمارے ملک میں ایسی وکٹوں کا تجربہ کامیاب ثابت ہو سکتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا،پاکستان کرکٹ ٹیم کیلیے یہ ہوم سیزن بہت زیادہ اہم ہے، آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کیلئے ہمیں انگلینڈ سے تینوں اور نیوزی لینڈ سے دونوں ٹیسٹ جیتنے کی ضرورت ہے، مگر ہم ڈرا کے چکر میں پڑ گئے، اس سے فائنل کھیلنے کا خواب کسی صورت پورا نہیں ہو سکے گا، پاکستان میں یقینی طور پر پچز تیار کرنے کے ماہرین موجود ہوں گے۔
ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے،اپنے کیوریٹرز کو تربیت حاصل کرنے کیلئے باہر بھی بھیجیں، اگر فوری طور پر کوئی اچھا کیوریٹر نہیں مل رہا تو بیرون ملک سے کسی کو بلوا لیں، ہر ہوم سیریز سے قبل ایسا کیا کریں،اس کے ساتھ مقامی کیوریٹرز کو رکھیں ،کچھ عرصے میں ہی وہ سیکھ کر خود ہی معیاری کام کرنے لگیں گے۔
دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں بس نیت صاف ہونی چاہیے، 100فیصد کوشش کریں تو اچھے نتائج بھی سامنے آتے ہیں، مجھے پی سی بی کے اعلیٰ حکام سے یہی امید ہے کہ مستقبل میں وہ ہنگامی اقدامات سے یہ مسئلہ حل کریں گے۔