صوبائی حکومت کے اقدامات
عوام وخواص سبھی جانتے ہیں کہ حکومتوں کا کام عوام کی فلاح وبہبود اور ضروریات زندگی بہم پہنچانا ہوتا ہے۔
عوام وخواص سبھی جانتے ہیں کہ حکومتوں کا کام عوام کی فلاح وبہبود اور ضروریات زندگی بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ تمام سماجی، معاشی، ترقیاتی کاموں کے علاوہ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرنا بھی عوامی خدمات میں شامل ہے۔ ہر منتخب جمہوری حکومت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ عوام کی زیادہ سے زیادہ بہتر خدمت کرکے عوام کا اعتماد حاصل کرے۔ بنیادی سہولتوں کے علاوہ بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کو صفائی، پانی، بجلی، گیس، سیوریج جیسی خدمات سے مستفیض کرنا بھی حکومت کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی جمہوری منتخب حکومت عوام کے مسائل کو ترجیحاً سرفہرست رکھے تو وہ ایک کامیاب اور قابل اعتماد حکومت کہلاتی ہے۔ کیونکہ جمہوری حکومت کے لیے اولین مسئلہ ہی عوام کے مسائل حل کرنا ہے۔ جیساکہ آج کل ٹی وی اشتہارات کے ذریعے عوام کو پیغام دیا جاتا ہے کہ عوام کی خدمت، سندھ کی خدمت۔ لیکن مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں کہ گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
یہ تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس سے قبل دو مرتبہ اپنی 5 سالہ مدت پوری کرچکی اور اب عوام نے اسے تیسری بار موقع فراہم کیا ہے۔ ڈنکے تو یوں بجائے جا رہے ہیں کہ یہ ہماری خدمات کا نتیجہ ہے کہ ہم پر عوام نے اعتماد کیا ہے اور ہمیں تیسری مرتبہ منتخب کیا ہے۔ لیکن درپردہ حقیقت کچھ اور ہی ہے جس کی پردہ کشی پیپلز پارٹی ہی کے کچھ سابقہ لیڈران بہ بانگ دہل اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ ان کے نام یہاں دہرانا ضروری نہیں سمجھتا ہوں اس لیے کہ عوام ان لیڈران کے صرف کاموں ہی سے نہیں ان کے کرداروں اور کارکردگیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ لیکن اپنا، اپنا ہی ہوتا ہے۔ وہ بدصورت بھی ہو تو خوبصورت لگتا ہے۔ جیسے کہ انسانی زندگی میں ماں کا کردار ہوتا ہے کہ اس کی اولاد چاہے بدصورت، بدسیرت ہو، بدکردار ہو وہ اپنے لخت جگر کو چاند جیسا خوبصورت اور حسین ٹکڑا ہی دیکھتی ہے۔ اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں اور کارکنان اپنے لیڈران کو خوب صورت، خوب سیرت، باکردار ہی سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام نے خود ان کو منتخب کرکے ان کی تمام برائیوں پر پردہ ڈال دیا ہوتا ہے۔ جب کسی نے خود اپنا چہرہ بگاڑ لیا ہو تو دوسرا کیسے اسے سدھار سکتا ہے یا خوبصورت بناسکتا ہے۔ جیسے میں پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے کالموں میں یہ بات دہرا چکا ہوں کہ عوام جب ایک امیدوار کو منتخب کرلیتے ہیں لیکن بعد میں وہ اپنے اصل چہرے سے نقاب اتار کر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہا ہو تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''اوکلی میں سر دیا ہے تو موسل سے کیا ڈرنا'' اب تو منتخب ہونے کے بعد اس ناہنجار نے اپنا اصل چہرہ دکھاکر ہمارے سروں پر کتنے ہی ہتھوڑے برسا رہا ہو تو ہمیں برداشت کرنا ہوگا۔ ایک دو دن نہیں، ہفتے نہیں، مہینے نہیں بلکہ پورے پانچ (5سال) تک برداشت کرنے ہوں گے۔ بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اے خدایا! اسے نیک ہدایت و توفیق دے کہ یہ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے بجائے ہماری صحیح معنوں میں خدمت کرے۔ اپنے منشور پر عمل کرے۔ اپنے بڑے بڑے دعوؤں ، یقین دہانیوں کا بھرم رکھے۔ لیکن مجبور ہیں ہم کیوں کہ وہ تو اب ''ڈرائیونگ سیٹ'' پر ہے اور ہم بے بس سواری ہیں۔ اتنی طویل تمہید باندھنے کے بعد دیکھتا ہوں کہ یہی کچھ حال ہمارے موجودہ منتخب حکومتی نمایندوں اور وزرا و مشیران کا ہے۔ ان کا انداز حکمرانی دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بلاتخصیص و تفریق عوام کی خدمت کرنے کی بجائے عوام کو تقسیم کر رہے ہیں۔ باہمی نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ سیاسی تو سیاسی دینی ومذہبی منافرت کو بھی ہوا دے رہے ہیں۔ شہری اور دیہی عوام کے ساتھ منظم طریقے سے مختلف طبقات کو جنم دے رہے ہیں۔ پورا ملک و شہر کس سنگین حالات سے گزر رہا ہے۔ انھیں اس کا ذرہ برابر احساس نہیں۔ دہشت گردی کا عفریت اس سرعت سے پھیل رہا ہے اور یہ بے بس و لاچار بنے بیٹھے ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہاں انتقامی سیاست پر عمل پیرا ضرور ہیں۔ مخالفین کے مقابل ڈٹے ہوئے ضرور ہیں لیکن بدامنی پھیلانے والوں کے آگے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں بلکہ صرف تماشہ یہ ہے کہ بدامنی پھیلانے والوں کو بھی اپنے مخالفین کی صفوں میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ابھی حالیہ ان کے حکومتی اقدامات پر نظر ڈالیے تو ان کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے مثلاً غیر قانونی تجاوزات کا انہدام، رکشہ (چنگ چی) بند مہم، غیر قانونی شادی ہالز کا انہدام جیسے دیگر اقدامات تخریبی تو کہلائے جاسکتے ہیں لیکن تعمیری نہیں۔ ارے بھائی! اب جب آپ کو سارے غیر قانونی نظر آرہے ہیں تو جس وقت پتھارے لگائے جا رہے تھے، تجاوزات قائم کی جا رہی تھیں، شادی ہالز تعمیر ہو رہے تھے، چنگ چی رکشہ متعارف کرائے جا رہے تھے تو اس وقت آپ کے سرکاری محکمے کہاں تھے ؟
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومت بگڑی ہوئی انتظامیہ اور بگڑے ہوئے نظام کو سدھارنے کی بجائے اس کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا حکومتی ارکان اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کسی عمارت کا تعمیر کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کو توڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت بگڑے ہوئے نظام کو ملیامیٹ کرنے کے بجائے اسے ازسر نو تعمیر کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کرنے کے لیے اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے کر اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ''سولو فلائٹ'' کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
بہرحال اچھا ہے صوبائی حکومت کو اصلاحی، تعمیری اقدامات ضرور کرنے چاہئیں لیکن ساتھ ہی عوام اور حزب اختلاف کی آرا کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تو وہ اقدام سونے پہ سہاگا کا کام دے گا۔ اس سلسلے میں رحمن ملک کافی متحرک ہیں اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان مفاہمانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان کی کاوشیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور کیا رنگ دکھلاتی ہیں۔ امید پر دنیاقائم ہے لیکن ہم تو قائم علی شاہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی طرف سے مستقبل قریب میں کوئی مثبت ردعمل سامنے آئے۔ سندھ کی صوبائی حکومت میں بے شک پیپلز پارٹی اکثریت میں ہے مگر حزب اختلاف بھی کمزور مینڈیٹ کی حامل نہیں ہے۔ حکومتی اراکین کے ساتھ باہمی تعاون حاصل کرکے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کا مسئلہ بھی حل کرسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ صوبے کی امن وامان کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے حکومت، عوام اور انتظامیہ کے درمیان نظم و ضبط، قوت برداشت اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ان تین ستونوں میں سے کوئی ایک ستون بھی کمزور پڑ گیا تو پوری عمارت منہدم ہوسکتی ہے۔
یہ تمام باتیں صوبے اور ملک کے موجودہ مخدوش حالات کو مدنظر رکھ کر کر رہا ہوں۔ میرا دل و دماغ بھی عوام کے دلوں اور دماغوں کی طرح مغموم ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر چاہے حکومت میں ہوں، حزب اختلاف میں ہوں یا عوام میں سے ہوں۔ تمام اختلافات بھلا کر صوبے کے حالات کو سدھارنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں متحدہ جدوجہد کریں۔ اس طرح صوبائی حکومت کو بھی عوام کی بہتر خدمت کرنے کا موقع ملے گا تب ہی تو صوبے میں امن قائم ہوگا ترقی کی راہیں کھلیں گی صوبے اور عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی (انشاء اللہ)۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین!)
یہ تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس سے قبل دو مرتبہ اپنی 5 سالہ مدت پوری کرچکی اور اب عوام نے اسے تیسری بار موقع فراہم کیا ہے۔ ڈنکے تو یوں بجائے جا رہے ہیں کہ یہ ہماری خدمات کا نتیجہ ہے کہ ہم پر عوام نے اعتماد کیا ہے اور ہمیں تیسری مرتبہ منتخب کیا ہے۔ لیکن درپردہ حقیقت کچھ اور ہی ہے جس کی پردہ کشی پیپلز پارٹی ہی کے کچھ سابقہ لیڈران بہ بانگ دہل اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ ان کے نام یہاں دہرانا ضروری نہیں سمجھتا ہوں اس لیے کہ عوام ان لیڈران کے صرف کاموں ہی سے نہیں ان کے کرداروں اور کارکردگیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ لیکن اپنا، اپنا ہی ہوتا ہے۔ وہ بدصورت بھی ہو تو خوبصورت لگتا ہے۔ جیسے کہ انسانی زندگی میں ماں کا کردار ہوتا ہے کہ اس کی اولاد چاہے بدصورت، بدسیرت ہو، بدکردار ہو وہ اپنے لخت جگر کو چاند جیسا خوبصورت اور حسین ٹکڑا ہی دیکھتی ہے۔ اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں اور کارکنان اپنے لیڈران کو خوب صورت، خوب سیرت، باکردار ہی سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام نے خود ان کو منتخب کرکے ان کی تمام برائیوں پر پردہ ڈال دیا ہوتا ہے۔ جب کسی نے خود اپنا چہرہ بگاڑ لیا ہو تو دوسرا کیسے اسے سدھار سکتا ہے یا خوبصورت بناسکتا ہے۔ جیسے میں پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے کالموں میں یہ بات دہرا چکا ہوں کہ عوام جب ایک امیدوار کو منتخب کرلیتے ہیں لیکن بعد میں وہ اپنے اصل چہرے سے نقاب اتار کر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہا ہو تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''اوکلی میں سر دیا ہے تو موسل سے کیا ڈرنا'' اب تو منتخب ہونے کے بعد اس ناہنجار نے اپنا اصل چہرہ دکھاکر ہمارے سروں پر کتنے ہی ہتھوڑے برسا رہا ہو تو ہمیں برداشت کرنا ہوگا۔ ایک دو دن نہیں، ہفتے نہیں، مہینے نہیں بلکہ پورے پانچ (5سال) تک برداشت کرنے ہوں گے۔ بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اے خدایا! اسے نیک ہدایت و توفیق دے کہ یہ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے بجائے ہماری صحیح معنوں میں خدمت کرے۔ اپنے منشور پر عمل کرے۔ اپنے بڑے بڑے دعوؤں ، یقین دہانیوں کا بھرم رکھے۔ لیکن مجبور ہیں ہم کیوں کہ وہ تو اب ''ڈرائیونگ سیٹ'' پر ہے اور ہم بے بس سواری ہیں۔ اتنی طویل تمہید باندھنے کے بعد دیکھتا ہوں کہ یہی کچھ حال ہمارے موجودہ منتخب حکومتی نمایندوں اور وزرا و مشیران کا ہے۔ ان کا انداز حکمرانی دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بلاتخصیص و تفریق عوام کی خدمت کرنے کی بجائے عوام کو تقسیم کر رہے ہیں۔ باہمی نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ سیاسی تو سیاسی دینی ومذہبی منافرت کو بھی ہوا دے رہے ہیں۔ شہری اور دیہی عوام کے ساتھ منظم طریقے سے مختلف طبقات کو جنم دے رہے ہیں۔ پورا ملک و شہر کس سنگین حالات سے گزر رہا ہے۔ انھیں اس کا ذرہ برابر احساس نہیں۔ دہشت گردی کا عفریت اس سرعت سے پھیل رہا ہے اور یہ بے بس و لاچار بنے بیٹھے ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہاں انتقامی سیاست پر عمل پیرا ضرور ہیں۔ مخالفین کے مقابل ڈٹے ہوئے ضرور ہیں لیکن بدامنی پھیلانے والوں کے آگے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں بلکہ صرف تماشہ یہ ہے کہ بدامنی پھیلانے والوں کو بھی اپنے مخالفین کی صفوں میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ابھی حالیہ ان کے حکومتی اقدامات پر نظر ڈالیے تو ان کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے مثلاً غیر قانونی تجاوزات کا انہدام، رکشہ (چنگ چی) بند مہم، غیر قانونی شادی ہالز کا انہدام جیسے دیگر اقدامات تخریبی تو کہلائے جاسکتے ہیں لیکن تعمیری نہیں۔ ارے بھائی! اب جب آپ کو سارے غیر قانونی نظر آرہے ہیں تو جس وقت پتھارے لگائے جا رہے تھے، تجاوزات قائم کی جا رہی تھیں، شادی ہالز تعمیر ہو رہے تھے، چنگ چی رکشہ متعارف کرائے جا رہے تھے تو اس وقت آپ کے سرکاری محکمے کہاں تھے ؟
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومت بگڑی ہوئی انتظامیہ اور بگڑے ہوئے نظام کو سدھارنے کی بجائے اس کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا حکومتی ارکان اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کسی عمارت کا تعمیر کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کو توڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت بگڑے ہوئے نظام کو ملیامیٹ کرنے کے بجائے اسے ازسر نو تعمیر کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کرنے کے لیے اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے کر اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ''سولو فلائٹ'' کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
بہرحال اچھا ہے صوبائی حکومت کو اصلاحی، تعمیری اقدامات ضرور کرنے چاہئیں لیکن ساتھ ہی عوام اور حزب اختلاف کی آرا کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تو وہ اقدام سونے پہ سہاگا کا کام دے گا۔ اس سلسلے میں رحمن ملک کافی متحرک ہیں اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان مفاہمانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان کی کاوشیں کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور کیا رنگ دکھلاتی ہیں۔ امید پر دنیاقائم ہے لیکن ہم تو قائم علی شاہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی طرف سے مستقبل قریب میں کوئی مثبت ردعمل سامنے آئے۔ سندھ کی صوبائی حکومت میں بے شک پیپلز پارٹی اکثریت میں ہے مگر حزب اختلاف بھی کمزور مینڈیٹ کی حامل نہیں ہے۔ حکومتی اراکین کے ساتھ باہمی تعاون حاصل کرکے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کا مسئلہ بھی حل کرسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ صوبے کی امن وامان کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے حکومت، عوام اور انتظامیہ کے درمیان نظم و ضبط، قوت برداشت اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ان تین ستونوں میں سے کوئی ایک ستون بھی کمزور پڑ گیا تو پوری عمارت منہدم ہوسکتی ہے۔
یہ تمام باتیں صوبے اور ملک کے موجودہ مخدوش حالات کو مدنظر رکھ کر کر رہا ہوں۔ میرا دل و دماغ بھی عوام کے دلوں اور دماغوں کی طرح مغموم ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر چاہے حکومت میں ہوں، حزب اختلاف میں ہوں یا عوام میں سے ہوں۔ تمام اختلافات بھلا کر صوبے کے حالات کو سدھارنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں متحدہ جدوجہد کریں۔ اس طرح صوبائی حکومت کو بھی عوام کی بہتر خدمت کرنے کا موقع ملے گا تب ہی تو صوبے میں امن قائم ہوگا ترقی کی راہیں کھلیں گی صوبے اور عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی (انشاء اللہ)۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین!)