صحت اور تعلیم منافع بخش انڈسٹری

معروف دانشور اشفاق احمد مرحوم کہتے ہیں کہ میں ایک تعلیمی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے اٹلی کے شہر میلان گیا


S Nayyer April 01, 2014
[email protected]

معروف دانشور اشفاق احمد مرحوم کہتے ہیں کہ میں ایک تعلیمی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے اٹلی کے شہر میلان گیا وہاں میرا ٹریفک رولز کی ایک معمولی سی خلاف ورزی پر چالان ہوگیا ۔ میں کانفرنس کی مصروفیات میں جرمانہ بھرنے کے لیے مقررہ تاریخ پر عدالت جانا بھول گیا ۔ پیشی کی تاریخ گزرنے کے بعد اس چالان کا خیال آیا ، میں تاخیر سے عدالت پہنچا اور جج سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ''میں معافی چاہتا ہوں کہ ، تعلیمی کانفرنس کی مصروفیات کے باعث مقررہ تاریخ پر ، آپ کی عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔'' جج نے چونک کر مجھے دیکھا اور پوچھا '' آپ کیا کام کرتے ہیں؟'' میں نے جواب دیا '' میں وہاں ایک درس گاہ میں بچوں کو پڑھاتا ہوں ۔'' جج اپنی نشست سے کھڑا ہوگیا اور بولا '' آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ ایک ٹیچر ہیں ، میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو عدالت آنے کے لیے ذہنی اور جسمانی تکلیف سے دو چار ہونا پڑا ۔ رہی تاخیر کی بات تو یہ چالان صرف اس لیے کینسل کیا جاتا ہے کہ آپ ٹیچنگ جیسے معزز پیشے سے وابستہ ہیں ۔ ہمارے ملک میں پروفیسر اور ٹیچرز کا بہت احترام کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو ہماری نوجوان نسل کو شعور بخشتے ہیں ، انھیں معاشرے کا ایک اچھا شہری بناتے ہیں ۔ میں آپ سے ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں کہ آپکو تکلیف اٹھانا پڑی '' ۔ پھر انھوں نے اپنے ماتحت عملے کو حکم دیا کہ '' پروفیسر صاحب کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جائے ۔'' اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اس دن میری سمجھ میں آیا کہ '' مغرب والے زندگی کے ہر شعبے میں ہم سے اس قدر آگے کیوں ہیں ؟''

اور ہمارے ملک میں ٹیچرز کی کیا قدر و قیمت ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے آپکو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں اپنی گلی یا اپنے محلے میں قائم 60 گز ، 80 گز یا 120 گز کے رقبے پر قائم کسی بھی پرائیوٹ انگلش میڈیم اسکول کے ٹیچر سے اس کی تنخواہ معلوم کرلیں ۔ تنخواہ کی رقم سن کر آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ۔ بارہ سو سے دو ہزار ماہانہ تنخواہ کے عوض ٹیچروں سے جان توڑ مشقت لی جاتی ہے جب کہ 50 بچوں کی کلاس کو پڑھانے والی ٹیچر کو صرف دو بچوں کی ماہانہ فیس کے برابر رقم ادا کر کے اسکول مالک اپنی جیبیں بھرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں ۔ ان اسکولوں میں مجبور یا شوقین لیڈی ٹیچرز نئی نسل کو تعلیم ، تربیت اور شعور فراہم کرنے میں کس قدر دلچسپی لیتی ہونگی ، اس کا اندازہ آپکو ان کی تنخواہ معلوم کرکے بخوبی ہوجائے گا ۔ تعلیم ، صحت ، روزگار اور امن و امان اپنے شہریوں کو فراہم کرنا ہر ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے ۔ لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے ، جہاں تعلیم و صحت کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے ۔ یہاں لوگ پرچون کی دکان کھولنے کے بجائے اسکول کھول کر زیادہ منافع کماتے ہیں ۔ اسی طرح صحت کے شعبے کا حال ہے ۔ سرکاری اسپتالوں میں دوا کے نام پر لال رنگ کا پانی تقسیم کیا جاتا ہے اور غریب عوام گھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر یہ ''امرت دھار ا'' حاصل کر پاتے ہیں ۔ خدا نخواستہ اگر کوئی غریب شخص شوگر ، بلڈ پریشر،گردے یا دل کی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو سمجھو کہ وہ بے موت مارا گیا ۔ پرائیوٹ اسپتال کے نزدیک سے گزرنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ پرائیوٹ اسپتال اپنے مالکان کے لیے ایک فیکٹری کا درجہ رکھتے ہیں جہاں مریضوں کی کھال اتار کر ، مالکان کے لیے نوٹ چھاپے جاتے ہیں ۔

مریض اگر وہاں داخل ہوجائے تو اس کا شیو بھی ایک سو بیس روپے کے عوض بنایا جاتا ہے ۔ جب کہ ہیر ڈریسر کی دکان پر اس کا ریٹ تیس اور چالیس روپے کے درمیان ہے ۔ سب سے زیادہ لوٹ مار کا ذریعہ ان مالکان نے اسپتال کی کینٹین کو بنا رکھا ہے ۔ مجھے پچھلے ایک ماہ کے دوران شہر کے دو نجی اسپتالوں میں شوگر اور گردے کی تکلیف کے باعث یہاں داخل ہونے کا '' اعزاز '' حاصل ہوچکا ہے ۔ ان اسپتالوں میں کینٹین کے ریٹ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا ۔ جیل میں قیدیوں کو ملنے والی پتلی چائے سے بھی بدتر چائے کا ایک کپ 25 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے ۔ کولڈ ڈرنک کی بوتل جو بیس روپے کی دستیاب ہے ، اسپتال کی کینٹین میں 30 روپے کی کھلے عام فروخت کی جارہی ہے ۔ اسپتال جیسی انڈسٹری قائم کرنے والے مالکان پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مریض اور اس کے تیمارداروں کو کینٹین کی طرف کس طرح '' ہانکا '' کر کے لے جایا جائے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے نام پر قائم فلاحی اسپتال کو رفتہ رفتہ کس طرح کمرشل کردیا گیا اور تجارت کا ذریعہ بنایا گیا ، اس کا اندازہ صرف وہاں علاج کروا کر ہی کیا جاسکتا ہے ۔ اس اسپتال کے کسی بھی فلور پر اور کسی بھی شعبے کے وارڈ میں کھانا گرم کرنے یا خود چائے بنانے کے لیے گیس کا چولہا دستیاب نہیں ہے ، وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سے آگ لگنے کا خطرہ ہے ۔ جب کہ یہی آگ ان کی کینٹین اور کچن میں دھڑلے سے جل رہی ہوتی ہے ۔ شاید ان کی کینٹین میں جلنے والی اس '' مقدس '' آگ کو علم ہوتا ہے کہ یہاں بے شمار مریض اور تیمار دار موجود ہیں اس لیے شاید وہ شرافت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی ۔ کینٹین کے ٹھیکیدار کو کینٹین کے عوض دراصل یہ اجارہ داری ٹھیکے پر دی جاتی ہے کہ گھوم پھر کر اس اسپتال میں آنے والا ہر شخص صرف ان ہی کے فراہم کردہ بد ذائقہ کھانوں ، باسی سینڈوچز ، پانی جیسی بد ذائقہ چائے خریدنے پر مجبور ہوگا اور ایسا ہی ہوتا ہے ، کیونکہ یہ اسپتال دراصل مالکان کے لیے '' تجارتی اڈے '' ہیں جہاں بیماروں کو صحت کے عوض اس قدر کنگال کردیا جاتا ہے کہ بعض لوگ تو اپنے گھر فروخت کر کے ان کے بلوں کی ادائیگی کرتے ہوں گے ۔ غریب آدمی کہاں جائے ؟ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کا حال سب کے سامنے ہے ۔

دوکروڑ کی آبادی والے شہر میں ان سرکاری اسپتالوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ۔ ان اسپتالوں میں روئی کا ایک پھویا بھی مریض اپنی جیب سے خریدنے پر مجبور ہے ۔ داخلے کے لیے بیڈ خالی ہونے کے انتظار میں یہ غریب مریض اسپتال کے برآمدوں میں اپنی چادریں بچھا کر لیٹ جاتے ہیں اور شام کو مایوس لوٹ جاتے ہیں ۔ تعلیم اور صحت فراہم کرنے کے ذمے دار حکمران طبقے کے اگر سر میں درد ہوجائے تو وہ انھی عوام کے خرچ پر لندن اڑ کر پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے بچے مغرب کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے یہاں صرف حکومت کرنے کے لیے آتے ہیں اور ہم لوگ ان ہی تاجروں کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگا کر انھیں اپنے ووٹوں سے نواز دیتے ہیں ۔ اور اسی حکمران طبقے نے تعلیم اور صحت کو اس ملک میں منافع بخش انڈسٹری بنا کر رکھ دیا ہے ۔ خدا کے لیے ہوش میں آئیے اور اپنے دوست اور دشمن کو پہچانیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں