حکومت کی خدمت میں چند گزارشات

وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو اس مرتبہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے


Shakeel Farooqi April 01, 2014
[email protected]

وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو اس مرتبہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ داخلی محاذ پر سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خوفناک مسئلے سے نمٹنا ہے۔ میاں صاحب کی دوسری مشکل یہ تھی کہ ان کے مخالفین نہیں چاہتے تھے کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، ان کا خیال تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، لہٰذا اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کا سب سے اولین تقاضا یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیاجائے۔ اس کے بعد دوسرا بڑا اور انتہائی اہم تقاضا یہ تھا کہ فوجی قیادت کی حمایت بھی حاصل کی جائے جس کے بغیر ایک قدم آگے بڑھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق میاں صاحب کی حکومت اور عسکری قیادت ایک صف پر آگئے اور اتفاق رائے سے طے پاگیا کہ مذاکرات کے عمل کو ایک اور موقع دیاجائے اور پہلی کوشش یہی کی جائے کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکالا جائے، بصورت دیگر تنگ آمد بہ جنگ آمد والی پالیسی اختیار کی جائے۔

تمام اہل وطن کی یہ خواہش اور دعا ہے کہ خدا کرے اس مرتبہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں تاکہ دہشت گردی کے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں اور دائمی امن قائم ہوجائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی دشمن غیر ملکی ایجنسیاں جس میں بھارتی بدنام زمانہ خوفناک ایجنسی ''را'' بھی شامل ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگائیںگی کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھنے پائے۔

دہشت گردی کے مسئلے نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی شدت اختیار کرلی کہ لوڈ شیڈنگ کے اعصاب شکن پرانے مسئلے نے ثانوی حیثیت اختیار کرلی، اب جب کہ موسم گرما کی آمد آمد ہے عوام کو اس کی اہمیت اور سنگینی کا احساس ایک مرتبہ پھر بہت شدت کے ساتھ ہورہاہے۔ مگر ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس آلہ دین کا چراغ یا جادوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ اسے پلک جھپکتے میں حل کردے۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ حکومت توانائی کے بحران سے عوام کو چھٹکارا دلانے کے لیے مقدور بھر کوششیں کررہی ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ معاہدوں پر معاہدے کیے جارہے ہیں جن میں ہمارا سب سے زیادہ با اعتماد اور آزمایا ہوا دوست چین سر فہرست ہے جس کی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تیزی سے معاہدے کیے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی، اسلام آباد کی میٹروبس سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے پر زور الفاظ میں کہاکہ ہم اپنے 5سالہ دور حکومت میں 25 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وزیراعظم کے اس وعدے کی سچائی اور کامیابی کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ میاں صاحب اور ان کے ساتھی جس اخلاص نیت اور تن دہی سے اس سلسلے میں منصوبہ سازی اور کوششیں کررہے ہیں وہ انشاء اﷲ جلد از جلد بار آور ثابت ہوں گی۔

وزیراعظم نواز شریف کے آیندہ منصوبوں میں لاہور، کراچی موٹروے، راولپنڈی اور مظفر آباد کے درمیان ٹرین سروس کا قیام اور تعلیمی بجٹ کو دو فیصد سے بڑھاکر چار فیصد کرنے کے اہم منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ توانائی کے بحران کے سلسلے میں آئل اور گیس کی وزارت نے نئے ذخائر کی دریافت کے لیے 18 نئے لائسنس جاری کیے ہیں۔ برسبیل تذکرہ عرض یہ ہے کہ بعض کنوئیں ایسے ہیں جہاں بھاری مقدار میں ریکوری ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں جلد از جلد قابل استعمال بنایاجائے تاکہ توانائی کے بحران کو کم کرنے میں کسی نہ کسی حد تک مدد حاصل ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم نواز شریف ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے سابقہ حکومت کے منصوبے پر کام شروع کرادے جس سے توانائی کے مسئلے کو حل کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ علاوہ ازیں اس کے نتیجے میں پاک ایران تعلقات کو مستحکم اور پائیدار بنانے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہ یاد دلانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ نوزائیدہ مملکت پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ایران پیش پیش تھا۔ اس ملک کے ساتھ ہمارے تاریخی اور ثقافتی تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے اس ملک کے ساتھ مذہبی رشتے بھی صدیوں پرانے ہیں۔ اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں بھی دونوں ممالک کا باہمی تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے ہمارا بہت ساتھ دیا تھا اور ہمیں تزویراتی گہرائی فراہم کی تھی۔ سب سے زیادہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس وقت یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ سعودی اور شامی حکومتوں کی باہمی کشیدگی کے تناظر میں سعودی حکومت کی جانب سے ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم کے پاک ایران تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ میاں نواز شریف کی حکومت اس قسم کے خدشات کو قطعی بے بنیاد قرار دے چکی ہے تاہم وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت پاک ایران تعلقات کے فروغ کے حوالے سے فوری اور موثر اقدامات کرے تاکہ اس قسم کی افواہوں کا توڑ ہوسکے۔

چلتے چلتے میاں صاحب سے یہ بھی گزارش ہے کہ اب جب کہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوتا ہوا نظر آرہاہے حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو راحت فراہم کرنے کے لیے بلا تاخیر ایسے عملی اقدامات بھی کرکے دکھائے جن سے روز مرہ استعمال کی اشیا کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں میں کمی آئے اور دکھی عوام سکھ چین کا سانس لے کر حکومت کو دعائیں دیں اور پچھلی اور موجودہ حکومت کی کار کردگی کے فرق کو محسوس کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔