کائنات میں سب سے بڑی جسامت کی ہوش ربا کہکشاں دریافت
ایلکیونیئس کہکشاں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک کروڑ 63 لاکھ نوری سال طویل ہے جو 5 میگا پارسیک کے برابر ہے
ہماری معلومہ فلکیاتی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی کہکشاں دریافت ہوئی ہے جس کی جسامت جان کر خود فلکیات داں انگشت بدنداں ہیں۔ یہ ایک ریڈیائی گیلکسی ہے جس کا نام ایلکیونیئس ہے۔
ایلکیونیئس ہم سے تین ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ فلکیاتی پیمانے پر یہ 5 میگا پارسیک ہے یعنی ایک سے دوسرے کنارے تک ایک کروڑ 63 لاکھ نوری سال وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کائنات کی سب سے بڑی کہکشاں کا درجہ دیا گیا ہے۔
ریڈیائی کہکشائیں خود کائناتی معمہ ہیں۔ ان کی ساخت بھی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک بڑی مرکزی کہکشاں ہوتی ہے جس کے گرد ستاروں کی جھرمٹ گردش کرتی ہے اور کہکشانی مرکز (نیوکلیئس) میں ایک بہت بڑا بلیک ہول ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان سے مادے کی لپٹوں کی بوچھاڑ ایک جیٹ کی صورت میں جاری رہتی ہے۔
لیکن جیٹ اور مادے کے شعلے نما لپٹے کہکشاؤں کے درمیانی فاصلے میں اس طرح سرگرم رہتے ہیں کہ وہ الیکٹرون کی بوچھاڑ خارج کرتے ہیں جس سےطاقتور ریڈیو سگنل خارج ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں ریڈیائی کہکشاں بھی کہا جاتا ہے۔
سائنسداں متفق ہیں کہ ایلکیونیئس کے قلب میں ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے اور سرگرم ہے جو اطراف کےمادے کو نگل رہا ہے۔ تاہم کچھ بچ جانے والا مادہ آینوائز پلازمہ کی بوچھاڑ کی صورت مٰں خارج ہورہا ہے جس سے ریڈیائی سگنل بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں 'دیوہیکل ریڈیائی کہکشائیں' کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں ے یورپ میں واقع لوفریکوئنسی ایرے (لوفار) سے اس کا ڈٰیٹا جمع کیا ہے۔ لوفار 20 ہزار ریڈیو اینٹینا کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو پورے یورپ میں 52 مقامات پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم اس کا ڈیٹا دیگر ریڈیائی اجسام کے سگنل سےبھرا ہوتا ہے اور اسے کمپیوٹر پر صاف کیا جاتا ہے تاکہ صرف ریڈیو کہکشاں کا منظر ہی سامنے آسکے۔
اگرچہ ماہرین اس پر مزید تحقیق کررہے ہیں لیکن کہکشاں کے متعلق ابتدائی معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ چپٹی بیضوی شکل کی ہے اور اس کہکشاں ہے جس کا بلیک ہول ہمارے سورج سے کوئی چالیس کروڑ گنا زیادہ کمیت رکھتا ہے۔
ایلکیونیئس ہم سے تین ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ فلکیاتی پیمانے پر یہ 5 میگا پارسیک ہے یعنی ایک سے دوسرے کنارے تک ایک کروڑ 63 لاکھ نوری سال وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کائنات کی سب سے بڑی کہکشاں کا درجہ دیا گیا ہے۔
ریڈیائی کہکشائیں خود کائناتی معمہ ہیں۔ ان کی ساخت بھی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک بڑی مرکزی کہکشاں ہوتی ہے جس کے گرد ستاروں کی جھرمٹ گردش کرتی ہے اور کہکشانی مرکز (نیوکلیئس) میں ایک بہت بڑا بلیک ہول ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان سے مادے کی لپٹوں کی بوچھاڑ ایک جیٹ کی صورت میں جاری رہتی ہے۔
لیکن جیٹ اور مادے کے شعلے نما لپٹے کہکشاؤں کے درمیانی فاصلے میں اس طرح سرگرم رہتے ہیں کہ وہ الیکٹرون کی بوچھاڑ خارج کرتے ہیں جس سےطاقتور ریڈیو سگنل خارج ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں ریڈیائی کہکشاں بھی کہا جاتا ہے۔
سائنسداں متفق ہیں کہ ایلکیونیئس کے قلب میں ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے اور سرگرم ہے جو اطراف کےمادے کو نگل رہا ہے۔ تاہم کچھ بچ جانے والا مادہ آینوائز پلازمہ کی بوچھاڑ کی صورت مٰں خارج ہورہا ہے جس سے ریڈیائی سگنل بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں 'دیوہیکل ریڈیائی کہکشائیں' کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں ے یورپ میں واقع لوفریکوئنسی ایرے (لوفار) سے اس کا ڈٰیٹا جمع کیا ہے۔ لوفار 20 ہزار ریڈیو اینٹینا کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو پورے یورپ میں 52 مقامات پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم اس کا ڈیٹا دیگر ریڈیائی اجسام کے سگنل سےبھرا ہوتا ہے اور اسے کمپیوٹر پر صاف کیا جاتا ہے تاکہ صرف ریڈیو کہکشاں کا منظر ہی سامنے آسکے۔
اگرچہ ماہرین اس پر مزید تحقیق کررہے ہیں لیکن کہکشاں کے متعلق ابتدائی معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ چپٹی بیضوی شکل کی ہے اور اس کہکشاں ہے جس کا بلیک ہول ہمارے سورج سے کوئی چالیس کروڑ گنا زیادہ کمیت رکھتا ہے۔