خصوصی افراد معاشرے کا حصہ بحالی کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا
خصوصی افراد کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر عملدآمد کے مسائل ہیں، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
''خصوصی افراد کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین، سول سوسائٹی اور خصوصی افراد کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد عرفان گوندل (ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب )
خصوصی افراد کو بااختیاربنانے کے حوالے سے قانون کابینہ سے منظور ہوچکا ہے، اسے جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ قانون ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک مفرد قانون ہے جس کے تحت ہر سرکاری و نجی سکول میں 3 فیصد بچے خصوصی افراد ہوں گے۔ خصوصی افراد کے مسائل سننے کیلئے ضلعی سطح پر خصوصی عدالت قائم ہوگی۔ اس کے علاوہ خصوصی افراد کو وہیل چیئر، عینک سمیت دیگر درکار ڈیوائسز فراہم کی جائیں گی۔
خصوصی افراد کی تضحیک کرنے والے کو بھی اس قانون کے تحت سخت سزا دی جائے گی۔ ملک میں پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب میں معذوری کے سرٹیفکیٹ کا حصول آن لائن کر دیا ہے۔ ہر 15دن بعد بورڈ بیٹھتا ہے جس میں آن لائن درخواست دینے والوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ معائنے کے روز نادرا کی ٹیم بھی موجود ہوتی ہے، جو ان سے کوائف لیتی ہے تاکہ ان افراد کو شناختی کارڈ کے حصول کیلئے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ بورڈ سے تصدیق کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور نادرا کو بھی اطلاع کر دی جاتی ہے جس کے بعد شناختی کارڈ بنا کر گھر کے پتہ پر ارسال کر دیا جاتا ہے۔
خصوصی افراد کے معاشی مسائل حل کرنے پر بھی کام جاری ہے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر ایسی ورک فورس تیار کر رہا ہے جو عالمی معیار کے مطابق ہوگی، یہ رجسٹرڈ ورک فورس ہوگی جو مارکیٹ ڈیمانڈ پوری کرے گی۔ ہم ہر ممکن کام کر رہے ہیں تاکہ انہیں مین سٹریم میں لایا جاسکے۔ ہم جنوبی ایشیاء میں ایک منفرد منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا آن لائن سسٹم بنانے جا رہے ہیں جس میں خصوصی افراد لنک ہونگے، ان کا ڈیٹا موجود ہوگا، وہ درکار سہولیات جن میں وہیل چیئر و دیگر شامل ہیں، کے بارے میں اپنی ڈیمانڈ بتائیں گے، ہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق کریں گے۔ اس آن لائن ایپلی کیشن یا پورٹل پر مخیر حضرات، این جی اوز و دیگر ان کی مدد کر سکیں گے۔
لاہور، فیصل آباد و دیگر شہروں میں سوشل ویلفیئر سینٹرز میں 'نشیمن' موجود ہیں جہاں خصوصی ٹائلز، سینسر ڈورز، خصوصی کمرے و دیگر سہولیات دی گئی ہیں۔ ہم ان پراجیکٹس کو صوبے بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ٹرانسپورٹ ، پبلک مقامات اور عمارتوں کو خصوصی افراد کیلئے قابل رسائی بنانے کے قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے حوالے سے متعلقہ محکموں کے ساتھ کام جاری ہے۔ ملازمتوں میں خصوصی افراد کا کوٹہ موجود ہے۔
جو فیکٹری مالکان خصوصی افراد کو ملازمت پر نہیں رکھتے وہ اس کے بدلے رقم جمع کرواتے ہیں، اس ضمن میں ادارے کو 5 کروڑ روپیہ اکٹھا ہوتا ہے جس سے ہم خصوصی افراد کی بحالی کیلئے اقدامات کرتے ہیں، یہ ریونیو10 ملین روپے تک لے جایا جا سکتا ہے،ا س پر کام جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی آبادی کا 15 فیصد خصوصی افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں ان کی تعداد کے حوالے سے کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں البتہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 5فیصد افراد معذوری کے حامل ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق آج بھی اتنی ہی تعداد موجود ہے۔
1981ء میں خصوصی افراد کی ملازمت اور بحالی کا قانون پاس ہوا، خصوصی افراد کیلئے ملازمت کا 1 فیصد کوٹہ رکھا گیا جو اس وقت 3 فیصد ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں نے خصوصی افراد کے حوالے سے وفاق کے قانون کو ہی لاگو کر لیا، ہم نے اقوام متحدہ کی قرار داد کی توثیق کر رکھی ہے، جی ایس پی پلس سٹیٹس کو بھی خصوصی افراد سے منسلک کر دیا گیا لہٰذا ان کیلئے کام کرنا ہماری عالمی ذمہ داری بھی ہے۔
ڈاکٹر خالد جمیل (بگ برادر)
پاکستان میں ہم نے رواں سال خصوصی افراد کے عالمی دن کو ان کی جذباتی پختگی سے منسلک کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدم توجہی، معذوری و دیگر وجوہات کی بناء پر خصوصی افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں ڈپریشن ختم کرنے والی ادویات دینا پڑتی ہیں۔ میرے نزدیک انہیں مصنوعی اعضاء و دیگر سہولیات دینا اہم اور لازمی ہے مگر ہمیں انہیں جذباتی طور پر بھی مضبوط کرنا ہے۔ ہمارے ہاں صرف جسمانی معذوری کو ہی معذوری تصور کیا جاتا ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معذوری صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ ہم معذوری کو تین بریکٹس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک معذوری وہ ہوتی ہے جو نارمل افراد کو زندگی میں کبھی بھی ہوسکتی ہے یا پھر بڑھاپے میں طور پر ہوجاتی ہے جیسے یاداشت یا بینائی کا چلے جانا، فالج جیسے امراض کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔اس عمر میں انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات وسائل نہ ہونے کی صورت میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے اثرات ان کی نفسیات پر بھی پڑتے ہیں۔دوسری قسم کی معذوری بچوں میں ہوتی ہے یعنی پیدائشی طور پر بچے کا معذور پیدا ہونا۔
اس سے پورا خاندان خصوصاََ ماں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے،اس کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر اثر پڑتا ہے۔ اسے مختلف طعنوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔پہلے جسمانی معذوری کے شکار بچوں کی تعداد زیادہ تھی مگر اب آٹیزم کا شکار بچے بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ دنیا میں ان کیلئے الگ سکولز اور سہولیات موجود ہیں مگر ہمارے ہاں یہ عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ہم نے میو ہسپتال لاہور میں ماؤں کی کونسلگ کیلئے مختصر کورسز شروع کروائے ہیں جہاں ان کی رہنمائی کی جارہی ہے۔ معذوری کی تیسری قسم نوجوانوں میں ہوتی ہے۔ ان کی عمر کے ساتھ مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
اس عمر میں انہیں روزگار کمانا ، گھر سنبھالنااور شادی جیسے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے لہٰذا ان کے لیے معاملات پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ، ملازمت و دیگر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کے باعث وہ فرسٹیشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں معذوری کا شکار تمام افراد کی نفسیاتی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔ حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا میرا تجربہ اچھا رہا ہے۔ جب ہم غیر ضروری مطالبات کرتے ہیں تو مشکلات ہوتی ہیں۔
جنرل ضاء الحق کے دور میں خصوصی افراد کا ملازمتوں میں ایک فیصد کوٹہ منظور ہوا جو اس وقت 3 فیصد ہوچکا ہے۔ 1988ء میں پیرا اولمپکس اور پھر سپیشل اولمپکس قائم ہوئی، آئین پاکستان میں خصوصی افراد کے حقوق کو اہمیت دی گئی، اچھی قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں جو افسوسناک ہے۔ میں نے میڈیکل کے شعبے میں خصوصی افراد کے حوالے سے ڈاکٹروں کیلئے FCPS کا خصوصی پروگرام ترتیب دیا، سپیشل ایجوکیشن کا الگ بلاک بنوایا ، جہاں سپیشلائزیشن کروائی جارہی ہے۔
عمارتوں میں ریمپ کا مسئلہ ہے،پبلک مقامات اور سرکاری دفاتر بھی خصوصی افراد کے قابل رسائی نہیں ہیں، جہاں ریمپ بنے ہیں وہ بھی معیاری نہیں، ریمپ کا18 ڈگری سے زائد زاویہ نہیں ہونا چاہیے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے مستند اعداد و شمار نہیں۔ حالیہ مردم شماری میں خصوصی افراد کا خانہ ہوجود نہیں تھا۔ ہمارے پرزور مطالبے اور احتجاج پر فارم میں معذوری کا خانہ شامل کیا گیا مگر اس کی قسم الگ الگ نہیں کی گئی۔
اگر اس وقت ہی کر لی جاتی تو آج ڈیٹا موجود ہوتا اور ان کی بحالی کیلئے پالیسی سازی و دیگر اقدامات میں مدد ملتی۔ خصوصی افراد کے حوالے سے قانون بنانے یا پالیسی سازی میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا، ہم کہتے ہیں کہ "plan for us, not without us"
ڈاکٹر لیلیٰ خالد (ماہر سپیشل ایجوکیشن )
ہماری سپیشل ایجوکیشن کی پالیسی اچھی ہے مگر بدقسمتی سے یہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پالیسیوں پر عملدرآمد میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، موثر مانیٹرنگ نہیں ہوتی، ہر حکومت اپنے حساب اور ترجیحات کے مطابق معاملات کو لے کر چلتی ہے جس میں خصوصی افراد نظر انداز ہوجاتے ہیں، ہمیں اچھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا چاہیے، اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے پارک، شاپنگ مال، و دیگر پبلک مقامات خصوصی افراد کے لیے سازگار نہیں ہیں، سینئر سٹیزنز کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سرکاری عمارتوں میں بھی مسائل ہیں،ہمیں انفراسٹرکچر میں خصوصی افراد اور سینئر سٹیزنز کو شامل کرنا ہوگا۔ جن تعلیمی اداروں میں سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں، وہاں بھی مسائل ہیں، خصوصی ٹائلٹ ، لفٹ، ریمپ نہیں ہیں، نامسائد حالات اورعدم سہولیات کے باعث خصوصی افراد میں فرسٹیشن پیدا ہونا فطری ہے۔
ہمارے ہاں نابینا افراد اور خصوصاََ تعلیم حاصل کرنے والے نابینا طالب علم بہت سارے مواقع سے محروم رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے مسائل کی وجہ سے وہ سیمینارز، تربیتی ورکشاپس وغیرہ میں شرکت نہیں کر سکتے۔ بارش کی صورت میں خصوصی افراد کو آمد و رفت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں ان افراد کی بحالی کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے 95 فیصد خصوصی بچے اسکول، مدارس و دیگر تعلیمی و تربیتی درس گاہوں میں نہیں جاتے، صرف 5 فیصد بچے جو اسکولوں میں جاتے ہیں ہم انہیں بھی سہولیات نہیں دے رہے، ہمارا سسٹم انہیں بھی ایمپاور نہیں کر پارہا۔
خصوصی بچوں کے والدین بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جتنی جلدی بچے میں معذوری کا علم ہوجائے اتنا بہتر علاج ہوسکتا ہے اور بیشتر صورتوں میں معذوری سے بچایا جاسکتا ہے مگر ہمارے ہاں بچے کو جلد ڈاکٹر کے پاس لے کر نہیں جاتے بلکہ ٹوٹکے استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے مسائل پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی خصوصی افراد کے لیے وقف کی ہے۔ مجھے ان کی اور ان کے خاندان کی مشکلات کے بارے میں حیران کن مسائل کا معلوم ہوا۔
بدقسمتی سے خصوصی افراد کے مسائل سنگین ہیں، حکومت، سرکاری و نجی شعبوں، سول سوسائٹی سمیت سب کو آگے آنا ہوگا اور خصوصی افراد کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان پر ترس نہیں کھانا اور نہ ہی بھکاری بنانا ہے۔ یہ خصوصی افراد کا حق ہے کہ انہیں معاشرے میں شامل کیا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ان بچوں کی معاشرے میں جگہ بنائے، الگ سکول بنانے کے بجائے عام سکولوں میں ہی ان کی جگہ بنائی جائے، انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔
لالہ جی سعید اقبال مرزا ( چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنزاسلام آباد قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ )
بدقسمتی سے ہمارے ہاں خصوصی افراد کی حالت ابتر ہے۔ غیر اسلامی ممالک میں خصوصی افراد کو جتنا ریلیف مل رہا ہے ہمارے ہاں انہیں اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے۔ عمومی رویے تو مسئلہ ہیں ہی لیکن سرکاری دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا، ملازمین کی تربیت کرنا ہونگی۔
قیام پاکستان سے لے کر 1980ء تک خصوصی افراد کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور نہ ہی ان کے روزگار کے حوالے سے کوئی قانون موجود تھا۔ 1980ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ڈاکٹر خالد جمیل ، میرے اور دیگر خصوصی افراد کے مطالبے کو تسلیم کیا اور 1981 ء میں خصوصی افراد کیلئے سرکاری ملازمتوں میں 1 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیینس کے کوٹے کی وجہ سے بیرون ملک سے سپیشل پرسنز کو 1300cc تک کسٹم فری گاڑی منگوانے کی سہولت ملی۔
پاکستان ریلویز اور پی آئی اے میں 50%رعایت پر سفری سہولیات ملی جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں سپیشل پرسنز، ان کے والدین اور خاندان کو مفت علاج معالجہ کی سہولت ملی۔خصوصی افراد کا ایک بڑا مسئلہ معذوری کے سرٹیفکیٹ کا حصول ہے۔پیچیدہ سرکاری نظام کی وجہ سے پنجاب کے ڈسٹرکٹ سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی افراددھکے کھا رہے ہیں۔ استدعا ہے کہ سر ٹیفکیٹ کیلئے مخصوص دن کی شرط ختم کرکے روزانہ کی بنیاد پرجاری کیے جائیں۔
خصوصی افراد کی بحالی اور ان کے حقوق کیلئے بھرپور آواز اٹھانے کیلئے میں گزشتہ دو دہائیوں سے مطالبہ کر رہا ہوں کہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خصوصی افراد کیلئے 3,3سیٹیں مختص کی جائیںتاہم حکومتی ترجیحات اور سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد والے صوبے پنجاب میں کوئی وزیرہی موجود نہیں، حکومت کوچاہیے کہ فوری طور پر وزیر مقرر کرکے اور خصوصی افراد کے مسائل حل کرے۔
ایک اور بات اہم ہے کہ زیادہ محکموں کی وجہ سے زیادہ وسائل خرچ ہو رہے ہیں، محکمہ بیت المال، سوشل ویلفیئر، محکمہ سپیشل پرسنز، محکمہ زکوٰۃ کو ضم کرنے سے کام میں بہتری لائی جاسکتی ہے اور وسائل کا ضیاع بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح کم وسائل میں اچھے نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد دو کروڑ ہے۔ اسلام آباد میں 20 ہزار ، پنجاب میں پچاس لاکھ اور سندھ میں 20 لاکھ خصوصی افراد ہیں جبکہ دیگر صوبوں کے حوالے سے اعداد و شمار موجود نہیں۔
پاکستان میں مخیر حضرات کے علاوہ متعدد غیر سرکاری تنظیمیں بھی خصوصی افراد کی بحالی کیلئے کام کر رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی خصوصی افراد کو سہولیات دینے کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود خصوصی افراد کی مشکلات ختم نہیں ہورہی۔ انہیں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ وہیل چیئر و دیگر سہولیات کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فرسودہ اور پیچیدہ نظام ہے۔
خصوصی افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کیلئے ان کے مسائل کا ازالہ کرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی عوام دوست ہیں،خصوصی افراد کے حوالے سے ان کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔