پنجاب حکومت کے زیراہتمام فلم اور تھیٹر فیسٹیول میں نوجوانوں کی کامیابیاں
فیسٹیول میں مختلف کالجزاور یونیورسٹیز کے طلبہ نے حصہ لیا،ڈرامہ فیسٹیول یونیورسٹی آف لاہور نے جیت لیا۔
کوئی دور تھا جب ہماری فلمی صنعت اور تھیٹر کی شہرت بہت تھی،ہماری فلموں کے شو کے ہاؤس فل ہوتے تھے۔
اس وقت ایڈوانس بکنگ بھی مشکل سے ہوتی تھی ، فلمی دنیا نے نامور اداکار پیدا کئے، جن کا ڈھنکاآج بھی بج رہا ہے، ان میں ہمارے ہیرو سنتوش، رحمٰن، آغا طالش، علاؤالدین، محمد علی، ندیم، شاہد، وحیدمراد نے فلمی دنیا پر راج کیا، ہیروئن بھی ان سے پیچھے نہیں تھیں ، صبیحہ خانم ،نورجہاں، نیر سلطانہ،رانی، عالیہ، آسیہ نے بھی بہت نام کمایا مگر رفتہ فتہ ہماری فلمی صنعت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی اور بلآخر تقریباً ختم ہی ہوگئی ہے، اب سالوں بعد ایک یا دو فلمیں بنتی ہیں ،فلمی صنعت میں سب سے اہم کام ہدایتکار کا ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بڑے نام نہ رہے اور جو حیات ہیں وہ بھی گوشہ نشین ہوگئے ہیں جس کے باعث فلمی صنعت دم توڑ گئی اس کا کوئی والی وارث نہ رہے، انڈسٹری میں جرائم پیشہ لوگ گھس آئے جنہوں نے تشدد اور جنس کے کلچر کو فروغ دیا جو ہمارا کلچر نہیں تھا اس کی وجہ سے عوام سنیما سے دور ہوتی چلی گئی برسوں بعد اس بات کا احساس پنجاب حکومت کو ہوا ۔
جس نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لئے پنجاب یوتھ فیسٹیول کا آغاز کیا جس میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،فیسٹیول میں نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، اب تک فیسٹیول میں 29عالمی ریکارڈ بن چکے ہیں جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا اچھا امیج ابھرا، اس فیسٹیول میں پنجاب کے کلچر کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا اس کے لئے ثقافتی پروگرام کا شیڈول بھی بنایا گیا،اس کے تحت تھیٹر اور فلم فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کردیا کہ اگر ان کو حکومت مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرے تو وہ ہمسائیہ ملک کی ثقافتی یلغار کا بھرپور مقابلہ کر سکتے ہیں، پنجاب یوتھ فیسٹیول کے تحت تھیٹر فیسٹیول کا آغاز 6مارچ کو ہوا، اس سلسلے میں پہلا ڈرامہ راولپنڈی آرٹس کونسل نے ''بول مت بول'' پیش کیا، جس میں سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا۔
ڈرامہ کی کاسٹ میں لبنیٰ شہزادی، کاشف رانا، امین شہزادہ، بابر عباس،ریحا اور دیگر شامل تھے، فیسٹیول میں مختلف کالجزاور یونیورسٹیز کے طلبہ نے حصہ لیا،ڈرامہ فیسٹیول یونیورسٹی آف لاہور نے جیت لیا، یو او ایل کے ڈرامے ''کٹھ پتلی '' کو بہترین پرفارمنس پر پہلا انعام دیا گیا، دوسرے نمبر پر پنجاب یونیورسٹی کا ڈرامہ ''کیا میں غلط ہوں''رہا، تیسرے نمبر پر کنیئرڈ کالج کا ڈرامہ ''پطرس کے مضامین''رہا، اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کامیاب طلبہ میں انعامات تقسیم کئے، صوبہ بھر کی آرٹس کونسلز کے درمیان ہونے والے مقابلے میں پہلی پوزیشن سرگودھا، دوسری راولپنڈی اور تیسری ملتان نے حاصل کی،اس فسٹیول میں ججز کے فرائض سینئر فنکار مسعود اختر ،منیر راج اور خالد اقبال نے انجام دیئے،مسعود اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کے پنجاب یوتھ فیسٹیول ایک بہترین تحفہ اور پلیٹ فارم ہے،اس پلیٹ فارم پر نوجوانوں کی کارکردگی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ نوجوانوں نے جن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے وہ سالوں میں سیکھی تھی نوجوانوں نے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استعفادہ کیا ہے اگر ان نوجوانوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم تھیٹر میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ نوجوان ابھی تجربہ کار نہیں مگر ان کا کام دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان میں تجربہ اور مہارت کی کمی ہے،مجھے اپنے نوجوانوں سے جو امیدیں تھیں انہیں آج سٹیج پر دیکھ کر رتی بھر بھی مایوسی نہیں ہوئی،میں صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود احمد اور ڈی جی سپورٹس عثمان انور کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے نوجوانوں کے لئے اس طرح کے فیسٹیول کا اہتمام کیا بلاشبہ انہوں نے اپنا قومی حق ادا کردیا ہے، فلم فیسٹیول کے مقابلے بھی انتہائی دلچسپ رہے، فکشن فلم کا ایوارڈ این سی اے کے ہارون حبیب نے جیتا انہوں نے ''لینڈ آف فائر فلائز'' جیسی فلم بنا کر سب کے دل جیت لئے، دوسری پوزیشن پر نوید انجم کی فلم''کالو'' رہی،بہترین ڈاکومنٹری کا انعام بھی این سی اے کے مرتضیٰ مارٹ نے جیتا ان کی فلم ''نیر سر'' پہلے نمبر پر رہی، دوسرے نمبرپر بھی این سی اے کے طالب علم ہی رہا، عدنان کاردار کی ''شیدی بادشاہ''رنر اپ رہی،شارٹ فلم کی کیٹیگری میں آر ایم نعیم کی فلم ''فائنل''نے پہلا انعام حاصل کیا، جبکہ فرانسیز لیجویٹ کی فلم ''ڈپریسڈ گرل''نے دوسرا انعام جیتا،اینی میٹیڈ فلم کیٹیگری میں زینب المائے کی فلم ''لائٹ آف لائف'' نے پہلی پوزیشن لی، جبکہ گریجورڈ شو بے کیفلم ''نیور ڈرائیو اے کار''نے دوسری پوزیشن لی،شارٹ مودی کیٹیگری میں کنیئرڈ کالج کی اقصہ مسعود کی فلم ''امید سحر''نے پہلی، دوسری پوزیشن بھی کنیئرڈ کالج کی انعم جسٹن کی ''زندگی ایک امید''نے لی۔
ایکسپیریمنٹل فلم کی کیٹیگری میں ہیڈل کلیمن کی فلم ''اپروچ'' نے پہلا اور دوسرا وشال راجپوت کی فلم ''انجان لوگ گمنام کہانی''نے جیتا۔اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود نے کامیاب نوجوانوں میں انعامات تقسیم کئے، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رانا مشہود احمد نے کہا کہ نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کی بہترین قوم ہے، نوجوان اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کردیں حکومت تعبیر بنے گی،ہماری فلم انڈسٹری جس زبوں حالی کا شکا ر ہے ایسے میں نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کو چیلنج سمجھتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کریں ، پنجاب حکومت نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کی صورت میں نوجوانوں کو پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے جس میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جسے دیکھ کر ہم مایوس نہیں بلکہ خوش ہوئے ہیں کہ ہمارا مستقبل جو کہ نوجوان ہیں ان کے محفوظ ہاتھوں میں ہے،رانا مشہود نے فیسٹیول کیلئے ڈی جی سپورٹس عثمان انور کی اور انکی پوری ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔فلم فیسٹیول کے لئے ججز کے فرائض معروف ہدایتکار اور مصنف سید نور، این سی اے معلم ظفر اقبال اور ٹل پاسو نے انجام دیئے، فلم کے حتمی نتائج بھی انہیں معروف شخصیات نے مرتب کئے۔سید نور نے اس موقع پر کہا کہ فلم فیسٹیول میں نوجوانوں کا کام بین الاقوامی معیار سے کمی طرح سے بھی کم نہیں ہے۔
نوجوانوں کی صلاحیتوں نے مجھے دنگ کردیا ہے، مجھے ان نوجوانوں پر فخر ہے اور ان کا کام دیکھ کرانتہائی خوشی ہوئی ہے، فلم کے بقاء کے لئے پنجاب یوتھ فیسٹیول میں فلم فیسٹیول ایک انتہائی اعلیٰ کاوش ہے، جس سے ہماری فلم انڈسٹری کو آکسیجن ملے گی اور اس بات کا کریڈٹ پنجاب کے وزیر کھیل رانا مشہود احمد اور ڈی جی سپورٹس عثمان انور کو جاتا ہے جنہوں نے اندھیروں میں ایک امید کی کرن پیدا کرکے فلم انڈسٹری کو دوبارہ جینے کی امنگ دی ہے، انہوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں جو عالمی ریکارڈ بن رہے ہیں اس پر بعض نامی گرامی افراد تنقید کر رہے ہیں، جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے، عالمی ریکارڈ بننا ایک کریڈیبل بات ہے اور جن لوگوں نے یہ عالمی ریکارڈ بنائے ہیں ان کو ان کا کریڈٹ دینا چاہئے اس بات پر تنقید بلاجواز اور میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ باقی جو بات فلم فیسٹیول میں نوجوانوں کے کام کی ہے تو میں صرف یہ کہوں گا کہ میں ان کا کام دیکھ کر مطمئن ہوگیا ہے مجھے اب فلم انڈسٹری کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں کیونکہ نوجوانوں نے آسماں کو چُھو لیا ہے۔فلم اور تھیٹر فیسٹیول میں نوجوانوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور نوجوانوں کے کاموں کو سراہا، فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال میں ضروری تھا کہ اس طرح کا پروگرام کرائے جاتے جو کہ سپورٹس بورڈ پنجاب نے فلم اور تھیٹر فیسٹیول کی صورت میں پورا کردیا جس سے امید پیدا ہو گئی ہے نوجوان مستقبل میں فلم انڈسٹری کو دوبارہ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔n
اس وقت ایڈوانس بکنگ بھی مشکل سے ہوتی تھی ، فلمی دنیا نے نامور اداکار پیدا کئے، جن کا ڈھنکاآج بھی بج رہا ہے، ان میں ہمارے ہیرو سنتوش، رحمٰن، آغا طالش، علاؤالدین، محمد علی، ندیم، شاہد، وحیدمراد نے فلمی دنیا پر راج کیا، ہیروئن بھی ان سے پیچھے نہیں تھیں ، صبیحہ خانم ،نورجہاں، نیر سلطانہ،رانی، عالیہ، آسیہ نے بھی بہت نام کمایا مگر رفتہ فتہ ہماری فلمی صنعت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی اور بلآخر تقریباً ختم ہی ہوگئی ہے، اب سالوں بعد ایک یا دو فلمیں بنتی ہیں ،فلمی صنعت میں سب سے اہم کام ہدایتکار کا ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بڑے نام نہ رہے اور جو حیات ہیں وہ بھی گوشہ نشین ہوگئے ہیں جس کے باعث فلمی صنعت دم توڑ گئی اس کا کوئی والی وارث نہ رہے، انڈسٹری میں جرائم پیشہ لوگ گھس آئے جنہوں نے تشدد اور جنس کے کلچر کو فروغ دیا جو ہمارا کلچر نہیں تھا اس کی وجہ سے عوام سنیما سے دور ہوتی چلی گئی برسوں بعد اس بات کا احساس پنجاب حکومت کو ہوا ۔
جس نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لئے پنجاب یوتھ فیسٹیول کا آغاز کیا جس میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،فیسٹیول میں نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، اب تک فیسٹیول میں 29عالمی ریکارڈ بن چکے ہیں جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا اچھا امیج ابھرا، اس فیسٹیول میں پنجاب کے کلچر کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا اس کے لئے ثقافتی پروگرام کا شیڈول بھی بنایا گیا،اس کے تحت تھیٹر اور فلم فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کردیا کہ اگر ان کو حکومت مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرے تو وہ ہمسائیہ ملک کی ثقافتی یلغار کا بھرپور مقابلہ کر سکتے ہیں، پنجاب یوتھ فیسٹیول کے تحت تھیٹر فیسٹیول کا آغاز 6مارچ کو ہوا، اس سلسلے میں پہلا ڈرامہ راولپنڈی آرٹس کونسل نے ''بول مت بول'' پیش کیا، جس میں سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا۔
ڈرامہ کی کاسٹ میں لبنیٰ شہزادی، کاشف رانا، امین شہزادہ، بابر عباس،ریحا اور دیگر شامل تھے، فیسٹیول میں مختلف کالجزاور یونیورسٹیز کے طلبہ نے حصہ لیا،ڈرامہ فیسٹیول یونیورسٹی آف لاہور نے جیت لیا، یو او ایل کے ڈرامے ''کٹھ پتلی '' کو بہترین پرفارمنس پر پہلا انعام دیا گیا، دوسرے نمبر پر پنجاب یونیورسٹی کا ڈرامہ ''کیا میں غلط ہوں''رہا، تیسرے نمبر پر کنیئرڈ کالج کا ڈرامہ ''پطرس کے مضامین''رہا، اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کامیاب طلبہ میں انعامات تقسیم کئے، صوبہ بھر کی آرٹس کونسلز کے درمیان ہونے والے مقابلے میں پہلی پوزیشن سرگودھا، دوسری راولپنڈی اور تیسری ملتان نے حاصل کی،اس فسٹیول میں ججز کے فرائض سینئر فنکار مسعود اختر ،منیر راج اور خالد اقبال نے انجام دیئے،مسعود اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کے پنجاب یوتھ فیسٹیول ایک بہترین تحفہ اور پلیٹ فارم ہے،اس پلیٹ فارم پر نوجوانوں کی کارکردگی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ نوجوانوں نے جن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے وہ سالوں میں سیکھی تھی نوجوانوں نے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استعفادہ کیا ہے اگر ان نوجوانوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم تھیٹر میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ نوجوان ابھی تجربہ کار نہیں مگر ان کا کام دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان میں تجربہ اور مہارت کی کمی ہے،مجھے اپنے نوجوانوں سے جو امیدیں تھیں انہیں آج سٹیج پر دیکھ کر رتی بھر بھی مایوسی نہیں ہوئی،میں صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود احمد اور ڈی جی سپورٹس عثمان انور کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے نوجوانوں کے لئے اس طرح کے فیسٹیول کا اہتمام کیا بلاشبہ انہوں نے اپنا قومی حق ادا کردیا ہے، فلم فیسٹیول کے مقابلے بھی انتہائی دلچسپ رہے، فکشن فلم کا ایوارڈ این سی اے کے ہارون حبیب نے جیتا انہوں نے ''لینڈ آف فائر فلائز'' جیسی فلم بنا کر سب کے دل جیت لئے، دوسری پوزیشن پر نوید انجم کی فلم''کالو'' رہی،بہترین ڈاکومنٹری کا انعام بھی این سی اے کے مرتضیٰ مارٹ نے جیتا ان کی فلم ''نیر سر'' پہلے نمبر پر رہی، دوسرے نمبرپر بھی این سی اے کے طالب علم ہی رہا، عدنان کاردار کی ''شیدی بادشاہ''رنر اپ رہی،شارٹ فلم کی کیٹیگری میں آر ایم نعیم کی فلم ''فائنل''نے پہلا انعام حاصل کیا، جبکہ فرانسیز لیجویٹ کی فلم ''ڈپریسڈ گرل''نے دوسرا انعام جیتا،اینی میٹیڈ فلم کیٹیگری میں زینب المائے کی فلم ''لائٹ آف لائف'' نے پہلی پوزیشن لی، جبکہ گریجورڈ شو بے کیفلم ''نیور ڈرائیو اے کار''نے دوسری پوزیشن لی،شارٹ مودی کیٹیگری میں کنیئرڈ کالج کی اقصہ مسعود کی فلم ''امید سحر''نے پہلی، دوسری پوزیشن بھی کنیئرڈ کالج کی انعم جسٹن کی ''زندگی ایک امید''نے لی۔
ایکسپیریمنٹل فلم کی کیٹیگری میں ہیڈل کلیمن کی فلم ''اپروچ'' نے پہلا اور دوسرا وشال راجپوت کی فلم ''انجان لوگ گمنام کہانی''نے جیتا۔اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر کھیل رانا مشہود نے کامیاب نوجوانوں میں انعامات تقسیم کئے، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رانا مشہود احمد نے کہا کہ نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کی بہترین قوم ہے، نوجوان اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کردیں حکومت تعبیر بنے گی،ہماری فلم انڈسٹری جس زبوں حالی کا شکا ر ہے ایسے میں نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اس کو چیلنج سمجھتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کریں ، پنجاب حکومت نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کی صورت میں نوجوانوں کو پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے جس میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جسے دیکھ کر ہم مایوس نہیں بلکہ خوش ہوئے ہیں کہ ہمارا مستقبل جو کہ نوجوان ہیں ان کے محفوظ ہاتھوں میں ہے،رانا مشہود نے فیسٹیول کیلئے ڈی جی سپورٹس عثمان انور کی اور انکی پوری ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔فلم فیسٹیول کے لئے ججز کے فرائض معروف ہدایتکار اور مصنف سید نور، این سی اے معلم ظفر اقبال اور ٹل پاسو نے انجام دیئے، فلم کے حتمی نتائج بھی انہیں معروف شخصیات نے مرتب کئے۔سید نور نے اس موقع پر کہا کہ فلم فیسٹیول میں نوجوانوں کا کام بین الاقوامی معیار سے کمی طرح سے بھی کم نہیں ہے۔
نوجوانوں کی صلاحیتوں نے مجھے دنگ کردیا ہے، مجھے ان نوجوانوں پر فخر ہے اور ان کا کام دیکھ کرانتہائی خوشی ہوئی ہے، فلم کے بقاء کے لئے پنجاب یوتھ فیسٹیول میں فلم فیسٹیول ایک انتہائی اعلیٰ کاوش ہے، جس سے ہماری فلم انڈسٹری کو آکسیجن ملے گی اور اس بات کا کریڈٹ پنجاب کے وزیر کھیل رانا مشہود احمد اور ڈی جی سپورٹس عثمان انور کو جاتا ہے جنہوں نے اندھیروں میں ایک امید کی کرن پیدا کرکے فلم انڈسٹری کو دوبارہ جینے کی امنگ دی ہے، انہوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں جو عالمی ریکارڈ بن رہے ہیں اس پر بعض نامی گرامی افراد تنقید کر رہے ہیں، جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے، عالمی ریکارڈ بننا ایک کریڈیبل بات ہے اور جن لوگوں نے یہ عالمی ریکارڈ بنائے ہیں ان کو ان کا کریڈٹ دینا چاہئے اس بات پر تنقید بلاجواز اور میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ باقی جو بات فلم فیسٹیول میں نوجوانوں کے کام کی ہے تو میں صرف یہ کہوں گا کہ میں ان کا کام دیکھ کر مطمئن ہوگیا ہے مجھے اب فلم انڈسٹری کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں کیونکہ نوجوانوں نے آسماں کو چُھو لیا ہے۔فلم اور تھیٹر فیسٹیول میں نوجوانوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور نوجوانوں کے کاموں کو سراہا، فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال میں ضروری تھا کہ اس طرح کا پروگرام کرائے جاتے جو کہ سپورٹس بورڈ پنجاب نے فلم اور تھیٹر فیسٹیول کی صورت میں پورا کردیا جس سے امید پیدا ہو گئی ہے نوجوان مستقبل میں فلم انڈسٹری کو دوبارہ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔n