بار اور بینچ تنازعہ

اگر سیاستدانوں کے لیے جیوڈیشل ایکٹوازم جائز ہے تو پھر وکلا کے لیے جائز کیوں نہیں ہے


مزمل سہروردی December 07, 2022
[email protected]

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے سنیئر وکیل رانا محمد آصف کو توہین عدالت پر تین ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔

محترم جسٹس صاحب نے وکیل کو عدالت میں گاؤن پہن کر نہ آنے پر سرزنش کی، جس پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور جج صاحب نے وکیل صاحب کو تین ماہ قید کی سزا سنا دی۔ سزا کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں وکلا احتجاج کر رہے ہیں۔ عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔

لاہور میں احتجاج کے دوران وکلا نے چیف جسٹس کے دفتر جانے کی کوشش کی تا ہم پولیس نے وکلا کو روک دیا تاہم پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، ایک عجیب ماحول بنا ہوا ہے۔

وکلاء اور ججز کے درمیان تنازع کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،ماضی میں بھی تنازعات ہوتے رہے ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے جب بھی کوئی تنازعہ یا محاذ آرائی ہوئی ہے، وکلاء کی جیت ہوئی ہے۔

عدلیہ کی کوشش رہتی ہے کہ معاملے کو ٹھنڈا کیا جائے لیکن اس کا کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے آئے روز ایسے تنازعات پیدا ہوتے ہیںلیکن ان تنازعات کی وجہ سے خواری سائلین کے حصے میں آتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں صرف سرزنش کردی جاتی تو کافی تھی، کیونکہ پاکستان میں بہت سے سنجیدہ معاملات پر بھی عدالتی درگزر کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی عدالتوں کو تو زبردستی تالے تک لگے ہیں لیکن اس پر خاموش نظر آتی ہے۔

آج کل ویسے بھی قانونی اور سیاسی حلقوں میں توہین عدالت کے قانون کے یکساں استعمال کے حوالے سے باتیں ہورہی ہیں۔ سیاسی فریقین کا موقف ہے کہ ایک فریق کے ساتھ توہین عدالت کے قانون کا سخت استعمال کیا گیا ہے جب کہ ویسے ہی معاملات پر دوسرے فریق کے ساتھ بہت نرمی دکھائی گئی ہے۔

کسی کی معافی بھی قبول نہیں کی گئی اور کسی نے معافی نہیں بھی مانگی تو اس سے بار بار درخواست کی گئی کہ آپ معافی مانگ لیں اور واضح معافی کا لفظ استعمال نہ کرنے کے باجود معافی قبول کر لی گئی۔ ایسے میں سوالات تو اٹھیں گے۔

فلسفہ قانون یہی ہے کہ ججز کی انفرادی سوچ قانون کے نفاذ پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی جج انفرادی طور پر توہین عدالت کے قانون کے استعمال کے حق میں نہیں ہے تو انھیں معافی کی لائن لگانے کا حق بھی نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی جج اپنی سوچ کے مطابق توہین عدالت کے قانون کولاگو کرنا ضروری سمجھتا ہے تواسے بھی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ سرزنش سے ہی مسئلہ حل ہوتا ہے تو اسے اسی کے تحت نمٹا دیں کیونکہ۔ نظام عدل کو یکساں انصاف پر قائم رکھنا ناگزیر ہے۔

وکلاء اور عدلیہ نظام انصا ف کے بنیادی ستون ہیں۔ وکلا کو بھی نظام انصاف میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن وکلا کو کسی طرح بھی عدلیہ پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح وکلا کے پروفیشن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عدلیہ کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے میں سہولت مہیا کرے۔ ہمارے ہاں وکلا اور عدلیہ کے درمیان رشتہ کافی عرصہ سے خراب ہے۔

ماتحت عدلیہ کے ججز کو وکلا کی جانب سے اس سے زیادہ جارحا نہ رویے کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ ہونے والے ناروا اور غیرقانونی سلوک پر نظام عدل خاموش ہی رہتا ہے ۔کیا ماتحت عدلیہ کے ججز کی کوئی عزت نہیںہے؟کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی عزت زیادہ مقدم ہے جب کہ سیشن جج اور سول ججز کی عزت کم مقدم ہے۔

جب ماتحت عدلیہ میں وکلا کی بد تمیزی اور ہنگامہ آرائی برداشت کر لی جاتی ہے تو حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی یکساں پالیسی ہونی چاہیے تاکہ بار اور بینچ کے درمیان تعلقات کار خوشگوار اور دیرپا بنیادوں پر قائم رہیں۔

کچھ دوست سوال پوچھ رہے ہیں کہ حالیہ تنازع میں کس کی جیت ہوگی؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اپیل میں یہ سزا کا حکم معطل ہو جائے گا اور پھر یہ طوفان تھم جائے گا۔ جج صاحب کو بھی حکم واپس لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، اس کام کے لیے اپیل کا فورم موجود ہے۔ وکلا کو بھی احتجاج کے بجائے اپیل میں جانا چاہیے۔

عدالتوں کے بائیکاٹ کے بجائے اپیل کا حق استعمال کرنا چاہیے۔ اپیل سے پہلے احتجاج کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ محترم جج صاحب کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

وکلا کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔ انھیں خود کو قانون کے تابع سمجھنا ہوگا، اگر ملک کے وزیر اعظم کو توہین عدالت پر سزا ہو سکتی ہے۔

اگر ممبران پارلیمنٹ کو توہین عدالت پر سزا ہو سکتی ہے۔ تو پھر ایک وکیل کو کیوں نہیں ہو سکتی۔ اگر تب یہ کہا گیا کہ اگر فیصلہ غلط بھی ہو تب بھی اسے ماننے میں ہی انصاف کی جیت ہے تو پھر وکلا کی دفعہ غلط فیصلے کو ماننے میں انصاف کی جیت کیوں نہیں۔

اگر وکلا جج صاحب کی عدالت کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں تو سیاستدان کسی مخصوص بنچ یا کسی مخصوص جج صاحب کی عدالت کا بائیکاٹ کیوں نہیں کر سکتے۔ اگر سیاستدانوں کے لیے جیوڈیشل ایکٹوازم جائز ہے تو پھر وکلا کے لیے جائز کیوں نہیں ہے۔

بہرحال میرے خیال میں حالیہ معاملے میں اگر زیادہ سختی کی گئی ہے تو وکلا کا رد عمل بھی قانون سے تجاوز ہے۔ وکلا کا رد عمل تو اس صورت قانون کے مطابق ہی ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے سائلین کو یہی بتاتے ہیں، پھر آپ خود قانون سے تجاوز کیسے کر سکتے ہیں۔

دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت نہیں ہو سکتے۔ عدلیہ کے ذمے داران کو وکلا برادری کے ساتھ نئے رولز طے کرنے کی ضرورت ہے۔ روز روز کا تماشا نظام انصاف کے وقاراور تقدس میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں