الگ الگ رہنے کا زمانہ بیت گیا
یہ نہیں ہوگا کہ ملک ماضی کی بیمار اور فرسودہ سوچ کے غلام رہیں اور نئی صدی کے ثمرات سے مستفید ہونے کی آرزو بھی کریں
سال 2019معمول کے مطابق گزر رہا تھا۔ دنیا پر امید تھی کہ نئی صدی اس کے لیے نئے امکانات لائے گی۔ سچ پوچھیے تو ایسا ہو بھی رہا تھا۔ ٹیکنالوجی حیرت انگیز معجزے رونما کر رہی تھی، سب کچھ بدل رہا تھا اور ہر ملک خود کو انقلابی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔
امید تھی کہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی ہوگی، بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا، اوسط عمر میں اضافہ ہوگا اور ناخواندہ لوگوں کی تعداد تیزی سے کم ہوگی۔
یہ بھی امید تھی کہ اس نئی صدی میں بھیانک قسم کی جنگیں نہیں ہوں گی، پرانے تنازعات کا دیرپا حل نہ نکل سکا، تب بھی متعلقہ ممالک محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے باہمی تعاون کا خوشگوار عمل شروع کردیں گے۔
امید تھی کہ انسانوں کو بنیادی حقوق ملیں گے، تمام ملک اپنے شہریوں کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ ہوجائیں گے، رنگ، نسل، مذہب، مسلک یا نظریے کی بنیاد پر لوگوں سے امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امیدیں بڑھ رہی تھیں، کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ دنیا میں یکے بد دیگرے بعض واقعات رونما ہوں گے اور یہ پیغام دیں گے کہ نئی صدی سے اتنی جلد اس قدر توقعات وابستہ نہ کی جائیں، آپ جو امیدیں لگائے بیٹھے ہیں انھیں پورا ہونے میں وقت لگے گا، یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوگا، اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
2019 ختم ہونے والا تھا۔ لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کو بے چین تھے، کروڑوں سیاح مختلف ملکوں میں نئے سال کا جشن منانے روانہ ہوچکے تھے۔ سب کچھ بظاہر ٹھیک نظر آرہا تھا لیکن درحقیقت ہونے والا کچھ اور تھا۔ ایک بڑی آفت دنیا پر نازل ہونے والی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ یہ عذاب اچانک آنے والا تھا، لیکن سب اس سے بے خبر تھے۔
نئے سال کا جشن ختم ہوا۔ کروڑوں سیاحوں نے یورپ، امریکا اور دیگر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ملکوں میں پرلطف وقت گزارتے ہوئے یہ سوچا تک نہ ہوگا کہ جب وہ واپس جائیں گے تو انھیں اپنے گھروں میں بند ہونا پڑے گا۔ وقت کا پہیہ تھم جائے گا، دفتروں اور کارخانوں پر تالے لگ جائیںگے، بازاروں پر ویرانی راج کرے گی، ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار، لوگ قریب آنے اور ہاتھ ملانے سے بھی خوف محسوس کریں گے۔
ایک نیا وائرس دنیا پر حملہ اچانک حملہ آور ہوگیا اور چند مہینوں میں دنیا کے 228 ملکوں اور علاقوںمیں پھیل گیا۔ امریکا، انڈیا، فرانس، جرمنی، برازیل، برطانیہ، روس، اٹلی، ترکیہ، اسپین سمیت کئی ملکوں میں لاکھوں اموات ہوئیں۔ اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار غیرمعمولی تھی۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا نے 64 کروڑ سے زیادہ انسانوں کو متاثر کیا۔
یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد ایک ارب سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ 66 لاکھ انسانوں کو اس وائرس نے اپنا لقمہ اجل بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ درحقیت یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ وائرس چونکہ چین کے علاقے ووہان میں پیدا ہوا لیکن اس نے سب سے زیادہ تباہی امریکا میں مچائی تھی لہٰذا امریکا اور چین کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہوگئے۔
اس وائرس نے دنیا میں ایک نئی سرد جنگ چھیڑ دی۔ 20 ویں صدی کی سردجنگ امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان تھی۔ اب 21 ویں صدی کی یہ سرد جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہورہی ہے اور امریکا کا ساتھ یورپ کے ملک دے رہے ہیں۔
معاشی طور پر اس وبا نے عالمی معیشت کو مفلوج کردیا۔ وہ تمام ملک جو 2019 معقول شرح سے معاشی ترقی کر رہے تھے، اب کسادبازاری کا شکار ہونے لگے۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ نے بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ کردیا۔
امریکا اور چین دنیا کے دو سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقتیں ہیں۔ دونوںکو اس وائرس نے بری طرح متاثر کیا۔
امریکا نے کھربوں ڈالر خرچ کر کے لوگوں کو بے روزگار اور کاروبار کو دیوالیہ ہونے سے بچایا لیکن اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ امریکا میں ترقی کی رفتار بہت کم ہوگئی۔ چین جو اس وائرس کے حملے سے پہلے برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ جلد امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا، وہ بھی بحران کی زد میں آگیا۔
اس وائرس نے جسے کورونا وائرس کا نام دیا جاتا ہے نہ صرف موجودہ صدی کو تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز وبا سے دوچار کیا بلکہ اس نے بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت بھی بدل دی۔ دنیا میں نئی صف بندیاں شروع ہوگئیں۔ عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی بحران نے فوجی تنازعات کو جنم دیا جس کا تازہ ترین مظہر روس۔ یوکرین جنگ ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف امریکا اور مغرب، چین کے خلاف محاذ آراء ہیں۔ دوسری جانب روس، یوکرین جنگ میں امریکا اور یورپی ممالک کھل کر یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔ اس تنازعہ نے اس عالمی معیشت کو مزید مسائل میں مبتلا کردیا جو پہلے ہی عالمی وبا کے باعث شدید بحرانی کیفیت سے دوچار تھی۔ روس، یورپ کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس جنگ میں روس گیس کی سپلائی محدود کر کے یورپی ملکوں پر سخت دباؤ ڈال رہا ہے۔ یورپ کے ملک گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لیے پوری دنیا سے گیس منہ مانگی قیمت پر خرید کر ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا کا کئی حوالوں سے تجزیہ کیا جاتا ہے لیکن اس پہلو سے اب تک اس کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے کہ اس عالمی وبا نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا بلکہ اس نے بین الاقوامی تعلقات کے توازن کو بھی ختم کردیا۔
یہ وبا محض صحت کے شعبے تک محدود نہیں تھی۔ اس نے عالمی معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 20 ویں صدی کے اختتام تک دنیا میں متعدد بار خوفناک وبائیں پھیلیں لیکن اس کے اثرات دنیا کے کسی خاص ملک یا خطے تک ہی محدود رہے۔
ماضی کی وباؤں نے بین الاقوامی سیاست میں کوئی ہیجان برپا نہیں کیا اور نہ ہی ان کی وجہ سے دنیا کے درجنوں ملک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں ملوث ہوئے۔
اس سچ کو ماننا ہوگا کہ 21 ویں صدی کا آغاز جن امیدوں اور آرزوؤں سے ہوا تھا وہ فضا صرف اس صدی کی پہلی دو دہائیوں تک ہی برقرار رہ سکی۔ ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز نئی صدی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔
یہ نہیں ہوگا کہ ملک ماضی کی بیمار اور فرسودہ سوچ کے غلام رہیں اور نئی صدی کے ثمرات سے مستفید ہونے کی آرزو بھی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی دنیا کے تمام ملکوں کو بڑی تیزی سے جوڑ رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں 7 ارب موبائل فون ہیں یعنی 90% لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ اس کے ساتھ دنیا میں 6.64 ارب اسمارٹ فون ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے 83% لوگ اسمارٹ فونز رکھتے ہیں۔
یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کچھ دنوں بعد سیارچوں کے ذریعے دنیا میں انٹرنیٹ کی مفت سہولت حاصل ہونے والی ہے۔ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کے رہنے والے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں رہتے ہیں اور وہ جو معلومات چاہیں فوراً حاصل کرسکتے ہیں۔ اب حکومتوں اور ریاستوں کے پاس حقائق چھپانے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے اور باہمی رابطوں کی وجہ سے لوگوں کے درمیان پھیلائی گئی نفرتوں کا خاتمہ ہورہا ہے۔
صرف خوردبین سے نظر آنے والے ایک وائرس نے سب کو خبردار کردیا ہے کہ اب دنیا کے تمام لوگوں کا جینا، مرنا اور آگے بڑھنا ایک ساتھ ہوگا۔ الگ الگ رہنے اور ایک دوسرے سے لڑنے کا زمانہ بیت گیا۔ محض امیدیں وابستہ کرنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ نئی صدی سے فیض یاب ہونے کے لیے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔
امید تھی کہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی ہوگی، بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا، اوسط عمر میں اضافہ ہوگا اور ناخواندہ لوگوں کی تعداد تیزی سے کم ہوگی۔
یہ بھی امید تھی کہ اس نئی صدی میں بھیانک قسم کی جنگیں نہیں ہوں گی، پرانے تنازعات کا دیرپا حل نہ نکل سکا، تب بھی متعلقہ ممالک محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے باہمی تعاون کا خوشگوار عمل شروع کردیں گے۔
امید تھی کہ انسانوں کو بنیادی حقوق ملیں گے، تمام ملک اپنے شہریوں کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ ہوجائیں گے، رنگ، نسل، مذہب، مسلک یا نظریے کی بنیاد پر لوگوں سے امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امیدیں بڑھ رہی تھیں، کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ دنیا میں یکے بد دیگرے بعض واقعات رونما ہوں گے اور یہ پیغام دیں گے کہ نئی صدی سے اتنی جلد اس قدر توقعات وابستہ نہ کی جائیں، آپ جو امیدیں لگائے بیٹھے ہیں انھیں پورا ہونے میں وقت لگے گا، یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوگا، اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
2019 ختم ہونے والا تھا۔ لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کو بے چین تھے، کروڑوں سیاح مختلف ملکوں میں نئے سال کا جشن منانے روانہ ہوچکے تھے۔ سب کچھ بظاہر ٹھیک نظر آرہا تھا لیکن درحقیقت ہونے والا کچھ اور تھا۔ ایک بڑی آفت دنیا پر نازل ہونے والی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ یہ عذاب اچانک آنے والا تھا، لیکن سب اس سے بے خبر تھے۔
نئے سال کا جشن ختم ہوا۔ کروڑوں سیاحوں نے یورپ، امریکا اور دیگر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ملکوں میں پرلطف وقت گزارتے ہوئے یہ سوچا تک نہ ہوگا کہ جب وہ واپس جائیں گے تو انھیں اپنے گھروں میں بند ہونا پڑے گا۔ وقت کا پہیہ تھم جائے گا، دفتروں اور کارخانوں پر تالے لگ جائیںگے، بازاروں پر ویرانی راج کرے گی، ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار، لوگ قریب آنے اور ہاتھ ملانے سے بھی خوف محسوس کریں گے۔
ایک نیا وائرس دنیا پر حملہ اچانک حملہ آور ہوگیا اور چند مہینوں میں دنیا کے 228 ملکوں اور علاقوںمیں پھیل گیا۔ امریکا، انڈیا، فرانس، جرمنی، برازیل، برطانیہ، روس، اٹلی، ترکیہ، اسپین سمیت کئی ملکوں میں لاکھوں اموات ہوئیں۔ اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار غیرمعمولی تھی۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا نے 64 کروڑ سے زیادہ انسانوں کو متاثر کیا۔
یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد ایک ارب سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ 66 لاکھ انسانوں کو اس وائرس نے اپنا لقمہ اجل بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ درحقیت یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ وائرس چونکہ چین کے علاقے ووہان میں پیدا ہوا لیکن اس نے سب سے زیادہ تباہی امریکا میں مچائی تھی لہٰذا امریکا اور چین کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہوگئے۔
اس وائرس نے دنیا میں ایک نئی سرد جنگ چھیڑ دی۔ 20 ویں صدی کی سردجنگ امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان تھی۔ اب 21 ویں صدی کی یہ سرد جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہورہی ہے اور امریکا کا ساتھ یورپ کے ملک دے رہے ہیں۔
معاشی طور پر اس وبا نے عالمی معیشت کو مفلوج کردیا۔ وہ تمام ملک جو 2019 معقول شرح سے معاشی ترقی کر رہے تھے، اب کسادبازاری کا شکار ہونے لگے۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ نے بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ کردیا۔
امریکا اور چین دنیا کے دو سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقتیں ہیں۔ دونوںکو اس وائرس نے بری طرح متاثر کیا۔
امریکا نے کھربوں ڈالر خرچ کر کے لوگوں کو بے روزگار اور کاروبار کو دیوالیہ ہونے سے بچایا لیکن اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ امریکا میں ترقی کی رفتار بہت کم ہوگئی۔ چین جو اس وائرس کے حملے سے پہلے برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ جلد امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا، وہ بھی بحران کی زد میں آگیا۔
اس وائرس نے جسے کورونا وائرس کا نام دیا جاتا ہے نہ صرف موجودہ صدی کو تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز وبا سے دوچار کیا بلکہ اس نے بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت بھی بدل دی۔ دنیا میں نئی صف بندیاں شروع ہوگئیں۔ عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی بحران نے فوجی تنازعات کو جنم دیا جس کا تازہ ترین مظہر روس۔ یوکرین جنگ ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف امریکا اور مغرب، چین کے خلاف محاذ آراء ہیں۔ دوسری جانب روس، یوکرین جنگ میں امریکا اور یورپی ممالک کھل کر یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔ اس تنازعہ نے اس عالمی معیشت کو مزید مسائل میں مبتلا کردیا جو پہلے ہی عالمی وبا کے باعث شدید بحرانی کیفیت سے دوچار تھی۔ روس، یورپ کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس جنگ میں روس گیس کی سپلائی محدود کر کے یورپی ملکوں پر سخت دباؤ ڈال رہا ہے۔ یورپ کے ملک گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لیے پوری دنیا سے گیس منہ مانگی قیمت پر خرید کر ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا کا کئی حوالوں سے تجزیہ کیا جاتا ہے لیکن اس پہلو سے اب تک اس کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے کہ اس عالمی وبا نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا بلکہ اس نے بین الاقوامی تعلقات کے توازن کو بھی ختم کردیا۔
یہ وبا محض صحت کے شعبے تک محدود نہیں تھی۔ اس نے عالمی معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ 20 ویں صدی کے اختتام تک دنیا میں متعدد بار خوفناک وبائیں پھیلیں لیکن اس کے اثرات دنیا کے کسی خاص ملک یا خطے تک ہی محدود رہے۔
ماضی کی وباؤں نے بین الاقوامی سیاست میں کوئی ہیجان برپا نہیں کیا اور نہ ہی ان کی وجہ سے دنیا کے درجنوں ملک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں ملوث ہوئے۔
اس سچ کو ماننا ہوگا کہ 21 ویں صدی کا آغاز جن امیدوں اور آرزوؤں سے ہوا تھا وہ فضا صرف اس صدی کی پہلی دو دہائیوں تک ہی برقرار رہ سکی۔ ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز نئی صدی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔
یہ نہیں ہوگا کہ ملک ماضی کی بیمار اور فرسودہ سوچ کے غلام رہیں اور نئی صدی کے ثمرات سے مستفید ہونے کی آرزو بھی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی دنیا کے تمام ملکوں کو بڑی تیزی سے جوڑ رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں 7 ارب موبائل فون ہیں یعنی 90% لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ اس کے ساتھ دنیا میں 6.64 ارب اسمارٹ فون ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے 83% لوگ اسمارٹ فونز رکھتے ہیں۔
یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کچھ دنوں بعد سیارچوں کے ذریعے دنیا میں انٹرنیٹ کی مفت سہولت حاصل ہونے والی ہے۔ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کے رہنے والے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں رہتے ہیں اور وہ جو معلومات چاہیں فوراً حاصل کرسکتے ہیں۔ اب حکومتوں اور ریاستوں کے پاس حقائق چھپانے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے اور باہمی رابطوں کی وجہ سے لوگوں کے درمیان پھیلائی گئی نفرتوں کا خاتمہ ہورہا ہے۔
صرف خوردبین سے نظر آنے والے ایک وائرس نے سب کو خبردار کردیا ہے کہ اب دنیا کے تمام لوگوں کا جینا، مرنا اور آگے بڑھنا ایک ساتھ ہوگا۔ الگ الگ رہنے اور ایک دوسرے سے لڑنے کا زمانہ بیت گیا۔ محض امیدیں وابستہ کرنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ نئی صدی سے فیض یاب ہونے کے لیے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔