آزادی کشمیر کا وعدہ کب پورا ہوگا

مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں


Editorial December 05, 2022
مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا، دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے، مسلح افواج مادر وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں سے کیا وعدہ پورا کیا جائے۔

بھارتی قیادت کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے متعلق غیر ذمے دارانہ بیانات کا نوٹس لیا ہے، رکھ سری سیکٹر میں افسران اور جوانوں سے ملاقات کے دوران انھوں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو کنٹرول لائن کی تازہ صورتحال اور تیاریوں پر بریفنگ دی گئی۔

نئے آرمی چیف نے لائن آف کنٹرول پر جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بلاشبہ سچائی و حقائق پر مبنی ہیں ، دفاع وطن کا عظیم فریضہ پاک افواج اپنی جانوں پر کھیل کر ادا کر رہی ہیں اور یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ بھارت کے توسیع پسندانہ مذموم مقاصد کی واحد رکاوٹ پاک افواج ہی ہیں۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے ہزاروں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں، اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کبھی بھی بھارت میں شامل نہیں ہونگے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے خطے میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے ، جب بھی مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موضوع بحث بنتا ہے، تو بھارت یہ موقف اپنا کراس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان و بھارت کے درمیان دو طرفہ ہے، لہٰذا اس تنازعے میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنے دعوے کے مطابق کبھی دو طرفہ سطح پر کشمیر میں رائے شماری کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کیں، اگر اس بابت مذاکرات ہوئے بھی تو ان کو وقت گزاری کا حربہ بنائے رکھا۔ جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ، تو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان و بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔ جسے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ اگر کشمیر کے معاملے پر کبھی بات ہوئی تو وہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہوگی۔

مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ لگی ہے، تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں، ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر دونوں ملک بہت نیچے ہیں ، مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم ، منقسم اور ریاستی جبر کا شکار ہیں۔

اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازعہ کا حل ناگزیر ہے۔ برصغیر کے باشعور لوگوں کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لیے بلکہ اپنی تعلیم، صحت، روزگار، معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔ دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔

پچھتر سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں، کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا۔

کشمیر کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم کرنا ممکن نہیں ہو گا نہ اسے پراکسی وار بنا کر پیش کرنے میں ہندوستان کو کامیابی ہو سکے گی۔ ریاست جموں و کشمیر جنوبی ایشیاء کا مرکز بن سکتی ہے۔

پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں سرگرم سیاسی کارکن اور دانشور کشمیریوں کے حق خود مختاری کے حامی ہیں، البتہ حکمران طبقات اصولی موقف کے نام پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا راگ الاپنے میں کمفرٹیبل محسوس کرتے ہیں کیوں کہ حالات کا جوں کا توں رہنا ان کی حکمرانی کو استحکام بخشتا ہے۔ بھارت میں بھی انسانی حقوق کے علمبردار دانشور اس حل کو تقویت بخشیں گے۔

تقسیم برصغیر کے وقت مسلم لیگ نے ریاستوں کے آزاد رہنے کے حق کی بھرپور وکالت کی تھی جب کہ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کو بہر صورت بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا چاہیے۔ مہاراجہ ریاست، وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس ریاست کی خودمختاری کے حامی تھے۔ کانگریس کی پرزور مخالفت اور برطانیہ کی حمایت کی وجہ سے اس وقت کوئی بھی ریاست خود مختار نہیں رہ سکی۔

قبائلیوں کے حملے کے بعد مہاراجہ نے الحاق ہندوستان کے حق میں فیصلہ کر دیا، الحاق کے حامی شیخ عبداللہ نے طویل جیل کاٹی۔ الحاق نواز سیاستدانوں نے گزشتہ پچھتر سالوں میں چھوٹی چھوٹی مراعاتوں کے عوض تمام اختیارات سے دستبرداری قبول کر لی اور مفادات کی سیاست میں الجھے رہے ۔ نا اہل سیاستدانوں کی وجہ سے کشمیر مسائلستان بن چکا ہے اور ان عوامی مسائل کی بنیاد پر عوام میں وسیع تر جڑت بنائی جا سکتی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں سے براہ راست جڑت پیدا کر کے ہی انھیں کشمیر کے حق میں قائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہندوستان کے عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ کشمیری عوام ان کے دشمن ہیں نہ ان کے مخالف بلکہ وہ خود غاصبانہ قبضے کا شکار ہیں اور مظلوم عوام کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کی دشمن ان کے ملک کی استحصالی اشرافیہ ہے اور مسئلہ کشمیر کو محض اس استحصال کو طوالت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقین اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان اور انڈیا کو پہنچنے والے براہ راست مادی نقصان کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں جن میں سیاچن، کارگل اور وولر بیراج نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر نے سندھ طاس معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور مستقبل میں ایسے مزید کئی مسائل ابھر سکتے ہیں۔

بھارت کو پاکستان سے بے معنی و بے مقصد دشمنی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہی ہو گا۔ بھارت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس بات کو سمجھ لے کہ پاکستان تا قیامت قائم و دائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ اب سرزمین پاکستان ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔ پاکستان اس وقت بائیس کروڑ آبادی والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی، میرپور وغیرہ جدید ترین شہر بن چکے ہیں۔ خوشحالی اور امن ہمارا مقدر بن چکا ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں کشمیر میں 91 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں،اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ممالک باہم مفید اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں اور باہمی مخاصمت پر اٹھنے والے اخراجات کو عوامی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں پاکستان اور انڈیا کا جوہری طاقتیں ہونا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیتا ہے۔

دنیا اب بہت آگے کی سوچ میں مصروف ہے آج کا یورپ معاشی میدان میں ایک ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یورپ کے27 ملکوں میں صدیوں سے خوفناک خونی جنگیں ہوتی رہی ہیں، لاکھوں لوگوں کا قتل عام ان جنگوں میں ہوتا رہا ہے آج وہی یورپ ایک وحدت میں نتھی ہو چکا ہے۔ اس خطے میں بھی حق و انصاف کی بنیاد پر یورپ کا عمل دہرایا جا سکتا ہے اگر جرمنی اور برطانیہ میں امن قائم ہو سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی انصاف کی بنیادوں پر امن کا قیام ممکن کیوں نہیں۔

یہ بات صرف اور صرف اس وقت ممکن ہو گی جب بھارت میں ''نازی جرمنی'' کی سوچ کا خاتمہ ہو گا۔ ہماری تجویز ہے کہ بھارتی رہنما بار بار یورپی ممالک کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کس طرح یہ صدیوں پر محیط عرصے پر خوفناک جنگیں لڑنے والے ملک دوستی اور پیار کے رشتوں میں ایک ہو چکے ہیں۔

آج یورپ کے 27 ملک یورپین یونین کا نام اختیار کر چکے ہیں۔ بھارت والے یہ دیکھیں کہ کس طرح وہ '' انگریز اور جرمن'' جو پیدائشی طور پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے آج وہ رشتے دار بن کر ایک ہو چکے ہیں۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیریوں کو آزادی دے کر اور پاکستان کے ساتھ دوستی اور امن کا رشتہ قائم کر کے بھارت کو تجارتی میدانوں میں زیادہ معاشی اور تجارتی فوائد حاصل ہونگے۔

کشمیری عوام ، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے ، تقسیم سے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے۔

کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی تعداد آزادی کشمیر کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خود مختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں